فتح کا لمحہ قریب آپہنچا ۔ اورنگ زیب کی فوجیں آہنی پھاٹکوں کو چیرکر قلعہ کی چوٹیوں تک پہنچنے والی تھیں۔ بہت بڑی کامیابی سامنے تھی ۔ بہت زیادہ مال و دولت ملنے والا تھا کہ اچانک اذان دینے والے نے آواز بلند کی اللہ اکبر اللہ ہی سب سے بڑا ہ ے۔ حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح نماز کی طرف آؤ ۔ کامیابی کی طرف آؤ ۔ لشکر نے آوا ز سنی تو سپاہی اس آواز کی طرف دوڑنے لگے ۔ عین اس وقت جب ان کی ہفتوں کی محنت کامیاب ہونے والی تھی، جب قلعہ اور قلعہ والے ان کی غلامی میں آنے والے تھے، اللہ کے یہ بندے اللہ کی غلامی کا اعلان کرنے کے لئے نماز کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔
آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہوکے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
عجیب منظر تھا ۔ صفیں بننے لگیں، کافر ح یران تھا۔ تانا شاہ اور اس کی فوجوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کچھ انسان ایسے بھی ہوسکتے ہیں جو شاہی خزانوں کے قریب پہنچ جائیں اور ان سے منہ موڑ کر ان دیکھے خدا کے حضور سر جھکا دیں۔ انہوں نے نماز کے دوران میں ہی مسلمانوں پر حملے کا پروگرام بنایا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ جیسے ہی نماز کی حالت میں نمازیوں پر تیروں کی بارش برسے گی صفیں ٹوٹ جائیں گی اور نمازی گھبرا کر چھپنے کی جگہ تلاش کریں گے ۔ تکبیر پڑھی گئی ۔ امام صاحب مصلے پر آگئے۔ قلعہ کی فصیل سے ایک تیر آیا اور امام صاحب کے جگر میں لگا۔ امام کی لاش جائے نماز کے کنارے پر گری۔ ایک لمحہ بھی نہ گزرا تھا کہ دوسرا امام صف سے نکل کر خدا کے نام پر قربان ہونے کے لئے آکھڑ ہوا۔تانا شاہ اور اس کے سپاہی حیرت کے مارے بت بنے کھڑے تھے۔ دوسرا تیر کمان سے نکلا اور دوسرا امام بھی شہید ہوگیا ۔ ایک لمحے کے لئے مصلی خالی رہ گیا۔ تیسرا امام کون بنے گا؟ کون جانتے بوجھتے اپنی موت کو آواز دے گا ؟ سب یہی سوچ رہے تھے ۔ تانا شاہ اور تیر برسانے والے سپاہی اس انتظار میں تھے کہ ان کے تیروں کا نشانہ کون بنے گا؟ قلعہ کی فصیل پر کھڑے تانا شاہ اور اس کے سپاہیوں نے فخر سے بھرپور ایک بلند قہقہہ لگایا کہ شاید ایمان والے ڈر گئے ۔ مگر یہ کیا۔ دوسرے ہی لمحے ان کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ تیر اور کمانیں ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر آگریں۔ ان کی آنکھوں نے یہ حیران کردینے والا منظر دیکھا کہ یقینی موت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والا کوئی عام سپاہی نہیں بلکہ ہندوستان کا بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر خود تھا ۔ ہندوستان کے بادشاہ نے اپنی جان سب جہانوں کے بادشاہ پر قربان کردینے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا ۔ تانا شاہ اور اس کی فوج کے دل جو نفرت سے بھرے ہوئے تھے یہ منظر دیکھ کر عقیدت سے بھر گئے ۔
تانا شاہ چیخ اٹھا:
"نہیں"
"۔۔۔شہنشاہ پر کوئی تیر نہیں چلایاجائے ۔ یہ انسان نہیں دیوتا ہے"۔
لیکن شہنشاہ نے پوری جماعت کے ساتھ خدا کے حضور سجد ہ کرتے ہوئے گویا یہ اعلان کیا کہ وہ دیوتا نہیں صرف انسان ہے۔ خدا کا ایک عاجز بندہ اور کمزور انسان۔
ماخوذ: کتاب 'پتھر کا شہر، پتھر کے لوگ'
مصنف: آغا اشرف
مصنف: آغا اشرف
A glimpse from History of Golkonda empire. Article: Agha Ashraf
زبردست دین و ایمان رکھتے تھے حضرت مالانا اورنگزیب رحمة اللہ علیہ۔
جواب دیںحذف کریںشاہجہاںکو قید کیا بھاٸیو کو قتل اور جو جو ریشہ دواناں گولکنڈہ کی حکومت گرانے کیں صرف سو سال کے اندر انگریزوں نے لال قلعہ میں کیا