ناول رام محمد ڈیسوزا - تعارف اور تاثرات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-09

ناول رام محمد ڈیسوزا - تعارف اور تاثرات

ram-mohd-desouza-intro
مشہور مصنف علی رضا کا ناول "رام محمد ڈیسوزا" آج سے 60 سال قبل شائع ہوا تھا۔ ادارہ "شمع" کے تمام رسائل (شمع، شبستان، مجرم، بانو، کھلونا) میں اس ناول کا اشتہار شائع ہوا کرتا تھا۔
ذیل میں اسی ناول کا تعارف ، جناب صفدر آہ کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں۔

ناول کے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ : کہانی کی کہانی
ناول کے تیسرے ایڈیشن کا مقدمہ : تیسرا ایڈیشن - کہانی کی کہانی
ناول کا ایک اور مقدمہ : حرف دوم
ناول کا دیباچہ : ناول رام محمد ڈیسوزا - دیباچہ - سردار جعفری
بیس سال ہوئے علی رضا تعلیم یافتہ ذہن ، روشن دماغ، اور ترقی پسند شعور لئے ہوئے فلم میں آئے ۔ اور چند ہی سال میں ہندوستانی اسکرین کے صف اول کے ڈراما نگار بن گئے۔
علی رضا کی ترقی عام فلمی عروج کی طرح اتفاقیہ نہ تھی۔ انہوں نے اپنے وسیع مطالعے کی روشنی میں فلم اور اس کی ضروریات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اور اپنی ذہانت سے فلم میں اعلی اور معیاری ادب پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ خوش قسمتی سے ان کی فلمی تربیت کا زمانہ ڈائریکٹر محبوب کے ساتھ گزرا ۔ جو نئے رجحانات کے سب سے بڑے سرپرست تھے ۔ محبوب مرحوم کے قریب رہ کر علی رضا کو ادب اور باکس آفس کے امتزاج کو سمجھنے کا بہترین موقع ملا۔ اور معیاری ادب کو عوامی کامیابی کے سانچوں میں ڈھال دینے کا گر انہیں اچھی طرح معلوم ہوگیا۔۔۔ آج فلمی حلقے میں علی رضا گنے چنے اہل قلم میں ہیں جو فلم کا آرٹ اور فلم کی کامیابی کے رموز صحیح معنوں میں سمجھتے ہیں ۔ انداز۔ آن۔ مدر انڈیا، سرسوتی چندر، جیسی مختلف اور متضاد مزاج و فضا کی فلمیں بے انتہا کامیابی سے لکھ کر انہوں نے فلمی دنیا میں اپنی قابلیت کی دھاک جمالی ہے ۔
علی رضا کا تہذیبی پس منظر، شعوراور رجحان ان کی ہر تخلیق میں موجود رہتا ہے ۔۔۔ ان کی شرافت نفس، ان کا صحت مند تفکر اور ان کی پر خلوص انسان دوستی، ان کے فن کے عناصر ثلاثہ ہیں۔علی رضا کی کہانی اور منظر ناموں میں ایک ایسی پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے ۔ جو عام فلموں سے کافی الگ اور مختلف ہوتی ہے ۔ وہ عوامی پسند اور باکس آفس کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ لیکن ان کے لئے اپنے اعلیٰ ذوق اور نظریوں سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔
علی رضا میں وہ تمام صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہیں جو ادب میں بھی ان کو ایک بلند مقام دے سکتی ہیں۔ لیکن غالبا ً فلمی مصروفیات کی وجہ سے ابھی تک وہ ادبی ، تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے تھے ۔ زیر نظر ناولٹ "رام محمد ڈیسوزا" ان کی پہلی ادبی تصنیف ہے ۔
کہانی چونکہ فلم کے لئے لکھی گئی تھی۔ لہذا اس ناول سے زیادہ ڈرامائی رنگ موجود ہے۔ لیکن علی رضا کے ترقی پسند اور بامقصد ذہن کی اپج اس کے ہر کردار اور ہر واقعے میں نظر آتی ہے ۔
یہ ایک مثالی کہانی ہے جس میں انسانی وحدت پر نندن رحیم اور رابرٹ کے غیر فطری مذہبی خیالات نے تقسیم کے فرضی خطوط کھینچ دئیے ہیں۔ اس تقسیم سے پیدا ہونے والی تضادیت (CONFLICT) سے پلاٹ میں ایک با مقصد اور دل چسپ کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے اور کہانی ایک طوفان کی طرح آگے بڑھتی ہے ۔
انسان ہندو مسلمان یا عیسائی نہیں۔۔۔ وہ بہ حال انسان اور صرف انسان ہے ۔ مذاہب سکھائے ہوتے سبق ہیں ۔ جن کو اصلیت سے کوئی واسطہ نہیں ، یہی ہم علی رضا کی اس کہانی میں بھی دیکھتے ہیں۔
جب پلاٹ کی تضادیت اور ٹکراؤ کافی آگے بڑھ چکا ہے تو اس میں انسانیت ایک معصوم بچہ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے ۔ اور تینوں مذہب کے دیوانوں کے دلوں میں محبت کی روشنی کردیتی ہے محبت کے آتے ہی تقسیم کے فرضی خطوط اور افتراق کا غیر فطری بٹوارہ غائب ہوجاتا ہے ۔ اور نندن۔ رحیم۔ اور رابرٹ ، ایک ہوجاتے ہیں۔ جس طرح جدید مصور ،بھدے خطوط میں زندگی کی لطیف حقیقتوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ علی رضا نے بھی توحید انسانیت کے اعلی خیال کو تین غنڈوں کے گرداروں میں پیش کیا ہے اور اس طرح تیکھے طنز کی پھلجھڑیاں چھوڑنے کے انوکھے موقع نکالے ہیں۔۔ کہانی کے تینوں غنڈے کرداروں نے مذہب کو جس طرح سمجھا اور دیکھا ہے اسے وہ اپنے اجڈ اور بھدے انداز میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں کہ متین سے متین قاری ہنس دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ غنڈوں کی جگہ اگر مصنف نے پنڈت ، مولوی اور پادری کے کردار لئے ہوتے تو یہ بات کبھی پیدا نہ ہوسکتی۔
یہ غنڈے معاشرے کے بدترین افراد ہیں ، لیکن مصنف نے انہیں اس انداز سے پیش کیا ہے کہ ہم ان سے نفرت کی جگہ محبت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ خود سراپا شر ہیں۔ لیکن ان کے دل کی بنیادی نیکی، ان کے ہر فقرے میں جھلک اٹھتی ہے ۔ میں اس کہانی کو ایک بہ ترین ادبی اور فلمی کہانی سمجھتا ہوں ۔۔۔ اور میری دلی تمنا ہے کہ کتاب کی طرح یہ جلد سے جلد اسکرین پر بھی پیش ہو جائے ۔
صفدر آہ

تاثرات
علی محمد طارق
(چیرمین انڈین موشن پکچرز ایکسپورٹ کارپوریشن لمٹیڈ، بمبئی)
"رام محمد ڈیسوزا" میں نے ایک بار نہیں کئی بار پڑھی۔ اس کی فلم بنانا ایک ملکی اور قومی خدمت ہے ۔

پروفیسر احتشام حسین
"رام محمد ڈیسوزا" ہندوستانی سماج کی فرقہ وارانہ تقسیم اور مذہبی پس منظر کے لئے ایک چیلنج ہے ۔

وجاہت دہلی ایڈوکیٹ، سندیلہ
"رام محمد ڈیسوزا" درجہ اول کی زندہ جاوید تصنیف ہے ۔

خواجہ عبدالغفور، آئی اے، ایس
مستقبل حال میں اور ماضی میں تبدیل ہوتا ہی رہے گا ۔ وقت دریا کی طرح بہتا رہے گا۔ نئے انسان اس دنیا میں آتے رہیں گے ۔ مذہب کے جھگڑے ہمیشہ ہی نت نئے روپ میں کھڑے ہوا کریں گے ۔ روشنی تاریکی پر غالب آتی رہے گی لیکن"رام محمد ڈیسوزا" ہمیشہ ہمیشہ مشعلِ راہ بنارہے گا۔

اے۔ اے ا۔ اے فیضی، بمبئی
"رام محمد ڈیسوزا" بڑی حسین کہانی ہے ۔ اور ایک سبق ہے جو ہم سب کو یاد کرنا ہ۔

روزنامہ سیاست حیدرآباد
ملک سے بے جا تعصبات اور اوہام کو دور کرنے کے لئے"رام محمدڈیسوزا" ایک نمایاں مثال ہے ۔

روزنامہ انقلاب بمبئی
علی رضا نے اپنے قلم کی نوک سے مذہبی تعصبات اونچ نیچ اور فرقہ واریت کے عفریت پر گہرے نشتر لگائے ہیں۔

پدما شری نرگس
"رام محمد ڈیسوزا" انسانیت کا شوالہ ہے ۔

راج کپور
میری تمنا ہے کہ"رام محمد ڈیسوزا" کا پیغام سلولائیڈ کے ذریعہ انسانیت تک پہنچا سکوں۔

پدم شری سنیل دت
"رام محمد ڈیسوزا" ہندوستان کے باسیوں کے لئے ایک پیغام ہے ۔

راج کمار
انسانیت کا سبق حاصل کرنا ہے تو رام محمد ڈیسوزا سے حاصل کیجئے۔

Novel Ram Mohammad Desouza, 5th Preface by Safdar Aah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں