ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 01 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-05

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 01

ram-mohammad-desouza

"رام محمد ڈیسوزا" - مشہور مصنف علی رضا کا ناول ہے جس نے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں، ہندوستان کے کونے کونے میں دھوم مچا رکھی تھی۔ یہ وہی ناول ہے جسے فلمانے کے لیے محبوب خان بضد تھے۔ کے۔آصف اور راج کپور بےقرار رہے۔ یہ ایک ناول ہی نہیں، ایک زخم بھی ہے، نشتر بھی۔ ہندوستان کے موجودہ دگرگوں حالات میں اس ناول کے بنیادی پیغام کی اشاعت ضروری محسوس ہوتی ہے۔
لہذا یہ مکمل ناول دس سے بارہ قسطوں میں تعمیرنیوز پر شائع کیا جا رہا ہے۔ پہلی قسط پیش خدمت ہے۔
تعمیرنیوز پر اس ناول سے متعلق پانچ تحریریں مختلف مواقع پر شائع ہو چکی ہیں، جن کے لنک درج ذیل ہیں:

بائیس سالہ عبدالرحیم بڑا کٹر مسلمان تھا، نگری ضلع میں جہاں وہ پیدا ہوا تھا، ہندوؤں اور عیسائیوں کی آبادی کافی تھی اور اس آبادی میں نندن اور رابرٹ جیسے حرام زادے بھی تھے جن کا پیشہ ہی دوسروں کی ٹوپیاں بیچ کر تاڑی پینا تھا ، لیکن کسی مائی کے لال کی ہمت نہ تھی جو کبھی رحیم کی لال ترکی ٹوپی کو ہاتھ لگا دیتا۔
جس طرح الف لیلیٰ کے قصوں میں دیو کی جان طوطے کے دل میں رہتی ہے۔ اسی طرح رحیم کا اسلام اس کی ٹوپی میں سمٹ کر رہتا تھا۔ برسوں پہلے یہ ٹوپی اس کے پھوپا اللہ رکھا قوآل نے عید کی قوالی گانے کے لئے اس کو رشوت کے طور پر دی تھی۔ رحیم کی آواز بہت پاٹ دار تھی، اور گلے میں خدا داد سُر اور کشش۔ اللہ رکھا اس کو اپنا شاگرد بناکر اپنی قوالی کی ٹولی میں رکھنا چاہتا تھا لیکن رحیم کو قوالی سے ذرا دلچسپی نہ تھی، وہ پہلوان بننا چاہتا تھا اور ہنومان اکھاڑے میں نندن کے ساتھ شنکرا پہلوان سے گنڈا بندھوانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ لیکن ہنومان اکھاڑے میں رحیم کا گزر کیسے ہو سکتا تھا۔ اس بات کا دکھ نہ صرف رحیم کو تھا بلکہ خود شنکرا پہلوان کو بھی تھا کیوں کہ شنکرا پہلوان اپنی جگہ صرف اپنے شاگرد نندن کو دینا چاہتا تھا ، لیکن نندن کو پہلوانی سے الجھن ہوتی تھی ، وہ قوال بننا چاہتا تھا!

فخر اسلام اللہ رکھا کی قوالیاں زیادہ تر جمعہ مسجد کے برابر لنگر بابا کے مزار پر ہوتی تھیں۔ نندن اس میں شرکت نہیں کر سکتا تھا لیکن جب رحیم گاتا تو وہ سنے بغیر رہ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مزار کے پاس لگے ہوئے پیپل کے گھنے پتوں میں چھپ کر بیٹھ جاتا تھا اور مزے سے رات رات بھر قوالیاں سنتا رہتا تھا۔ چھپتا وہ اس لئے نہیں تھا کہ وہ ڈرپوک تھا۔ دراصل وہ اپنے ہندو دھرم کی آبرو بچاتا تھا، کوئی مسلمان اگر اس کو اس طرح مزار کی قوالی سنتے دیکھ لیتا تو ساری بستی میں ہندوؤں کی ناک کٹ جاتی، اور کہیں اس کے استاد شنکرا پہلوان کو پتہ چل جاتا تو وہیں پیپل پر اس کی چتا بنا دیتا۔
نئی لال ترکی ٹوپی کے لہلہاتے ہوئے کالے پھندنے میں رحیم کو اسلامی شان نظر آتی تھی اور اس شان کو برقرار رکھنے کے لئے رحیم اس کو بار بار ہاتھ سے صاف کرتا رہتا تھا۔ مگر اسکے ہاتھ صاف رہنے لگے اور ٹوپی کالی ہوتی گئی۔ رحیم کے ہاتھوں کی برسہا برس کی چکنائی اور میل کی تہوں میں ٹوپی کا لال رنگ اندر چھپ کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے کسی جلیل القدر حاجی کے دل میں اس کے جوانی کے گناہوں کا احساس۔ رحیم نے کئی مرتبہ اس کو صابن سے دھویا بھی مگر لال رنگ نے اپنا جلوہ نہ دکھانا تھا نہ دکھایا۔ اتنا ضرور ہوا کہ ٹوپی کے مختلف حصوں سے پسینہ مٹھائی، ٹھرے، گوشت اور تیل وغیرہ کی جو مختلف خوشبوئیں نکلتی تھیں وہ ایک مبہم بدبو میں مل گئیں۔ یہ بھی اچھا ہوا ، الگ الگ خوشبوئیں نکلنے سے ایک بار قیامت ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔

ہوا یہ تھا کہ بقرعید پر رحیم نے تازہ تازہ گوشت کھا کر ٹوپی صاف کی تو گوشت کی مہک سے ٹوپی کا پھندنا بھی لہلہا اٹھا اور رابرٹ کے مریل کتے جارج کا دل بھی۔ جارج نے موقع پاکر پھندنا چبا ڈالا۔ رابرٹ، اس کے کتے جارج اور خود رحیم، تینوں کی موت اسی دن واقع ہو جاتی لیکن رابرٹ نے ہولی مدر کی قسم کھاکر وعدہ کیا کہ پیسہ ملتے ہی وہ رحیم کو نئی ٹوپی لاکر دے گا۔ اس واقعہ کو سات سال ہو چکے تھے لیکن یہ بھی واقعہ تھا کہ رابرٹ کے پاس اتنا پیسہ بھی ایک ساتھ جمع ہی نہیں ہوا۔۔۔
اس لئے رابرٹ کا وعدہ تو اپنی جگہ جما رہا، لیکن رحیم کی بغیر پھندنے کی ٹوپی سر سے اتر کر اس کے پاجامے کے نیفے میں پہونچ گئی۔۔۔ خاص خاص مواقع پر جس طرح کسی ملک کا پرچم سر بلند جگہوں پر لہرا دیا جاتا ہے اسی طرح اہم اسلامی تقریبات پر رحیم کبھی اپنی ٹوپی سر پر چڑھا لیتا تھا۔
اس کے علاوہ اچانک ٹوپی کی ضرورت اسی وقت پڑتی تھی جب مسجد کے پیش امام اور رحیم کا کسی گلے کوچے میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا، پلک جھپکتے رحیم کی ٹوپی اس کے سر پر پہنچ جاتی تھی ، اسکا گھٹیلا بدن موم کی طرح نرم پڑ جاتا، سارا پنڈا پسینہ میں ڈوب جاتا اور اس کا جسم پندرہ سولہ سال پہلے لی گئی پیش امام کی چٹکیوں سے پھوڑے کی طرح دکھنے لگتا تھا۔ اتنی چٹکیوں کے بعد بھی اس کو نماز یاد نہ ہو سکی تھی ، کلمہ کے بعد اللہ اکبر اور بسم اللہ کے آگے اس کا اسلام نہ بڑھ سکا۔ اس منزل پر اس کے دماغ اور پیش امام کے صبر دونوں نے یہ کہہ کر ساتھ چھوڑ دیا کہ نندن اور رابرٹ کی سنگت میں رحیم جہنمی ہو گیا ہے اس لئے اس کو نماز یاد نہیں ہو سکتی۔

اس دن سے رحیم کو خود بھی یہ یقین ہو گیا تھا کہ جہنم کی آگ سے وہ کسی طرح نہیں بچ سکتا۔ اور بچتا بھی کس طرح، شراب تو شراب اس کو ہنومان کی پرشاد تک کھانے میں مزہ آتا تھا۔ خدا کے خوف سے رحیم کی جان نکلتی تھی لیکن وہی جان جاتی نندن اور رابرٹ پر تھی۔ مگر خدا رحیم کو اتنا پریشان نہیں کرتا تھا،جتنا پیش امام، کیوں کہ خدا رحیم کی سمجھ کے حساب سے ہمیشہ مسجد میں رہتا تھا اور رحیم بھول کر بھی کبھی مسجد کے سامنے سے نہیں نکلتا تھا۔ کہ کہیں خدا سے مڈبھیڑ نہ ہو جائے۔ لیکن خدا کا ٹھیکے دار پیش امام بستی میں اِدھر ادھر رحیم سے ٹکرا جاتا تھا۔
جب بھی پیش امام پر رحیم کی نظر پڑ جاتی تھی تو سارے دن اس پر غم و فکر کا بوجھ لدا رہتا تھا۔ اس کو جہنم میں نہ صرف خود جلنے کا خوف تھا بلکہ یہ غم اس سے بھی زیادہ تھا کہ اس کے دونوں دوست، نندن اور رابرٹ کو بھی اس میں جلنا پڑے گا۔ اس بھیانک انجام سے اپنے دونوں دوستوں کو بچانے کے لئے رحیم کے معصوم اور سچے دل نے بڑی سنجیدگی سے کئی بار نندن اور رابرٹ کو یہ صلاح دی تھی کہ وہ مسلمان ہو جائیں ، اور سب برے کام چھوڑ کر تینوں حج کرنے چلیں۔ بستی کے کئی پیسے والے مسلمان جن کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور تھیں۔ حج کر کے جہنم کی آگ سے بچ آئے تھے۔ وہ تینوں بھی بچ سکتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ نندن اور رابرٹ دونوں بے وقوف تھے اور بجائے رحیم کی بات سننے کے اس سے بحث شروع کر دیتے تھے۔
رابرٹ کہتا تھا کہ : "خدا تو گاڈ سے بہت چھوٹا ہے کیوں کہ مسلمانوں کے محمد صاحب ہولی سن کے سینکڑوں برس بعد پیدا ہوئے تھے۔!"
رحیم رابرٹ کو سمجھانے کی کوشش کرتا تھا کہ "گاڈ سرے سے ہے ہی نہیں، صرف خدا ہی خدا ہے!"
اس پر رابرٹ اس کی جہالت کا بہت مذا ق اڑاتا تھا اور رحیم سے کہتا تھا کہ پہلے اپنے پیش امام سے جا کر پوچھے کہ اس کے محمد صاحب انجیل کو گاڈ کی کتاب اور عیسیٰ مسیح کو اپنا بڑا بزر گ مانتے تھے کہ نہیں؟
اس بحث میں نندن کی دلیل سب سے زبردست ہوتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ:
"گاڈ اور خدا دونوں کا ہندوستان سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں، یہاں ہمیشہ سے بھگوان کا ہی راج ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں باہر کے دیسوں سے ہندوستان آئے اور حالانکہ وہ بھگوان کو نہیں مانتے، گاڈ اور خدا کو مانتے ہیں ، پھر بھی بھگوان نے صرف اس لئے ان سب کو زندہ رہنے دیا ہے کہ اس جنم کے بعد تو وہ سب کو ہندو بنا کر ہی پیدا کرے گا۔ خود رابرٹ اور رحیم بھی مرنے کے بعد ہندو بن کر پیدا ہوں گے !"

اس مدلل اور دقیق بحث میں الجھ کر ان تینوں کے سر میں درد ہونے لگتا تھا، اور دماغوں میں تاریکی چھا جاتی تھی ، نور کی کرن اسی وقت پھوٹتی تھی جب ان کو خبر ملتی کہ نگری یا اس کے آس پاس کے کسی قصبہ میں کوئی بیاہ ہے جہاں دو سو آدمیوں کا کھانا پکنے والا ہے۔ ان کے الجھے ہوئے تاریک دماغوں میں بجلی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور وہ کمپیوٹر کی سر عت سے اپنی مہم کے سنگین سے سنگین مسئلہ کو حل کرلیتے تھے، سینکڑوں آدمیوں کے بیچ سے ڈیڑھ من بریانی کی آگ کی طرح جلتی ہوئی دیگ غائب کر دینا۔ پھر اس کو ایسی جگہ پہنچانا جہاں وہ تینوں آرام سے دو تین دن کھا سکیں اور بستی کے کسی آدمی کی نظر نہ پڑنے پائے، کوئی ہنسی ٹھٹے کا کام نہیں۔ جو کرتا ہے اسی کا دل جانتا ہے اور پھر ہمیشہ عقل و سمجھ سے ہی کام نہیں چلتا تھا۔ کہیں کہیں دنگا فساد بھی کرنا پڑتا تھا اور ان تینوں کو اپنی زبردست طاقت کو بھی کام میں لانا پڑتا تھا۔ چھٹپن سے پیٹ بھرنے کی اس مشقت سے ان کے جسموں میں بے پناہ طاقت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ تینوں مل کر پوری بستی کے لئے کافی تھے بستی کی پولیس چوکی والے بھی ان سے سوچ سمجھ کر بات کرتے تھے۔ اور پولیس والوں کو ویسے بھی بستی والے بیچ میں لاتے ہی نہیں تھے ، کیوں کہ پولیس تو دو دن بند کر کے پھر مجرموں کو چھوڑ دیتی ہے ، زندگی بھر تو بستی والوں ہی کو نباہ کرنا پڑتا ہے۔

شروع شروع میں نندن رابرٹ اور رحیم صرف کھانے پینے کے لئے ہی جدوجہد کرتے تھے۔ اس نہ مٹنے والی بھوک کو مٹانا ہی ان کا مذہب تھا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد بستی والوں نے ان کو مال کی چوری ڈاکے پر بھی مجبور کر دیا۔ کوئی اپنی مرغیوں کو بستی میں کھلا نہیں چھوڑتا تھا۔ سب گھر کے آنگن میں بند رہتی تھیں۔ بکریوں کی گردنوں میں رسیاں پڑ گئیں اور بچوں کی جگہ گھر کے جوان چرانے جانے لگے حلوائیوں نے زیادہ مٹھائی بنانا ہی چھوڑ دی۔ بس اتنی ہی بناتے تھے جتنی کہ دن بھر میں بکری ہوتی۔ اوپر سے لوگ بھی دور اندیش ہو گئے جس کے یہاں کھانے پینے کی تقریب ہوتی وہ سب سے پہلے باقاعدہ نندن رابرٹ اور رحیم کو ہی دعوت دیتا تھا۔
دعوت نامہ ملتے ہی ان تینوں پر اس دعوت کا کھانا اڑانا اور دعوت میں بیٹھ کر کھانا دنوں ہی حرام ہو جاتے تھے۔ ان کی بھوک سکڑ کر آدھ آدھ پاؤ کی رہ جاتی تھی۔ہر نوالہ حلق میں اٹکتا تھا۔ کیوں کہ ان کو یہ پوری طرح احساس رہتا تھا کہ وہ دعوت نہیں رشوت کھا رہے ہیں۔ ایسا کھانا جس کے حاصل کرنے میں ان کی اپنی محنت کا خون پسینہ شامل نہ ہو۔ ان پر حرام ہوتا تھا۔
کانوں میں یہ بھنک پڑتے ہی کہ بستی میں کسی کے یہاں کوئی شادی بیاہ ہے۔ یہ تینوں بستی سے غائب ہو جاتے تھے اور پوری کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح ان کو دعوت نہ ملنے پائے مگر ان کا دعوت نامہ اس قدر اہم ہوتا تھا کہ اس کو ان تک پہنچانے کی ذمہ داری بستی کے ہر فرد کا فرض ہو جاتی تھی، کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ان کو دعوت نامہ پہنچا ہی دیتا تھا۔
اس طرح مجبور کر کے بستی والوں نے ان کو چور اور ڈاکو بنا دیا تھا جس کا ان تینوں کو خود بھی بہت دکھ تھا، مگر پیٹ کی خاطر تو سبھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چوری وہ کرتے تو صرف کھانا مہیا کرنے کے لئے، ڈاکہ مارتے تھے تو صرف پیٹ کا ایندھن پاٹنے کے لئے۔

ان تینوں کی یہ چھوٹی سی دنیا سماج و مذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد تھی۔ جس پتیلے سے یہ بریانی یا جس تھال سے ایک ساتھ مٹھائی کھاتے تھے وہاں کوئی فرقہ نہ تھا۔ اس میں تینوں کے ہاتھ ایک ساتھ جاتے تھے۔ اس میں نہ ہنومان اکھاڑے کی پابندیاں تھیں نہ جہانگیر مسجد کی حدبندیاں اور نہ رابرٹ کے ماما کے "ہولی کرائسییٹ بینڈ" کی بندشیں۔
یہاں کوئی اللہ رکھا ، رابرٹ اور نندن کو گالیاں دینے کے لئے نہیں تھا کہ انہوں نے رحیم کو جہنمی بنا دیا ہے۔ کوئی رابرٹ کا ماما سالو من موجود نہیں تھا جو نندن اور رحیم کو الزام دھرتا کہ انہوں نے رابرٹ کی زندگی اور آخرت دونوں برباد کر دئے ہیں۔ کسی شنکرا پہلوان کی دھمکیاں نہ تھیں کہ رابرٹ اور رحیم نے نندن کا دھرم نشٹ کر دیا ہے اس لئے وہ اپنے گرز سے ان دونوں کی ہڈیاں توڑ ڈالے گا۔
یہاں صرف ایک جذبہ اخوت اور الفت تھا، ان تینوں میں سے کسی کے حلق میں دوسرے کے بغیر نوالہ نہیں اتر سکتا تھا!
بھوک میں پیٹ بھرنے کی ایک ابدی مسرت جو انسان کو اپنے لئے ہوتی ہے وہ مسرت جو ہر خوشی کا سر چشمہ ہے۔ وہ مسرت رحیم، رابرٹ اور نندن کا پیٹ بھرنے میں محسوس کرتا تھا اور نندن، رحیم اور رابرٹ کا پیٹ بھرنے میں جیسے ان تینوں کے پیٹ مل کر ایک ہی پیٹ تھا۔

تلیہ گاؤں میں زبردست سیلاب آ گیا ، سینکڑوں آدمی مر گئے ہزاروں بے گھر ہو گئے ، گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔
ہندوستان میں کروڑوں آدمی بغیر کسی سیلاب کے آئے ہوئے بے گھر ہیں۔ لاکھوں یوں ہی روز مرتے رہتے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں یہ اخبار سیلاب کی جان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ سیلاب آتے ہی ایک ہنگامہ مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ سیلاب جہاں آتا ہے اس جگہ کو برباد کر ہی دیتا ہے، ورنہ وہ سیلاب ہی کیا ہوا۔ گٹر ہو گیا۔ اور کچھ نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بلا گورنمنٹ کے سر منڈھ دیں گے۔ سیلاب کا الزام بھی بے چاری گورنمنٹ پر دھر دیتے ہیں کہ گورنمنٹ نے ملک کے دریاؤں کا مطالعہ نہیں کیا ہے ، اس وجہ سے سیلاب کی روک تھام کا کوئی بندوبست ہی نہیں ہوا ہے۔ ان اخبار والوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ اگر دنیا میں حوادث فطرت کے اسباب اور نتائج کا کہیں عمیق مطالعہ ہوا ہے تو صرف ہندوستان میں۔

ہزارہا سال کے مطالعہ اور فکر کے بعد اگر کوئی اس حقیقت تک پہونچا ہے کہ حوادث فطرت کا سبب خود فطرت ہے اور اس کا مقصد صرف پاپیوں کو نمٹانا اور نیک انسانوں کی فلاح و بہبود ہے تو وہ جگہ صرف ہندوستان ہے۔
یہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہر سیلاب زدہ علاقے کو گورنمنٹ مدد کے لئے پیسہ دیتی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں بےکار سرکاری افسر جن کی گزر معمولی سی تنخواہ میں نہیں ہو سکتی۔ سیلاب زدہ علاقے میں اسی پیسے سے آباد ہو جاتے ہیں۔ سماجی انجمنوں کے لاکھوں کارکن ملک بھر سے کپڑا، پیسہ، کمبل، اناج، اکٹھا کر کے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ اب اگر سیلاب زدہ علاقوں کے بچے سیلاب میں بہہ گئے ہیں تو وہ جمع کیا ہوا مال تو سیلاب میں بہا نہیں سکتے۔ آخر ان کے اپنے بچے بھی تو ہیں، ان کا بھلا بھی ملک اور قوم کا بھلا ہی ہے۔

لاکھوں کروڑوں روپیہ کمانے والے فلم کے ہیرو، ہیروئن کو بھی، موقع ملتا ہے کہ وہ چیریٹی شو کریں، جلوس نکالیں، چندہ جمع کریں، آخر گورنمنٹ ان کو بلیک منی لینے کا پدم شری تو دینے سے رہی۔ قدرت یہی مواقع ان کو فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے بیکس اور مفلس سماج کو پاس سے دیکھ کر یہ سمجھ لیں کہ انسان ہونے سے ہیرو ہیروئن ہونا زیادہ خوش نصیبی کی بات ہے۔
کچھ سیاسی جماعتوں کی قسمتیں تو سیلاب سے اس طرح کھل جاتی ہیں جیسے سیلاب زدوں پر روٹی بند ہو جاتی ہے۔ غرض ہر سیلاب زدہ علاقہ میں دیکھتے دیکھتے جنگل کا منگل ہوجاتا ہے۔ صرف اخبار والوں کو قدرت کا یہ تماشہ نظر نہیں آتا۔

نندن، رحیم اور رابرٹ کو ایسے مواقع پر ایک پتھر سے تین چڑیوں کا شکار مل جاتا تھا۔ سیلاب میں بہا ہوا مال۔ گورنمنٹ کا مال اور سیاسی سماجی انجمنوں کے ذریعے پہونچا ہوا پبلک کا مال، لوٹے ہوئے مال کو نقد کرنے میں ان تینوں کو کوئی مشکل نہیں پڑتی تھی ، کیوں کہ قدرت کا ہر عمل اور نظام مکمل ہوتا ہے۔
لوٹ کا مال خریدنے کے لئے موقع واردات پر بہت سے کاروباری لوگ پہونچ جاتے ہیں، ٹھیکے داروں کے ٹرک جو مصیبت زدوں کی مدد کے لئے گورنمنٹ کا امدادی سامان لے کر جاتے ہیں وہی واپسی میں ان کا لٹا ہوا سامان بھر کر واپس لانے کے کام آ جاتے ہیں۔ اس طرح ان کا ٹرپ خالی نہیں جاتا اور ان کو بھی نقصان نہیں ہوتا۔
لیکن تلیہ گاؤں کا سیلاب نندن ، رابرٹ اور رحیم کو راس نہیں آیا۔ حالانکہ سیلاب بہت بھیانک تھا ، جب یہ تلیہ گاؤں پہونچے تو وہاں ابھی تک سرکاری امداد اور سماجی انجمنیں نہیں پہونچی تھیں۔ ہر جگہ صرف سیلاب کا پانی ہی پہونچا تھا۔ جھونپڑے اور کچے مکانات تو سرے سے نظر ہی نہیں آ رہے تھے، لیکن سیلاب کے پانی میں بہتے ہوئے چھپر، ٹوٹے ہوئے دروازے، ڈبہ اور پتیلیاں، خالی بوتلیں، پرانے کپڑے دیکھ کر تینوں نے اندازہ لگا لیا کہ اس جگہ غریبوں کی پاپ کی بستی ہوگی جو سیلاب سے دھل کر پاک ہو گئی، بکریوں، مرغیوں اور خرگوشوں کی بہتی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر رحیم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر یہ معصوم جانور کس طرح گنہگار ہو سکتے ہیں؟ لیکن نندن یہ راز جانتا تھا کہ یہ جانور بھی اپنے کسی پچھلے جنم کے پاپ کا بھوگ بھگت رہے ہیں۔

کچھ دیر کے بعد ان تینوں کوذرا دور پر ایک بہت بڑا تختہ تیرتا ہوا نظر آیا۔ جب وہ تینوں اس کے پاس تیرتے ہوئے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک مکان کی چھت ہے ، پورے کا پورا مکان پانی کے نیچے ڈوبا ہوا ہے۔
چھت لرز رہی تھی جس سے تینوں کو احساس ہوا کہ مکان کی بنیادیں دم توڑنے والی ہیں اور کسی وقت بھی سیلاب پورے مکان کو بہا لے جائے گا۔
تینوں نے اپنی جان پر کھیل کر پانی میں غوطے لگائے اور مکان کے دروازے ڈھونڈھنے لگے تاکہ وہ مکان کے اندر داخل ہو سکیں۔ اندر داخل ہونے میں ان کو کچھ مشکل نہیں پڑی کیوں کہ مکان کی کئی دیواریں بہہ چکی تھیں ، سیلاب کے گندے اور مٹیالے پانی کی وجہ سے ان کو مکان کا مال ڈھونڈنے میں بڑی محنت کرنی پڑی۔ لیکن نصیب نے ساتھ نہیں دیا۔ کیونکہ دیواریں ٹوٹنے کی وجہ سے مکان کا تقریباً سارا سامان بہہ گیا تھا۔
موت کا ہر قدم پر خطرہ تھا کیوں کہ آہستہ آہستہ مکان کی بنیادیں جگہ چھوڑ رہی تھیں۔ سانس لینے کے لئے وہ پانی کے اوپر آئے تو ان کے سر مکان کی چھت سے ٹکرا گئے۔ اندر کی چھت اور پانی کے درمیان صرف ایک دو ہاتھ کی جگہ باقی رہ گئی تھی۔ اس جگہ کافی اندھیرے کے باوجود تینوں نے دیکھ لیا کہ ایک لاش روشندان میں پھنسی ہوئی ہے۔ ان تینوں نے مل کر اس کو بڑے احترام سے روشندان سے نکالا۔ یہ ایک عورت کی لاش تھی جیسے ہی انہوں نے لاش کو روشن دان کے باہر گھسیٹا اسی وقت مکان کی چھت کوئی سات آٹھ انچ اور بیٹھ گئی۔ لاش کو احترام کے ساتھ بہا کر یہ لوگ جلدی سے مکان کے باہر نکل جانا چاہتے تھے ، مگر روشن دان کے اندر سے دوسرے کمرے کی چھت نظر آئی اور ایک معصوم بچے کی چیخوں کی آواز سنائی دی۔ بچہ شیر خوار تھا جو ایک تخت پر پڑا ہوا تھا اور لکڑی کا تخت پانی پر تیر رہا تھا۔

چھت کوئی دم میں ہی بیٹھنے والی تھی۔ بس ایک جھٹکا ، اور ان تینوں کی بچہ سمیت پانی کے اندر ہی قبر بن جاتی لیکن کسی کو بھی اپنی موت کا ڈر نہیں تھا۔ یہی فکر تھی کہ شیر خوار بچہ کو کس طرح بچایا جائے۔ نندن جو روشن دان کے سب سے قریب تھا سر ڈال کر روشن دان کے اندر گھسا۔ رحیم نے اس کی ایک ٹانگ پکڑ لی اور رابرٹ نے دونوں ہاتھوں سے روشن دان کے اوپری حصہ کو زور دینا شروع کیا تاکہ اس کو سہارا رہے اور وہ بیٹھنے نہ پائے۔ لکڑی کا تخت جس پر بچہ لیٹا ہوا تھا روشندان سے دور تھا۔ نندن نے کوشش کر کے اس کا ایک پایہ پکڑ لیا اور اس کو اپنی طرف گھسیٹا۔ تخت تیرتا ہوا اس کے پاس آ گیا۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے تخت کو نیچے دبایا اور اپنے آدھے جسم کا زور اس پر ڈال دیا۔ نندن کے وزن کی وجہ سے تخت کا آدھا حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ اور دوسری طرف کا حصہ کسی قدر پانی سے اوپر ہو گیا۔ اس طرح تخت ٹیڑھا ہونے کیوجہ سے بچہ لڑھک کر نندن کی طرف آگیا اور اس نے بچہ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے بیچ گردن سے روک لیا، نندن نے رحیم کو آواز دی اور رحیم نے اس کو اپنی طرف کھینچا۔ الٹے ہاتھ کا زور تخت پر دیتے ہوئے اور سیدھے ہاتھ میں بچہ کو اٹھائے ہوئے جیسے ہی نندن، رابرٹ اور رحیم والے کمرے میں آیا، بچہ والے کمرے کی چھت ایک دم بیٹھ گئی۔ پانی میں زور کا چھپاکا ہوا ، پلک جھپکتے رحیم نے بچہ کو اپنی بائیں بغل میں دبالیا اور اسی ہاتھ سے اس کا مونہہ اور ناک بند کر کے پانی میں ڈبکی لگا دی۔

مکان کے باہر نکلتے ہی رحیم کی سانس پھول گئی تھی اور دم ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے پانی میں ہی بچہ کو رابرٹ کی طرف اچھال دیا ، رابرٹ نے بچے کو دونوں ہاتھوں میں روک لیا، اور بچہ نے چیخنا شروع کر دیا۔ یہ چیخ بچہ کی زندگی کی علامت تھی ، اس کا رونا سنتے ہی تینوں پانی میں پاگلوں کی طرح اچھل کود کرنے لگے، جیسے سڑک کے معصوم بچے گلیوں میں بارش کا پانی بھرجانے کے بعد اچھل کود کرتے ہیں۔

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:01.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں