ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 13 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-08-31

ناول کالی دنیا - سراج انور - قسط: 13

kali-dunya-siraj-anwar-ep13



پچھلی قسط کا خلاصہ :
آدمی خور جنگلیوں کے ساتھ فیروز اور اس کے ساتھیوں کی لڑائی شروع ہو گئی۔ مگر جب آدم خور ان پر بھاری پڑنے لگے تب اچانک کہیں سے گولیاں چلیں اور ایک ایک کر کے آدم خور زمین پر گرنے لگے۔ گولیاں چلانے والا سوامی تھا جسے فیروز نے جیگا سمجھ لیا تھا۔ پھر سوامی کی وضاحتوں کے بعد یہ غلط فہمی دور ہوئی اور وہ لوگ سوامی کے مشورے ہی پر اونچی پہاڑی پر بنے غاروں کے سلسلے میں جا پہنچے۔ مگر وہاں بھی کئی آدم خور ان کے مقابلے پر آ گئے جس پر وہ غار کے اندر ہی اندر بھاگنے لگے، غار کے اندر ان کی لڑائی ہوئی اور اچانک اس سرنگ میں بھیانک زلزلہ آ گیا۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے۔

"نجمہ بیٹی۔۔ نجمہ بے۔۔ ٹی۔۔۔۔"
یہ دراصل گونج تھی اور میں حیران تھا کہ یہ گونج کیوں پیدا ہو رہی ہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ سامان کا تھیلا تو میری کمر سے ابھی تک بندھا ہوا ہے۔ میں نے جلدی سے ٹارچ ٹٹول کر نکالی اور پھر اسے جلایا۔۔۔ آہ میں کیا بتاؤں کہ میں نے کیا منظر دیکھا۔۔۔؟

میں نے دیکھا کہ روشنی سامنے چٹانوں پر پڑ کر دگنی ہو گئی ہے، چٹانوں میں نہ جانے کیا چیز لگی ہوئی تھی کہ روشنی پڑتے ہی وہ قوس قزح کے رنگوں میں ستاروں کی طرح جھل مل کرنے لگی۔ جس طرف بھی روشنی کی لکیر پڑتی ، ایسی ہی رنگ برنگی شعاعیں پھوٹنے لگتیں۔ اب کے میں نے اوپر روشنی ڈالی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اوپر چھت سی ہے۔ نوکیلی اور مخروطی چٹانیں چھت سے لٹک کر نیچے تک پہنچ رہی ہیں۔ یہ چٹانیں ہلکے زرد رنگ کی تھیں۔ اوپر سے ان کا قطر بڑا تھا اور نیچے آتے آتے یہ سوئی کی طرح باریک ہو جاتی تھیں۔ چھت میں جگہ جگہ ایسی ہی نوکیلی اور گاؤ دمی چٹانیں لکتی ہوئی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے چھت سے کوئی پاؤڈر جیسی چیز نیچے ٹپکنی شروع ہوئی ہو اور آہستہ آہستہ وہ ایک ٹھوس چٹان بن گئی ہو۔ یا پھر موم کی طرح ٹپکتے ٹپکتے گاؤ دمی شکل بن گئی ہو!
شاید میری آواز یا اس کی گونج سن کر نجمہ نے کراہ کر آنکھیں کھول دی تھیں اور وہ بھی اب ادھر ادھر دیکھ رہی تھی، ٹارچ کی روشنی زمین پر ڈال کر میں نے دیکھا کہ ایک چشمہ نہ جانے کس سمت سے آ رہا ہے اور خدا جانے کس سمت کو بہتا جا رہا ہے؟ اسی چشمے کے کنارے نجمہ اور ہم سب پڑے ہوئے تھے۔ ہوش آنے کے بعد مجھے اس تکلیف کا احساس ہونے لگا جو زلزلے کے باعث پتھر گرنے سے لگی تھیں۔ چوٹیں شاید دوسروں کو بھی لگی تھیں۔ کیونکہ امجد، جان ، جیک، سوامی اور اختر بھی کراہتے ہوئے اٹھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے بار بار پوچھ رہے تھے کہ ہم کہاں ہیں؟ مگر یہ بات تو مجھے بھی معلوم نہیں تھی۔ پھر بھلا میں انہیں کیا بتاتا؟

جب وہ سب ہوش میں آگئے تو معلوم ہوا کہ کسی کو بھی چوٹیں نہیں آئی ہیں۔ ٹارچ کی روشنی چونکہ ایک ہی سمت پڑتی تھی اس لئے میں نے سوامی سے کہا کہ وہ مشعل جلائے۔ مشعل جب جل گئی تو اس کی روشنی میں وہ جگہ صاف نظر آنے لگی۔ وہ چشمہ، زمین، چٹانیں اور وہ عجیب و غریب شعاعیں اب سب کو اچھی طرح دکھائی دے گئیں اور پھر جان کے مونہہ سے حیرت کی آواز نکلی۔

"فیروز۔۔۔ یہ کتنی عجیب جگہ ہے۔ مجھے یقین ہے ، ہاں پکا یقین ہے کہ ہم لوگ اس وقت زمین کی سطح سے کئی ہزار فٹ نیچے پاتال میں ہیں۔ سائنس دانوں نے زمین کے نیچے تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاتال کے فوٹو کھینچے ہیں اور یہ مقام ان فوٹوؤں والے مقام سے بالکل ملتا جلتا ہے۔"
"کیا کہہ رے ہیں آپ۔۔۔" امجد نے خوفزدہ لہجے میں کہا:
"کیا ہم پاتال میں ہیں؟"
"بالکل امجد صاحب۔۔۔ یہ پاتال ہی ہے۔ زمین سے ہزاروں فٹ نیچے بسی ہوئی ایک کالی دنیا۔"

"کالی دنیا۔۔۔؟" میں نے تعجب سے پوچھا۔
"ہاں کالی دنیا۔۔ جہاں روشنی کا نام ہی نہیں ہے۔" جان نے کہنا شروع کیا:
"دنیا بھر کے خزانے یہاں کے خزانوں کے آگے ہیچ ہیں۔ یہاں فاسفورس ہے، گندھک ہے، کوئلہ ہے، کچے ہیرے، سونا اور چاندی ہے ، یہاں اتنی دولت ہے کہ زمین پر کہیں نہ ہوگی۔ میں عرصے سے ایسی جگہ آنے کا خواہش مند تھا اور آج خدا نے میری یہ آرزو پوری کر دی۔"
"عجیب بات ہے" امجد نے خوف سے لرزکر کہا:
"آپ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ جیتے جی آپ ایک ایسی قبر میں دفن کر دئے گئے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔"
"یہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو امجد، بدقسمتی سے تمہاری ب بات سچ ہے۔ زلزلے کی وجہ سے سرنگ دھنس گئی اور ہم لوگ اس کالی دنیا میں آ گئے۔ جہاں کے عجائبات کا کچھ شمار نہیں۔ جہاں بے اندازہ دولت ہمارا مونہہ تک رہی ہے۔ لیکن اس دولت کو باہر لے جانے کا راستہ افسوس ہے کہ اب بند ہو چکا ہے۔"

جان کی آواز گونج رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ کس جگہ آکر پھنس گیا۔ کیا اس قید خانے سے کبھی چھٹکارا بھی مل سکے گا یا نہیں؟ اس جگہ پڑے پڑے چوں کہ کافی دیر ہو گئی تھی اس لئے میں نے سب کی رائے سے یہ فیصلہ کیا کہ ایک جگہ نہیں بیٹھے رہنا چاہئے بلکہ ہر طرف گھوم پھر کر کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہئے جو ہمیں اوپر کی دنیا تک پہنچا سکے۔ ہم نے اپنا اپنا سامان اٹھایا۔ بندوقیں ہاتھوں میں لیں اور چشمے کے کنارے کنارے آگے بڑھنے لگے۔ مشعل کی روشنی میں چٹانیں ہیرے جواہر کی طرح چمک رہی تھیں۔ کہیں سنہرا رنگ پھوٹتا تھا، کہیں روپہلا، کہیں سرخ اور کہیں نیلا۔ خدا کی قدرت کا نرالا کرشمہ تھا ، چشمے کے کنارے چلنا میں نے یوں بھی مناسب سمجھا تھا کہ ہوسکتا ہے چشمہ ہمیں اس جگہ سے نکلنے کی کوئی راہ بتا دے۔

مگر کچھ ہی دیر بعد میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ یہ چشمہ دراصل پانی کی وہ تہہ تھی جو زمین کے سینے میں ہزاروں سال سے جمع ہے۔ پانی کی اسی تہہ سے زمین کے لوک کنویں اور پائپ کے ذریعے پانی نکالا کرتے ہیں۔ یہ چشمہ کہیں جاکر ختم نہیں ہوتا بلکہ زمین میں ہر طرف بہتا رہتا ہے۔میرے اپنے خیال میں تو کسی مقام پر جھیل بھی ہونی چاہئے تھی اور جیسا کہ آپ دیکھیں گے بعد میں میرا یہ خیال صحیح ثابت ہوا۔
خیر تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ چشمے کے کنارے کنارے کافی دور تک چلنے کے باوجود بھی ہمیں کوئی راستہ نہ ملا۔ البتہ لاتعداد غار نما سرنگیں ضرور ملیں۔ ایک سرنگ میں اگر ہم گھستے تو پھر فوراً ہی دوسری طرف سے باہر نکل آتے۔ زمین سے ہزاروں فٹ نیچے کا یہ حصہ دراصل ایک بہت بڑا ہال تھا۔ نہ ختم ہونے والا ہال۔ جس کی چھت میں آڑی ترچھی چٹانیں تھیں۔ ہمیں ہر وقت یہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں اوپر سے ہم پر کوئی چٹان نہ آ گرے۔
کیوں کہ چھوٹے موٹے ٹکڑے تو لگاتار گر رہے تھے۔ اس کے علاوہ دائیں اور بائیں طرف سے نکلی ہوئی نوکیلی چٹانیں اور زمین پر پڑے ہوئے کالے سفید پتھر۔۔ یہ چیزیں بھی ہمیں تکلیف پہنچا سکتی تھیں۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ مشعل کی روشنی میں کسی چٹان میں لگا ہوا ہیرا اتنی چمک دے جاتا کہ ہماری آنکھیں چندھیا جاتیں اور ان میں پانی آ جاتا۔
ہم اگر سرگوشی میں بھی بات کرتے تو فوراً ہی یہ سرگوشی گونج بن جاتی۔ شاید میں نے ابھی تک آپ کو یہ نہیں بتایا کہ اس سنسان اور ویران کالی دنیا میں چمگادڑیں بھی لاتعداد تھیں۔ ایسی ویسی چھوٹی چمگادڑیں نہیں بلکہ گدھ سے کئی گنی بڑی چمگادڑیں۔ ہمیں ہر وقت یہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں کوئی چمگادڑ ہمیں نقصان نہ پہنچائے!
مگر مشعل کی لپٹوں نے شاید انہیں ہم سے دور کر رکھا تھا۔ مشعل کی بجائے اگر ٹارچ جل رہی ہوتی تو یہ ہم پر ضرور حملہ کرتیں۔ اس جگہ گرمی اتنی تھی کہ ہمیں پسینہ آئے جا رہا تھا۔ پسینے کو بار بار چہرے سے پونچھتے ہوئے ہم لوگ آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ یہاں ہمیں ایسے عجیب و غریب درخت اور پودے نظر آئے جن کی تعریف افسو س ہے کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ پودے اس قسم کے تھے کہ شاید دنیا میں آج تک کسی نے نہ دیکھے ہوں گے۔ پتلی سی جڑ اور اوپر سے چھتری کی طرح پھیلے ہوئے پتے۔ بارش اگر ہو رہی ہو اور کوئی شخص اس پودے کے نیچے بیٹھ جائے تو وہ کبھی نہیں بھیگ سکتا!

ہماری حالت اس وقت عجیب تھی۔ زندگی کی امید تو ہم کھو ہی چکے تھے۔ ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ ہم جیتے جی اس جگہ سے نہیں نکل سکتے۔ لگا تار چلتے رہنے کے بعد ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں گہرے گہرے کھڈ تھے۔ ان کھڈوں کے برابر صرف ایک پتلا سا راستہ دوسری طرف جاتا تھا۔ سامنے کی طرف ہمیں ایک چھوٹی سی آبشار بھی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن اس آب شار تک پہنچنا بہت دشوار تھا۔ آبشار کے اور ہمارے درمیان جو گہرا کھڈ تھا اس میں جھانک کر دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ ہلکا گرم لاوا کھول رہا ہے۔ ہم اگر آبشار تک جانا چاہتے تو ہمیں دیوار کے ساتھ ساتھ اس دو فٹ چوڑے قدرتی راستے پر سے ہو کر جانا پڑتا جس کے بائیں طرف دیوار تھی اور اس دیوار میں بھی نوکیلے پتھر اور شیشے کی دھار سے بھی باریک لمبوترے اور نوکیلے ہیرے نکلے ہوئے تھے۔ اور دائیں طرف گہرا کھڈا تھا۔ جس میں لاوا کھول رہا تھا۔ راستہ میرے خیال میں کوئی بیس گز ضرور ہوگا اور یہ بیس گز لمبا راستہ ہم شاید بیس دن میں بھی طے نہیں کر سکتے تھے۔ کیوں کہ دو فٹ چوڑے اور بیس گز لمبے راستے پر چلنے کی ہمت ہم میں اس وقت بالکل نہ تھی۔ یہ ایک نئی مصیبت تھی۔

"فیروز۔ یہ گرمی دراصل اسی لاوے کی ہے جو اس سطح سے غالباً کئی ہزار فٹ نیچے بہہ رہا ہے۔ اسے دیکھ کر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ زمین کی اندرونی تہوں میں ابھی تک آگ بھری ہوئی ہے اور اوپر کی تہیں ٹھنڈی ہوتی جاتی ہیں۔ خدا کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے"۔ جان نے مجھ سے کہا۔
"معاف کیجئے گا جان صاحب" امجد نے طنزیہ انداز مین کہا:
"یہ وقت خدا کی تعریف کرنے کا نہیں بلکہ اپنی زندگیاں بچانے کا ہے۔ آپ تو سائنس کی دنیا میں کھو گئے ، لیکن یہ بھول گئے کہ آپ اس وقت اس کالی دنیا میں ہیں جہاں رہ کر سورج کی ایک ننھی کرن بھی آپ زندگی بھر نہیں دیکھ سکتے اور جہاں شاید جیگا سے بھی ملاقات ہونے کا اندیشہ ہے۔ "

"معاف کرنا امجد۔" جان نے شرمندگی سے کہا:
"واقعی یہ میری غلطی ہے کہ میں اپنی موجودہ حالت کو فراموش کر بیٹھا۔ قدرت کے ان چھپے ہوئے خزانوں کو شاید کسی انسان نے آج پہلی بار دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی تکلیفیں بھول کر یہاں کی دلچسپیوں میں کھو گیا ہوں۔ خیر میں دوبارہ معافی چاہتا ہوں، اب کہئے کیا کیا جائے؟"
"کیا کیا جائے؟ وہاں آبشار تک ہمیں ضرور پہنچنا پڑے گا کیونکہ میرے خیال میں آب شار کا یہ پانی اوپر کی زمین کی کسی دراڑ سے گر رہا ہے اور نیچے آکر آب شار بن گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہاں جانے کے بعد ہمیں ضرور کوئی نہ کوئی راستہ اوپر جانے کے لئے مل جائے گا۔"امجد نے جواب دیا۔

بات ٹھیک تھی اور امجد کا خیال ایک حد تک درست تھا اس لئے بڑی لمبی چوڑی بحث کے بعد ہم نے اس پر عمل کرنے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اپنے اپنے تھیلوں میں سے ہم نے وقت پر کام آنے والی دس دس گز لمبی رسیاں نکالیں اور پھر ان رسیوں کو ایک جگہ جوڑ لیا۔ اس طرح ہمارے پاس تقریبا 65 گز لمبی رسی تیار ہو گئی۔ ہر آٹھ گز کے بعد ہم نے رسی کا ایک حلقہ بنالیا۔ مطلب ہے کہ چوڑی کی طرح اسے موڑ لیا اور سب سے پہلے جیک کو اس حلقے میں رکھا ، پھر میں نے خود اپنی کمر اس حلقے میں دی۔ میرے بعد نجمہ، پھر اختر اور اختر کے بعد امجد پھر جان اور سب سے آخر میں سوامی۔
ایسا لگتا تھا جیسے کہ ہم لوگ کسی رسہ کشی کے مقابلے کے تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے بعد خدا کا نام لے کر ہم نے اس ٹیڑھے میڑھے دو فٹ کے راستے پر قدم رکھا جس کے ایک طرف نوکیلے ہیرے ہمارے جسم چھلنی کردینے کے لئے تیار تھے۔ اور دوسری طرف نامعلوم گہرائی میں کروٹیں لیتا ہوا گرم لاوا ہمیں نگلنے کے لئے بے قرار۔۔
اس بیس گز لمبے راستے پر چلنا تھا ہمیں اور ہم ڈگمگاتے ہوئے چل رہے تھے۔ ہیروں کی نوکیں ہمارے جسموں میں چبھ رہی تھیں مگر جسم سے خون کا نکلنا لاوے میں گر کر لاوا بن جانے سے کہیں بہتر تھا۔ نجمہ اور اختر کی چیخیں بار بار گونج جاتی تھیں۔ اور چمگادڑیں اپنے لمبے پر پھڑپھڑاتی ہوئی آتی تھیں مگر مشعلوں کی لہراتی ہوئی لپٹوں کو دیکھ کر پھر دور چلی جاتی تھیں۔ ایک بار تو ایسا ہوا کہ ایک چمگادڑ نے جیک پر حملہ کر دیا اور وہ خود کو بچاتے ہوئے اس دو فٹ کے راستے پر بری طرح ڈگمگایا۔ ڈگمگاتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ تیزی سے کھڈ میں گرا۔
اس کی دل دہلادینے والی چیخ گونجی۔ مگر میرے اوسان قابو میں تھے اس لئے میں فوراً مضبوطی سے رسی کو پکڑ لیا۔ چونکہ رستی کا اگلا سرا جیک کی کمر سے بندھا ہوا تھا اور اس کے بعد یہی رسی میری کمر سے بھی لپٹی ہوئی تھی۔ اس لئے میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ مگر میں نے اپنے دونوں پاؤں زمین پر جما دئے تھے اور اس جھٹکے کے لئے میں پہلے ہی سے تیار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیک کھڈ کے اندر نہیں گرا بلکہ رسی سے لٹکنے لگا۔ سب سانس روکے ہوئے خوفزدہ نظروں سے جیک کو دیکھ رہے تھے۔
میں نے چلا کر جیک سے کہا کہ وہ ہمت نہ ہارے، میں اسے اوپر کھینچتا ہوں۔ اپنے پیروں سے دیوار کا سہارا لے کر وہ خود بھی اوپر چڑھنے کی کوشش کرے۔ میرے تسلی دینے سے جیک میں ہمت پیدا ہو گئی اور جو میں نے کہا تھا اس نے وہی کیا۔ میں نے اسے اوپر کھنچنا شروع کیا۔ وہ اپنے پیروں سے سہارا لے کر خود بھی اوپر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کافی دیر کے بعد جیک اوپر آنے میں کامیاب ہو گیا۔ نجمہ اور اختر نے بھی آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا میں نے دیکھا کہ جیک اس وقت ہلدی کی طرح پیلا پڑا ہوا تھا۔اور اس کے ہاتھ پیر بری طرح لرز رہے تھے۔ اس وقت ہم راستے کے بالکل بیچ میں تھے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ کتنی مصیبت اور دقت کے بعد ہم نے وہ راستے طے کیا ہے۔
اسے تو کوئی ایسا آدمی ہی جان سکتا ہے جس پر یہ افتاد پڑی ہو۔ کہنے کو تو میں نے ایک منٹ میں یہ واقعہ بیان کردیا ہے مگر جو وقت ہم پر گزرا وہ ہمیں ایک سال سے بھی لمبا محسوس ہوا تھا۔

آبشار کے قریب آکر ہم فوراً زمین پر گر پڑے اور لمبے لمبے سانس لینے لگے۔ کیوں کہ اس بیس گز لمبے راستے کو طے کرنے میں ہماری جتنی طاقت صرف ہوئی تھی وہ شاید بیس دن میں بھی پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ پچھلے حادثے کا خوف ہر ایک کے دل پر طاری تھا۔ میں نے یہ بات محسوس کر کے ہر ایک کو اس جنگلی پپیتے کا ایک ٹکڑا دیا جو سوامی اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے آبشار سے بےحد ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیا۔ جسم میں اس سے کافی طاقت پیدا ہو گئی اور تب ہم آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
یہ بحث ہونے لگی کہ اب کیا کیا جائے۔ سوامی نے امجد کا کہنا مان کر آبشار کے آس پاس کی چٹانوں کو اچھی طرح چھان لیا مگر کوئی دراڑ ، کوئی ذرا سا سوراخ یا راستہ باہر جانے کا اسے نظر نہ آیا۔ جب وہ نا امید ہوگیا تو تھک کر ایک طرف بیٹھ گیا اور ادھر ہم سوچنے لگے کہ اب کیا کریں؟ بڑی دیر کے سوچ بچار کے بعد جان نے کہا کہ ہمیں چلتے رہنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ اس تلاش و جستجو کے بعد ہمیں کوئی نہ کوئی راستہ باہر کی دنیا میں جانے کا مل ہی جائے ، کیوں کہ اس بگہ بیٹھے رہنے سے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا!

مشعل ہاتھ میں اٹھا کر ہم لوگ چلنے کے لئے پھر کمربستہ ہوگئے ، رسیاں کھول کر ہم نے دوبارہ اپنے اپنے تھیلوں میں رکھ لی تھیں۔ چاقو اور بندوقیں ہاتھوں میں لے لی تھیں اور سوبیا کا ڈبہ جان نے اب اپنے گلے میں لٹکا لیا تھا۔ نجمہ آفاقی ہار ابھی تک اپنے گلے میں پہنے ہوئے تھی۔ آفاقی ہار پر چونکہ اب ہم سب ایمان لے آئے تھے۔ اس لئے نجمہ کو بار بار تاکید کر رہے تھے کہ وہ اس ہار کو کبھی اپنے گلے سے علیحدہ نہ کرے۔
ہمارا یہ مختصر سا قافلہ اس ساز و سامان کے ساتھ دوبارہ اپنی نامعلوم منزل کی طرف چلنے کے لئے تیار تھا۔ اور جان نے جب حکم دیا تو یہ قافلہ چل پڑا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جاتے تھے چٹانوں کی چمک بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے جگہ جگہ رنگ برنگی آتش بازی چھوٹ رہی ہو۔ مشعل کی روشنی اس چمک کو ہزار گنا زیادہ کر دیتی تھی۔ آبشار کے گرنے سے جو چشمہ پیدا ہوا تھا، ہم اسی چشمے کے کنارے کنارے چل رہے تھے۔ اونچی نیچی چٹانیں، سفید پتھر اور رنگ برنگے شیشے (جو یقیناً یاقوت زمرد اور لعل ہوں گے) بار بار ہمارے راستے میں آ جاتے تھے۔
یہ جگہ اتنی بڑی تھی کہ ہم اس لمبی چوڑی دنیا میں بالکل ننھے منے سے نظر آتے تھے۔ ہماری مثال ان چیونٹیوں کی سی تھی جنہیں کوئی ایک بہت ہی بڑے کمرے میں چھوڑ دے۔ راستہ اب کوئی نہ تھا۔ کبھی کوئی چٹان راہ میں حائل ہوجاتی اور کبھی قدرتی سرنگ سامنے آجاتی۔ اس سرنگ کو طے کرتے تو پھر سامنے کھلا ہوا حصہ آجاتا۔ کہیں چھت سے لٹکتی ہوئی مخروطی چٹانیں ملتیں اور کہیں قدرتی پل،یہ پل کسی سخت اور ٹھوس مٹی کے ایک جگہ جمع ہوتے رہنے سے آپ ہی آپ بن گئے تھے۔ یہ پل چھوٹے چھوٹے کھڈوں پر اس خوبصورتی سے بن گئے تھے جیسے کسی انسان نے سوچی سمجھی اسکیم کی مدد سے تیار کئے ہوں۔

ایسے ہی ایک پل پر جب ہم نے قدم رکھا تو جیسے ہماری روح فنا ہو گئی۔ ہمیں اسی منحوس گھنٹے کی دور سے آتی ہوئی آواز سنائی دینے لگی تھی جو جکاریوں کے لئے بجایا جاتا تھا اور جس کی آواز جکاریوں کی روح کی خوراک تھی۔ یہ آواز اب ہمیں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سنائی دے رہی تھی۔ اور ابھی ہم اسی شش و پنج میں تھے کہ پل پر آگے بڑھیں یا نہیں کہ ہمیں پل کے آخری سرے پر ایک عجیب و غریب چیز نظر آئی۔
جیسے کہ میں پہلے بتا آیا ہوں، مشعل کی روشنی چٹانوں میں چھپے ہوئے ہیروں سے ٹکرا کر سو گنی تھی، اس لئے اس چمکیلی روشنی میں وہ چیز مجھے پل پر آہستہ آہستہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ وہ انوکھی چیز سر سے پاؤں تک سرخ رنگ کے ایک خاص لباس سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ ہمارے طرف بڑھے ہوئے تھے۔ اس کے چلنے کے انداز اور بڑھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھتے ہی میں چونک گیا اور گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔

وہ دراصل ایک جکاری تھا جو ایک خاص قسم کا لباس پہنے ہوئے تھا۔ جیگا نے ایک بار ہمیں دھمکی دی تھی کہ سوبیا اب ہمیں کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی۔ تو کیا یہ لباس جکاریوں کو سوبیا کی زہریلی کرنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے!
۔۔۔ ان سب باتوں کے ساتھ ہی اب یہ خیال بھی پکا ہو گیا کہ ہم درحقیقت جیگا کی اس زمین دوز دنیا میں آ گئے ہیں، جہاں رہ کر وہ ہماری دنیا کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے ، اور جس کی بابت زہروی سائنس داں شاگو نے جان کو بتلایا تھا۔ مگر یہ وقت حیرت کرنے کا نہیں تھا کیوں کہ جکاری آہستہ آہستہ اسے بے ڈھنگی چال سے ہماری طرف آ رہا تھا۔
پل کی لمبائی اندازاً کوئی پچاس گز تھی اور جکاری اب اس کے بالکل درمیان میں آ گیا تھا۔ ہم اگر بھاگنا بھی چاہتے تو نہیں بھاگ سکتے تھے۔ کیوں کہ اس صورت میں ہمیں پھر اسی خطرناک راستے سے گزرنا پڑتا جسے ہم بڑی مشکل سے طے کر کے آئے تھے۔ جکاری آہستہ آہستہ قریب آتا جا رہا تھا اور نجمہ و اختر خوف کی وجہ سے سسکیاں لینے لگے تھے۔
مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ بندوقیں اور چاقو جکاری کے لئے بالکل بے کار ہیں، پھر اب کیا کریں۔ وہ خونخوار درندہ اب ہم سے صرف دس گز دور رہ گیا تھا۔ نوگز۔۔۔ آٹھ گز۔۔۔ سات گز۔۔ اور پھر میں نے ایک عجیب بات دیکھی۔ نجمہ پہلے تو ڈر رہی تھی مگر نہ جانے کیا ہوا کہ اس وقت اچانک وہ تن کر کھڑی ہو گئی۔ جیسے کسی خاص قوت نے اسے ایسا کرنے کی ترغیب دی ہو۔ اس کے ساتھ ہی جان نے سوبیا کا ڈبہ اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر جکاری کی طرف کر دیا۔ سوبیا کی زہریلی کرنوں نے شاید اپنا اثر دکھایا۔ جکاری لڑکھڑانے لگا اور پھر فوراً ہی ایک چیخ مار کر پل پر گرا اور پھر فوراً ہی مر گیا۔

جکاری کی لاش کو ابھی ہم حیرت سے دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک اس کے لباس پر لگا ہوا ایک گول سا سفید رنگ کا شیشہ خود بخود روشن ہو گیا۔ پہلے وہ زرد ہوا، پھر سرخ اور پھر اچانک اس میں سے ایک سراٹا بلند ہوا چند لمحوں بعد ہی یہ سراٹا آواز میں تبدیل ہو گیا۔۔۔ کوئی کہہ رہا تھا:

"خوش آمدید میرے معزز مہمانو! کالی دنیا میں آپ کی تشریف آوری مبارک۔۔ میں آپ کا خادم جیگا آپ سے ہم کلام ہوں۔ میں تو مدت سے آپ حضرات کی راہ دیکھ رہا ہوں۔ زہرہ کی قسم، آج میری حسرت پوری ہو گئی ،میرے خادم جکاری کو ختم کرنے کا شکریہ مسٹر جان۔ مجھے افسوس ہے کہ سوبیا کی کرنوں سے بچاؤ کرنے والا یہ لباس بھی بےکار ثابت ہوا۔ اس بار آپ جیت گئے۔ اس کم بخت لڑکی کے گلے کے ہار نے بھی اپنا کرشمہ دکھایا۔ سوبیا کی کرنوں کے ساتھ مل کر اس نے میرے خادم جکاری کو ختم کر دیا۔
مگر کوئی بات نہیں، ابھی تو کئی مرحلے باقی ہیں۔ آپ کو اس لڑکی کی اچھی طرح حفاظت کرنی ہوگی، کیوں کہ جب تک اس کے گلے میں آفاقی ہار موجود ہے ، میرا ہر ارادہ ناکام ہو جائے گا۔ اب ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتا دوں۔ شاگو نے آپ کو بتا ہی دیا ہے کہ میں چولا بدلنے میں ماہر ہوں۔ ایک ہی وقت میں میں دو جگہ موجود ہو سکتا ہوں۔ اس لئے آپ خود سے اور اپنے ساتھیوں سے ہوشیار رہئے گا۔ میں ہر وقت آپ کے ساتھ ہوں، بمبئی سے جس وقت آپ اس خطرناک سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ایک انسانی شکل میں اس وقت سے ہی میں آپ کے ساتھ لگ گیا تھا۔ اب یہ پہچاننا آپ کا کام ہے کہ آپ کے جاں نثار ساتھیوں میں سے کون وہ شخص ہے جو دراصل جیگا ہے؟ آپ کو اس الجھن میں چھوڑ کر اب میں چلتا ہوں۔۔ گھبرائیے مت، جلد ہی آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔"

حیرت کے مارے میرا مونہہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ اور جان کی حالت یہ ہوئی کہ پہلے وہ آہستہ آہستہ ہماری طرف گھوما اور پھر ہر ایک کو اس طرح گھورنے لگا گویا پرکھنا چاہتا ہو۔ اس آواز کے آلے کا رنگ اب پھر پہلے جیسا ہو گیا تھا۔ جیگا کے کہنے کے مطابق ہم میں سے ایک آدمی خود جیگا تھا۔ اس خطرناک سفر کے شروع ہی میں جیگا ہماری پارٹی کا ایک ممبر تھا اور ہم اسے پہچان نہیں سکتے تھے۔ یہ عقدہ جب کھلا تو ہم ایک دوسرے کو شبہ کی نظر سے گھورنے لگے۔ ہماری اس پارٹی میں ایک امجد ہی ایسا آدمی تھا جو ہمارے لئے بالکل نیا تھا۔ اس کے علاوہ ہم سوامی پر بھی شبہ کر چکے تھے، جان اور جیک بھی ہمیں بعد میں ملے تھے اس لئے کون سا وہ آدمی ہو سکتا تھا جو درحقیقت جیگا تھا۔ امجد نے جب مجھے اپنی طرف گھورتے پایا تو گھبرا کر کہنے لگا:
"نہیں، فیروز صاحب میں جیگا نہیں ہو، خدا کی قسم میں جیگا نہیں ہوں۔ آپ مجھے اس طرح مت دیکھئے۔"
"پھر کون ہو سکتا ہے ؟" جان نے غصے سے چلا کر کہا۔
"م۔۔۔م۔۔ مجھے نہیں معلوم۔ یقین کیجئے میں جیگا نہیں ہوں۔۔ میں جانتا ہوں کہ آپ مجھ پر شبہ کر رہے ہیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، کہ میں جیگا نہیں ہوں، خدارا میری بات کا یقین کیجئے۔"
امجد کے گڑ گڑانے سے میرا دل پسیج گیا اور میں خاموش ہو گیا۔ مگر جان نے آہستہ سے کہا:
"اور سوامی تم اپنے بارے میں کیا کہتے ہو؟"
سوامی خوف کے مارے کپکپا رہا تھا۔ اس کے آنسو اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ اس نے کافی دیر تک سبکیاں لینے کے بعد کہنا شروع کیا:
"میں جیگا نہیں ہوں، بھگوان کی سوگند میں جیگا نہیں ہوں۔ آہ! اس کم بخت جیگا نے ہمیں آپس میں لڑانے کی ایک چال چلی ہے ، مالک آپ ہی انہیں سمجھائیے۔ میں جیگا نہیں ہوں مالک۔"
"جھوٹ مت بولو سوامی۔۔"جان نے کڑک کر کہا:
"تم اس سفر میں تین مرتبہ موت کے مونہہ میں جا چکے ہو مگر کسی نہ کسی طرح ہمیشہ بچ گئے۔ ایسے خطروں سے بچ نکلنے والا شخص یقیناً انسان نہیں بلکہ کوئی خاص ہستی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ ہستی تم ہو۔ اس سے پہلے بھی ہم تم پر شبہ کرچکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم ہی جیگا ہو۔۔۔ اور ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو۔"

’اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں تو پھر یہی سہی۔"
سوامی نے نڈر ہو کر کہا۔ "لیکن اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ خود جیگا ہیں تب۔۔۔؟ تب آپ اس بات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کیا کہیں گے؟"
"میں تو جیگا نہیں ہوں۔۔"جان نے یکایک گھبرا کر جواب دیا۔
"جب آپ نہیں ہیں تو پھر آپ مجھے کس طرح کہہ سکتے ہیں۔"
"بدمعاش! مجھ سے زبان چلاتا ہے" ۔۔جان نے غصے میں بھر کر جواب دیا۔
"زبان نہیں چلا رہا بلکہ سچ بات کہہ رہا ہوں۔ "سوامی نے تن کر کہا۔
"خاموش بدزبان۔۔ لے میں تجھے اس کا مزا چکھاتا ہوں۔"
جان نے اتنا کہہ کر اپنا پستول نکال لیا اور پھر چاہتا ہی تھا کہ سوامی پر گولی چلا دے کہ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے پستول والے ہاتھ کو جھٹکے سے نیچے گرا دیا۔ گولی چلی اور اس زمین دوز دنیا میں اس کی آواز دیر تک گونجتی رہی۔
" یہ آپ کیا کر رہے ہیں انکل۔" میں نے جان سے کہا:
"سوامی میرا پرانا ملازم ہے۔"
"مگر یہ مجھ پر الزام کیوں لگاتا ہے ؟" جان نے خونی نظروں سے سوامی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

سوامی نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ حد سے گزر چکا ہے تو وہ دوڑ کر جان کے قدموں میں گر پڑا اور کہنے لگا:
"مجھے معاف کردیجئے آقا۔ میں غصے میں اندھا ہو گیا تھا۔ میرا یقین کر لیجئے کہ میں جیگا نہیں ہوں۔ یہ دراصل ہم لوگوں میں پھوٹ ڈالنے کی ایک زبردست چال ہے اور جیگا اس میں کامیاب ہو گیا۔ ہم ایک دوسرے پر شبہ کررے ہیں۔ جب آپس ہی میں ہم ایک دوسرے پر اطمینان نہیں کریں گے تو خود ختم ہو جائیں گے۔ مجھ سے آپ جیسی قسم چاہیں لے لیں، مگر میرا یقین کریں کہ میں یا امجد جیگا نہیں ہیں۔ آپ مالک یا جیک صاحب بھی جیگا نہیں ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی جیگا نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک چال ہے، آپ اسے سمجھئے اور غور کیجئے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔"

سوامی کی یہ بات جان کی سمجھ میں آگئی۔ وہ کافی دیر تک خاموش بیٹھا سوچتا رہا اور پھر آخر کار بولا:
"تم ٹھیک کہتے ہو سوامی۔ تم مجھے بھی معاف کرنا کہ میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ میں اپنے اوسان کھو بیٹھا تھا۔ نہ جانے میں کیا کر بیٹھتا افوہ۔۔۔ یہ مجھے کیا ہوگیا تھا کہ میں تم پر گولی چلانے لگا تھا۔"
آپس میں بڑی دیر تک اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں، جس جگہ ہم اس وقت تھے وہاں گرمی کم تھی۔ شاید یہ لاوے والے کھڈ سے دور ہونے کا اثر تھا۔ راستہ اب بھی ویسا ہی تھا۔ چھوٹے چھوٹے سرنگ نما غار ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ جہاں تک روشنی پہنچتی اور ہماری نظر کام کرتی ہمیں رنگ برنگے جگنو سے چمکتے ہوئے نظر آتے تھے۔ ہماری منزل کوئی نہ تھی۔ ہم خود نہیں چل رہے تھے بلکہ راستہ ہمیں جس طرف لے جارہا تھا اسی طرف جارہے تھے۔ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا تھا کہ راستہ آگے جاکر بند ہو جاتا تھا۔ یا بہت دشوار گزار ہو جاتا تھا یا پھر ایسا ہوتا تھا کہ راستہ آگے ٹوٹ جاتا تھا مطلب یہ کہ وہ ٹیڑھی میڑھی اونچی نیچی پگڈنڈی بیچ میں سے ٹوٹی ہوئی ملتی۔ درمیان میں ایک خلا پیدا ہو جاتا جو تقریباً دو یا تین گز کا ہوتا تھا۔ ہم اس خندق کو پار کرنے کے لئے کبھی کود کر اس طرف سے اس طرف جاتے۔ کبھی ایک آدمی پہلے کسی نہ کسی طرح دوسری طرف چلا جاتا اور رسی اس طرف پھینک دیتا۔ اس رسی کو ہم کسی نوکیلی چٹان سے باندھ دیتے اور پھر مداریوں کی طرح اس کو ہاتھوں سے پکڑ کر لٹکتے ہوئے خندق پار کرتے۔ یہ مشکلیں ایسی تھیں جنہوں نے ہمیں ادھ مرا کر دیا تھا۔ کھانے کا سامان بھی اب ختم ہونے لگا تھا۔ کمزوری بڑھتی جارہی تھی۔
جس حصے سے ہم اس وقت گزر رہے تھے وہاں سانپوں اور اژدہوں کی کثرت تھی۔ سانپوں کی تو ہمیں خیر زیادہ فکر نہ تھی۔ ہاں البتہ اژدہوں سے بے حد ڈر لگ رہا تھا۔ اب تک یہ اژدہے ہمیں ایک دو جگہ مل چکے تھے۔ ان کی لمبائی چالیس چالیس فٹ تک تھی اور درمیان میں سے یہ تقریباً دو گز موٹے تھے۔ ہمیں یہ عموماً گڑھوں ہی میں ملے۔ راستے میں پڑا ہوا ایک بھی نہ ملا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں راستہ اب دشوار گزار ہونے لگا تھا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہم اچانک کسی سرنگ کو پار کرکے کسی بہت بڑے ہال میں آ جاتے۔ اور کبھی اس ہال کو طے کرکے کسی سرنگ میں۔ ہمارا سفر اسی طرح برابر جاری تھااور اب ہم بھوک سے بے دم ہو رہے تھے۔

کچھ ہی دیر بعد ہم ایک ایسے ہال میں پہنچ گئے جہاں کا منظر ہی نرالا تھا۔ اس ہال کی چھت سے لٹکتی ہوئی مخروطی چٹانیں زمین کو چھو رہی تھیں اور ایسی چٹانیں یہاں بے شمار تھیں۔ ان چٹانوں میں جو چمکیلے پتھر چپٹے ہوئے تھے وہ مشعل کی روشنی میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگے۔ زمین میں جگہ جگہ گول سوراخ تھے اور ان سوراخوں میں سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی۔ عجیب جگہ تھی۔ یہاں ہمیں قدرتی پودے بھی کافی تعداد میں ملے۔ یہ پودے ان درختوں سے بالکل جدا تھے جو ہمیں پہلے مل چکے تھے۔ چٹانوں میں سے ایک طرف ایک چھوٹی سی آبشار گزر رہی تھی اور اس آبشار کا پانی زمین کی دراڑوں میں جا رہا تھا۔ ہمیں قدم قدم پر جکاریوں، زوکوں اور آدم خوروں کے آنے کا خدشہ تھا۔ اس لئے ہم ہر وقت چوکنے تھے۔
جان نے اس جگہ آرام سے بیٹھنے کے بعد کہا:
"فیروز، اب تو بھوک سے دم نکلا جا رہا ہے۔"
"کیا کروں انکل۔۔۔ میرے پاس اب تو کوئی پھل نہیں ہے۔"
"ابا جی۔۔ کیا ہم ان پودوں کو نہیں کھا سکتے۔ آپ دیکھئے ان پودوں کے پتے کتنے بڑے بڑے ہیں اور ان کے بیچ میں سرخ رنگ کا ایک پھل بھی لٹکا ہوا ہے۔"نجمہ نے کہا۔
"میں توڑ کر لے آؤں ابا جی۔۔؟" اختر نے کہا۔
"نہیں بابا۔۔۔ پتہ نہیں وہ پھل کیسا ہو۔ ہمیں اس جگہ زہریلے پھل بھی مل سکتے ہیں۔"سوامی نے اختر کو روکا۔
"پھر کیا کیا جائے۔ بھوک سے تو ہماری جان نکلی جا رہی ہے۔ "نجمہ نے آہستہ سے کہا۔


Novel "Kaali Dunya" by: Siraj Anwar - episode:13

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں