نک ویلوٹ یوں تو ایک چور ہے لیکن کیسا چور؟
اسے ایک بےمثال چور کہنا مناسب ہوگا۔ وہ ہمیشہ ایسی چیزیں چراتا ہے جو بظاہر قطعی بےقیمت کہی جا سکتی ہیں۔ روپیہ پیسہ ، ہیرے جواہرات ، قیمتی شہ پارے وغیرہ کی طرف تو وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔۔۔ ہر بےقیمت چیز چرانے کے لیے آپ بھی اس کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ میں اتنی سکت ہو کہ آپ بیس ہزار ڈالر اس کی فیس ادا کر سکیں جسے وہ اپنی اصطلاح میں معاوضہ کہتا ہے۔
نک ویلویٹ کی ایک کہانی "کلینڈر کی چوری" تعمیرنیوز پر پیش کی جا چکی ہے۔ اب یہ دوسری کہانی حاضر خدمت ہے۔
"آپ چیزیں چراتے ہیں نا؟"
نک ویلوٹ نے ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر بکھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا: "صرف خوبصورت دوشیزاؤں کے دل"۔
پلیزمذاق مت کیجئے۔ میں معاوضہ ادا کر سکتی ہوں۔
واقعی؟ تو آپ کیا چیز چوری کروانا چاہتی ہیں؟
ایک سوئمنگ پول کا پانی!
وہ برابر مسکراکر اسے دیکھ رہا تھا ، مگر اس کے ذہن کے ایک گوشے میں یہ خواہش ابھر رہی تھی کہ کاش اس وقت وہ گلوریا کے ساتھ بیرونی پورچ پربیٹھا ہوتا اوران کے سامنے یخ بستہ بیئر رکھی ہوتی۔ یہ امیروں کی عادتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔
"تو آپ وہ پلگ نکال دیں جس کے ذریعے پانی اس میں بھرا جاتا ہے۔
لڑکی نے جس کا نام ایشر مونٹ تھا، غصے سے سگریٹ پیروں تلے مسل دیا۔
دیکھئے مسٹر ویلوٹ، میں نے آپ کو یہاں اس لئے نہیں مدعو کیا کہ آپ بات کو یوں ہنسی میں اڑا دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ عجیب و غریب چیزیں چراتے ہیں۔ منفرد چیزیں اور آپ کا معاوضہ 20 ہزار ڈالر ہوتا ہے۔ٹھیک ہے ؟
بالکل! اس نے کہا: "آپ کو یہ باتیں جن ذرائع سے بھی معلوم ہوئی ہیں، بہر حال یہ درست ہیں"۔
تو آپ؟
ہاں ، کیا؟
"سیموئیل پیٹرک کے سوئمنگ پول سے پانی چرا دیں گے؟"
اپنی پیشہ وارانہ زندگی کے دوران نک ویلوٹ کو بے شمار لوگوں سے سابقہ پڑا تھا اور اسے عجیب و غریب اشیاء کی چوری کے لئے مامور کیا جاتا رہا تھا۔ ایک بار اس نے ایک چڑیا گھر سے شیر اور ایک عجائب گھر سے شیشے والی کھڑکی چرائی تھی۔ اس کا معاوضہ بیس ہزار ڈالر اور کام زیادہ کٹھن ہو تو وہ اضافی دس ہزار بھی وصول کرتا تھا اور اس پیشے میں وہ اپنی قسم کا بے مثال چور تھا۔
"اس مخصوص کام کی نوعیت میرے لئے عجیب ہے۔"
اس نے لڑکی سے کہا، اس کے بال سنہرے اور شانوں تک کٹے ہوئے تھے۔ وہ لڑکی کچھ اس قسم کی تھی کہ اگر وہ اسے اپنے آبائی گاؤں گرین میں دیکھتا تو متعجب نہ ہوتا مگر اس وقت وہ ایک استقبالیے میں بیٹھی کاک ٹیل پیتی ہوئی اس ماحول سے الگ لگ رہی تھی ، البتہ اس کا لباس جو چمکدار ساٹن کا تھا وہ اس پارٹی کا ہی ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ مخصوص نوعیت کے ہی کام لیتے ہیں۔
ہاں۔۔۔ آپ یہ کام کب کروانا چاہتی ہیں؟ اور یہ جگہ کہاں ہے ؟
اس نے چسکی لیتے ہوئے چاروں طرف دیکھا کہ کوئی ان کی باتیں تو نہیں سن رہا ہے، پھر بولی:
"یہاں سے بیس میل دور کنکٹی کٹ میں سیموئیل پیٹرک کی جائداد ہے، میں آپ کو وہاں لے جانے کے لئے کوئی بہانہ نکال لوں گی، اس کے بعد سارا کام آپ کو خود کرنا ہوگا۔ البتہ یہ کام اگلے ہفتے کی ہفتہ وار تعطیل سے پہلے ہو جانا چاہئے۔ یعنی 4/جولائی سے پہلے۔
میں اب بھی آپ کو مشورہ دوں گا کہ پلگ نکال دیں ، آپ کے بیس ہزار ڈالر بچ جائیں گے۔
آپ میرا مطلب نہیں سمجھ رہے ہیں مسٹر ویلوٹ۔ مجھے سوئمنگ پول کا پانی چاہئے، میں اس پو ل کا سارا پانی حاصل کرنا چاہتی ہوں۔
کیا یہ کسی قسم کی شرط ہے؟
اس نے پوچھا۔ اس کی سمجھ میں کوئی اور بات آہی نہیں رہی تھی۔
ایشر نے اپنی خوبصورت پنڈلیاں میز کے نیچے ہلائیں اور سگریٹ کا کیش لے کر بولی: میرا خیال تھا کہ آپ کو اس کام کی غرض و غایت سے کوئی دلچسپی نہ ہوگی۔
بالکل نہیں ہے۔ میں تو یونہی تجسس سے مجبور ہو گیا تھا۔
کل صبح آپ میرے ساتھ سیموئیل کی جائداد پر چل سکیں گے ؟
ضرور، مگر یہ سیموئیل پیٹرک ہے کون؟ نام کچھ جانا پہچانا سا لگتا ہے۔
وہ جرائم کی کہانیوں کا خالق اور ایسی ہی فلموں کا فلمساز ہے، اس کی دو فلمیں بہت کامیاب ہوئی ہیں اور ٹیلیوژن پر بھی اس نے ایک بے حد کامیاب سیریز پیش کی ہے۔ اس کا نام پیارا قاتل تھا، آپ کو یاد ہے ؟
میں باوجود کوشش کے فلمیں نہیں دیکھ پایا۔ نک نے اعتراف کیا۔
لیکن میں نے سیموئیل کا نام سنا ہے بس مجھے اتنا ہی معلوم کرنا تھا ، اس سے گفتگو کا موضوع تو مل جائے گا۔
"تو پھر آپ سے صبح ملاقات ہوگی؟"
"چونکہ یہ سراسر کاروباری معاملہ ہے مس ایشر۔ لہذا پیشگی پانچ ہزار تو عنایت کیجئے، باقی کام مکمل ہونے پر"۔
وہ بڑے اطمینان سے بولی: ٹھیک ہے ، کل مل جائیں گے۔
نک اسے چھوڑ کر باہر آ گیا۔ بیرونی ہال سے اس نے گلوریا کا نمبر ڈائل کیا۔
کیا حال ہے؟
ٹھیک ہے۔تم گھر آ رہے ہو؟
کچھ دنوں بعد۔ ممکن ہے ایک ہفتہ لگ جائے ، ہم کنکٹی کٹ جا رہے ہیں۔
اوہ! تو تم 4/ جولائی کو یہاں نہیں ہوگے؟
ممکن ہے مگر میں اس وقت تک واپس آنے کی پوری کوشش کروں گا۔
چند اور باتیں کر کے اس نے فون رکھ دیا۔ اکثر گرمیوں کی راتوں میں جب وہ اور گلوریا پورج پر بیٹھے باتیں کر رہے ہوتے تو اس کا جی چاہتا کہ وہ یہ کام چھوڑ دے اور کوئی ملازمت کر لے مگر پھر ایشر جیسا کوئی شخص اسے دوبارہ پیشکش کر بیٹھتا۔ معاوضہ بھی خاصا تھا اور پھر کام کی نوعیت بھی مہارت طلب تھی۔ وہ چور تھا اور اسے احساس تھا کہ وہ عمر بھر یہ پیشہ تبدیل نہیں کر پائے گا۔
ایشر اسے ایک چھوٹی سے سفید اسپورٹس کار میں لینے آئی۔ چھت ہٹا دی گئی تھی اور اس کے لمبے اور سنہرے بال ہوا سے پیچھے اڑ رہے تھے۔ وہ بڑی تیز رفتاری سے کار چلا رہی تھی۔
میرے پرس میں پانچ ہزار ڈالر کا چیک پڑا ہے ، نکال لیجئے۔ اس نے رفتار کو ستر میل فی گھنٹہ پر لے جاتے ہوئے کہا۔
چیک؟ مگر میں چیک کیسے لے سکتا ہوں؟
لے لیجئے۔ میں آپ کے خلاف شہادتیں جمع نہیں کر رہی ہوں، میں اتنی زیادہ رقم لے کر چلنے کی عادی نہیں ہوں ، اور بس۔
میں اسے کام مکمل کرنے سے پہلے کیش کروا لوں گا۔
بالکل۔ آپ ابھی کروا لیں۔ اچھا یہ بتائیے کہ آپ سیموئیل سے کیا کہہ کر ملیں گے۔ میں تو صرف اتنا تعارف کرواؤں گی کہ آپ کو اس کے ڈراموں سے دلچسپی ہے۔
مجھے بتائیے کہ وہ کس قسم کے ڈرامے پیش کرنا پسند کرتا ہے۔ پھر میں خود ہی بات بنا لوں گا۔
وہ بولتی جارہی تھی اور نک کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی دولت مند لڑکی ہے اور کسی قسم کی شرارت میں ملوث ہے۔ بہرحال وہ ایک خوبصورت دوشیزہ تھی۔ اور پھر اسے آج تک سوئمنگ پول سے پانی چرانے کا دلچسپ کام نہیں ملا تھا۔
سیموئیل پیٹرک کا مکان بہت بڑا تھا، جس میں دوہرا گیراج تھا۔ آس پاس جھاڑیاں اور چھوٹے چھوٹے درخت نظر آ رہے تھے۔ ایشر نے گھنٹی بجانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور اسے لے کر مکان کی پچھلی طرف پہنچ گئی ، جہاں باڑھ سے گھیرا ہوا ایک سوئمنگ پول نظر آ رہا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے جس کے سر کے بال تقریباً جھڑ چکے تھے ، گیٹ کھولا۔
ہیلو ایشرا! تم روز بروز خوبصورت ہوتی جا رہی ہو۔
شکریہ سام! وہ بولی اور جلدی سے آگے بڑھ کر اسے پیار کر لیا۔
"یہ وہ صاحب ہیں جن کا میں نے فون پر تذکرہ کیا تھا۔ نک ویلوٹ۔۔۔ اور مسٹر ویلوٹ۔ یہ کیوسیل پیٹرک ہیں"۔
"ویلوٹ؟" سیموئیل نے جھریوں بھرا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: "بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر"۔
وہ انہیں لے کر سوئمنگ پول کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ پول عام اندازہ کا تھا اور اس میں ایک عورت تیراکی کر رہی تھی مگر نک کو اس کا چہرہ نظر نہیں آ سکا۔
"بڑی خوبصورت جگہ ہے"۔ نک نے تعریف کی۔
"مجھے تنہائی بہت پسند ہے۔ قریب ترین پڑوسی بھی یہاں سے ایک میل کے فاصلے پر ہے"۔
"اور یہ سوئمنگ پول تو واقعی بے حد حسین ہے"۔
نک پول کے کنارے پہنچ گیا تھا، اس نے دیکھا کہ ہموار کناروں پر کئی رنگ جھلملا رہے ہیں۔
"یہ کنارا کس چیز سے بنایا گیا ہے؟"
"سنگ سلیمان سے، براڈ وے میں میرا سب سے پہلا ڈرامہ اسی نام سے پیش کیا گیا تھا۔ یہ سوئمنگ پول میرے چند تعیشات میں سے ایک ہے"۔
نک کی سمجھ میں کچھ کچھ آتا جا رہا تھا۔ جب پول سے پانی نکال دیا جائے گا تو سنگ سلیمان کی تہوں کو نکالنا آسان ہوجائے گا۔ نک سوچنے لگا ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ایشر کا محبوب کوئی غریب نوجوان ہو اور اسے پیسوں کی ضرورت ہو۔
عورت سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی ، اس کا جسم اب بھی دلکش تھا۔ ایشر نے تعارف کرایا۔
نک ! یہ سیموئیل کی بیوی لیڈیا ہیں۔ یہ ایک دوست ہیں نک ویلوٹ!
عورت نے پلکیں جھپکائیں اور بڑھ کر اپنا چشمہ میز پر سے اٹھا لیا۔ میں اس کے بغیر اندھی ہو جاتی ہوں۔ اس نے وضاحت کی۔
آپ سے مل کر خوشی ہوئی مسٹر ویلوٹ۔ موسم بہت خوشگوار ہے آج۔
جی ہاں! نک نے تائید کی اور ایک سرخ اور سبز کرسی میں دھنس گیا ، وہ مکان کے عقبی حصے کا جائزہ لے رہا تھا۔ مکان کے پیچھے ایک سڑک تھی جو سنسان معلوم ہوتی تھی ، اس کے ذہن میں ایک منصوبہ ابھرنے لگا۔
میں کچھ پینے کے لئے لاتی ہوں۔ لیڈیا نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔
ویری گڈ! اس کے شوہر نے کہا، اب آپ فرمائیے مسٹر ویلوٹ، آپ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے؟
مجھے آپ کے ڈرامے بے حد پسند ہیں۔ نک نے کہا۔
"خاص طور پر پیارا قاتل! بڑا عمدہ انجام تھا اس کا"۔
سیموئیل کرسی پر پیچھے کو ٹک گیا اور ہاتھ سے اپنے نیم گنجے سر میں کنگھا کرنے لگا۔ براڈوے کے ڈراموں کے لئے اسی قسم کا انجام درکار ہوتا ہے۔
میرے ذہن میں ایک پلاٹ ہے ، شاید آپ کے لئے کچھ مفید ہو۔ نک نے کہا، اس پر پہلے کبھی نہیں لکھا گیا۔
آپ لکھتے ہیں؟
نہیں! اسی لئے ایشر نے کہا کہ مین آپ کے پاس آؤں۔
سیموئیل یوں مسکرایا جیسے اس سے پیشتر بھی یہ سب کچھ سنتا رہا ہو۔ لیڈیا اسکوائش لے کر آئی اور شوہر کے قریب بیٹھ گئی۔
میرے پاس بہت سے لوگ پلاٹ لے کر آتے ہیں۔ سیموئیل نے کہا۔ مگر میں کبھی ان کے ساتھ وقت خراب نہیں کرتا البتہ آپ کی بات ضرور سنوں گا۔ آپ ایشر کے دوست ہیں، یہ لڑکی میرے لئے بیٹی کی طرح ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایشر کا ہاتھ اپنی گرفت میں لے لیا، وہ فوراً مسکرا دی۔
نک نے اسکوائش کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔ یہ ایک بند کمرے میں قتل کا قصہ ہے۔
بند کمروں میں قتل کے ڈرامے اب پرانے ہو چکے ہیں۔
مگر یہ پرانا نہیں لگے گا، نک کوشش کررہا تھا کہ سیموئیل میں شوق پیدا کر سکے۔ بند کمرے میں ایک شخص قتل کر دیا جاتا ہے ، کھڑکیاں دروازے سب بند ہیں اور کمرے کا کوئی خفیہ راستہ بھی نہیں ہے۔
اسٹیج پر بند کمرے کا تصور پیش کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ کمرے کی ایک دیوار ہمہ وقت ناظرین کے سامنے کھلی رہتی ہے۔ بہر کیف۔ آپ آگے بتائیے قتل کس طرح ہوتا ہے؟
نک پیچھے جھک گیا:
"ایک لیزر شعاع کے ذریعے، جو کسی بھی سطح سے گزر جاتی ہے ا ور اسے نقصان نہیں پہنچاتی۔ قاتل بند کھڑکی کے ذریعے یہ شعاع اندر پھینکتا ہے ، اندربیٹھا شخص قتل ہو جاتا ہے اور کمرہ اسی طرح مقفل رہتا ہے"۔
پیٹرک نے تعریفی انداز میں سرہلایا، خیال تو برا نہیں ہے ، مگر میرا خیال ہے یہ اسٹیج سے زیادہ تحریری شکل میں اچھا لگے گا۔ اگر میں اب بھی ٹیلیویژن پر ڈرامے پیش کررہا ہوتا تو اسے ضرور پیش کرتا۔ مجھے ایسے ہی پلاٹ اچھے لگتے ہیں۔
نک اٹھ کھڑا ہوا اور پول کی طرف بڑحا۔ وہ باتیں بھی کرتا جا رہا تھا ، ایک آدھ بار اس نے لیڈیا سے بھی پول کے بارے میں سوال کر لیا، اس کا اندازہ تھا کہ پول میں تقریباً بیس ہزار گیلن پانی آتا ہوگا۔ یہ کسی بھی چور کے لئے بہت کڑی آزمائش تھی اسے معلوم تھا کہ عام طریقے سے پانی نکالنے میں کئی روز درکار ہوں گے۔
چار بجے وہ پیٹرک کے گھر سے رخصت ہوئے، اس نے پیٹرک سے ہاتھ ملا کر وعدہ کیا کہ وہ پلاٹ کے بارے میں مزید سوچ کر اسے بتائے گا۔ پھر وہ ایشر کے ساتھ اسپورٹس کار میں بیٹھا، شہر کی طرف اڑا جارہا تھا۔
اب کیا خیال ہے آپ کا ؟ ایشر نے پوچھا۔
اس نے ایشر کی طرف دیکھ کر کچھ کہنا چاہا مگر پھر خیال بدل دیا۔
"کام تو ہو سکتا ہے" اس نے کہا۔
"وقت مقررہ پر؟"
"ہاں۔ بس مجھے ایک چیز کی ضرورت ہوگی اور چند افراد کی مدد کی۔ آپ کو پورا پانی چاہئے؟"
وہ ایک لمحے کچھ سوچنے لگی، ہر قطرہ تو نہیں مگر اتنا کہ پول خالی ہو جائے۔
مجھے بڑی بے چینی ہو رہی ہے کہ آخر آپ کو پانی کیوں چاہئے؟
آپ کو بیس ہزار ڈالر مل رہے ہیں۔ اس نے یاد دہانی کرائی۔
بس آپ کو اس کے آگے سوچنا بھی نہیں چاہئے۔
میرے ذہن میں کچھ اندیشے آئے ہیں۔ وہ بولا۔
ممکن ہے پول خالی ہونے کے بعد سنگ سلیمان کو چرا لیا جائے۔
اس نے ترچھی نظروں سے نک کی طرف دیکھا۔
تو آپ مجھے کوئی مجرمہ سمجھتے ہیں۔ وہ اصل سنگ سلیمان نہیں ہے اس کی بےحد کامیاب نقل ہے۔
تو پھر پانی کا آپ کیا کریں گی؟ ظاہر ہے آپ کو پول خالی ہونے سے مطلب ہے؟
میں نے آپ کو پانی کی چوری کے لئے مامور کیا تھا۔ سراغرسانی کے لئے نہیں۔
کبھی کبھی دونوں پیشوں کی منطق ایک ہوجاتی ہے۔ نک نے کہا:
بہرحال آپ اتنا تو بتا سکتی ہیں کہ آپ کا پیٹرک اور اس کی بیوی سے کیا رشتہ ہے؟
آپ کا مطلب ہے کہ وہ مجھے بیٹی کیوں کہہ رہا تھا؟ یہ ایک حد تک درست ہے۔ ان کی پہلی بیوی میری پھوپھی تھی۔ میر سمی پیٹرک۔ میرے بچپن کا بیشتر حصہ ان کے گھر میں گزرا ہے۔ دونوں مجھے اپنی ہی بیٹی سمجھتے تھے۔ میرے والدین کا بہت پہلے انتقال ہو گیا تھا مگر میری ممی اور ڈیڈی نے میرے لئے کافی رقم چھوڑی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ پیٹرک کو میری پھوپھی کی جائداد سے بڑی چڑ تھی۔ بہرحال جب اس کا پہلا ڈرامہ بےحد کامیاب ہوا تو ایک رات اس نے اپنی خود مختاری کا اعلان کا مظاہرہ کیا اور پھوپھی اسے چھوڑ کر چلی گئیں۔ یہ دس سال پہلے کی بات ہے اور جب سے اب تک ان کا کوئی اتا پتہ نہیں چلا ہے۔ گو وہ اکثر مجھے کیلیفورنیا کے ایک وکیل کے ذریعے کچھ رقم بھیجتی رہتی ہیں۔
تو کیا پیٹرک نے انہیں طلاق دے دی تھی؟
لڑکی نے سر ہلایا۔ ہاں، چھوڑ کر چلے جانے کی بنیاد پر۔ تین سال پہلے اس نے لیڈیا سے شادی کر لی۔
آپ لیڈیا کو پسند نہیں کرتیں؟
اس لئے کہ وہ میری پھوپھی کی جگہ آئی ہیں؟ ہاں شاید۔
نک لیڈیا کی کمزور بصارت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے تیرا کی کا بھی شوق تھا کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک صبح وہ بھاگتی ہوئی آئے اور پول میں چھلانگ لگا دے اور اس کا جسم پتھریلی سطح سے ٹکرا جائے۔ یا پھر ایسی باتیں صرف جرائم کی کہانیوں میں ہی ہوتی ہیں۔
ایک بات اور۔ نک نے کہا:
"ظاہر ہے پیٹرک کو پانی کی غیر موجودگی کا علم ہو جائے گا۔ بیس ہزار گیلن پانی کی چوری کوئی معمولی بات نہیں ہے"۔
میں خود یہی چاہتی ہوں کہ اسے علم ہو جائے مگر شرط یہ ہے کہ ہفتے والی تعطیل سے پہلے معلوم ہو۔ وہ بڑی مہارت سے بڑھتے ہوئے ٹریفک کے درمیان سے کار چلا رہی تھی۔
مگر میری سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا کہ آپ یہ کام کس طرح انجام دیں گے۔ اگر اسے پتہ چل گیا کہ آپ پانی لے جا رہے ہیں تو آپ کس طرح پول کو خالی کر سکیں گے ؟
یہ سب مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ نک مسکرا کر بولا:
آپ مجھے اسی کا تو معاوضہ دے رہی ہیں۔
جمعے کی سہ پہر بڑی روشن اور پرسکون تھی ، پیٹرک اور اس کی بیوی پول کے قریب بیٹھے تھے ، پیٹرک ایک خط کا جواب ٹائپ کر رہا تھا۔ اور لیڈیا دھوپ کھا رہی تھی۔ کافی دیر کے بعد اسے دھویں کی بو محسوس ہوئی۔ اس نے باہر جھانکا۔
لیڈیا! دیکھو باہر گھاس میں آگ لگ گئی ہے۔
میرے خیال میں آگ بجھانے والوں کو فون کرنا چاہئے۔ آگ کافی پھیل چکی تھی اور اب پیٹرک کے گھر کی طرف دائرے کی شکل میں بڑھ رہی تھی۔
ہاں۔۔ میں جاتا ہوں۔
مگر اسی وقت دور سے سائرن کی زور دار آواز آنے لگی۔ شاید کسی اور نے آگ لگنے کی اطلاع دے دی تھی۔
دس منٹ کے اندر اندر دو انجن آ چکے تھے۔ اور آگ پر پانی ڈالا جا رہا تھا۔ مگر گھر کے قریب کوئی تالاب وغیرہ نہیں تھا اور فائر مینوں کو وہیں سے پانی لے کر آنا پڑتا تھا۔ پیٹرک اس علاقے کے بیشتر فائر مینوں کو نام سے جانتا تھا مگر اس روز کوئی نیا فائرمین ربر کا کوٹ اور چمڑے کا ہیلمٹ پہنے بھاگتا ہوا آیا۔
مسٹر پیٹرک آپ ہی ہیں؟
ہاں۔ میرا نام ہے۔ آگ تو خاصی پھیل چکی ہے۔
جی ہاں۔ اجنبی نے کالر اٹھالئے اور پیٹرک کے شانوں کے اوپر سے دیکھتا ہوا بولا۔ ہمیں اور پانی چاہئے، ہم آپ کے پول میں پائپ ڈال کر پانی کھینچ لیں؟
کیا؟ مجھے تمہاری آواز کچھ جانی پہچانی سی لگتی ہے۔
ذرا جلدی کریں۔ فائرمین نے کہا:
ہوا کا رخ بدلا تو آپ کا گھر بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
اچھا۔ تو لے لو۔
چند لمحوں میں موٹا سا پائپ باڑھ سے گڑا کر پول میں ڈالا جا چکا تھا، فائر مین نے قریبی ٹرک کو سگنل دیا اور پول کا پانی کھینچا جانے لگا۔ دور دو فائر مین ایک چھوٹے پائپ سے آگ پر پانی ڈال رہے تھے۔ وہ مانوس نظر آنے والا فائر مین ہر جگہ ہدایات دیتا پھر رہا تھا۔ آدھ گھنٹے بعد پول نصف کے قریب خالی ہو چکا تھا۔ اور ایک انجن، قصبے کے تالاب سے پانی لینے جا چکا تھا۔
بالآخر جب پول پورا خالی ہو گیا اور انجن کا پانی بھی ختم ہو گیا تو آگ بجھنے لگی۔ پیٹرک نے اطمینان کا سانس لیا اور اسی فائرمین کو آواز دے کر کہا:
تم لوگ کچھ پیوگے؟
نہیں جناب ! شکریہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
اور میرے پول کا کیا ہوگا؟
کل ہم اسے بھروا دیں گے۔ آپ کی مدد کا شکریہ!
پیٹرک انہیں جاتے دیکھتا رہا ، پھر پلٹ کر آیا اور خالی پول کو گھورنے لگا۔ نیچے صرف کنکریٹ کی گیلی سطح تھی اور کچھ نہیں۔
اس نے سگریٹ جلانا چاہی اور اچانک اس کا ہاتھ ہیں کا وہیں رک گیا۔ اسے یاد آگیا کہ اس نے فائر مین کو کہاں دیکھا تھا۔
ایشر اپنی اسپورٹس کار میں چند میل دور منتظر تھی۔ نک نے کوٹ اور ہیلمیٹ اتار کر پھینکا اور دوڑ کر اس کی کار کے قریب آیا:
"پانی کہاں پر حوالے کروں۔ بیس ہزار گیلن پانی ہے"۔
آپ بےحد فطین ہیں۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ کام ہو جائے گا۔
میں نے اس سے بھی مشکل کام کئے ہیں۔
مگر یہ سب کیسے ہوا۔۔ وہ فائر مین۔۔۔
ادھر ہم ایک بڑے پائپ سے پول کا پانی انجن میں بھر رہے تھے ، ادھر دوسرے انجن کے پانی سے آگ بجھا رہے تھے۔ گھاس اتنی اونچی تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہوسکا ہوگا کہ کون سا پائیپ کہاں جا رہا ہے۔ جب پہلا انجن بھر گیا تو ہم اسے ہٹاکر دوسرا خالی انجن لے آئے۔ ہمارے ہر پمپر میں ایک ہزار گیلن پانی پہلے سے موجود تھا لہذا پول کے پانی کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
مگر یہ انجن اور فائرمین تو اصلی تھے؟
نک نے اثبات میں سر کو جنبش دی:
میں نے ہر فائر مین کو ایک سو ڈالر دئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ ہم ٹیلیویژن کے لئے ایک فلم کی شوٹنگ کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پیٹرک یہی کام کرتا ہے لہٰذا انہیں یقین آ گیا۔
آپ کے کیمرے وغیرہ کہاں تھے مسٹر ٹیلیویژن پروڈیوسر؟ وہ مذاقاً اسے چھیڑنے لگی۔
میں نے ان سے کہا تھا کہ یہ ڈریس ریہرسل ہے۔ اور سو ڈالر کے نوٹ کو دیکھتے ہی ہر بات پر یقین کرنے کو دل چاہتا ہے۔۔ وہ دروازہ کھول کر اس کے برابر بیٹھ گیا۔
میرا معاوضہ لائیے۔
"ایک بات اور۔۔" وہ اچانک سنجیدہ ہو گئی۔
"وہ کیا؟"
میں چاہتی ہوں کہ آپ میرے ساتھ چل کر پیٹرک کو بتائیں کہ آپ نے کیا کیا ہے؟
تو اب ہم بات کی تہہ تک پہنچ رہے ہیں؟
"شاید"۔ اس نے انجن اسٹارٹ کردیا۔
"ابھی؟"
"نہیں کل۔ جب ہفتے اور اتوار کی تعطیل شروع ہو جائے گی۔ اسی وقت آپ کو اپنا معاوضہ بھی مل جائے گا ، آپ نے واقعی حق ادا کر دیا ہے"۔
"اور پانی؟"
"میرے گھر کے پیچھے بڑا خشک میدان ہے ، یہ پانی وہیں ڈال دیں گے"۔
نک نے حیرت سے سر ہلایا۔
"تم عجیب لڑکی ہو"۔
"کل تک انتظار کیجئے۔ سب معلوم ہو جائے گا"۔
اگلی صبح لیڈیا انہیں لے کر پول تک آئی۔ وہ ایک زرد رنگ کا اسکرٹ پہنے تھی۔ نک نے اس سے پہلے اسے بے حد مختصر لباس میں دیکھا تھا اس لئے اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ضرورت سے زائد کپڑے پہنے ہوئے ہے۔ اس کے چہرے میں کچھ اور بھی فرق نظر آ رہا تھا۔ آنکھوں میں نرمی کی جگہ سرد مہری اور سختی تھی۔
ایشر! کیا حال ہے؟ پیٹرک نے انہیں دیکھتے ہی اٹھ کر کہا۔
میں ٹھیک ہوں پیٹرک۔ ہونٹ بھنچے ہوئے اور لہجہ سرد تھا۔
اور تم مسٹر ویلٹ کو دوبارہ لے آئیں؟
ایک عام پائپ پول میں لٹک رہا تھا اور اس سے تھوڑا تھوڑا پانی پول میں بھر رہا تھا۔
"پانی بہت ہلکا آ رہا ہے"۔ لیڈیا نے کہا۔
"ہمیں پول کو بھرتے بھرتے ایک ہفتہ لگ جائے گا۔ کل فائر مینوں کو پانی کی ضرورت پڑ گئی تھی"۔
پیٹرک اس دوران دوبارہ کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔ مگر ایشر کھڑی تھی۔
"مجھے معلوم ہے، نک تم ذرا انہیں بتا تو دو"۔
میرے خیال میں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پیٹرک بولا۔
"میں نے بعد میں مسٹر ویلوٹ کو پہچان لیا تھا اور میرے خیال میں آگ بھی آپ نے خود لگائی ہوگی؟"
نک نے سر ہلادیا۔ مجھے اس نوجوان خاتون نے اس کام کے لئے بیس ہزار ڈالر دئیے تھے۔
بیس ہزار! ایشر تم پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟
"یہ رقم میری خاندانی ملکیت ہے۔ میرا خیال ہے میرے خاندان والوں کو رقم کے اس استعمال سے یقیناً خوشی ہوگی"۔
"مگر کیوں؟"
"میں نے اس پانی سے سو نمونے حاصل کر لئے ہیں۔ ان سب کا تجزبہ کیا جائے گا!"
"تجزیہ؟"
"تمہارے پول کے پانی میں کلورین شامل ہے۔ تمہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ جس سیمنٹ میں کیلشیم مل گیا ہو اس پر کلورین کیا اثر کرتی ہے۔ دس سال بعد تو اس پانی میں کیلشیم کے ذرے مل جائیں گے"۔
"تم کیا کہہ رہی ہو؟"
"تمہیں میری باتوں کا مطلب خوب معلوم ہے پیٹرک۔ میں منگل کو اس تجزیے کے نتائج لے کر آؤں گی"۔
نک ایک لمحے ہچکچایا۔ پھر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ پیٹرک اور اس کی بیوی انہیں گھور رہے تھے۔
کار میں شہر کی طرف واپس آتے ہوئے نک نے سوال کر ہی ڈالا:
"میں کل رات سے ایک سوال پوچھنا چاہ رہا ہوں۔ کیا جس رات تمہاری پھوپھی غائب ہوئی ہیں، اس رات پیٹرک یہ پول بنوا رہا تھا؟"
وہ کافی دیر تک خاموشی سے کار چلاتی رہی۔ پھر بولی: آپ کو کیسے معلوم؟
"یہ پول اس نے اپنے پہلے کامیاب ڈرامے کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا اور تم نے مجھے بتایا تھا کہ اس ڈرامے کے افتتاح کے ایک یا دو ماہ بعد تمہاری پھوپھی یہاں سے چلی گئی تھیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوئے ہوں گے"۔
ایشر نے سر ہلا کر تائید کی۔
"طلاق کے کاغذات پھوپھی تک کبھی نہیں پہنچے۔ اس سے مجھے پہلی بار شبہ ہوا۔ پچھلے سال میں نے ایک پرائیوٹ جاسوس سے یہ تحقیق کروائی کہ وہ وکیل کون سا ہے جو مجھے پھوپھی کی طرف سے رقم بھیج رہا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ رقم دراصل پیٹرک کی طرف سے آ رہی ہے۔ پھر تو مجھے یقین ہو گیا کہ پھوپھی کے ساتھ دس سال پہلے یقیناً کوئی حادثہ پیش آیا تھا"۔
"ہاں۔ اس وقت میں صرف چودہ سال کی تھی مگر مجھے اپنی پھوپھی کے ساتھ گزارا ہوا آخری دن یاد ہے اس روز پول میں کنکریٹ ڈالا جا رہا تھا۔ پھوپھی نے بتایا تھا کہ یہ دوسرے روز صبح تک خشک ہوگا۔"
ایشر سامنے سڑک کو گھور رہی تھی۔
نک نے ایک سگریٹ سلگا لیا۔
"کیلشیم ملی سیمنٹ پر کلورین کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ تم نے یونہی اڑا دیا تھا اور خواہ مخواہ بیس ہزار ڈالر ضائع کئے"۔
"ہرگز نہیں۔ مجھے اتنا بڑا جھوٹ بولے بغیر چارہ نہیں تھا۔ اگر میں پول سے ذرا سا پانی لے جاتی تو وہ مجھے بے وقوف بناکر رکھ دیتا۔ مگر اس قسم کے عجیب و غریب ڈرامے وہ خود لکھ چکا ہے اس لئے مجھے یقین تھا کہ صرف اسی طرح اسے یقین آ سکتا ہے۔ پھوپھی کی ہڈیوں کا کیلشیم جو کلورین نے کنکریٹ کے نیچے سے کھینچ لیا ہوگا"۔
"اب تم کیا کرو گی؟"
"انتظار!"
انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اگلی صبح وہ چیک لے کر نک کے کمرے میں پہنچی۔
"تم بڑی جلدی اٹھ گئیں"۔
یہ 4/جولائی کی صبح تھی۔ امریکا کی آزادی کا یوم اور لوگوں نے آتش بازی شرو ع کر دی تھی۔
"لیڈیا نے مجھے فون کیا تھا۔ رات کو پیٹرک نے خود کشی کرلی ، وہیں پول کے قریب"۔
نک نے منہ پھیر لیا:
"تم سے دشمنی مول لینا تو بڑا خطرناک ہے"۔
"یہ انجام تو ناگزیر تھا"۔
"بس ایک بات اور۔۔۔" وہ بولا۔
"اس کام کے لئے ہفتے واری تعطیلات کی قید کیوں رکھی تھی؟"
"وہ مصنف تھا، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی لائبریری یا کسی سائنسداں کے دفتر فون کر کے میرے کلورین والے جھوٹ کو پکڑ لے اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ دو روز تک اس اضطراب سے زندہ نہیں رہ سکے گا"۔
ماخوذ:
نک ویلویٹ کی چوریاں (حصہ اول) ، سن اشاعت: 1986 ، ناشر: کتابیات پبلیکیشنز کراچی۔
نک ویلویٹ کی چوریاں (حصہ اول) ، سن اشاعت: 1986 ، ناشر: کتابیات پبلیکیشنز کراچی۔
The Thefts of Nick Velvet, Water theft. Story: Edward D. Hoch
فریدی کے کردار سے بالکل اُلٹ لیکن پھر بھی پسندیدگی چرا لینے والا کردار نِک ہے۔ دلچسپی کا حامل۔ اخلاقی اعتبار سے کردار کا ایمان مکمل تو نہیں، البتہ اسے کافر بھی نہیں کہا جاسکتا۔
جواب دیںحذف کریں