ناول رام محمد ڈیسوزا - کہانی کی کہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-17

ناول رام محمد ڈیسوزا - کہانی کی کہانی

novel ram mohammad desouza preface
آج سے 60 سال قبل یہ ناول شائع ہوا تھا۔
ادارہ "شمع" کے تمام رسائل (شمع، شبستان، مجرم، بانو، کھلونا) میں اس ناول کا یہ اشتہار شائع ہوا کرتا تھا۔
اشتہار کا متن ہے :
***
مشہور مصنف علی رضا کا ناول "رام محمد ڈیسوزا" جس نے ہندوستان کے کونے کونے میں دھوم مچا رکھی ہے۔ اب اس کا تیسرا ایڈیشن نہایت اہتمام کے ساتھ شائع ہو گیا ہے۔ یہ وہی ناول ہے جسے فلمانے کے لیے محبوب خان بضد تھے۔ کے۔آصف اور راج کپور بےقرار رہے۔ یہ وہی ناول ہے جس کی فلم علی رضا خود دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند کو لے کر بنانا چاہتے تھے۔ یہ ایک ناول ہی نہیں، ایک زخم بھی ہے، نشتر بھی۔ نمی نے اسے فلمانے کے لیے اپنی ساری پونجی کی پیشکش کی اور ناول کے مصنف سے شادی کر لی۔ اس سے اچھا ناولٹ اردو زبان میں آج تک نہیں لکھا گیا۔ ایک بار شروع کر دیں تو ختم کیے بغیر قرار نہیں آئے گا۔ فوٹو آفسیٹ کے حسین طریقے سے شائع کی گئی ہے۔ قیمت: 5 روپے۔ گھر بیٹھے ریکارڈ ڈیلیوری سے منگانے کے لیے آج ہی شمع بک ڈپو، آصف علی روڈ، نئی دہلی - 110002 کے پتے پر چھ روپے کا منی آرڈر بھیج کر ڈاک خانے سے ملنے والی رسید اپنے پتے کے ساتھ ہمیں بھیج دیجیے۔
***
اب ذیل میں اسی ناول کا مقدمہ ، ناول نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں جو اتفاق سے آج ہی کے دن (17/ستمبر) 60 سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔
سن 1955 میں اس کہانی کا بنیادی خیال میرے ذہن میں آیا تھا۔ ایک سال تک اس کے مختلف پہلو اور کردار میرے دماغ میں نشو و نما پاتے رہے۔ 1956ء کے آخر میں میں نے اس کہانی کو مکمل کر لیا۔
مکمل ہونے کے بعد یہ کہانی مجھ پر مسلط ہو گئی اور میں اس کو فلمانے کی دھن میں لگ گیا۔
میں چاہتا یہ تھا کہ اس کے تینوں بنیادی کردار تین نئے اداکاروں کو دوں۔ میں نے ان کرداروں کی خصوصیات کے لحاظ سے ان کا انتخاب بھی کر لیا تھا ۔ لیکن میں خود فلم کے کاروباری پہلو سے بالکل ناواقف تھا اور میں نے کبھی ڈائرکشن کیا بھی نہیں تھا اس وجہ سے کسی فائنانسر نے میری ہمت افزائی نہ کی ۔ کہانی کی تعریف کر کے مجھ کو واپس کر دیتے تھے۔
"ملکۂ جذبات نمّی" کو اڑتے اڑتے اس کہانی کی خبر لگی اور پھر مجھ کو بلا کر میری زبانی بھی تفصیل سے سنی، وہ اس کی گرویدہ ہو گئیں اور مقری فلم آرٹسٹ کی معرفت یہ پیغام بھیجا کہ ان کے پاس جو سرمایہ ہے وہ بغیر کسی شرط کے مجھ کو اس کی فلم بنانے کے لئے دینے کو تیار ہیں۔ اس وقت سے میرے دل میں ان کا ایک بڑا مقام اور منزلت پیدا ہو گئی ، لیکن میں نے ان کی مدد لینا مناسب نہیں سمجھا۔

ٹی تاراچند جواہرات کے بیوپاری ہیں، اور اب بہت بڑے ڈسٹری بیوٹرز بھی۔ انہوں نے مجھ کو رائے دی کہ اگر تینوں کرداروں کے لئے میں دلیپ کمار ، راج کپور اور دیو آنند اور موسیقی کے لئے نوشاد کو رضا مند کر لوں تو وہ جس قدر پیسہ بھی فلم پر خرچ ہو، وہ لگانے کو تیار ہو جائیں گے۔ مجھ کو روشنی کی ایک نئی کرن نظر آئی اور میں اس کوشش میں لگ گیا۔
راج کپور نے جب کہانی سنی تو ان کے دل کو بھی کہانی نے اسی طرح پکڑ لیا جس طرح مجھ کو اسیر کیا ہوا تھا ۔ وہ سمجھے کہ میں کہانی ان کو بیچنے کے لئے سنا رہا ہوں۔ وہ مجھ کو اس کے مونہہ مانگے دام دینے کو تیار ہو گئے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں ان کو بحیثیت آرٹسٹ کے فلم میں کام کرنے کا آفر لے کر آیا ہوں تو وہ کسی قدر مایوس ہوئے، بہرحال وہ ان تینوں کرداروں میں سے کوئی بھی کردار کرنے کے لئے بخوشی تیار ہو گئے، مگر چلتے وقت انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر میں یہ فلم بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا تو یہ کہانی صرف ان ہی کو دوں گا۔ اس وقت مجھ کو یہ بات کسی قدر ناگوار گزری لیکن بعد کو سمجھ میں آئی کہ انہوں نے فلمی دنیا کی سیاسیات اور کاروباری جکڑ بندیوں کی پوری سوجھ بوجھ ہونے کی وجہ سے یہ بات کہی تھی۔

نوشاد سے میری بات ہوچکی تھی اور وہ مجھ سے وعدہ کر چکے تھے لیکن جب میں نے ان کو کہانی سنائی تو وہ مجھ کو سمجھانے لگے کہ میرے لئے کاروباری حساب سے یہ کہانی فلمانا مناسب نہیں ہے ۔ انہوں نے مجھ کو مشورہ دیا کہ میں کوئی اچھی سی محبت کی کہانی فلماؤں جس سے ان کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملے اور یہ کہانی میں محبوب صاحب کو دے دوں۔ نوشاد صاحب مجھ کو اس قدر پیار کرتے ہیں کہ انہوں نے مجھ کو خود اپنی بہت سی کہانیاں سنائیں اور کہا کہ ان میں سے جو کہانی بھی مجھ کو پسند ہو وہ میں مفت لے سکتا ہوں۔۔۔ مگر کہانی ان کو دل سے پسند آئی تھی کیوں کہ دوسرے ہی دن انہوں نے محبوب صاحب کو سنائی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ اسے فلمائیں۔
محبوب صاحب نے کہانی مجھ سے مانگی، مگر میں بضد تھا کہ اس کو خود ہی اپنے تصورات کے عین مطابق فلماؤں گا ۔ اور اگر نہ فلما سکا تو راج کپور کو ہی دوں گا۔ میں محبوب صاحب کے یہاں نوکر تھا۔ میرے لئے ان سے انکار کرنا کچھ آسان کام نہ تھا لیکن میں نے صاف صاف بات کہہ دی اس دن سے ان کے دل میں میرے لئے ایک رنجش بھی پیدا ہو گئی۔
نوشاد کے انکار سے میرا دل ایک دم ٹوٹا نہیں کیوںکہ مجھ کو یہ یقین تھا کہ دلیپ کمار میرا ساتھ دیں گے تو نوشاد راضی ہو جائیں گے ۔

راج کپور ایک سیلاب ہے ایک بگولا ہے ایک زلزلہ آگیں جذبہ ہے۔ دلیپ کمار عقل مجسم ہے ، ان دونوں سے میری ملاقات اور پھر دوستی "انداز" کے زمانے میں ہوئی تھی۔ لیکن راہ و رسم دلیپ سے ہی زیادہ بڑھی۔ دلیپ کمار کو کہانیاں بنانے کا بھی بےحد شوق ہے ۔ سنٹرل اسٹوڈیو کے لان پر بیٹھ کر ہم نے مہینوں کنٹین کی چربی میں فرائی کی ہوئی کچی مٹن چانپ کھائی تھیں اور درجنوں کہانیاں ایک دوسرے کو سنا ڈالی تھیں۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ زندگی میں کبھی نہ دلیپ کی کوئی کہانی مجھ کو پسند آئی ہے اور نہ میری کوئی کہانی ان کو۔ اس کے باوجود بھی ایک کم زور لمحہ میں انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب میں فلم بناؤں گا تو وہ اس میں ضرور کام کریں گے ۔

دلیپ کو کہانی سنانے کی نوبت ہی مشکل سے آئی۔ ان کو سرے سے یہ خیال ہی نامناسب لگا کہ وہ راج اور دیو کے ساتھ برابر کے کردار ادا کریں۔ وہ کوشش میں تھے کہ فلمی دنیا میں صرف ان کا طوطی بولے ، کاروباری حساب سے وہ اپنا واحد اور بلند ترین مقام پیدا کرنے کی جدوجہد میں تھے۔ اس میں وہ بالکل حق بجانب ہیں، مجھ کو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دن افق فلم پر ان سے زیادہ درخشاں ستارہ کوئی نہ ہوگا۔ مجھ کو یہ بتانے میں بھی تامل نہیں ہے کہ ان کو میری کہانی نے متاثر بھی نہیں کیا۔ اور کہانی کے معیار کے بارے میں ہماری پرانی زنجیر کی کڑی ٹوٹی نہیں ۔ دلیپ اپنے اور اپنے کاروبار کے بیچ میں اپنے خدا کو بھی نہیں آنے دیتے ، علی رضا کو کیا جگہ ملتی۔ لیکن تارا چند اور اس پروجیکٹ کے بیچ میں دلیپ کا ایک اہم مقام تھا۔ دلیپ کے انکار کے بعد ان کا بھروسہ ٹوٹنے لگا۔

اور آہستہ آہستہ میرے قدم بھی شل ہونے لگے۔ اس پراجیکٹ میں تارا چند نے صرف زبانی دلچسپی نہیں دکھائی تھی بلکہ میرے بھروسے پر پیسہ بھی خرچ کیا تھا جو اب تک مجھ پر ذاتی قرض ہے ۔ اس منزل پر مجھ کو معلوم ہوا کہ ٹی تارا چند کی دلچسپی کے پیچھے نمی کی کارفرمائی تھی۔
راج، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ایک سیلاب ہے جو بلائے بے درماں کی طرح آتا ہے ۔ کہانی ان پر اس طرح چھا گئی تھی کہ سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے وہ ہر جگہ اور ہر شخص کو یہ کہانی سنانے لگے۔ یہاں تک کہ ایکدن اندرا گاندھی کو بھی سنا ڈالی۔ اس طرح فلم انڈسٹری میں کہانی کا چرچا ہو گیا۔

میں نے آصف صاحب کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا ہے لیکن میرے دل میں بحیثیت انسان کے ان کے لئے بہت بڑا مقام ہے اور وہ بھی مجھے عزیز رکھتے ہیں۔ وہ کہانی پر میری تنقید کے بہت قائل ہیں، جب بھی ملاقات ہوتی ہے کوئی نہ کوئی کہانی سناتے ہیں کیوں کہ وہ کہانی کے بارے میں میری بے باک رائے کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے کسی سے یہ کہانی سنی اور کہانی کے تاثر نے ان کو اس طرح کھڑا کیا کہ وہ ایک دن میرے بھائیکلہ کے گھر پر آ گئے ۔ میں دن کا کھانا کھا رہا تھا۔ دوازے کی گھنٹی بجی ، دیکھا تو آصف صاحب پتہ پوچھتے پوچھتے ہوئے چلے آ رہے ہیں۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ میں نے کہا:
" آئیے" کہنے لگے:
"میں کچھ مانگنے آیا ہوں، ہاں کیجئے تو اندر آؤں گا۔ ورنہ دروازے سے لوٹ جاؤں گا۔"
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ 'رام، محمد، ڈیسوزا' کی بات کریں گے، میں نے وعدہ کر لیا، وہ اندر آئے اور کہانی کی بات کی۔

میں اس زمانے میں بے حد تنگ دست تھا اور مجھ پر بہت قرضہ بھی ہو گیا تھا ۔ آصف صاحب نے مجھ کو یقین دلایا کہ وہ نہ صرف مجھ کو اس کے مونہہ مانگے دام دیں گے بلکہ تارا چند کا پورا قرضہ بھی ادا کر دیں گے ۔ اور اس فلم کو دلیپ، راج اور دیو کو لے کر ہی بنائیں گے ۔ جو کام شاید راج کپور بھی نہ کر سکے گا ، کیوں کہ وہ خود آرٹسٹ ہے اور فلم ڈائرکٹ بھی خود کر لے گا ، اس وجہ سے شائد دوسرے آرٹسٹ اس کے ساتھ کام نہ کریں۔ میں نے ان سے اپنی تمنا اور راج سے وعدہ کی بات بتا کر معذرت کر دی لیکن وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ خود راج سے بات کر کے اسے رضامند کر لیں گے ۔

فلمی کہانی کی قسمت یہ ہے کہ جو کہانی دلیپ محبوب کے لئے لاکھ روپے کے برابر ہو ، شانتا رام کے لئے اس کی قیمت دو کوڑی کی نہیں ہوتی۔ شانتا رام کے لئے جو کہانی بے پناہ ہے وہ ایس مکرجی کیلئے ایک حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اس کہانی کے تقریباً سب ہی گرویدہ تھے جب ایس مکرجی نے یہ کہانی سنی تو مجھ کو بلا کر اپنی کمپنی میں بنانے کا آفر دیا لیکن فلم کو ہٹ کروانے کے لئے جو تبدیلیاں انہوں نے مجھ کو تجویز کیں وہ میرے لئے ناقابل قبول ہوئیں اور میں نے انکار کر دیا۔

ابھی کچھ دن ہوئے آصف صاحب سے پھر ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھ کو مشورہ دیاکہ اس کہانی کو میں ایک کتابی صورت میں شائع کرا دوں کیونکہ اس کا چرچا پوری فلم انڈسٹری میں ہو رہا ہے ۔ اور انڈسٹری میں کچھ ایسے دیدہ دلیر بھی ہیں جن کی جسارت قابل داد ہے ۔ مگر یہ کہانی اتنے لوگ سن چکے ہیں کہ مجھ کو یقین ہے کہ کوئی اس کو بغیر میری اجازت کے فلما نہیں سکتا۔ اس وجہ سے مجھ کو آصف صاحب کے خیال سے اتفاق نہیں ہوا ۔
لیکن دو ایک دن کے بعد اچانک میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ممکن ہے کہ کتابی شکل میں شائع ہونے کے بعد یہ کسی ایسے اہل نظر کی نظر سے گزرے جو مجھ کو میرے خوابوں کی تعبیر دے دے ، اس خیال کے آتے ہی میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو ایک ناولٹ کی شکل میں لکھ کر شائع کروا دوں۔

علی رضا
6۔ اسٹار مینشن اے کرائسسٹ
چرچ روڈ، بھائیکلہ۔ بمبئی
17/ ستمبر 1958ء

Novel Ram Mohammad Desouza, Preface.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں