عہد غالب کا حیدرآباد - از ضیا الدین احمد شکیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-01

عہد غالب کا حیدرآباد - از ضیا الدین احمد شکیب

hyderabad-ghalib-period


(حیاتِ غالب: 1797ء تا 1869ء)
مغل سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان کے سیاسی نقشہ کی تشکیل دو متوازی خطوط پر ہورہی تھی۔ ایک طرف تو ملک کے مختلف حصے برطانوی سامراج کے زیر اقتدار آرہے تھے جو بالآخر برطانوی ہندوستان کی صورت اختیار کرنے والے تھے۔ دوسری طرف ملک کے مختلف علاقوں کے مغل صوبہ دار اور حاکم اپنی خود مختاری کے درپے تھے۔ ٖغالب کی پیدائش تک علاقائی مغل حکمرانوں اور انگریزوں کے درمیان آویزش اور آمیزش کا پرپیچ سلسلہ ختم ہورہا تھا۔ ملک در حقیقت ان دو زمروں کی سیاسی قوتوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ مغل شہنشاہ شاہ عالم جس کی شہنشاہیت ازدلی پار تھی اسی کے عہد کے آخر میں مرزا غالب پیدا ہوئے۔ شاہ عالم ثانی کا دور اگرچہ مغل حکمرانوں میں اورنگ زیب کے بعد سب سے طویل ہے لیکن سیاسی حیثیت سے اسی نام نہاد شہناشہ کے دور میں مغل اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ ہندوستان کی بعض علاقائی ریاستیں شاہ عالم کی مملکت سے زیادہ طاقتور ، مرفہ الحال اور مستحکم تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ شاہ عالم ثانی کی آمدنی کا بڑا انحصار علاقائی حکمرانوں کی اس پیش کش پر تھا جو اب بھی عقیدتاً وہ مغل حکومت کو نذر کررہے تھے۔ ہندوستان کی تمام علاقائی حکومتوں میں سب سے بڑی خوشحال اور مستحکم حکومت ، حکومت آصفیہ تھی۔
آصف جاہ اول (1724 تا 1748ء) ہی کے زمانے سے اگرچہ دولت آصفیہ مغل شہنشاہیت کے تعلق سے عملاً ہر طرح آزاد خود مختار اور خود مکتفی تھی۔ تاہم شاہانِ آصفیہ، 1857ء میں مغل حکومت کے خاتمہ تک، ہمیشہ اظہار عقیدت و روایت وفاداری کے طور پر اپنا ایک نمائندہ دربارہ معلی میں بھیجتے رہے۔ پیش کش نذر کرتے رہے اور دربار معلی سے آصف جاہ کا خطاب پاتے رہے۔
ان سب باتوں کے باوجود شاہ عالم ثانی کا دور ادبی نقطہ نظر سے سنہرا دور کہلانے کا مستحق ہے۔ کیونکہ میر تقی میر، خواجہ میر درد ،خواجہ میر اثر، انشاء اللہ خاں انشاء ، مصحفی، مرزا سودا، مرزا مظہر جان جاناں، میر ممنون، نظیر اکبرآبادی اور آسمانِ شاعری کے کئی آفتاب و ماہتاب اسی کے عہد میں گذرے ہیں، لیکن دلی کی ابتری کے سبب ان میں سے بیشتر آصف الدولہ کے یہاں لکھنو منتقل ہوگئے اور کچھ حیدرآباد چلے آئے تھے۔ مرزا غالب کی پیدائش کے تین چار سال کے اندر ہی وہ واقعہ پیش آیا جس میں ٖغلام قادرروہیلہ نے شاہ عالم کے ساتھ وہ دردناک سلوک کیا جس کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے:
روہیلہ کس قدر ظالم جفا جو کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوکِ خنجر سے

اگرچہ مادھو راؤ سندھیا نے روہیلہ سے اس کا انتقام لے لیالیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے مغل حکومت تو مغل حکومت خود لال قلعہ کا وقار عوام کی نظر سے اتر گیا۔ شاہ عالم کا جانشین اکبر شاہ بھی اسی حادثہ میں اندھا کردیا گیا تھا۔
مرزا غالب جس مغل حکومت میں پیدا ہوئے اس میں اتنی تاب و تواں باقی نہیں تھی کہ وہ اہل علم و ہنر کی سرپرستی کرسکے اور آصف الدولہ کے بعد لکھنو میں بھی اہل ہنر کی قدردانی کا وہ عالم نہیں رہا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب دکن میں نواب میر نظام علی خان (1761 تا 1803ء) کی حکومت تھی جن کو ورثہ میں جو ریاست ملی تھی وہ دکن کے چھ صوبوں ، اورنگ آباد ، خاندیش ، برار، بیدر، بیجا پور اور حیدرآبار پر مشتمل تھی، لیکن جنوب میں فرانسیسی اور برطانوی سامراج کے ابھرنے کی کوشش ، مرہٹوں کی خواہش اقتدار اور اس صورت حال میں نوابان آرکاٹ کی سازشیں ، آصفجاہی ثانی کے عہد کے وہ مسائل ہیں جن سے نمٹنے میں نہ صرف آصفجاہی ثانی کا پورا عہد گزر گیا بلکہ مملکت کے کئی اضلاع انگریزوں کے حوالے ہوگئے ، اسی زمانہ میں موجودہ ریاست آندھرا پردیش کے اضلاع شمالی سرکار اور رائل سیما آصف جاہی علاقہ، تلنگانہ سے جدا ہوئے ان ہی کے دور سے ریاست میں انگریز رزیڈنٹ اور برطانوی افواج کے دستے مستقل طورف پر سلطنت آصفیہ میں مامور کئے گئے۔

نواب میر نظام علی خاں، آصف جاہ ثانی کا عہد حکومت پے در پے جنگ اور باربار سمجھوتوں کا ایک سلسلہ ہے۔ آصف جاہ ثانی نے انگریزوں سے جو متعدد سمجھوتے کئے تھے ان سے سلطنت آصفیہ کو فرانسیسی سازش اور دوسری علاقائی قوتوں سے اگرچہ نجات مل گئی تھی لیکن ملک میں برطانوی اثرورسوخ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ ان کے جانشینوں کے لئے اس کا مقابلہ آسان نہیں تھا۔ تاہم برطانوی ہندوستان میں سلطنت آصفیہ کو ایک آئینی مقام حاصل ہوگیا تھا۔

نواب میر نظام علی خاں آصف جاہ ثانی تک انگریزوں کے تعلقات بہر حال ان کے قابو میں تھے اور ان کے امراء بالخصوص ارسطو جاہ، صمصام الملک عبدالحی خاں، اور شمس الامراء حکومت اور نظم و نسق کے استحکام میں ان کے دست و بازو تھے۔
میر نظام علی خاں کے بعد وہ زمانہ آتا ہے جو دہلی میں اکبر شاہ ثانی لکھنو میں سعادت علی (1798تا 1814ء) اور غازی الدین حیدر (1814 تا 1827ء)، نصیر الدین حیدر (1827 تا1837ء) اور حیدرآباد میں نواب سکندر جاہ آصفجاہ ثالت (1803 تا 1829ء) کا دور حکومت ہے یہ تمام حکومتیں حد درجہ کمزور اور اندرونی معاملات میں برطانوی دست اندازی سے ہر وقت خائف اور بے بس تھیں۔ حیدرآباد میں نواب سکندر جاہ کی تخت نشینی کے ایک سال کے اندر مشیر الملک اعظم الامراء نواب ارسطو جاہ کا 1804ء میں انتقال ہو گیا۔
ارسطو جاہ ریاست کے وزیر اعظم اور حکومت کے رکن رکین تھے۔ انہوں نے اپنے عہدہ وزارت عظمیٰ کے دوران اہل علم و ہنر کی بڑی سر پرستی کی تھی۔ ارسطو جاہ کے انتقال کے بعد وزارت عظمیٰ کے مسئلہ کو انگریزوں نے اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور داخلی امور میں مداخلت کرتے رہے۔ ارسطو جاہ کے بعد نواب سکندر جاہ نے نواب میر عالم کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ 1808ء میں ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ اب نواب سکندر جاہ اور رزیڈنٹ مسٹر رسل کے درمیان وزیر اعظم کے تقرر پر اختلاف کافی بڑھ گیا۔ اگرچہ نواب سکندر جاہ نے نواب منیر الملک کو وزیر اعظم مقرر کردیا۔لیکن انگریزوں نے ایسے حالات پید اکئے کہ منیر الملک تو نام کے وزیر اعظم رہ گئے لیکن حکومت کی حقیقی زمام اقتدار راجہ چندولال کے ہاتھ میں رہی جو صرف پیشکاری کے عہدہ پر معمور تھے۔

راجہ چندو لال
راجہ چندو لال 1175ہجری م 1762ء میں پیدا ہوئے۔ راجہ ٹوڈر مل ان کے مورث اعلیٰ تھے۔ یہ کہتری قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جد امجد رائے مول چند آصف جاہ اول کی ہمرکابی میں دکن آئے تھے۔ راجہ چندو لال کم سنی میں یتیم ہوگئے تھے۔ سن شعور کو پہونچنے کے بعد شمشیر جنگ اور بدیع اللہ خاں کمشنر کروڈگری کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ پھر ترقی کرکے سبزی منڈی کی محرری پر مامور ہوئے اور صبح سے شام تک منڈی میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس کے بعد بیلی کے عہدے پر ترقی کی۔ 1797ء میں شمشیر جنگ نے انہیں اپنے تعلقہ موروثی کی کارپردازی پر مقرر کردیا اور اسی سال مشیر الملک بہادر کی تحریک پر دربار آصفیہ سے یہ قلعہ سدوٹ، موضع کریہ اور کانجی کوٹہ وغیرہ کے انتظام کے لئے چار ہزار سوار اور چار ہزار پیدل کے ساتھ مامور کئے گئے اور راجہ بہادر کا خطاب پایا۔
اس مہم سے واپسی کے بعد شمس الامراء کی جمعیت پائیگاہ ان کے تفویض کی گئی۔ ان خدمات کو انہوں نے کمال حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ جس کی وجہ سے میر عالم بہادر وزیر مملکت آصفیہ کی نگاہوں میں ان کا مقام بڑھ گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد سکندر جاہ بہادر نے ان کی قابلیت سے آگاہ ہوکر افواج آصفیہ کا پیش کار مقرر فرمایا۔
1235ھ (1820۔1819ء) میں نواب سکندر جاہ بہادر نے ان کو مہاراجہ کا خطاب دے کر نوبت اور جھالر دار پالکی سے سرفراز فرمایا۔ اور اس کے علاوہ ایک کروڑ روپیہ نقد عطا فرمایا۔ 1237ھ م 1822ء میں ہفت ہزاری منصب سے سرفراز کیا۔ نواب منیر الملک کے انتقال کے بعدمہارا چندولال وزارت عظمیٰ پر سرفراز کئے گئے۔ 1260م 1844ء میں ملازمت سے مستعفی ہوئے اور 1261م 1854ء میں 86 برس کی عمر میں انتقال کیا۔

مہاراجہ چندو لال کو انگریزوں کی تائید کی وجہ سے ایسا مقام حاصل ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم امور نظم و نسق سے تقریباً بے دخل تھا اور سوائے دستخط کے عملاً اسے کوئی اختیار نہ تھا۔ نواب سکندر جاہ بھی بالکل بے اختیار ہوگئے تھے۔ اور انہوں نے ان حالات سے متاثر ہوکر محل سے نکلنا چھوڑ دیا تھا، بعض اوقات چارچار سال تک انہوں نے قدم باہر نہیں نکالا۔
(بحوالہ: تاریخ ریاست حیدرآباد دکن از محمد نجم الغنی خاں (مطبوعہ نول کشور، 1930ء)
1829ء میں نواب سکندر جاہ کا انتقال ہو گیا اور نواب میر فرخندہ علی خاں ناصر الدولہ آصف جاہ رابع تخت نشین ہوئے 1832ء میں نواب منیر الملک وزیر اعظم کا انتقال ہوگیا اور راجہ چندو لال وزیر اعظم مقرر ہوگئے۔ راجہ چندو لال کے اوصاف میں جس چیز نے نظم اور نسق اور تہذیب دونوں کو متاثر کیا وہ ان کا جود و سخا تھا۔ ان کی فراخ دستی اس حد کو پہونچی ہوئی تھی کہ نہ صرف مختلف تیوہاروں اور تقاریب پر وہ بے دریغ روپیہ صرف کردیتے بلکہ ہر روز ان کے دادودہش کا یہ عالم رہتا کہ بقول نجم الغنی مثنوی سحر البیان کے واقعات اس کے آگے پھیکے پڑ جاتے تھے۔ حکیموں، شاعروں، مرثیہ خوانوں، سوزخوانوں اور ارباب نشاط و طرب کو ہزاروں روپے انعام میں دیتے اور ن کی تنخواہیں اس کے سوا ہوتی تھیں۔ راجہ چندو لال نے حیدرآباد میں بہت سی خوبصورت و بیش قیمت عمارتیں بنوائیں۔ اس فیاضی کے اثر سے اہل ہنر تو مستفید ہوئے لیکن اس کا بار حکومت کے خزانہ پر پڑا۔ چندو لال خود بھی شاعر و ادیب تھے اور اہل ہنر کے قدرداں تھے۔

راجہ چندو لال اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے ان کا یہ معمول تھا کہ ہر رات کئی گھنٹے اہل علم کی مجلس آراستہ کرتے جس میں شعروسخن اور مسائل تصوف کا چرچا ہوتا۔ اس دور کے شعراء میں مولوی ابو تراب، مولوی محمد حسین، مولوی غلام حسین، حفیظ دہلوی، فائز حاجی محمد علی ساغر،مرزا محمد طاہر تبریزی، حسین علی خاں ایماء، تاج الدین مشتاق، ذوالفقار علی خاں صفا، میر عنایت علی ہمت ، احمد علی شہید، ظہور اکرم ،میر مفتون وغیرہ قابل ذکر شعرا گزرے ہیں۔ ان میں سے بعض صرف فارسی کے شعراء ہیں، اور بعض صرف اردو کے۔ استاد ذوق شاہ نصیر اور ان کے بھائی شاہ حفیظ انہی کی طلب پر حیدرآباد آئے تھے۔ دہلی سے استاد ذوق اور لکھنو سے استاد ناسخ کو بھی انہوںنے حیدرآباد آنے کی دعوت دی تھی۔ مگر ذوق نے یہ شعر لکھ کر معذرت چاہی:
گرچہ ہے ملک دکن مین آج کل قدر سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

شاداں کے دور میں دکن میں قدیم دبستان سخن کی سرپرستی ختم ہورہی تھی ، ان کے بعد مختار الملک سرسالار جنگ نے ان اہل علم اور ادیبوں کو حیدرآباد بلایا جو عموماً علی گڑھ تحریک کے رفیقوں میں تھے اور اردو ادب کے ایک نئے مستقبل کے نقیب تھے۔
نواب ناصر الدولہ کا دور بہادر شاہ ثانی کے دور کے متوازی ہے۔ان دونوں کے ادوار 1857ء میں ختم ہوتے ہیں۔ نواب ناصر الدولہ کا دور نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندوستان میں عظیم تبدیلیوں کا دور ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جب نظم و نسق طرز حکومت، عدالت، آئین، تعلیم اور صحافت سب ہی نئے مغربی طرز سے متاثر ہورہے تھے۔ در حقیقت ہندوستان میں عصر نو طلوع ہورہا تھا۔ جاگیر داری نظام ختم نہیں ہوا تھا ، لیکن مذکورہ بالا ادارے آمرانہ نظام کی گرفت سے نکل رہے تھے اور ان میں جمہوری اور علمی اوصاف کو فروغ حاصل ہورہا تھا۔ چنانچہ ملک کے مختلف حصوں میں عصر نو کے پیامبر ابھر رہے تھے ایسے قائدین میں شمالی ہند میں سر سید احمد خاں اور جنوب میں مختارالملک سرسالار جنگ اول قابل ذکر ہیں۔ دونوں نے زمانے کے رخ کو پہچانا، تغیرات کا استقبال کیا، اور ملک و ملت کی تشکیل نو کی عظیم مہم میں مصروف ہوگئے۔
نواب ناصر الدولہ کے عہد کا سب سے اہم واقعہ سر سالار جنگ اول کا عہد وزارت عظمیٰ پر مامور ہونا ہے۔ سرسید کی طرح سر سالار جنگ نے ملک کی اصلاح کے لئے انگلستان جاکر نئے حالات کا مطالعہ کیا۔ انگریزی سے ان کو پوری طرح واقفیت تھی۔ ساتھ ہی ساتھ سر سید کے ایک رفیق خاص تھے اور تقریباً پالیسی کے تمام امور میں سر سید سے مشورہ کیاکرتے تھے۔ یہ سر سالار جنگ ہی تھے جنہوں نے نواب محسن الملک، نواب وقار الملک ، نواب اعظم یار جنگ، مولوی نذیر احمد، مولوی سید علی بلگرامی، نواب عمادالملک، جیسی شخصیتوںکو حیدرآباد بلالیا۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو نہ صرف سر سید سے فیض اٹھائے ہوئے ہیں بلکہ ان کی تحریک کے وابستگان میں سے ہیں۔ سر سالار جنگ نے قدیم طرز کے نظم و نسق کو بدل کر نئی وضع کے محکمہ اور تنخواہ یاب عہدے قائم کئے۔ جن میں محکمہ تعلیمات اور جدید طرز کے مدرسوں کا ریاست بھر میں قیام ٹیچرس ٹریننگ کالج، انجنیئرنگ اور میڈیکل کالج، اور ریاست بھر میں دواخانوں کا قیام قابل ذکر ہے۔ ریاست حیدرآباد میں ریلیں بھی سر سالار جنگ کی کوششوں سے بچھائی گئیں ، مجلس مال قائم کرک ے انہوں نے مالگزاری کے انتظام میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ سالار جنگ 1853ء میں وزیرا عظم مقرر ہوئے۔

یہ ایک دلچسپ عمرانی حقیقت ہے کہ جب کسی تہذیب میں نئی اقدار کے علمبردار اٹھتے ہیں تو رجعت پسند اقدار کے علمبرداروں سے ان کو متصادم ہونا پڑتا ہے۔ سر سالار جنگ نے کامیابی کے ساتھ ایسے تصادم کامقابلہ کیا۔ سالار جنگ کی سب سے اہم کشاکش جاگیر دار طبقہ سے رہی ہے۔ حیدرآباد کے نظام جاگیر داری میں پائیگاہوں کو سب سے بڑا مقام حاصل رہا ہے۔ امرائے پائیگاں خاندان آصفی کے رشتہ دار تھے جو آصف جاہ اول کے زمانہ سے اعلیٰ خطابات اور مناسب جلیلہ پر فائز رہے۔

حیدرآباد کی تہذیبی زندگی کی ترقی میں پائیگاہوں کا بھی بڑا اہم حصہ رہا ہے۔ یہاں کی پائیگاہوں کے امیر شمس الامراء امیر کبیر کے خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں۔ حکومت کے مہم امور میں امرائے پائیگاں اور دیوان دونوں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ یہ دونوں مرزا غالب کے ممدوح رہے ہیں۔ اس موقع پر پائیگاں کا کسی قدر تفصیلی تعارف بے محل نہ ہوگا۔

میر ابوالفتح خاں جن کو ابو الخیر خاں تیغ جنگ شمس الدولہ شمس الملک شمس الامراء کے خطابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے، نواب آصف جاہ اول کے ساتھ دکن آئے تھے۔ انہوں نے دلاور علی خاں بخشی اور مرہٹوں کے خلاف جنگ میں آصف جاہ اول کا ساتھ دیا۔ آصف جاہ اول کے بعد نواب میر نظام علی خاں آصف جاہ ثانی نے بھی ان کی بڑی قدر کی اور حکومت کے تمام اہم مسائل میں ان سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ان کے بیٹے محمد فخر الدین خاں، امام جنگ ، تیغ جنگ، خورشید الدولہ شمس الدولہ، خورشید الملک، شمس الملک، شمس الامراء،امیر کبیر اول(1781 تا 1863ء) والی پائیگاں مقرر ہوئے جن کی حیثیت حکمران کے بعد سب سے بڑی ہوتی تھی۔
نواب فخر الدین خان کے بعد ان کے بیٹے نواب رفیع الدین خاں(1805 تا 1877ء) اس کے بعد ان کے بھائی نواب رشید الدین خاں(1875 تا 1881ء) تمام تر خطابات کے ساتھ امیر کبیر شمس الامراء والی پائیگاں قرار پائے۔ بعد کو پائیگاں کی جاگیریں تین مختلف پائیگاہوں میں تقسیم ہوگئیں۔

نواب ناصر الدولہ کا انتقال 1857ء میں ہوگیا اور نواب افضل الدولہ بہادر آصف جاہ خامس تخت نشین ہوئے۔ نواب افضل الدولہ کے دور میں سر سالار جنگ کی اصلاحی کوششیں زیادہ تیز ہوگئیں، نواب افضل الدولہ کا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب دلی میں بہادر شاہ ظفر اور لکھنو میں واجد علی شاہ کی حکومتیں ختم ہوچکی تھیں اور حیدرآباد اہل دہلی اور اہل لکھنو کی امیدوں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ دراصل یہی وہ زمانہ ہے جب شمالی ہند کے شرفا اور اہل علم و ہنر کثیر تعداد میں دکن منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے اور یہاں پر اعلیٰ عہدوں سے سرفراز ہوئے۔

اب سلطنت آصفیہ کے روابط مرکز میں مغلوں کے بجائے انگریزوں سے قائم ہوگئے۔ سرسالارجنگ نے نظام برطانوی روابط کو بڑی دانشمندی سے مستحکم کیا اس زمانے میں مرزا غالب جن مصائب سے دوچار تھے ان کا حیدرآباد کی طرف دیکھنا عین فطری ہے۔ چنانچہ نواب افضل الدولہ آصف جاہ خامس وہ واحد آصف جاہی حکمران ہیں جو غالب کے ممدوح بھی ہیں افضل الدولہ کا انتقال اسی سال ہوتا ہے۔ جس سال مرزا غالب کا انتقال ہوا۔ اس طرح نواب افضل الدولہ آصف جاہ خامس کے عہد حکومت پر عہد غالب کے حیدرآباد کا اختتام ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ از کتاب:
غالب اور حیدرآباد
تصنیف: ضیا الدین احمد شکیب (اشاعت: فروری 1969)۔

Hyderabad in the period of Ghalib. Article by: Ziauddin Shakeeb

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں