مجروح سلطان پوری - سوانحی خاکہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-05-26

مجروح سلطان پوری - سوانحی خاکہ

majrooh-sultanpuri

مجروح سلطان پوری (پ: یکم اکتوبر 1919 ، م: 24/اکتوبر 2000)
کا پسندیدہ پیشہ فلمی نغمہ نگاری تھا مگر مجروح خود اپنی فلمی شاعری کو اہمیت نہیں دیتے تھے، ان کی اصل محبوب ادبی شاعری بالخصوص غزل تھی، جسے انہوں نے اپنا سب کچھ سونپ دیا تھا۔
مجروح کی بیسویں برسی (24/مئی) پر ان کا ایک سوانحی خاکہ پیش ہے جسے خلیق انجم نے تحریر کیا تھا۔

ایک دفعہ میں نے مجروح صاحب سے ان کا سن ولادت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ یقین کے ساتھ تو کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن کچھ شواہد ایسے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 1915 ء یا 1916ء میں اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں قصبہ گجہڑی میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن مجروح کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے نے انگریزی میں مجروح کا جو مختصر سوانی خاکہ مرتب کیا ہے اس کے مطابق و پہلی اکتوبر 1919 کو پیدا ہوئے تھے۔

مجروح کا پورا نام اسرار حسن خاں تھا۔ چونکہ مجروح انجمن ترقی اردو مہاراشٹر کے صدر تھے اس لیے میں جب بھی جاتا تو اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ایک دفعہ کوئی واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میری رگوں میں راجپوتی خون ہے، اسی لیے بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجروح نسلاً راجپوت تھے۔
مجروح کے والد محمد حسن خاں صاحب پولیس میں ملازم تھے۔ مجروح اپنے والدین کی اکیلی اولاد تھے اس لیے خاصے لاڈ و پیار سے پائے گئے۔ ان کے والد کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تو بری بھی نہیں تھی۔
جب مجروح کو اسکول بھیجنے کا وقت آیا تو خلافت تحریک شباب پڑھی۔ ان کے والد نے انگریز دشمنی میں طے کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی نہیں پڑھائیں گے۔ چنانچہ ان کو ایک مقامی مکتب میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے عربی، فارسی اور اردو پڑھی۔ درس نظامی کے مکمل ہونے میں صرف دو سال رہ گئے تھے کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے مجروح نے تعلیم ترک کر دی۔ ہوا یہ کہ مجروح نے کسی لڑکے سے مذاق کیا۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی۔ بات بہت معمولی تھی لیکن مولوی صاحب نے کچھ پوچھے گچھے بغیر بید اٹھا کر مجروح کی پٹائی شروع کر دی۔ پہلے تو مجروح برداشت کرتے رہے، جب پٹائی حد سے بڑھ گئی تو انہوں نے ایک ہاتھ سے بید پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے مولوی صاحب کی گردن۔ ظاہر ہے کہ اس حرکت کے بعد وہ اسکول میں کیسے رہ سکتے تھے۔ انہیں نکال دیا گیا یا شاید وہ خود مدرسہ چھوڑ کر آ گئے۔ کچھ عرصے بے کار ہے اور پھر 1933ء میں لکھنو کے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا۔

مجروح بہت ذہین طالب علم تھے اور طالب علمی ہی کے زمانے میں طب پر انہوں نے ایسی قدرت حاصل کر لی تھی کہ جھوائی ٹولے کے بڑے طبیب حکیم عبدالمعید جب کسی علاج کے سلسلے میں باہر تشریف لے جاتے تو مجروح کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جاتے۔ 1938ء میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعد مجروح فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ چلے گئے اور وہاں انہوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ مجروح نے خود مجھے مسکراتے ہوئے بتایا تھا کہ ٹانڈہ میں ایک بہت خوب صورت لڑکی سے ان کو عشق ہو گیا تھا۔ جس کا بعض لوگوں کو علم ہو گیا۔ اس لیے لڑکی کی رسوائی کے ڈر سے وہ مانڈہ چھوڑ کر سلطان پور آ گئے۔
حکیم ابن کا ایک مختصر سا مقالہ "چراغ" کے مجروح نمبر میں شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ :
"مجروح کو ابتدا ہی سے علم موسیقی سے لگاؤ تھا اور دلچسپی تھی۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لکھنؤ کے میوزک کالج میں انہوں نے داخلہ لے لیا تھا۔ میرے نزدیک طالب علمی کے زمانے میں اس طرح کا شوق نا مناسب تھا (ظاہر ہے یہ وہ زمانہ تھا جب مجروح طبیہ کالج کے طالب علم تھے) اسی لیے میں نے ان کے والد محترم کو بذریعہ خط مطلع کر دیا۔ ان کے والد نے اس پر اپنی شدید ناگواری کا اظہار کیا اور میوزک کالج جانے سے منع کر دیا۔ مجروح نے وہاں جانا بند کر دیا اور یہ سلسلہ ختم ہو گیا"۔

ایک گفتگو کے دوران مجروح نے دماغ پر زور دے کر بتایا تھا کہ انہوں نے 1935ء یا 1936ء میں شاعری شروع کی تھی۔ مجروح کی شاعری کے آغاز کے بارے میں مجروح کے لڑکپن کے دوست حکیم ابن نے رسالہ "چراغ" (بمبئی) میں لکھا ہے:
"مجروح کی طبیعت کو شاعری سے لگاؤ اور کافی مناسبت تھی۔ سلطان پور میں ہی پہلی غزل کہی اور وہیں کے ایک آل انڈیا مشاعرے میں سنائی۔ اس مشاعرے میں مولانا آسی الدنی شریک تھے۔ مجروح نے اپنی ایک غزل مولانا کی خدمت بغرض اصلاح روانہ کی ، مولانا نے مجروح کے خیالات کو باقی رکھنے اور کسی صحیح مشورے کے بجائے ان کے اشعار ہی سرے سے کاٹ دیے اور اپنے اشعار لکھ دیے۔ مجروح نے مولانا کو لکھا کہ مقصدِ اصلاح یہ ہے کہ اگر قواعد با زبان یا بحر کی کوئی لغزش ہو تو مجھے آپ اس طرف متوجہ کریں، یہ نہیں کہ اپنے اشعار کا اضافہ کر دیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس قسم کی اصلاح کے لیے میرے پاس وقت نہیں، چناںچہ یہ سلسلہ بند ہو گیا"۔

اس کے بعد مجروح نے اپنا کلام کسی استاد کو نہیں دکھایا اور خود محنت کر کے فن شاعری اور زبان و بیان پر وہ قدرت حاصل کی جو ان کے معاصرین میں بہت کم لوگوں کو نصیب تھی۔ ان کی ذہنی تربیت میں پروفیسر رشید احمد صدیقی اور جگر مرادآبادی کا بہت ہاتھ تھا۔ اگرچہ ان دونوں سے مجروح کا رشتہ استاد اور شاگرد کا نہیں تھا۔ رشید احمد صدیقی صاحب سے تو معاملہ یہ تھا کہ رشید صاحب نے مجروح میں ایک بڑے شاعر کو دیکھ لیا تھا، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ مجروح عربی ، فارسی اور اردو کے کلاسیکی ادب کا بہت اچھا مطالعہ کریں۔ مجروح کو یونی ورسٹی میں داخلہ مل نہیں سکتا تھا۔ اس لیے پروفیسر رشید احمد صدیقی نے تین سال تک انہیں اپنے گھر پر رکھا، جہاں مجروح نے کلاسیکی ادب کا بہت اچھی مطالعہ کیا۔

یہ بات 1945 ء کی ہے۔ مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے جگر صاحب کے ساتھ بمبئی گئے۔ وہاں مشاعرے میں جب انہوں نے اپنا کلام سنایا تو فلموں کے صف اول کے ڈائرکٹر کاردار، مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے۔ ان دنوں کاردار "شاہجہاں" نام سے ایک فلم بنا رہے تھے۔ نوشاد، میوزک ڈائرکٹر تھے۔ کاردار نے مجروح کو پانچ ہزار روپے مہینے کی ملازمت کی پیش کش کی۔ مجروح اتنی بڑی تنخواہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس لیے انہوں نے فوراً منظور کر لیا۔ انہوں نے اس فلم کے گانے لکھے، نوشاد نے موسیقی دی اور سہگل پر یہ گانے فلمائے گئے۔ ان گانوں کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج بھی لوگ ان پر سر دھنتے ہیں۔ مجروح نے فلمی زندگی کے پچپن (55) برسوں میں تقریباً ساڑھے تین سو گانے اردو اور تین بھوجپوری میں لکھے۔ ان کے پچانوے فیصد گانوں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔

انجمن ترقی اردو (ہند) نے مجروح کے کلام کا پہلا مجموعہ 1953ء میں "غزل" کے نام سے شائع کیا تھا۔ بعد میں اس مجموعہ کلام کے کئی اڈیشن شائع ہوئے اور کئی ایڈشنوں میں بعد کے کلام کا اضافہ بھی ہوا۔
1949ء میں بقول جناب معین احسن جذبی (چراغ، بمبئی): جب کمیونسٹ پارٹی نے ریلوے اسٹرائک کا نعرہ دیا تو سارے ہندوستان میں جگہ جگہ کمیونسٹ گرفتار ہونے لگے۔ چوں کہ مجروح کمیونسٹ پارٹی کے باقاعد ممبر تھے اور انہوں نے مزدوروں کے حق میں شعر کہے تھے، اس لیے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہ ایک سال تک جیل میں رہے۔
اپنی شاعری اور فلمی گانوں کی وجہ سے انہیں دنیا کے ان تمام چالیس پینتالیس ممالک میں شہرت حاصل ہوئی جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ روس، امریکہ، کنیڈا، فرانس، موریشس اور خلیجی ممالک میں ان کے اعزاز میں جلسے ہوئے اور انہیں انعامات سے نوازا گیا۔

ان کی شاعری کے انتخاب کا ایک ترجمہ کنیڈا کے جناب بیدار بخت اور میری اینی ارکی [Marie-Anne Erki] نے کیا ہے۔ جو "نیور مائنڈ یور چینس [Never Mind Your Chains]" کے نام سے روپا اینڈ کمپنی (اشاعت: اپریل 1999) سے شائع ہو چکا ہے۔
Never Mind Your Chains: Ghazal Couplets - Available in hard cover at Amazon

عرصے سے مجروح کے پھیپھڑوں میں تکلیف تھی، جب یہ تکلیف بہت بڑھ گئی تو ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں 24 مئی 2000 کی شب ان کا انتقال ہو گیا۔

مجروح سلطان پوری کے لازوال فلمی گیت:
بوندیں نہیں ستارے ٹپکے ہیں کہکشاں سے - فلم: ساجن کی سہیلی
رات کلی ایک خواب میں آئی - فلم: بڈھا مل گیا
بندہ پرور تھام لو جگر - فلم: پھر وہی دل لایا ہوں

(مرحوم خلیق انجم کا شمار ہندوستان کے اہم ناقدین میں ہوتا ہے۔ وہ کئی دہائیوں تک انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی سے بحیثیت سیکریٹری وابستہ ہے۔)

ماخوذ از کتاب: مجروح فہمی
مرتب: آصف اعظمی (سن اشاعت: 2019 ، زیر اہتمام: مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اردو، مملکت بحرین)

Majrooh Sultanpuri, a biographical sketch. by: Khalique Anjum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں