حیدرآباد - ایک پس منظر : از ضیا الدین احمد شکیب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-27

حیدرآباد - ایک پس منظر : از ضیا الدین احمد شکیب



جنوبی ہند کا عظیم الشان شہر حیدرآباد، نئی نسلوں کے لئے نئے ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش کے صدر مقام کی حیثیت سے متعارف ہے*۔ ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل یکم نومبر 1956ء میں عمل میں آئی۔ گویا یہ کل ہی کی بات ہے۔ لیکن حیدرآباد ایک دن میں تعمیر نہیں ہوا۔
*نوٹ: 2/جون 2014 کو ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم عمل میں آئی اور اب حیدرآباد، ریاست "تلنگانہ" کا صدر مقام ہے۔
موسیٰ ندی کے کنارے
78°-27' E
اور
15°-18' N
پر یہ شہر آج سے پونے چار سو سال سے زائد عرصہ پہلے 1591ء میں دکن کے پانچویں قطب شاہی حکمران محمد قلی قطب شاہ نے بسایا تھا۔ اس شہر کے بسانے کا آغاز یہاں کی مشہور عمارت چارمینار کے سنگ بنیاد سے ہوا اور 1592ء میں یہ عمارت مکمل ہوئی۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ قطب شاہی سلطنت کی حدود کم و بیش رہی تھیں جو موجودہ ریاست آندھرا پردیش (سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش*) کی ہیں۔ قطب شاہی سلطنت کی اصل آبادی اگرچہ تلنگی بولنے والوں کی تھی لیکن اس میں جنوبی ہند کے ساحلوں سے آئے ہوئے عرب، حبشی اور تغلق دور کے شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے ترک اور ایرانی باشندے بھی تھے۔
قطب شاہی دور میں اس علاقہ کی آبادی کی ساخت میں ایسی غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں جس کے نتیجہ میں بالعموم اس علاقہ اور بالخصوص شہر حیدرآباد کی تہذیب پر غیرمعمولی اثرات پڑے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ یہ زمانہ دراصل دکن مین ہندوستانی تہذیب کے ایک نئے اسلوب کی تشکیل کا زمانہ تھا، جس کو اکثر ادیب اور مورخین دکنی تہذیب سے موسوم کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ دکنی تہذیب کی ساخت اس کے مزاج اور مفہوم کو سمجھے بغیر "حیدرآباد" کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے بلکہ اس دور کے کسی لمحہ میں باہر کے کسی واقعہ یا کسی شخصیت کے حیدرآباد سے ربط و تعلق کو سمجھنا اور بھی مشکل کام ہے۔

مرزا غالب کا حیدرآباد سے جو تعلق رہا ہے یا مختلف ایام میں حیدرآباد اور حیدرآبادیوں کے تعلق سے ان کی رائے میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اور خود حیدرآباد اور حیدرآبادیوں نے مرزا غالب کو مختلف مواقع پر جیسا سمجھا ہے اور ان سے اثر قبول کیا ہے، ان سب باتوں کو واضح طور پر سمجھنے کے لئے حیدرآبادی تہذیب اور اس کے مختلف ادوار کے بارے میں وہ ابتدائی واقفیت ضروری سی ہے جس کا تذکرہ ان سطور میں چھیڑا گیا ہے۔

دکن میں قطب شاہی سلطنت کا آغاز کم و بیش اس زمانے سے کچھ ہی پہلے ہوتا ہے جب شمالی ہند میں سلطنت مغلیہ کی بنیاد پڑتی ہے۔ اور یہ دونوں واقعات اس اہم تاریخی واقعہ کے بعد رونما ہوتے ہیں جس کو واسکوڈی گاما کی "دریافت ہند" سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس واقعہ نے نہ صرف ہندوستان اور یورپ کے درمیان مہم آزماؤں کے ذریعہ تعلقات کے دروازے کھول دئیے بلکہ عرب اور بالخصوص ایران سے جنوبی ہند کے بحری سفر کو آسان، تیز رفتار اور محفوظ بنا دیا۔
محمد قلی قطب شاہ کے دور میں سیاسی، تجارتی، مذہبی اور نسلی وجوہات تھیں بھی ایسی کہ جن کی وجہ سے قطب شاہی سلطنت کے تعلقات مغلوں کی بہ نسبت ایرانیوں سے زیادہ بڑھ رہے تھے۔ ان تعلقات کی وجہ سے ایرانی علماء، ماہرین نظم و نسق اور سپہ گری، معمار، شعراء، ادیب، اطباء، مصور اور موسیقار اس کثرت سے حیدرآباد میں آبسے کہ حیدرآباد بعض معاصر اہل قلم کے بیان کے مطابق 'اصفہان' بن گیا تھا۔ اصفہان کے تعلق سے ایران میں یہ فقرہ زبان زد خاص و عام تھا کہ "اصفہان نصف جہان" اور اصفہان وہ مقام ہے جس کی محبت میں غالب نے نغمہ سرائی کی ہے:
"در نجف مردن خوش است و در صفاہاں زیستن"

اس طرح جنوبی ہند میں ایک طویل عرصہ کے بعد پھر ایک شہری تمدن کو فروغ حاصل ہوا جو اگرچہ بظاہر عجمی طرز کا تھا لیکن درحقیقت آندھرا کے علاقائی تمدن سے ایک خاص انداز میں مربوط تھا۔ جو بتدریج تہذیب کے مختلف مظاہر میں ایک گہر ے امتزاج کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس امتزاج کے نتیجہ میں کئی ایسی تہذیبی ثقافتی اور لسانی حقیقیتیں وجود میں آ رہی تھیں جن کا سلسلہ آج بھی حیدرآبادی تہذیب کی شیرازہ بندی کرتا ہے۔
ان میں سے اس دور کی لسانی اور ادبی ترقی اس موقع پر قابل توجہ ہے۔ فارسی ادبیات کو اس زمانے میں فروغ ہوا اور جو ایرانی ادیب دکن آئے ان میں کئی ایسے ہیں جن کے علمی و ادبی مقام و منزلت کے مرزا غالب معترف ہیں۔
جلالائے طباطبائی اور طاہر وحید کو مرزا نے مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن فارسی ادب سے زیادہ اردو زبان و ادب کی ترقی اس دور میں قابل لحاظ ہے۔ قطب شاہی سلطنت نے اردو کو جو علمی اور ادبی سرمایہ دیا ہے ، بیجا پور کی عادل شاہی سلطنت کو چھوڑ کر ہندوستان کا کوئی دوسرا علاقہ اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتا۔

محمد قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سمجھا جاتا ہے۔ دکنی زبان نے علمی و ادبی طور پر قطب شاہی سلطنت کے آخری دور تک ترقی کی اور یہ زبان ایک ایسے مزاج کی حامل تھی جس میں عجمی، تازی اور ہندی عناصر کا ایک غیر معمولی امتزاج تھا۔ محمد قلی نے کسی نئے مذہب کی بنیاد تو نہیں رکھی لیکن اس نے محبت کو سب کا مذہب بنایا۔ قطب شاہی حکمران عوام میں اس قدر مقبول تھے کہ اس سلطنت کے خاتمہ کے بعد برسوں تک دکن کے شاعروں نے ان کی یاد میں نوحہ خوانی کی ہے۔

1687ء میں مغل شہنشاہیت کے پھیلاؤ نے قطب شاہی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اورنگ زیب نے حیدرآباد کو دارالجہاد قرار دے کر اس کی راجدھانی کی حیثیت ختم کر دی۔ اور حیدرآباد کا پایہ تخت اورنگ آباد منتقل ہو گیا۔ شہر حیدرآباد کی تہذیب نہ صرف تیزی کے ساتھ انحطاط کا شکار ہو گئی بلکہ اس معتوب ضلع میں کس مپرسی اور گمنامی کے گرد وغبار میں دب کر رہ گئی۔ اس دور کے حیدرآباد کے اگر کچھ ادبی آثار ملتے ہیں تو وہ اس شہر کے مرثیے ہیں۔

تقریباً ایک صدی تک حیدرآباد کسی بھی حکومت کے پایہ تخت ہونے کے شرف سے محروم رہا۔ ان سیاسی حادثوں کا اثر شہر حیدرآباد پر یہ پڑا کہ یہاں کے باشندوں میں مغل تہذیب سے ایک طرح کی نفرت پیدا ہو گئی اور قطب شاہی تہذیب کی یاد ہی ان کے لئے باعث سکون تھی۔ چنانچہ مغل تہذیب سے انحراف اور قطب شاہی تہذیب سے وابستگی کے جذبے نے اس علاقہ کی زبان کو کافی متاثر کیا۔

1724ء میں آصفجاہی سلطنت قائم ہوئی ، جو بشمول حیدرآباد چند دکنی صوبوں پر مشتمل تھی، اس سے ایک ایسا ماحول ضرور فراہم ہوا جس سے اہل حیدرآباد کی تخلیقی صلاحیتوں کو کسی حد تک ایک بار پھر ابھرنے کا موقع ملا۔ اس وقت تک ولی اور سراج کے زیر اثر حیدرآباد کی علمی اور ادبی زبان شمالی ہند کی اردو زبان سے کچھ نہ کچھ صحت مند اثرات قبول کر چکی تھی۔ تاہم یہ اثرات مکمل نہیں تھے۔
1762ء میں نظام علی خاں آصف جاہ ثانی کے عہد حکومت کا آغاز ہوتا ہے جس کے کچھ ہی عرصہ بعد پایہ تخت حیدرآباد منتقل ہو جاتا ہے اور اس شہرکو ایک نئی زندگی ملتی ہے اس کے چند برسوں بعد ہمیں عہد غالب کا حیدرآباد دکھائی دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ از کتاب:
غالب اور حیدرآباد
تصنیف: ضیا الدین احمد شکیب (اشاعت: فروری 1969)۔

Hyderabad - A Background. Article by: Ziauddin Shakeeb

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں