حیدرآباد دکن کے آثار قدیمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-04-02

حیدرآباد دکن کے آثار قدیمہ

hyderabad-deccan-archives

آج ساری دنیا اپنی وراثت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ ہمارے ملک میں وراثت کا نیلام ہوتا ہے۔
فرانس میں میری انتونی کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا کہ اس کی تمام چیزیں انقلاب کے بعد نیلام کی گئیں، اس کا ایک ٹیبل سالار جنگ میوزیم کی زینت بنا ہوا ہے۔
حیدرآباد دکن، اورنگ زیب کے حملے سے پہلے قطب شاہوں کی عظمت کا مظہر تھا۔ مغلوں کی آمد کے بعد آصف جاہی سلطنت قائم ہوئی ، اگرچہ کہ آصف جاہ نظام پنجم تک حکومت روہیلوں اور مارواڑیوں کے بل بوتے پر چلتی رہی مگر سالار جنگ اول یعنی میر تراب علی خاں مختار الملک نے اسے آزاد کروا لیا اور تیس برس کی شاندار مدار المہامی کے دور میں حیدرآباد کو خود مکتفی بنا لیا۔ اس دور میں لوگوں کو نوادرات کا شوق تھا، اکثر امرا، جاگیردار شراب نوشی ، ناچ گانا وغیرہ پر خرچ کیا کرتے تھے ، ساتھ ہی ساتھ مخطوطات اور نوادرات کا بھی انہیں شوق تھا۔
اگر آزادی کے فوری بعد ان جاگیرداروں اور نوابوں کے محلوں کا سروے کیا جاتا تو آج حیدرآباد، نوادرات کا اہم مرکز ہوتا۔ ہم نے تو مہاراجہ سر کشن پرشاد کے نوادرات کی حفاظت کی اور نہ ہی پایگاه والوں کی۔ لے د ے کر ایک سالار جنگ کے نوادرات بچا لیے گئے۔ اس میں بھی پچاس سے زیادہ ورثا کو ان کا حصہ دینے کے لیے نیلام کر دیا گیا۔ بچا کچا بھی گرے ہاتھی کی قیمت رکھتا ہے مگر اس کی بھی حالت دگرگوں ہے۔ کیوں کہ ارباب اقتدار کی آرٹ میوزیم کی نوعیت اور حفاظت سے لاعلمی نے بیشتر قلمی تصویروں کو تقریبا ختم کر دیا ہے۔

ان حالات میں ایک خبر نیویارک سے آتی ہے کہ دس برس کی کوششوں سے میٹرو پالیٹن میوزیم نیویارک نے ایک نمائش [#DeccanSultans] کا انعقاد کیا جس میں 1500-1700ء کے نادر نمونوں کو "سلطان آف دکن - انڈیا" کا عنوان دیا گیا۔ اس کے لیے دس برس تک نجات حیدر اور ماریکا سردار نے محنت کی اور دنیا بھر سے دکن کے نوادرات جمع کیے۔ بیچا پور کے محکمہ آثار قدیمہ سے نمائش کے لیے حاصل کیا ہوا ایک نایاب نمونہ ہے، یہ ایک ہی پتھر میں تراشا گیا ہے۔ یہ ایسا غیر معمولی نمونہ ہے جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آ رہے ہیں۔ دوسرا نمونہ ایک طغره ہے جو وکٹوریہ البرٹ میوزیم لندن سے حاصل کیا گیا ، بہ طفره ایک عقاب ہے جو کسی علم کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ موتیوں کا کنٹھا (ہار ) جو نیویارک کے ایک خاندان سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کنٹھے کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس کے سبھی موتی ایک ہی سائز کے ہیں۔ اس طرح کے موتی جمع کرنے کے لیے کافی وقت اور نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک اور خاندان سے نیویارک میں دو طرہ حاصل کیے ہیں ، آم کی شکل کے، سونے میں ہیروں اور یاقوت سے جڑے یہ طرے دو سو برس پہلے کی کاریگری کے خاص نمونے ہیں۔ جوتوں کی جوڑی جو صرف سپاہیوں کے لیے مخصوص تھی ، اس کو لندن کے نوادرات کے شوقین سے مستعار لیا گیا ہے۔
ایک بڑا سا ہیرا ہے، جسے آگرہ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے تھائی کے ایک ذخیرے سے حاصل کیا گیا ہے۔ ایک لاکٹ ہے جو بہت نایاب ہے۔ ایک دیوی کی آنکھ کی شکل کا ہیرا ہے جو تھائی کے نوادرات کے شائق سے حاصل کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ کئی نایاب قلمی تصاویر ہیں جن میں ایک درخت کی تصویر ہے اور دوسری ابوالحسن تاناشاہ کی تصویر ہے۔ درخت کی تصویر کسی داستاں کی مرصع تصاویر ہیں۔ کیونکہ واق واق نامی ایک درخت کسی جزیرے پر ہے، کہتے ہیں کہ اس کے پھلوں کی حفاظت جن کرتے ہیں، یہ پھل سونے کے ہیں، اس کو برلن سے حاصل کیا گیا ہے۔

یہ تو کچھ نمونوں کا ذکر ہے، اس طرح کے کئی اور نادر نمونے ہیں، ان کا جمع کرنا اور ان کو اس طرح نمائش کے لیے رکھنا کافی جوکھم کا کام ہے مگر دس برس کی انتھک محنت سے اس وراثت کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔
اب دوسری طرف یہ ہے کہ ہمارے کئی نادر نمونے بیرون ملک بیچ دئے جا رہے ہیں اورر جو عجائب گھروں میں ہیں ان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہر تاریخی جگہ کا استحصال کیا جارہا ہے، جامعہ عثمانیہ کی بنیاد ، ماہ لقا بائی چندا کی جاگیر پر رکھی گئی تھی جنہوں نے عورتوں کو تعلیم دلانے کے ایک کروڑ روپے چھوڑے تھے۔

تلنگانہ کے قلعے زبردست تھے۔ ان قلعوں نے مغلوں کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے ، آج ان قلعوں کی حالت دگرگوں ہے۔ قاضی پیٹ جنکشن سے دکھائی دینے والا غیر معمولی قلعہ جو ایک بڑے پتھر پر ہے اس کی شکستہ سیڑھیاں بتاتی ہیں کہ قلعہ پر جانے کا یہ راستہ ہے ۔ ورنگل کا قلعہ بھی برباد ہو گیا ہے، اس کے ٹکڑے ٹکڑے جمع کر کے میوزیم کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہم نے ہر بار یہ کہا ہے کہ آندھرا کے حکمرانوں نے ہم سے ہمارا کلچر چھین لیا ہے مگر دل پر ہاتھ رکھ کر سوچ لیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ عجیب عجیب منصوبے بنائے جا رہے ہیں، کبھی کبھی تو شک ہوتا ہے کہ کیا شیخ چلی ہمارے شہر میں پھر سے پیدا ہو گیا ہے؟ حکومت صرف اشتہاری بن کر رہ گئی ہے، جو وقتاً فوقتاً اشتہارات دیکھنے میں آتے ہیں، ان میں وزراء اور ایم ایل اے کی سالگرہ کی تصاویر یا پھر بونال کے تہوار پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ہم کو جو بتکما دکھا رہے ہیں ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دن وہ بات بھی دیکھیں گے جو کبھی ملک یا شہر نے نہ دیکھی ہو۔

بہتر یہ ہوگا کہ سب سے پہلے ہم عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کا عہد کریں، بعد میں سوچیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟


***
بشکریہ: روزنامہ "منصف" (آئینۂ شہر سپلیمنٹ، 19/مارچ 2020)

The Archives of Nizam's Hyderabad. Article: Udesh Rani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں