حیدرآباد - تاریخ کے آئینہ میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-13

حیدرآباد - تاریخ کے آئینہ میں

hyderabad-history-glimpse

400 سال گزر جانے کے بعد بھی یہاں قدم قدم پر تاریخ بولتی ہے۔ یہاں کے ذرہ ذرہ سے بتوں کی خوشبو آتی ہے۔ قلعہ گولکنڈہ اپنے سیاہ پتھروں سے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے فوجی حملے کی داستان بیان کر رہا ہے۔ اس کے در و دیوار میں شاہوں ، ملکاؤں، شہزادوں، امراؤں، سپہ سالاروں کی آوازیں پیوست ہیں۔ قطب شاہ کی رنگین شاعری سبزہ زاروں میں سانس لے رہی ہے۔ سیاح اپنی چھٹی حس سے محسوس کرتے ہوں گے۔ وہ عاشور خانے موجود ہیں جہاں قطب شاہوں نے چراغاں کیا تھا۔ بی بی کے علم کی روایت آج بھی زندہ ہے۔ عالی شان مکہ مسجد، سر بلند چار مینار صدیوں سے اپنی دلچسپ کہانی سنا رہے ہیں۔ آج بھی وہ شاد و آباد ہیں۔
مغلوں کے سیاسی جانشین آصف جاہوں کی تاریخی یادگاریں گزرے ہوئے شب و روز کا حال کہہ رہی ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں بےمثال رہیں۔ جامعہ عثمانیہ کی حسین و جمیل عمارت اہرام مصر کو چیلنج کر رہی ہے۔ شاہوں کے مقبروں میں ان کا دبدبہ بول رہا ہے۔
حیدرآباد کے بدلتے چہرے کو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کی آنکھوں میں گزشتہ عہد کی پرچھائیاں صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں کے نوابوں نے علم و ہنر کی دل کھول کر سرپرستی کی، سالار جنگ اول کی علم دوستی چہار دنگ عالم میں مشہور تھی۔ آپ نے سرسید کی علی گڑھ یونیورسٹی سے کئی تعلیم یافتہ ہستیوں کو ریاست کے نظم و نسق میں شامل کیا۔ ان کی دیوان ڈیوڑھی، سیاسی ، سماجی ،تہذیبی سرگرمیوں کا گہوارہ رہی۔ جب نواب یوسف علی خان ریاست کے دیوان مقرر ہوئے تو کسی شاعر نے انہیں یوں خراج عقیدت پیش کیا تھا:
زلیخا ین کے دیوانی مرے یوسف کے گھر آئی

آزادی کے بعد ان کا عجائب خانہ دیوان ڈیوڑھی ہی میں رکھا گیا تھا۔ بعد میں اسے نئے پل کے قریب نئی عمارت میں سجایا گیا۔ وہ فلک نما، جہاں چھٹے حکمراں میر محبوب علی خان نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا، اب وہ ستارہ ہوٹل بن چکی ہے۔
خلوت قابل دید و ستائش عمارت ہے۔ لاڑ بازار ہمہ ہمی اور حسن و جمال میں الف لیلہ کے بازار سے کم ہیں۔ حیدرآباد کے اصلی باشندوں کی وضع داری، آداب و شرافت میں اگلے زمانوں کی روشنی ملتی ہے۔ ان کا اخلاص، انکساری ، بات چیت کا انداز دل موہ لینے والا ہوتا ہے۔ وہ مشرقی کلچر کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے حیدرآبادی کھانے لذیذ ہی نہیں ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔
فرنگیوں کے دور میں اور آزاد بھارت میں بھی حیدرآباد ایک اہم ترین اسٹیٹ رہا۔ مشہور صحافی ڈی۔ ایف۔ کراکا [D. F. Karaka] نے تو آخری تاجدار میر عثمان علی خان بہادر پر The Fabulous Mogul جیسی نادر و نایاب کتاب لکھی۔ ان کی نسلی جڑیں مغلوں کی طرح ماورائے نہر کے بجائے ترکستان میں تھیں۔ دنیا کے کسی بادشاہ نے، بشمول اکبر اعظم کے، اہل ہنود اور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھیں نہیں کہا۔ اسے پہلی دفعہ اعلی حضرت میر عثمان علی خاں نے فروغ دیا۔ ان کا صدق دل سے اس پر ایقان رہا۔

حیدرآباد کا بزور طاقت خاتمہ کیا گیا۔ تاریخ اس کی شاہد ہے۔ زوال مملکت آصفیہ کے بعد بھی حیدرآبادیوں میں وہی چمک دمک، آن بان، شان و شوکت باقی رہی۔ اردو کے ہردلعزیز شاعر جگر مرادآبادی نے یہ شعر شاید حیدرآبادیوں کے لئے کہا ہوگا:
ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

آج حیدرآباد تاریخی شعور کے ساتھ تعمیر نو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ اس کے قدم تیزی سے ترقی کے زینے طئے کر رہے ہیں۔ آخری فرمانروا کے پوتے شہنشاہ ہمایوں کی طرح جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمایوں 17 برس کی در بدری کے بعد ہندوستان واپس آ سکا تھا۔ یہاں آثار و قرائن مختلف ہیں۔ مکرم جاہ کی واپسی کے امکانات موہوم ہیں۔ وہ گوشہ کمنامی میں جا چکے ہیں۔ ان کا نام تاریخ کے اوراق میں رہے گا۔
آج بھی گزشتہ حیدرآباد پر انگریزی و اردو میں کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ آج بھی پولیس ایکشن کی روداد بیان کی جاتی ہے۔ آج بھی حضور نظام کے یوم ولادت کو نہایت تزک و احتشام، عزت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ ان کے کارناموں پر گفتگو کی جاتی ہے۔ کمیونسٹوں، کانگریسیوں، آریا سماجیوں کی مخالف شاہی تحریک کے باوجود حیدرآبادیوں کے دلوں میں حضور نظام کی بے پناہ عظمت و حرمت قائم و دائم ہے۔ ان کی نیک نامی آفتاب کی طرح چمک رہی ہے۔ حیدرآباد کے ایوانوں اور راستوں پر تاریخ کھڑی ہے۔ اس سے دامن بچا کے چلنا دشوار ہے۔ تاریخی یادیں لوگوں کے حافظہ میں اتر چکی ہیں۔ مدتوں بعد بھی حیدرآباد تاریخ کی بانہوں میں جھول رہا ہے۔ کون کہتا ہے کہ تاریخ کا سفر ختم ہو چکا ہے۔ اس کا سفر تو جاری و ساری ہے۔

چارمینار، مکہ مسجد ، سالار جنگ میوزیم ، گولکنڈہ اور سات گنبدان [Seven Tombs] کے مشاہدہ کیلئے ملکی و غیرملکی باشندوں کا لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جب سے ریاست کے وزیر اعلی چندرشیکھر راو نے 15/اگسٹ کی صبح گولکنڈے کی فصیل سے پرچم کشائی کی شروعات کی ہے، تب سے سیاحت کے پرستاروں کی تعداد میں کثیر اضافہ ہوا ہے۔ قلعہ کے سبزہ زاروں پر اک ہجوم ہے کراں رہتا ہے۔ اورنگ زیب کی توپوں کی یورش میں متاثر ہونے کے باوجود قلعہ کی شناخت یا کشش میں کمی نہیں آئی۔
سالار جنگ میوزیم تو تیسرے سالار جنگ نواب میر یوسف علی خان کے شخصی نادر و نایاب کلکشن کا انمول خزانہ ہے۔ جسے دیکھنے سارا ہندوستان امڈ پڑتا ہے۔ ساری دنیا میں کہیں بھی شخص واحد کا بنایا ہوا کوئی میوزیم نہیں ہے۔
سالارجنگ فیملی کے حیدرآباد شہر پر بہت احسانات ہیں۔ ان کے تذکرہ کیلئے اوراق کم پڑ جاتے ہیں۔ دوسرے سالار جنگ نواب میر لائق علی کے دور میں ریاست کی سرکاری زبان بنائی گئی۔ انہی کے عہد میں دیوانی و فوجداری عدالتوں کے قوانین کی پھر سے تدوین کی گئی۔ میر لائق علی نے متعد دفعہ دربار شاہی کے آداب کو توڑا اور محبوب علی پاشاہ کی دل آزاری کا سبب بنے۔ ایک بار وہ حضور کے سامنے سگریٹ پینے لگے۔ ایک دفعہ بادشاہ وقت کے سامنے شب خوابی کے لباس میں آ گئے۔ ایک اور وقت سالار جنگ دوم کرسی پر بیٹھے ٹانگ پر ٹائنگ ڈالے سگریٹ کے کش لینے لگے۔ ان سب حیرت انگیز باتوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ بادشاہ عصر کے ہم جماعت تھے۔ اور اسی غیر رسمی انداز میں اپنے بچپن کے دوست کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔ ان لغزشوں کی پاداش میں محبوب علی پاشاہ نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ کم عمر بادشاہ نے ایسا قدم اپنے استاد سرور الملک کی ایما پر اٹھایا۔ اسی زمانے میں جیکب ڈائمنڈ کی چوری کا واقعہ پیش آیا، محبوب علی پاشاہ کو کمیشن کے آگے حاضر ہونا پڑا۔ اپنا بیان قلمبند کروانا پڑا۔ یہ پادشاہی کے شایان شان بات نہیں تھی۔ اسی لئے قانون چہ مبارک تشکیل دیا گیا۔ اس میں دیوان یعنی پرائم منسٹر کے اختیارات و دائرہ کار کی وضاحت کر دی گئی۔ حد بندی کر دی گئی تاکہ مستقبل میں ایسے بدنما واقعات رونما نہ ہونے پائیں۔
حیدرآباد کی تاریخ کے مختلف ادوار نہایت دلچسپ اور تعجب خیز ہیں۔ ان سے آگہی قلب و ذہن کو سکون و قرار دیتی ہے۔ تاریخ شناسی میں مدد کرتی ہے۔

***
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 13/اکتوبر 2019۔

A glimpse of Hyderabad History.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں