وقت بھی کیا ظالم چیز ہے، پروفیسر بیگ احساس جیسے سدا بہار جوان رعنا کو بھی بالآخر ریٹائر کر دیتا ہے حالانکہ بیگ احساس اور ریٹائرمنٹ دو متضاد باتیں ہیں۔ جو لوگ بیگ احساس کو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر کی حیثیت سے جانتے ہیں وہ تو ان کے پروفیسر ہونے کے سانحہ کو ہنسی خوشی برداشت کر لیتے ہیں لیکن جو لوگ انھیں شخصی طور پر نہیں جانتے وہ یونیورسٹی کے ماحول میں بیگ احساس کو دیکھ کر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ موصوف یقیناً ایم فل یا پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔
میری زندگی میں دو ہی دوست ایسے ہیں جنہیں قدرت نے تھرموس میں رکھ کر پیدا کیا ہے، ایک تو میرے زمانۂ طالب علمی کے دوست وہاب عندلیب ہیں جن پر عہد طفلی کچھ ایسے پر شباب اور پر استقلال انداز میں نازل ہوا کہ حلیے ، ڈیل ڈول اور قد و قامت کے اعتبار سے آج بھی طفل مکتب کی طرح ہی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ خیر سے اب اسی (80) برس کے ہو چکے ہیں۔
دوسرے بیگ احساس ہیں جن پر عہد طفلی کے بعد نوجوانی تو ضرور نازل ہو گئی لیکن اوپر سے بڑھاپے کے نازل ہونے میں تاخیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ غالبا یہ بڑھاپا مرکزی حکومت کی زیرنگرانی نازل ہو رہا ہے، تبھی تو تاخیر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
میں نے بیگ احساس کو چالیس، پینتالیس برس پہلے حیدرآباد میں دیکھا تھا، جب وہ غالباً رسالہ "فلمی تصویر" میں ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے کام کیا کرتے تھے۔ یقین جانیے اس طویل مدت میں مجھے تو ان کی ذات میں بظاہر کوئی نمایاں تبدیلی محسوس نہ ہوئی۔ ایک پاکستانی شاعر کا شعر ہے:
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کر اس کو لیکن
عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتا ہے
یہ شعر مجھے یہاں اس لئے یاد آیا کہ بیگ احساس کی سالم شخصیت اس شعر کے خلاف ایک "تردیدی بیان" کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ خوش شکل، خوش جمال، خوش باش ، خوش پوشاک، خوش اطوار، خوش اخلاق، خوش سلیقہ اور خوش آثار بیگ احساس کو دیکھنا بھی ایک خوشگوار تجربہ سے کم نہیں ہے۔ انہیں دیکھ کر دل کے فسردہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو سراسرخوش ذوقی، خوش مذاقی، خوش دلی ، خوش سلیقگی اور خوش مزاجی کا پیکر ہیں۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا تھا کہ بیگ احساس کس چکی کا پسا ہوا آٹا کھاتے ہیں کہ ہردم تروتازہ اور چاق و چوبند دکھائی دیتے ہیں؟ اس پر میں نے کہا تھا: "مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ آٹے کے ساتھ تھوڑی سی چکی بھی ضرور کھا لیتے ہیں، اور یوں بھی ان کا ہاضمہ اور حافظہ دونوں غضب کے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بیگ احساس اپنے آپ کو جوان برقرار رکھنے یا ظاہر کرنے کی خاطر کسی ایسے بھاری بھرکم میک آپ کو بھی اختیار کرنے کے قائل نہیں ہیں جس سے گذر کر آدمی جوان کم اور جوکر زیادہ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے بالوں کو بڑے جتن کے ساتھ خضاب سے رنگتے ہیں۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ صرف بالوں کی سفیدی ضعیفی کی علامت نہیں ہوتی۔ مجھے اس وقت احمد ندیم قاسمی مرحوم یاد آ گئے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے سر کے بال جوانی میں ہی سفید ہو گئے تھے، اور انھوں نے اپنی جوانی سفید بالوں کے ساتھ ہی گزار دی۔ تاہم بہت بعد میں بعض دوستوں کے مشورے پر انھوں نے اپنے بالوں کو خضاب سے رنگنا شروع کر دیا۔ ایک محفل میں احمد ندیم قاسمی کے ایک دوست نے ایک صاحب کا تعارف احمد ندیم قاسمی سے کرانے کی کوشش کی تو ان صاحب نے کہا: "حضور! آپ احمد ندیم قاسمی کا تعارف مجھ سے کیا کرائیں گے، میں تو انھیں اس وقت سے جانتا ہوں جب ان کے بال سفید ہوا کرتے تھے۔"
معاف کیجے، بیگ احساس کی وجاہت اور دیدہ زیبی کا ذکر کچھ طویل ہو گیا۔ کہا جاپان کا ڈر ہے کہا جاپان تو ہوگا والا معاملہ ہے۔ یوں بھی جب میں نے بیگ احساس کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تو دل سے آواز آئی "میاں برخوردار ! تم نے زندگی بھر اپنی تحریروں میں اردو کے پروفیسروں کا مذاق اڑایا ہے۔ اب کس منہ سے بیگ احساس کے منہ پر خود ان کے منہ کی تعریف کرو گے؟"
بےشک میں نے اردو کے ان ہی پروفیسروں کا مذاق اڑایا ہے جنہیں اردو سے محبت نہیں ہے، اور وہ اپنے پیشہ اور اس کی حرمت کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ایک دن میں نے اردو کے ایک پروفیسر کے گھر جا کر کال بیل بجائی۔ جواب میں ان کے آٹھ سالہ بیٹے نے دروازہ کھولا تو میں نے پوچھا: "کیوں میاں تمہارے والد صاحب قبلہ گھر پر ہیں"؟
اس پر معصوم و مظلوم بچے نے وہیں سے اپنا منہ پلٹا کر بہ آواز بلند اپنی ماں سے پوچھا:
"ممی! کیا ہمارے گھر میں کوئی والد صاحب قبلہ بھی رہتے ہیں؟"
اس کے اس معصوم سوال پر میں دل مسوس کر رہ گیا۔ افسوس ہوا کہ اردو کے پروفیسر ہونے کے باوجود خود پروفیسر صاحب نے بھی اپنے بیٹے کو یہ نہیں بتایا کہ وہ انگریزی میں اس کے "ڈیڈی" ہونے کے علاوہ اردو میں اس کے "والد صاحب قبلہ" بھی کہلائے جاتے ہیں۔
اردو کے ایک پروفیسر کا کوئی کام کسی محکمہ میں رکا پڑا تھا، بہت پریشان تھے۔ اتفاق سے میں اس محکمہ کے سربراہ کو جانتا تھا۔ مجھ سے دست بستہ گذارش کی کہ اس بارے میں ایک سفارشی خط اس محکمہ کے سربراہ کے نام لکھ دوں۔ چنانچہ میں نے ادھر خط لکھا اور ادھر ان کا کام ہو گیا۔ اس کے جواب میں پروفیسر موصوف نے خوشی سے سرشار ہو کر شکریہ کا جو بے مثال خط اپنی بے مثال اردو میں لکھا، اس کے چند جملے من و عن ملاحظہ فرمایئے:
"عالی جناب ! آپ کی عنایت ، کرم فرمائی، بندہ نوازی اور غرباء پروری کا بے حد شکریہ کہ آپ کی مصلحت پسندیوں، افترا پردازیوں اور موقع پرستیوں کی بدولت میرا کام پورا ہو گیا۔ پھر ایک بار شکریہ"۔
اردو کے اساتذہ کی غلطیوں کی مثالیں پیش کرنے پر اتر آؤں تو صفحے کے صفحے سیاہ کر سکتا ہوں۔ ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں۔
مثل مشہور ہے کہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ جب میں نے اردو کے پروفیسروں کے خلاف بہت کچھ لکھ دیا تو ایک دن میرے کرم فرما حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر احتشام حسین نے مجھے اپنی یونیورسٹی میں دو سال کی مدت تک کے لئے خود اردو کا وزیٹنگ پروفیسر بنا دیا۔ اردو کے پروفیسروں کے خلاف میں نے ماضی میں جو کچھ لکھا تھا اس پر مجھے ملال یا پچھتاوا تو نہیں ہوا، البتہ انجانے طور پر اردو کے پروفیسروں اور اساتذہ کے تئیں میرے دل میں ہمدردی اور یگانگت کے جذبات پروان چڑھتے چلے گئے۔ میں اس سے پہلے بھی کئی سمیناروں میں شرکت کر چکا تھا مگر اب بہ انداز دگر شرکت کرنے کا موقع ملا۔ اساتذہ، ریسرچ اسکالروں اور طلبہ سے جوں جوں تبادلہ خیال بڑھتا گیا مجھے احساس ہونے لگا کہ اردو کے اساتذہ کو کتنی پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اردو کی جڑیں بڑی تیزی سے کٹتی چلی جا رہی ہیں۔ پہلے تو اردو کے طلبہ کی نئی نسل آ ہی نہیں رہی ہے اور جو آ رہی ہے اس کی علمی استعداد بڑی مشکوک ہے۔ لگتا ہے پرائمری سے لے کر ہائر سکینڈری سطح تک ابتداء میں ہی ان طلبہ کی کوئی قابل لحاظ تربیت ہو نہیں پا رہی ہے۔ اب بی اے اور ایم اے میں بھلا اچانک ان کی تربیت کیونکر ہو پائے گی؟ بےشک کچھ مخصوص علاقوں سے آنے والے اور خاص طور پر مدرسہ کی بیک گراؤنڈ رکھنے والے طلبہ کی تعلیمی استعداد بہتر ہوتی ہے لیکن اس سے تعلیم کے عمومی معیار میں کس طرح یکساں اضافہ ہو سکتا ہے؟ ایسے میں یونیورسٹی میں بیٹھا ہوا اردو کا استاد اردو کے لئے کچھ کرے تو کیا کرے اور کتنا کرے؟
معاف کیجیے مجھے بیگ احساس کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے اور میں اردو کی تعلیم اور اردو اساتذہ کے پھیر میں الجھ گیا۔ بیگ احساس کو میں نے اردو کے نہایت تجربہ کار اور منجھے ہوئے پروفیسر کے روپ میں پایا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ایک سحرالبیان مقرر ہیں مگر جب بولتے ہیں تو نہایت نپے تلے انداز میں کسی بھی موضوع کے حتی الامکان سارے گوشوں کا احاطہ کرتے ہوئے خیال کی گرہوں کو رفتہ رفتہ کھولتے چلے جاتے ہیں۔ وہ لفظوں کے طوطا مینا نہیں بناتے بلکہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی و مطالب کو ادا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ کم آمیز کم گو، شائستہ اور مہذب بیگ احساس کی یہی سب سے اہم انفرادیت ہے۔ انھوں نے تدریسی سفر میں سینکڑوں ریسرچ اسکالروں کی ذہنی تربیت کی ہے۔ بےشمار سلیکشن کمیٹیوں اور سمیناروں میں شرکت کی غرض سے ملک کے مختلف شہروں کے سینکڑوں سفر کرنے کے علاوہ بیرون ملک بھی جا چکے ہیں۔
جہاں ایک پروفیسر کی حیثیت سے ان کی اہمیت مسلمہ ہے وہیں تخلیقی سطح پر انھوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ میری شخصی رائے ہے کہ عصر حاضر کے اگر پانچ بڑے افسانہ نگاروں کی کوئی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں بیگ احساس کا نام ضرور شامل رہے گا۔
وہ محقق اور نقاد تو ہیں ہی، فن افسانہ نگاری میں بڑی اہم، معتبر اور مستند شناخت رکھتے ہیں۔ وہ نہایت مخلص، سچے اور ایماندار افسانہ نگار ہیں۔ چنانچہ وہ اپنا ہر افسانہ نہایت ڈوب کر لکھتے ہیں۔ نہ صرف افسانہ میں ڈوب جاتے ہیں بلکہ افسانہ کے کرداروں میں ڈوبنے کے علاوہ افسانہ کی جزیات اور اس کے پلاٹ میں بھی ڈوب جاتے ہیں۔ تاہم اپنے قاری پر اتنا کرم کرتے ہیں کہ وہ ڈوبنے نہ پائے۔ ذرا دیکھیئے کتنا خیال رکھتے ہیں اپنے قاری کا۔
افسانہ کے تئیں ان کے اہتمام اور انصرام کا یہ عالم ہے کہ ایک بار "نمی دانم کہ" کے زیرعنوان پیری مریدی کے موضوع پر کوئی افسانہ لکھنے کا ارادہ کیا تو مختلف پیروں کے مزاروں پر حاضری دینے کے علاوہ درگاہوں اور خانقاہوں کے پھیرے لگانے شروع کر دیئے۔ پیلے رنگ کا صوفيانہ لباس تک پہننا شروع کر دیا اور قوالیوں میں اپنے اوپر وجد کی کیفیت طاری کروانے لگ گئے۔ بالآخر جب ان کا افسانہ چھپا تو مجھے ان کے افسانہ میں پوشیدہ اصلی زندگی کے کرداروں کو پہچاننے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔
جتنی محنت وہ خود افسانہ لکھنے میں کرتے ہیں اتنی ہی محنت وہ اپنا افسانہ پڑھنے والے قاری سے بھی کراتے ہیں۔ کم از کم مجھ جیسے کم علم سے تو محنت ضرور کرواتے ہیں۔ جب سے میری عمر کے اسی برس کے قریب تک پہنچنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، میں نے اپنی ساری ڈکشنریوں کو اٹھا کر الماری کے سب سے اوپر والے شیلف میں رکھوا دیا ہے۔ بھلا اب اس عمر میں کسی لفظ کے معنی جان کر میں کیا کروں گا، اور اگر معنی سمجھ میں بھی آ گئے تو ان پرعمل پیرا کیونکر ہو سکوں گا۔ تاہم بیگ احساس نے کم از کم دو مرتبہ مجھ جیسے ضعیف آدمی کو مجبور کیا کہ میں سیڑھی لگا کر جیسے تیسے ان ڈکشنریوں کو نیچے اتاروں۔ اصل قصہ یہ ہے کہ ان کے ایک افسانہ کا عنوان تھا "حنظل"۔ اب میں پریشان کہ یہ "حنظل" کیا بلا ہے۔ تلاش بسیار کے بعد ڈکشنری دیکھی تو پتہ چلا کہ کڑوے پھل کو کہتے ہیں، بتائیے میں تو صبر کے پھل کے انتظار میں ہوں اور بیگ احساس نے میری خدمت میں کڑوا پھل پیش کر دیا۔ ایک اور افسانہ کا عنوان تھا "دخمہ"۔ اس بار پھر وہی سیڑھی کی کشاکش اور محنت سے گذر کر معنی دیکھے تو معلوم ہوا "پارسیوں کے قبرستان" کو کہتے ہیں۔ اب بھلا بتائیے عمر کی اس منزل میں اگرچہ قبرستان کا خیال اکثر آتا ہے لیکن میں پارسیوں کے قبرستان کو لے کر کیا کروں گا۔ مگر جب افسانہ پڑھا تو اس کے انوکھے بیانیے اور طرز ادا کو پڑھ کر جی خوش ہو گیا۔ چلو ڈکشنریوں والی کڑی محنت اکارت تو نہیں گئی۔
حضرات! بیگ احساس سے میرے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ میں انھیں بےحد عزیز رکھتا ہوں، اور وہ میری بےحد عزت کرتے ہیں۔ ان دو "بے حدوں" کی وجہ یہ ہے کہ میں ان سے عمر میں کم و بیش پندرہ برس بڑا ہوں۔ انھوں نے ازراہ عقیدت اب تک مجھ ناچیز کے بارے میں تین طول طویل مضامین لکھے ہیں۔ دوسری طرف میری کوتاہی ملاحظہ فرمائیے کہ میں پھر بھی خاموش رہا۔ سوچتا رہا کہ اگر میں خدانخواستہ کچھ ایسا ویسا لکھ گیا تو کہیں ان آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے جو مجھے بہت عزیز ہیں۔ دو ڈھائی برس پہلے مجھے جب حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دو برس کی مدت کے لئے وزیٹنگ پروفیسر بنا دیا گیا تو مجھے سرکاری طور پر صدر شعبہ اردو پروفیسر بیگ احساس کی ماتحتی میں کام کرنے کا موقع بھی ملا۔ مگر اللہ رے پروفیسر بیگ احساس کی شان بے نیازی کہ میں جب بھی ان کے
کمرے میں گیا، ہزار مصروفیت کے باوجود ہمیشہ اپنی کرسی سے اٹھ کر ملے، اور میں جب بھی ان کے کمرے سے نکلتا تو ہمیشہ مجھے رخصت کرنے کے لئے غالباً محض اس ڈر سے باہر تک آ جاتے تھے کہ میں کہیں واپس نہ آ جاؤں۔
بیگ احساس جیسے وضعدار، روادار، طرح دار، مونس و غمخوار، نفیس، شائستہ، مہذب اور سلیقہ مند نوجوان کے بارے میں لکھنے پر آؤں تو لکھتا ہی چلا جاؤں گا حالانکہ کہنے کو بہت سی باتیں باقی رہ گئی ہیں۔ تاہم مجھے خاکہ کی طوالت کا نہ صرف احساس بلکہ بیگ احساس تک ہو رہا ہے۔ سماجی محفلوں میں خود بیگ احساس نہایت کم آمیز اور کم گو واقع ہوئے ہیں۔ البتہ خانگی محفلوں میں کھل جاتے ہیں تو یہ الگ بات ہے۔ میں یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اتنی لمبی رفاقت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بیگ احساس نے میرے سامنے کسی کی غیبت کی ہو، یا کسی کے خلاف کوئی ناروا بات کہی ہو۔ نہ کبھی کسی کے خلاف سازش کی اور نہ کبھی کسی ریشہ دوانی اور افترا پردازی میں شریک ہوئے۔ حالانکہ ہمارے آج کے عمومی اردو معاشرہ میں ایسی باتیں "لازمی مضمون" کی حیثیت رکھتی ہیں۔
میں آخر میں وہی بات کہنا چاہوں گا جو عموماً سب سے آخر میں کہی جاتی ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر کامیاب آدمی کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ (اس کا ایک صاف مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر ناکام آدمی کی بربادی کے پیچھے صرف ایک عورت کا ہاتھ کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے کئی عورتوں کے ہاتھوں کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ ذرا سوچئے کتنی محنت لگتی ہے کسی کو برباد کرنے کے لئے)۔
بہرحال میں یہاں خصوصیت کے ساتھ صائمہ بیگ کے ہاتھوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بیگ احساس کی کامیاب زندگی کے ضامن ہیں۔ مگر یہ ہیں بڑے کمال کے ہاتھ۔ یہ ہاتھ جب بیگ احساس کا ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تو انھیں کامیاب بنا کر چھوڑتے ہیں۔ جب یہ ہاتھ گھر کے باورچی خانہ میں پکوان کے ضروری ساز و سامان کے ساتھ مصروف عمل ہو جاتے ہیں تو ڈائننگ ٹیبل پر آنے والے مہمانوں کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے ہاتھوں کی پانچوں انگلیوں کو چاٹنے میں مصروف ہو جائیں۔ (میں صائمہ بیگ کے ان پکوانی ہاتھوں کا نہ صرف معترف ہوں بلکہ قائل اور قتیل بھی ہوں)۔ اور صاحب جب یہی ہاتھ گھر کی آرائش و زیبائش میں مصروف ہو جاتے ہیں تو گھر کے در و دیوار سے نہ صرف سلیقہ مندی ٹپکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے بلکہ ذرا غور سے دیکھا جائے تو صائمہ بیگ خود بھی اپنے ہاتھوں سمیت ٹپکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
صائمہ بیگ سے میرا ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ وہ میرے مرحوم دوست حکیم راگی کی صاحبزادی ہیں۔ اس اعتبار سے میں ان کا چچا کہلائے جانے کا حقدار ہوں مگر وہ مجھے "مجتبیٰ بھائی" کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ تاہم آپ ان کے کہنے سننے پر نہ جائیے۔ جو لوگ صائمہ بیگ سے شخصی طور پر واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ حیدرآباد کی ان چند خواتین میں سے ہیں جو اپنے لئے تذکیر کے صیغے کا استعمال کرتی ہیں۔ جیسے کہیں گی "میں گیا تھا، میں آ رہا ہوں، اور میں جا رہا ہوں" وغیرہ۔
اسی لئے میں کبھی کبھی مذاق مذاق میں صائمہ سے فون پر پوچھ لیتا ہوں "صائمہ! تم کیا کر رہے ہو اور بیگ کیا کر رہی ہیں؟" ایسی باتوں کو سن کرصائمہ غصے میں آ جاتی ہیں۔ فرماتی ہیں: "مجتبی بھائی ! آپ بڑے شریر اور نٹ کھٹ بڈھے ہیں"۔
صائمہ بیگ کے اس شریر تبصرہ کی روشنی میں، میں اپنے اس خاکہ کو ختم کرنا چاہوں گا۔
سخن تمام ہوا، اور مدح باقی ہے
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ماخوذ از مجلہ : چہار سو (راولپنڈی ، پاکستان) [بیگ احساس نمبر]
جلد: 27 ، شمارہ (مئی-جون 2018)
جلد: 27 ، شمارہ (مئی-جون 2018)
Baig Ehsaas, a sketch by Mujtaba Hussain.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں