یہ مجتبیٰ حسین کا "خود وفاتیہ" ہے جو ان کی کتاب "چہرہ در چہرہ" (سن اشاعت: 1993) میں شامل ہے۔ اس خاکے سے متعلق مجتبیٰ حسین اسی کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں۔۔۔
سنہ 1989 میں، میں نے ہندی کے مشہور ادیب اور افسانہ نگار راجندر یادو، مدیر ماہنامہ "ہنس" کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ وہ اپنے رسالہ میں ادیبوں سے اپنی Self Obituary یا "خود وفاتیہ" لکھوائیں۔ اتفاق سے ان دنوں انتظار حسین پاکستان سے ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ اس سلسلہ کا پہلا خود وفاتیہ انتظار حسین نے لکھا تھا۔ اس کے بعد ہندی کے کئی مشہور ادیبوں اور شاعروں نے "ہنس" میں "خود وفاتیے" لکھے۔ آخر میں راجندر یادو نے مجھ سے خواہش کی کہ اب میں اپنا "خود وفاتیہ" لکھ کر نہ صرف اپنی ہی تجویز کو بلکہ اپنے آپ کو بھی انجام تک پہنچاؤں۔ اس خود وفاتیے کے لیے راجندر یادو نے ازراہ عنایت مجھے اسی برس کی عمر عطا کی۔ اس خاکے میں لگ بھگ ساٹھ برس تک کے حالات تو آپ کو مل جائیں گے، باقی فالتو بیس برس کے لیے افسانہ طرازی سے کام لینا پڑا۔
اپنی یاد میں
مجتبی حسین (جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنا چاہیے، مگر جانے کیوں نہیں آ رہا) پرسوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ان کے مرنے کے دن نہیں تھے کیونکہ انہیں تو بہت پہلے نہ صرف مر جانا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن وہ پیدا ہوئے تھے تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جا رہے تھے۔ گویا انہوں نے مرنے میں پورے اسّی سال لگا دئیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں، یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ ان کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مرے بھی وہ قسطوں میں ہی۔
جب تک وہ زندہ رہے انہوں نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا (پلٹ کر دیکھتے بھی تو کیا دیکھتے وہاں کچھ تھا ہی نہیں) اصل وجہ یہ تھی کہ مرحوم نے جب اس دنیا میں آنکھیں کھولیں تو دیکھنے کے لئے تو بہت کچھ تھا لیکن کرنے کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا کیونکہ دیش کو آزاد ہونے میں صرف گیارہ برس باقی رہ گئے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ دیش کی آزادی کی جنگ میں بھرپور حصہ لیں۔ لیکن سات آٹھ برس کی عمر میں کون انہیں جنگ آزادی میں آنے دیتا؟ بڑی عمر کے لوگ تو اس جنگ میں پہلے ہی سے مصروف تھے ان کی بڑی تمنا تھی کہ انگریز کی لاٹھی کھائیں۔ چنانچہ جب جب وہ اس تمنا کا اظہار اپنے والد سے کرتے تو والد کی لاٹھی ضرور کھاتے۔ انگریز کی لاٹھی کھانے میں جو مزہ تھا وہ باپ کی لاٹھی میں کہاں۔ جن لوگوں نے اس زمانے میں غلطی سے بھی انگریز کی لاٹھی کھائی تھی انہیں دیکھیے کہ آج کتنے مزے میں ہیں اور آج کتنی اونچی اونچی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ چاہتے تو وہ بھی جی کڑا کر کے گیارہ سال کی عمر میں بھی جاتے ہوئے انگریز کی آخری لاٹھی کھا سکتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ مرحوم کل نو (9) بھائیوں میں سے ایک تھے اور ان سے اوپر کے پانچ بڑے بھائی اسی کام میں لگے ہوئے تھے۔ ایک ہی خاندان کے کتنے بھائی آخر اس کام میں لگے رہتے؟ اس لئے یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔
مرحوم کی زندگی کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وقت ان کی زندگی میں کبھی وقت پر نہیں آیا۔ ہر کام یا تو قبل از وقت کیا یا بعد از وقت۔ گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے ان کا آخری وقت آ گیا۔ شادی بھی کی تو وقت سے پہلے یعنی اس عمر میں کی جب انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ چنانچہ شادی کی پہلی ہی رات کو مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ چاندنی رات میں کبڈی کھیلنے کے لئے نکل پڑے۔ بزرگ انہیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایا کہ کبڈی کھیلنا ہی ہے تو اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ کھیلو۔ مرحوم تیار تو ہو گئے لیکن ضد یہی کرتے رہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھلی چاندنی میں کبڈی کھیلیں گے۔ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ کبڈی چاندنی مین نہیں کھیلی جا سکتی۔
مرحوم کی زندگی میں چاند اور چاندنی دونوں کی بڑی اہمیت رہی۔ پورے چاند کو دیکھ کر ان کے وجود میں نہ جانے کیا ہو جاتا تھا کہ آپے سے باہر ہو جاتے تھے۔ اپنی نوجوانی میں جب تک چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں رہے وہ چاندنی راتوں میں باؤلے سے ہو جاتے تھے اور کھیتوں میں بڑی دور تک نکل جاتے تھے۔ پتہ نہیں وہ چاند میں کیا ڈھونڈتے تھے۔ بعد میں وہ روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے بڑے شہروں میں رہنے لگے اور چاند اور چاندنی دونوں ہی دھندلا گئے۔ تب نیل آرام اسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا۔ یہ ناراض سے ہو گئے کیونکہ نیل آرم اسٹرانگ کو وہ اپنا رقیب سمجھتے تھے۔ کہتے تھے اب چاندنی ان کے لئے کنواری اور اچھوتی نہیں رہ گئی ہے۔ پھر چاندنی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اگر کبھی دیکھا تو ان پر پاگل پن کا دورہ نہیں پڑا کیونکہ اب چاند ان کے لئے پرائی عورت کی طرح تھا۔
رہنے کو گھر نہیں تھا لیکن مرحوم چاند ، سورج، ستارے اور ایسی ہی چیزوں پر اپنا پورا حق بنائے رکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ایسی ہی خواہشوں کی وجہ سے زندگی میں کبھی انہیں سکون نہ مل سکا۔ آدمی اتنا چھوٹا اور خواہشیں اتنی بڑی۔
مرحوم نے زندگی میں ایک بار بھرپور عشق بھی کیا لیکن معاملہ وہی تھا کہ غلط وقت پر کیا۔ دیکھا جائے تو زندگی میں جب انہوں نے سچا عشق کیا تو وہ وقت بہت ہی موزوں تھا کیونکہ مرحوم کی عمر اس وقت اکیس بائیس برس کی تھی اور یہی عمر عشق کرنے کے لئے بہت مناسب ہوتی ہے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت کے آنے سے پہلے ہی مرحوم نے نہ صرف انجانے میں شادی کر لی تھی بلکہ انجانے میں ایک بچے کے باپ بھی بن گئے تھے۔ مرحوم اپنے اس بعد از وقت عشق کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنے دل کو یہ تسلی بھی دیا کرتے تھے کہ شادی تو ماں باپ کی مرضی سے کی تھی اب عشق اپنی مرضی سے کریں گے۔ چنانچہ کچھ برس اپنی مرضی سے عشق کرتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں محبوبہ نے اس کی اپنی مرضی سے کہیں اور شادی کر لی۔
وقت نے مرحوم کو اپنے عشق کے جوہر دکھانے کا موقع نہیں دیا ورنہ تاریخ میں ان کا درجہ مجنوں فرہاد اور رومیو وغیرہ سے کم نہ ہوتا۔ ان کا پہلا عشق تو ناکام ہو گیا لیکن خرابی یہ ہوئی کہ اس وقت تک انہیں عشق کرنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ بعد میں جتنے بھی عشق کئے عادت سے مجبور ہو کر کئے۔ چنانچہ ادھیڑ عمر میں جب وہ اپنے ماضی کو یاد کر کے لمبی آہ بھرتے تھے خود انہیں پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس "آہ" کا تعلق کسی بھولی بسری محبوبہ سے ہے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ان کی بیوی نہ صرف سگھڑ اور وفادار تھی بلکہ اسے ان کے مزاج اور ان کے معاشقوں کابھی اندازہ تھا۔ پرانے زمانے کی عورت تھی جس کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس کا شوہر رات چاہے کہیں بھی گزارے صبح اسے اپنے گھر کے بستر سے ہی اٹھنا چاہیے۔ مرحوم نے ساری زندگی اس کی اس خواہش کا جی جان سے احترام کیا۔ آخری عمر میں تو وہ اپنی بیوی سے بھی چوری چھپے عشق کرنے لگے تھے۔ چوری چھپے اس لئے کہ اس وقت تک مرحوم کے گھر میں دو بہوئیں آ چکی تھیں اور نواسے نواسیوں اور پوتے پوتیوں کا آنا جانا بھی شروع ہو گیا تھا۔ ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا!
غلط وقت پر آدمی صحیح کام کرنا چاہے تو ہمیشہ مشکل پیش آتی ہے۔ وقت نے یہاں بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ آخری عمر میں مرحوم کی اٹوٹ وفاداری کو دیکھ کر ان کی بیوی ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کرتی تھیں کہ اس کا دم مرحوم کی بانہوں میں ہی نکلے۔ لیکن مرحوم کی یہ بڑائی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیشہ اس کو یہ کہہ کر چپ کرا دیتے تھے کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، میں نے جب تمہیں اپنی بیوی بنایا ہے تو اب بیوہ بھی بناؤں گا۔ بیوی بنانا تو میرے اختیار میں نہیں تھا لیکن بیوہ بنانا تو میرے اختیار میں ہے۔ مرحوم بات کے بڑے دھنی تھے۔ ساٹھ برس سے بھی زیادہ اپنی بیوی کے ساتھ جیسے تیسے گزار کر اسے بیوہ کا درجہ دے کر اس دنیا سے کوچ کر گئے۔
مرحوم نے جب ہوش سنبھالا (یوں تو ساری زندگی ان کے ہوش اڑے رہے ، لیکن برا وقت آنے پر کبھی کبھی وہ اپنے ہوش سنبھال بھی لیتے تھے) دیش آزاد ہو گیا تھا لیکن لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ آزادی کو لے کر کیا کریں گے۔ عجیب دور تھا نہ صرف دیش تقسیم ہو گیا تھا بلکہ خاندان بھی تقسیم ہو رہے تھے۔ جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات بھی ہو رہے تھے۔ انہیں دنوں بارہ برس کی عمر میں انہوں نے اپنے ماموں کو ایک فرقہ وارانہ فساد میں اپنی آنکھوں کے سامنے بلوائیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ منظر ان کی آنکھوں میں مرتے دم تک تازہ رہا۔ لیکن اس منظر نے کبھی ان کے اندر انتقام کے جذبات کو پیدا نہیں ہونے دیا۔ یہ ضرور ہوا کہ اس حادثے کو بھلانے کے لئے انہوں نے اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دوستوں میں گزارنا شروع کر دیا۔ مرحوم نے اپنی طالب علمی کا زیادہ تر وقت ہوسٹلوں میں گزارا بعد میں اپنی گرہستی بسانے کی باری آئی تو زندگی بھر گھر میں یوں رہے جیسے کوئی ہوسٹل میں رہتا ہے۔ راتوں کو دیر سے گھر واپس آنا اور دوسرے دن علی الصبح گھر سے نکل جانا، مرحوم کا معمول تھا۔ اگر کسی دن غلطی سے جلدی گھر واپس اجاتے تو ان کے گھر والے پریشان ہو جاتے تھے کہ کہیں ان کی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی ہے۔ آخری عمر میں تو وہ اپنے آپ کو صحت مند ثابت کرنے کی کوشش میں جان بوجھ کر دیر سے گھر آنے لگے تھے۔ ورنہ ان کے دیر سے گھر آنے کی ساری وجہیں ختم ہو چکی تھیں۔
لوگ اکثر سوال پوچھتے ہیں کہ ایسا بے ڈھنگا آدمی قلم کار کیسے بن گیا؟ سوال پوچھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بے ڈھنگا آدمی ہی قلم کار بنتا ہے۔ لیکن مرحوم کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ زندگی میں جو کچھ وہ بننا چاہتے تھے وہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ دوستوں اور لوگوں نے انہیں جو کچھ بنانا چاہا وہ بنتے چلے گئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کسی نے انہیں جیب کترا بنانے کی کوشش نہیں کی ورنہ وہ، وہ بھی بن جاتے۔ وہ اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کی بات کو کبھی ٹالنے کے قائل نہیں تھے۔ جتنی بھی تعلیم دوستوں کے کہنے سے حاصل کر سکتے تھے وہ حاصل کی۔ پھر دوستوں کے کہنے پر ہی حیدرآباد کے روزنامہ"سیاست" میں کام کرنے لگے۔
ان دنوں سرکاری نوکریاں ملنا یوں بھی مشکل تھا۔ شروع میں اس اخبار میں سیدھے سادے صحافی کی طرح کام کرتے رہے۔ اس اخبار میں طنز و مزاح کا ایک کالم ہوتا تھا جسے اس زمانے کے ایک مشہور ادیب شاہد صدیقی لکھا کرتے تھے۔ یہ 1962ء کی بات ہے۔ ایک دن یہ ادیب اللہ کو پیارے ہو گئے تو اخبار کے انتظامیہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ طنز و مزاح کا یہ کالم لکھنے کی ذمہ داری سنبھال لیں۔ اس سے پہلے انہیں پتہ نہیں تھا کہ طنز کسے کہتے ہیں اور مزاح کس چڑیا کا نام ہے۔ بہت منع کیا۔ ہاتھ پیر جوڑے کہ یہ کام انہیں نہ سونپا جائے لیکن ان کی ایک نہ چلی۔ لوگ پیٹ کے لئے روتے ہیں، یہ پیٹ کے لئے ہنسنے لگے۔ آدمی کیونکہ ڈرپوک تھے اس لئے اپنے مضامین میں دوسروں کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنا مذاق اڑانے لگے۔ یہ سب سے آسان طریقہ تھا مگر بعد کچھ تنقید نگاروں نے ان کی تعریف میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ دوسروں کا مذاق تو ہر کوئی اڑاتا ہے لیکن خود اپنا مذاق اڑانا بڑی ہمت کا کام ہے۔ اس تعریف سے وہ اتنا خوش ہوئے کہ زندگی بھر طنز کے اپنے ہی تیروں سے اپنے آپ کو ہلکان کرتے رہے۔ اتنے کم معاوضے میں شاید ہی کسی نے اپنے آپ کو اتنا لہولہان کیا ہو۔ بس اتنی ہی وجہ تھی ان کے طنزنگار بننے کی۔ لوگوں نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ چاہتے تو وہ انہیں کسی بڑی کرسی پربھی بٹھا سکتے تھے لیکن وہاں پہلے ہی سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے اس لئے مرحوم کو زندگی بھر اپنے چاہنے والوں کے سر آنکھوں پر ہی بیٹھنا پڑا اور وہیں بیٹھے بیٹھے انہوں نے پندرہ کتابیں لکھیں۔
جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ مرحوم نے زندگی بھر کبھی وہ نہ بن سکے جو بننا چاہتے تھے ہمیشہ وہ بنے جو لوگ انہیں بنانا چاہتے تھے۔ عمر کے آخری حصے میں انہیں پتہ چل گیا تھا کہ طنز و مزاح وہ بالکل نہیں لکھ سکتے۔ کیونکہ اندر سے وہ بہت غم زدہ آدمی تھے۔ دوستوں کی محفلوں میں جی کھول کر ہنستے بولتے اور قہقہے لگاتے تھے۔ دنیا کو دکھانے کے لئے انہیں ایسا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جب تنہا ہوتے تو یہاں تک سوچتے کہ کیوں نہ خودکشی کر لیں۔ اس معاملہ میں دوستوں سے مشورہ بھی کیا ایک دوست نے کہا کہ انہیں خود کشی کر لینی چاہیے۔ وہ اس کے لئے تیار بھی ہو گئے تھے لیکن ٹھیک اسی وقت دوسرے دوست نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ دوستوں کی بات وہ کبھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ اس لئے دونوں کو ایک دوسرے سے ملا دیا کہ ان کی خودکشی کے معاملے مین پہلے وہ متفق ہو جائیں تو پھر کوئی فیصلہ کریں۔ دونوں دوست اس معاملہ پر برسوں تبادلہ خیال کرتے رہے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے۔ لہٰذا انہیں بے کار ہی زندہ رہنا پڑا۔ آخر میں وہ دونوں دوست تبادلہ خیال کرتے کرتے خود اللہ کو پیارے ہو گئے۔
مرحوم نے اپنی جوانی کے دن حیدرآباد میں گزارے تھے۔ انہیں وہ گلیاں ہمیشہ یاد آتی تھیں جن میں اپنی جوانی کھونے کے علاوہ بہت کچھ کھویا تھا۔ مگر وہ شہر جن میں وہ بعد میں رہے کبھی ان کی زندگی کا حصہ نہ بن سکے جہاں انہوں نے کھویا کم اور پایا زیادہ تھا۔ مرحوم کو گھاٹے کاسودا بہت پسند تھا۔ حیدرآباد سے نکل کر انہوں نے ملکوں ملکوں کی سیر کی، بر اعظم آسٹریلیا کو چھوڑ کر سارے براعظموں کی سیر کی اور دلچسپ بات یہ تھی کہ سارے سفر اپنے پلے سے پیسہ خرچ کر کے نہیں کئے۔ ان کے چاہنے والوں نے نہ صرف ان کے سفر کا کرایہ ادا کیا بلکہ سامان سفر بھی دوستوں نے ہی دیا۔ اتنے سارے شہروں کی سیر کرنے کے بعد بھی کوئی شہر ان کے دل میں حیدرآباد کی جگہ نہ لے سکا۔ حیدرآباد کو چھوڑے ہوئے تیس برس بیت گئے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب اس شہر میں ان کے دوست احباب تو کیا رشتے دار بھی کم ہی باقی رہ گئے تھے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں بار بار اس شہر کے چکر لگاتے تھے۔ پتہ نہیں کیا ڈھونڈنے جاتے تھے۔ ان گلیوں اور ان سڑکوں کے خدو خال ہی بدل گئے تھے، جہاں وہ کبھی ٹھوکریں کھ ایا کرتے تھے۔ جہاں اب بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی تھیں۔ انہیں اپنے ذہن سے ہٹا کر وہاں چالیس پچاس برس پرانے کچے پکے مکان کھڑے کر دیتے تھے۔ اور جو کچھ ان کی ننگی آنکھوں کے سامنے اب موجود نہیں تھا اسے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
حیدرآباد اصل میں ان کے لئے باہر آباد نہیں تھا بلکہ ان کے اندر آباد تھا۔ دوستوں سے بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ حیدرآباد میں بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں جیسا چاند نکلا کرتا تھا ویسا چاند اب دنیا میں کہیں نہیں نکل پاتا۔ پتہ نہیں کس چاند اور کس سورج کی بات کرتے تھے۔ یوں بھی ایک لمبے عرصے سے انہوں نے چاند کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
مرحوم نے اگرچہ کبھی اپنے آپ کو ادیب نہیں مانا لیکن انہیں کئی اصلی انعامات بھی ملے تھے۔ اصلی انعام اس لئے کہ انہوں نے اور ادیبوں کی طرح ان انعامات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ کبھی کبھی تو انہیں بھی شک سا ہونے لگتا تھا کہ کہیں وہ واقعی ادیب تو نہیں بن گئے ہیں۔ مرحوم کی خوبی یہ تھی کہ وہ غلط فہمی میں تو مبتلا ہو سکتے تھے لیکن خوش فہمی کو کبھی اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ ان کی ناکام و نامراد زندگی کا یہی راز تھا۔
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے، مرحوم زندگی بھر راتوں کو دیر سے گھر آنے کے عادی رہے۔ آخری عمر میں جب ان کے پاس دیر سے گھر واپس آنے کی ساری وجہیں ختم ہو چکی تھیں تب بھی وہ راتوں کو دیر گئے تک ایک ویران پارک میں ایک ٹوٹی پھوٹی بینچ پر اکیلے بیٹھا کرتے تھے۔ وہ چاہتے تو کسی خوش نما پارک کی اچھی اور آرام دہ بینچ پر بھی بیٹھ سکتے تھے، لیکن کہتے تھے کہ خوش نما اور آرام دہ چیزیں انہیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ ویران جگہوں پر بیٹھ کر آدمی کو اپنا سنہرا ماضی اور بھی کھلا اور روشن نظر آتا ہے۔ پتہ نہیں اس بینچ پر بیٹھ کر کیا سوچتے تھے، مستقبل کے بارے میں تو وہ سوچ نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس بچا ہی کتنا تھا۔
کروڑوں برس پرانی دنیا میں بیسویں اور اکیسویں صدی کے بیچ یہ جو اسّی برس انہیں ملے تھے ان سے وہ مایوس بالکل نہیں تھے کبھی کبھی موج میں ہوتے تو اپنا مقابلہ دنیا کی بڑی ہستیوں سے کرکے ان ہستیوں کو آن کی آن میں چت کر دیتے تھے۔ اپنے آپ کو سکندر اعظم سے بڑا اس لئے سمجھتے تھے کہ سکندر اعظم نے لتا منگیشکر کا گانا نہیں سنا تھا۔ اکبر اعظم کو بھی اپنے آگے ہیچ سمجھتے تھے۔ کہ اس نے دیوان غالب نہیں پڑھا تھا۔ ایک بار تو جولیس سیزر کو صرف اس بات پر اپنے سے چھوٹا قرار دے دیا تھا کہ اسے شیکسپیئر کا ڈرامہ، "جولیس سیزر" پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ جولیس سیزر خود اپنا ڈرامہ پڑھ کر کیا کرتا؟ کہنے لگے کہ جولیس سیزر نے ا پنے آپ کو شیکسپیئر کی نظر سے دیکھا ہی کہاں تھا؟ ایک بار دیکھ لیتا تو اپنی عظمت کا اندازہ ہو جاتا۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔
ایک بار تو بڑے غلام علی خاں کی آڑ لے کر نیپولین کی ایسی تیسی کر دی تھی۔ حد ہو گئی کہ مرنے سے کچھ دن پہلے وہ کارل مارکس کو صرف اس لئے اپنے سے کمتر سمجھنے لگے تھے کہ کارل مارکس نے بھیم سین جوشی کا گانا نہیں سنا تھا۔
غرض مرحوم ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں سوچ کر اپنی بے مزہ اور بے رنگ زندگی میں رنگ بھرتے رہے ان کے سارے دوست ایک ایک کرکے اس دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ ان کے لئے ان دوستوں کی یاد کے بوجھ کو اٹھانا دوبھر ہوتا جا رہا تھا۔
ایک دن ویران پارک کی اسی پرانی بینچ پر بیٹھ کر انہوں نے حساب لگایا کہ اس شہر میں اب ان کے صرف چار دوست باقی رہ گئے ہیں اور انہوں نے اچانک فیصلہ کیا کہ اب مرنے میں زیادہ دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کے جناے کو کاندھا دینے کے لئے کم سے کم چار آدمیوں کا ہونا تو ضروری تھا۔ کہنے کو ان کے دو جوان بیٹے بھی تھے لیکن مرحوم کا خیال تھا کہ دوستوں کے کندھوں پر دوست کی لاش کا بوجھ بیٹوں کے کندھوں پر باپ کی لاش کا بوجھ سے کہیں زیادہ ہلکا محسوس ہوتا ہے۔
ناپ تول کا یہ نیا پیمانہ بھی ان کا اپنا تھا۔ مرنے سے دو دن پہلے یہی سوچ کر ویران پارک سے جلدی گھر واپس آ گئے۔ ان کی بیوی پریشان ہو گئی کہ کہیں ان کی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی۔ بولے اب تو طبیعت کے سنبھلنے کی باری آ گئی ہے۔ اس رات انہوں نے فرمائش کرکے اپنی بیوی سے بیگن کا بھرتہ بنوایا جسے وہ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ دوسرے دن وہ بہت دیر تک اپنے ہی گھر میں سوتے رہے۔ گھر والوں کے لئے یہ انوکھی بات تھی۔ شام کو وہ اپنے ان چاروں دوستوں سے ملنے کے لئے چلے گئے۔ ان سب کو تاکید کی کہ وہ دوسرے دن صبح میں ان کے گھر ضرور آ جائیں۔ دوستوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک ضروری کام ہے جس کے لئے ان کا آنا اور بھی ضروری ہے۔ دوسرے دن بھی وہ رات کو جلدی گھر واپس آگئے۔ ان کی بیوی نے بھرتے کے بارے میں پوچھا تو بولے:
"آج خواہش نہیں ہے۔"
آدھی رات کو اچانک وہ نیند سے جاگ گئے اور بتی جلا کر کتابوں کی الماری میں کچھ ڈھونڈنے لگے۔ ایک ایک کتاب کھول کر دیکھتے جاتے تھے۔ بیوی نے پوچھا۔ اتنی رات کو کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ ہنس کر بولے: "مجھے یاد پڑتا ہے بیس برس پہلے میں نے تم سے چھپا کر ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ اس الماری کی کسی کتاب میں رکھ دئیے تھے انہیں ڈھونڈ رہا ہوں۔"
بیوی نے کہا: "صبح کو ڈھونڈ لینا، ایسی بھی کیا جلدی ہے؟"
بولے:"بیس برس کے بعد تو اب یہ بات یاد آئی ہے اب بھول جاؤں گا تو پھر اس کے یاد آنے میں بیس برس اور لگ جائیں گے۔"
آخر کار ایک کتاب میں سے سچ مچ ایک ہزار روپے کے کرنسی نوٹ نکل آئے تو بہت خوش ہوئے۔ ان نوٹوں کو اپنی بیگم کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولے: "اب یاد آیا، بیس برس پہلے جاپان جاتے ہوئے ایئر پورٹ جانے سے پہلے میں نے یہ ہندوستانی کرنسی اس کتاب میں چھپا دی تھی، اسے اب اپنے پاس رکھو، شاید تمہارے کسی کام آ جائے"۔
یہ کہہ کر وہ گہری نیند سو گئے۔ دوسرے دن صبح میں وہ پھر دیر تک اپنے ہی گھر میں سوتے رہے۔ آخر کار ان کے چار دوست وقت مقررہ پر ان کے بتائے ہوئے ضروری کام کے سلسلے میں آگئے تو بچوں نے انہیں جگانے کا فیصلہ کیا۔ بچوں نے انہیں بہت جگایا مگر مرحوم جاگنے پر راضی نہ ہوئے، جاگ کر بھی کیا کرتے اب دنیا میں ان کے لئے کوئی کام بھی تو باقی نہیں رہ گیا تھا۔ لتا منگیشکر کا گانا وہ سن چکے تھے، غالب اور شیکسپیئر کو پڑھ چکے تھے۔ بڑے غلام علی خاں اور بھیم سین جوشی کو بھی نپٹا چکے تھے اور تو اور انہیں وہ ایک ہزار روپے بھی واپس مل گئے تھے جنہیں وہ ایک کتاب میں رکھ کر بھول چکے تھے بھلا اور جی کر کیا کرتے۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مرحوم دوسری دنیا میں کس حال میں ہیں۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر جنت میں ہیں تو ضرور حوروں کے جھرمٹ میں ہوں گے اور اپنے آپ کو اسی طرح بنا رہے ہوں گے جس طرح حوریں انہیں بنانا چاہتی ہوں گی اور اگر خدا نہ کرے دوزخ میں ہیں تو اپنے جسم کو بڑے جتن کے ساتھ دہکتے انگاروں پر اس طرح جلوا رہے ہوں گے کہ کوئی حصہ جلنے سے باقی نہ رہ جائے۔ مرحوم نے زندگی میں جو بھی کام کیا وہ سچی لگن کے ساتھ کیا۔ مرنے کے بعد وہ بھلا اپنی عادتوں کو کیا بھول پائیں گے ؟ پھر دوزخ میں ان کے لئے خوشی کی بات یہ بھی ہوگی کہ ان کے بہت سے دوست جو انہیں اس دنیا میں چھوڑ کر چلے گئے تھے وہیں موجود ہوں گے۔ نیچے کی دنیا میں اچھی صحبت میں نہ رہنے کا فائدہ دوسری دنیا میں دوزخ میں پہنچ کر ہی ملتا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ ان کے مرنے سے ادب میں کوئی خلا پیدا نہیں ہوا کیونکہ مرحوم کا دعویٰ تھا کہ لوگ مر کر ادب میں خلا پیدا کرتے ہیں لیکن انہوں نے زندہ رہ کر ادب میں لگاتار خلا پیدا کیا تھا۔ ان کی زندگی اور ان کے ادب کی یہی بڑائی ہے۔
آخری عمر میں وہ اپنے عزیز دوست شہر یار کا یہ شعر اکثر گنگناتے تھے ؎
زندگی جیسی تھی : اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
یہ بھی پڑھیے:
مجتبیٰ حسین کے سفرنامے - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
زبیر رضوی: ہے دیکھنے کی چیز بار بار دیکھ - مجتبی حسین
بیگ احساس تم ہی ہو - مضمون از مجتبیٰ حسین
مجتبیٰ حسین اور فن مزاح نگاری پر حسن مثنی کی کتاب
ماخوذ:
چہرہ در چہرہ - شخصی خاکے از مجتبیٰ حسین (اشاعت: 1993)
چہرہ در چہرہ - شخصی خاکے از مجتبیٰ حسین (اشاعت: 1993)
Apni yaad mein, a Self obituary by Mujtaba Hussain
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں