ہند و پاک کے ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-27

ہند و پاک کے ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا انتقال

mujtaba-hussain

اردو دنیا کے مشہور و مقبول مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین آج بروز بدھ 27/مئی 2020 ، صبح 9 بجے کے قریب حیدرآباد (انڈیا) میں بعمر 84 سال انتقال کر گئے۔
مرحوم کے قریبی ذرائع کے مطابق، حیدرآباد کے سن سٹی میں واقع مجتبی حسین کے بڑے فرزند ہادی حسین انجینئر کی قیامگاہ پر آج صبح انہوں نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔

مجتبیٰ حسین کی پیدائش 15/ جولائی 1936ء کو گلبرگہ (کرناٹک) میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے گھر ہی پر حاصل کی، بعد ازاں 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ شعوری عمر سے ہی انہیں طنز و مزاح کی تحریروں کا ذوق ہو چلا تھا جس کی تکمیل کے لیے وہ روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد) سے وابستہ ہو گئے اور وہیں سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔
سال 1962ء میں انہوں نے محکمہ اطلاعات میں ملازمت کا آغاز کیا۔ 1972 میں دہلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ دہلی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں سبکدوش ہو کر دہلی سے حیدرآباد واپس ہو گئے۔ مجتبیٰ حسین ہندوستان کے ایسے پہلے طنز و مزاح کے ادیب ہیں جن کو حکومت ہند نے 2007 میں بحیثیت مزاح نگار "پدم شری" کے باوقار اعزاز سے نوازا۔
مجتبیٰ حسین کے مضامین پر مشتمل 22 سے زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی سات کتابیں ہندی زبان میں بھی اشاعت پذیر ہویئں۔ جاپانی اور اڑیہ زبان میں بھی ایک ایک کتاب شائع کی گئی۔ انہیں 10 سے زائد ایوارڈز حاصل ہوئے جن میں غالب ایوارڈ، مخدوم ایوارڈ، کنور مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ، جوہر قریشی ایوارڈ اور میر تقی میر ایوارڈ شامل ہیں۔ ان کی طویل خدمات کے اعتراف میں کرناٹک کی گلبرگہ یونیورسٹی نے انہیں 2010ء میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا تھا۔

مجتبی حسین کے انتقال کی خبر سے ملک کے ادبی وصحافتی حلقوں میں غم واندوہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مختلف ادبی، سماجی اور دیگر تنظیموں سے وابستہ اہم شخصیات نے مجتبی حسین کی خدمات کو یاد کیا اور انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
معروف ادیب اور شاعر پروفیسر مظفر حنفی نے مجتبی حسین کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے انتقال سے ان کو دلی صدمہ پہنچا ہے اور طنزو مزاح کے میدان ایسا خلاء پیدا ہو گیا ہے جس کا پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ مجتبٰی حسین کی وفات اردو کا بہت بڑا نقصان ہے جو کبھی بھرا نہیں جا سکتا۔ اس نازک وقت میں جب اردو کی خدمت اور اردو پڑھنے لکھنے سے لوگ دور ہوتے جا رہے ہیں مجتبٰی کا جانا میرا ذاتی نقصان ہے۔

کتابی سلسلہ "اثبات" کے مدیر اشعر نجمی نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر لکھا ہے کہ۔۔
"آپ میری آواز سے دھوکہ نہ کھائیے، ملک الموت بھی اسی دھوکے میں ہے کہ میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔"
مجتبیٰ صاحب کی پاٹ دار آواز دوسری طرف سے سنائی دی۔ یہ میری ان سے فون پر آخری گفتگو تھی۔ ہر شمارے کی طرح جب انھیں "احیائے مذاہب" موصول ہوا تھا تو انھوں نے مجھے فون کیا تھا۔ کہنے لگے، "آپ پہلے عہد ساز، تاریخ ساز اور ادب ساز رسالہ نکالتے تھے، اس بار جلد ساز نکال بھی نکال دیا جو مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔"پھر ہر بار کی طرح ملاقات کی خواہش کا اظہار کرنے لگے اور کہا کہ آپ کو حیدرآباد بلانے کے لیے کوئی سبیل نکالتا ہوں۔ حالاں کہ انھوں نے 2011 میں ایک بار اس کی کوشش کی تھی، "اردو کیمپس" کے حیدرآباد میں اجرا کے لیے انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں انتظام تو کردیا لیکن عین وقت پر انھیں دہلی جانا پڑگیا۔ فون پر ہی لوگوں کو میرے قیام اور پروگرام کے تعلق سے ہدایات دیتے رہے اور دوسری جانب مجھے بار بار فون کرکے اپنی موجودگی کا احساس بھی دلاتے رہے۔
مجتبیٰ صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات غالباً 2010 میں جمشید پور میں ہوئی تھی جہاں انھیں "امیر خسرو ایوارڈ" دیا جانے والا تھا۔ میں بھی مجتبیٰ حسین کے بہانے دس سال بعد اپنے وطن گیا تھا۔مجھ سے مل کر انھوں نے حیرت کا اظہار کیا چونکہ انھیں میری تحریروں سے لگا تھا میں کوئی صحت مند باریش بزرگ ہوں گا۔ خیر، پروگرام میں کئی روایتی مقررین اور "واعظین" کے بعد میں نے مجتبیٰ صاحب اور امیرخسرو ایوارڈ کا ادبی رشتہ جوڑنے کی تھوڑی سی کوشش کی، پتہ نہیں کامیاب ہوا یا نہیں لیکن مجتبیٰ صاحب جب مائیک پر آئے تو وہ دوران گفتگو بار بار موضوع سے بھٹک کر مجھے "شترگربہ" کی طرح استعمال کرنے لگے اور میں اسٹیج پر بیٹھا اس طرح لجانے لگا جیسے یہ میری 'نتھ اترائی' کی تقریب ہو۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب انھوں نے بعد میں فاروقی صاحب کو فون کرکے کہا، "اشعرنجمی اکیلا کافی ہے نارنگ صاحب سے کشتی لڑنے کے لیے۔" مجتبیٰ صاحب کا طنز اسی طرح کا ملیح ہوتا تھا۔ "سرقہ نمبر" پر انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا، "آپ سے شکایت یہ ہے کہ سارقین کی اس معزز ٹولی میں مجھے شریک نہیں کیا، اگر میرا اعمال نامہ اتنا کورا ہے تو آپ کہتے، میں بھی ایک آدھ سرقہ کرکے ان بزرگوں کے ساتھ ہوجاتا۔"
آج جب کہ سماجی، سیاسی حتیٰ کہ ادبی معاشرہ مسکراہٹ اور شگفتگی کی ویران چوکھٹ پر بھیک مانگ رہا ہو، ایسے میں مجتبیٰ حسین نام کی پوری محفل کا اٹھ جانا اچھا شگون نہیں ہے۔

ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی اپنی فیس بک ٹائم لائن پر لکھتے ہیں ۔۔۔
مجتبیٰ حسین، آرام نہیں کر پائے
ابھی چند روز ہی کی تو بات ہے، جب میں نے اپنے فیس بک دوستوں کو مجتبیٰ حسین کی شدید علالت کی اطلاع دی تھی۔ وہ رمضان کے اوائل میں شدید بیماری کی وجہ سے اپنے گھر سے بیٹے کے گھر منتقل ہوئے تھے۔ میں نے تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ وہ شدید کمزوری اور یادداشت میں کمی کے سبب بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اوراب تنہا ئی میں رہ کر بس آرام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لئے یہ خبر خاصی پریشان کن تھی، کیونکہ میں نے انھیں کبھی آرام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ہر وقت بے آرامی کی حالت میں رہ کر اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔ میں خود کو ان کے دوستوں میں تو شمار نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مجھ سے عمر میں کوئی 27 سال بڑے تھے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اکثر مجھے فون کرکے میری اور دہلی کے دیگردوستوں کی خیریت دریافت کرتے تھے اور اس دہلی کا حال چال بھی پوچھتے تھے، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا۔ وہ این سی آرٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد جسمانی طور پرحیدرآباد ضرور منتقل ہوگئے تھے، لیکن ان کا دل اسی دہلی میں پڑا رہتا تھا، جسے لوگ دل والوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔
مجتبیٰ حسین نے بڑی سرگرم اور متنوع زندگی گذاری، لیکن گھٹنے کا آپریشن کرانے کے بعد ان کی زندگی بس موبائل فون تک سمٹ کررہ گئی تھی۔گھٹنے کا آپریشن کا میاب نہیں ہوسکا اور وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہوگئے۔ان کی جسمانی کمزوری اور نقاہت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور آخروہ بالکل صاحب فراش ہوگئے۔
پچھلے سال جب انھیں دہلی اردو اکادمی نے اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفرایوارڈ سے نوازا تو اس کی اطلاع سب سے پہلے میں نے ہی انھیں دی۔ انھیں اس خبر پریقین نہیں آیا، کیونکہ برسوں سے ان کا یہ حق مارا جارہا تھا۔ وہ اپنی بیماری اور معذوری کے باوجود یہ ایوارڈ وصول کرنے دہلی آئے اور بہت خوش ہوئے۔ یہ ان کا دہلی کا آخری سفر تھا۔حالانکہ ایوارڈوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ ایک زندہ ضمیر والے انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پچھلے دنوں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج اپنا ’پدم شری ایوارڈ‘ حکومت کو واپس کردیاتھا، جو 2007 میں انھیں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے بڑے چاؤ سے پیش کیا تھا۔وہ موجودہ حالات سے بہت دل برداشتہ تھے اور انھوں نے فون پر اپنے اس درد و کرب کو مجھ سے ساجھا کیا تھا۔ مجتبیٰ حسین بہت زندہ دل آدمی تھے۔ طنزومزاح کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی ا ورمجتبیٰ حسین برصغیر کے دو قدآور قلم کار تھے اور اب یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔البتہ عطاء الحق قاسمی نے اس فن کا علم مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔
مزاح نگاروں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور نگارشات کی حدتک ہی لطف اندوز ہونے کا موقع دیتے ہیں جبکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں خاصے سنجیدہ نظرآتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ذاتی زندگی میں اپنی طنز ومزاح سے بھرپور تحریروں سے زیادہ بڑے مزاح نگار تھے۔ان سے گھنٹوں دلچسپ گفتگو ہوتی تھی اور وہ نئے نئے لطیفے سناتے تھے۔
کافی دنوں کی بات ہے کہ مجتبیٰ حسین صاحب سے دہلی کی ایک سیاسی افطار پارٹی میں ملاقات ہوئی۔ وہاں ’’روزہ داروں‘‘ کا ایک ہجوم بے کراں موجود تھا۔مجتبیٰ صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا کہ جب آپ یہاں سے روانہ ہوں تو مجھے بھی ساتھ لے لیں، کیونکہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے۔ ان کا اور میرا روٹ ایک ہی تھا۔ افطار پارٹی ختم ہونے کے بعد مجتبیٰ صاحب مجھے اور میں ان کو ڈھونڈتا رہا۔ موبائل کا زمانہ نہیں تھا کہ ایک دوسرے کوپکڑ سکیں۔ کافی دیر کی مشقت کے بعد جب ہم دونوں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو مجتبیٰ صاحب کا بے ساختہ جملہ یہ تھا:
"ایک معصوم کو ڈھونڈنے کے لئے کتنے گناہ گاروں سے ملنا پڑا۔"
مجتبیٰ صاحب سے اپنی سینکڑوں ملاقاتوں کو یاد کرتا ہوں تو ان کی بے شمار یادیں ذہن میں کروٹیں بدلنے لگتی ہیں۔مجتبیٰ صاحب کی خوبی یہ تھی کہ اپنے ہم نشینوں کو کبھی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔انھوں نے اپنے آخری وقت میں دنیا اور دنیا والوں سے کٹ کر آرام کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا،وہ میری نظر میں صحیح نہیں تھا اور شاید ان کا یہ فیصلہ ہی ان پر بھاری پڑا۔ میری دعا ہے کہ خدا ان کو قبر کی منزلوں کو آسان فرمائے اور وہ حقیقی معنوں میں آرام کی نیند سوسکیں۔

مغربی بنگال کے ممتاز شاعر احمد کمال حشمی نے لکھا:
آہ! مجتبیٰ حسین
علم و ادب کا ایک ستون اور گر گیا
ہر سمت گونجتی ہے صدا آہ آہ کی
سب کو ہنسانے والا ہی سب کو رلا گیا
دنیا اداس ہو گئی طنز و مزاح کی

مشہور افسانہ نگار اور بہار اردو اکادمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری نے لکھا ہے۔۔۔
پدم شری مجتبیٰ حسین طنز و ظرافت کے آخری تاجدار تھے ان کے ساتھ ایک سنہرے عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ ان سے پہلی ملاقات 1975 میں ہوئی تھی جب وہ شفیع مشہدی کے افسانوی مجموعہ "شاخِ لہو" کا اجرا کرنے پٹنہ تشریف لاٸے تھے۔ ان کے پہلے جملے نے وہ داد بٹوری کہ محفل لالہ زار ہوگئی۔ انہوں نے کہا :
"میں شفیع مشہدی کو تب سے جانتا ہوں جب وہ س۔ش۔مشہدی کے نام سے کچھ عین غین قسم کی کہانیاں لکھا کرتے تھے "
بعد میں کئی تفصیلی ملاقاتیں رہیں۔ آخری ملاقات 2018 میں ہوئی جب بہار اردو اکادمی نے انہیں ایک لاکھ ایک ہزار کے ایوارڈ سے نوازا۔ بیماری کی وجہ سے وہ تشریف نہیں لا سکے۔ حیدرآباد میں انہوں نے وہ پذیرائی کی کہ بیان سے باہر ہے۔ ان کی کار ہر گھڑی میرے لٸے تیار رہتی جس کی مدد سے میں مظہر الزماں خان اور محمد یٰسین کی مزاج پرسی کو جا سکا۔ ایک دن لنچ پر اپنے گھر مدعو کیا اور انیکوں سالن کے ساتھ ان کی بیگم نے بیگن بگھار سے ضیافت کی۔ انہوں نے پروفیسر بیگ احساس کی صدارت میں میرے اعزاز میں ایک فنکشن بھی کیا۔ انہوں نے اپنی کٸی کتابیں بھی عنایت کیں انتہا یہ ہے انہوں نے میرے ہوٹل کا بل بھی مجھے ادا نہیں کرنے دیا۔
نثری طنز و مزاح کے وہ شہنشاہ تھے اور بات سے بات پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ہند و پاک میں وہ ظرافت کے آخری تاجدار تھے، ان کی جگہ آسانی سے نہیں بھری جاٸےگی۔ ان کی درجنوں کتابیں اس بات کی دلیل کے لٸے کافی ہیں۔ مجتبی کے یہاں پھوہڑ پن نہیں تھا ان کا مزاح ایسا تھا کہ آپ زیرلب تبسم پر مجبور ہو جاٸیں۔ کبھی کبھی ان کی تحریر کی شوخی قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتی تھی۔ان کا جاپان کا سفر نامہ غضب کا ہے ہرسطر مسکرانے پر مجبور کرتی ہے۔
وہ برابر فون کرتے اور خیریت دریافت کرتے۔ اب ایسی بے لوث محبت کرنے والے لوگ نہیں رہے۔ ان کی رحلت نے ایسا سوگوار کیا ہے کہ بتا نہیں سکتا۔ اللہ ان کی مغفرت فرماٸے۔

نایاب حسن نے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر لکھا ہے۔۔۔
ہندوستان میں مزاح نگاری کے امام مجتبی حسین کا لگ بھگ چوراسی سال کی عمر میں آج انتقال ہو گیا۔ وہ تن تنہا ایک انجمن ،ایک ادارہ اور ایک عہد تھے ،ان کی تحریروں میں بے پناہ دلکشی ہوتی تھی اور ان کے طنز میں پر لطف خرد افروزی۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ،اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور کئی نسلیں ان سے فیضیاب ہوئیں۔ انھوں نے اردو طنز و مزاح کو اپنی شگفتہ و شایستہ نگاری سے مالا مال کیا اور ان کے مزاحیہ مضامین ،خاکوں، سفرناموں اور کالموں کے لگ بھگ دو درجن مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے خاکوں کا ایک مجموعہ "چہرہ در چہرہ" کے نام سے 1993 میں چھپا تھا۔ اس میں مجتبی صاحب نے "اپنی یاد میں" کے زیرِ عنوان خود اپنے اوپر ایک دلچسپ تعزیتی مضمون لکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:
جاپان چلو جاپان چلو - مجتبی حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
چہرہ در چہرہ - شخصی خاکے از مجتبیٰ حسین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
مجتبیٰ حسین کے سفرنامے - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
بیگ احساس تم ہی ہو - مضمون از مجتبیٰ حسین

Noted Urdu satirist Mujtaba Hussain passes away in Hyderabad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں