ناول رام محمد ڈیسوزا - تیسرا ایڈیشن - کہانی کی کہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-19

ناول رام محمد ڈیسوزا - تیسرا ایڈیشن - کہانی کی کہانی

ram-mohammad-desouza-ali-raza
مشہور مصنف علی رضا کا ناول "رام محمد ڈیسوزا" آج سے 60 سال قبل شائع ہوا تھا۔ ادارہ "شمع" کے تمام رسائل (شمع، شبستان، مجرم، بانو، کھلونا) میں اس ناول کا اشتہار شائع ہوا کرتا تھا۔
ذیل میں اسی ناول کے تیسرے ایڈیشن کا مقدمہ ، ناول نگار کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں جو یکم اکتوبر 1969 کو تحریر کیا گیا تھا۔

ناول کے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ : کہانی کی کہانی
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1958ء میں چھپا تھا ، دوسرے کی نوبت گیارہ برس بعد مارچ 1969ء میں آئی۔ اس گیارہ سال میں مجھ کو معلوم بھی نہیں ہوا کہ کتاب کس نے خریدی اور خریدی تو پڑھی بھی کہ اس سے چائے بنائی یا خود اس کی پڑیاں بنائیں۔ کوئی خیر خبر ہی نہیں ملی۔
لیکن تیسرا ایڈیشن دوسرے ایڈیشن کے تین چار ماہ بعد ہی شائع ہو رہا ہے ، اور اس تین چار ماہ کے عرصہ میں جو مقبولیت اس کتاب کو حاصل ہوئی ہے وہ کسی بھی ادیب کے لئے باعث فخر ہے ۔
ہندی، گجراتی، سندھی اور بنگالی ناشروں کے خط پر خط چلے آ رہے ہیں کہ وہ اس کتاب کو اپنی زبانوں میں شائع کرنا چاہتے ہیں۔ اور اب یہ کتاب ان زبانوں میں شائع ہو رہی ہے۔
ہندوستان کے چوٹی کے ڈاکومینٹری فلم کے پروڈیوسر ڈائرکٹر سکھدیو قومی یکجہتی پر بچوں کی فلم بنانے کے لئے کتاب کے اس دیباچہ کے حقوق لینے آ گئے جو میری بیوی نے لکھا ہے ۔
ملک کے کونے کونے سے تعریفی خطوط تو اس طرح آنے لگے جیسے میں کوئی بڑا ہیرو بن گیا ہوں۔

پٹنہ کے شاعر جمیل مظہری نے ہوائی جہاز میں اپنے کسی ہم سفر سے لے کر جہاز میں ہی پڑھ ڈالی اور ان کو محسوس ہوا:
" اگر ہندوستان کے کچھ لوگ بھی اس پر عمل کریں تو یہ ملک دنیا کے لئے ایک نمونہ بن سکتا ہے ۔"

ہندی کی ادیبہ، ویدانتی مہریش نے لکھا کہ:
"بڑے بڑے پنڈت ،مولوی اور پادری جو آج تک اس مسئلہ کو لے کر سر پھوڑتے رہے اور انسانیت سے دور بھاگتے رہے ان کو آپ نے راستہ دکھایا ہے"۔

انڈین موشن پکچرز ایکسپورٹ کارپوریشن کے چیرمین طارق صاحب نے "ایک بار نہیں کئی بار پڑھی۔۔۔" ان کا خیال ہے کہ "اس کا فلم بنانا ایک قومی خدمت ہوگی۔"

ریاض نامی بمبئی کا ایک نوجوان میری "زیارت" کرنے میرے گھر آ گیا۔ "کتاب پڑھ کر میری آنکھ سے چار آنسو ٹپکے، چوتھا آنسو شاید جیا کے اچھوت بھگوان کے نام تھا۔"

ہریانہ کے چنن سنگھ ورک نے محسوس کیا کہ"یہ ناول چراغ راہ ہے۔"

کلکتہ کے ریلوے انجینئر ایس۔ بی حسن کا خیال ہے کہ "رام محمد ڈیسوزا کو ہندوستان کے ہر بچہ کے لئے پڑھنا قانونی قرار دینا چاہئے۔"

گلمرگ کے حسین شاہ اس کو "دنیا کی تمام مذہبی کتابوں کی روح" سمجھتے ہیں۔

کوئمبٹور کے سورج نرائن سنہا نے "مذہب کا مقصد" رام محمد ڈیسوزا پڑھ کر سمجھا۔

غرض شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو جہاں سے مجھ کو تعریف کے خطوط نہ آئے ہوں۔
کتاب کا دوسرا ایڈیشن ختم ہونے کے بعد جب لوگوں کو یہ کتاب دوکانوں پر دستیاب نہیں ہوئی تو وہ "عبارت" کے دفتر پر آنے لگے اور اتنی تعداد میں آنے لگے کہ مجھ کو اخبارات میں اشتہار دے کر ان کو منع کرنا پڑا کہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن ختم ہو چکا۔ کتاب کی مقبولیت کا یہ معجزہ کیسے واقع ہوا اس کی بھی ایک کہانی ہے ۔

دوسرا ایڈیشن ابھی تیار ہو کر آیا ہی تھا کہ ادریس دہلوی مدیر "شمع" میرے گھر آئے۔ ان کی خاطر کرنے کے لئے کچھ نہ تھا تو میں نے ان کو رام محمد ڈیسوزا کے کچھ حصے ادھر ادھر سے پڑھ کر سنائے انہوں نے بیچ میں ہی ٹوک کر مجھ سے معذرت چاہی کیوں کہ وہ میرے گھر سے سیدھے ایرپورٹ جانے والے تھے۔ اور جہاز کا وقت ہوگیا تھا میں سمجھ گیا کہ میں نے ان کو جی بھر کے بور کیا۔ میرا دل رکھنے کے لئے وہ کتاب کے بغیر بندھے ہوئے جزو ساتھ لے کر چلے گئے کہ جہاز میں پڑھیں گے ۔ لیکن دلی پہونچنے کے بعد بھی ان کا کوئی خط نہ آیا ، مجھ کو سخت غصہ آیا اور جب یہ غصہ اپنے شباب پر تھا تو اچانک ادریس صاحب کے تاثرات شمع میں شائع ہونے لگے ۔
مجھے اس بات کا اقبال کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ میری اس ناولٹ کی مقبولیت کا معجزہ "شمع" کی بے پناہ مقبولیت اور ادریس کا خلوص ہے۔ ایک خط میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ شمع نے آج تک کسی کتاب کی اتنی زبردست پبلسٹی نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاید کوئی اور کتاب اتنی حق دار تھی بھی نہیں۔

کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ادریس صاحب خود اپنی سرپرستی میں شائع کروا رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اگر ان کا جوش اسی طرح قائم رہا تو ہندوستان میں کوئی کتاب اتنی زیادہ تعداد میں نہیں بکی ہوگی جتنی یہ ناول۔

علی رضا
یکم اکتوبر 1969ء

Novel Ram Mohammad Desouza, Preface 3rd Edition.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں