ناول رام محمد ڈیسوزا - دیباچہ - سردار جعفری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-02

ناول رام محمد ڈیسوزا - دیباچہ - سردار جعفری

ram-mohd-desouza
مشہور مصنف علی رضا کا ناول "رام محمد ڈیسوزا" آج سے 60 سال قبل شائع ہوا تھا۔ ادارہ "شمع" کے تمام رسائل (شمع، شبستان، مجرم، بانو، کھلونا) میں اس ناول کا اشتہار شائع ہوا کرتا تھا۔
ذیل میں اسی ناول کے تیسرے ایڈیشن کا دیباچہ ، معروف ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں جو 2/ جولائی 1969 کو تحریر کیا گیا تھا۔

ناول کے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ : کہانی کی کہانی
ناول کے تیسرے ایڈیشن کا مقدمہ : تیسرا ایڈیشن - کہانی کی کہانی
ناول کا ایک اور مقدمہ : حرف دوم
علی رضا کے ناولٹ رام محمد ڈیسوزا کا تیسرا ایڈیشن اس وقت شائع ہو رہا ہے جب ہندوستان اور ساری دنیا میں مہاتما گاندھی کی پیدائش کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہے اور مجھے شانتی اور اہنسا کے اوتار کے یہ الفاظ یاد آ رہے ہیں کہ میں عیسائی بھی ہوں اور ہندو بھیو مسلمان بھی اور یہودی بھی۔
آج اگر گاندھی جی جسمانی اعتبار سے زندہ ہوتے تو رام محمد ڈیسوزا سے مل کر بہت خوش ہوتے ، اور اس کے تینوں موالی متولیوں سے یہ پوچھتے کہ :
"تم ان پڑھ ہوکر میرے دل کی یہ بات کیسے جان گئے کہ ہم سب کا بھگوان صرف ایک ہے، چاہے ہم اسے قرآن میں تلاش کریں چاہے زنداوستھا اور تالمود میں، چاہے گیتا میں اور وہ سچائی اور محبت کا خدا ہے!"
اور مجھے یقین ہے کہ تینوں غنڈے گاندھی جی کو یہ جواب دیتے کہ "ہم نے تو اپنے بھگوان خدا یا گاڈ کو اس لاوارث بچے کی معصوم آنکھوں میں دیکھا ہے"۔ اور یہی انسانیت کی وحدت کے لئے عہد وسطی کے ان انقلابیوں کی دلیل تھی جنہیں بھگت صوفی اور مسلک کہا جاتا ہے۔
موکوں کہاں ڈھونڈے بندے میں تو پڑے پاس میں
نا میں دیول نا میں مسجد نا کعبے کیلاس میں
نا تو کون کریا کرم میں نا ہیں پوگ بیراگ میں
کھوجی ہوئے تو ترتے ملیہوں پل بھر کی تالاس میں
کہیں کبیر سنو بھائی سادھو سب سوانسوں کی سانس میں
ترجمہ:
اے بندے تو مجھے کہاں ڈھونڈتا پھر رہا ہے ، میں تو تیرے پاس ہی ہوں۔ نہ میں مندر میں ہوں، نہ مسجد میں، نہ کعبے اور کیلاش میں، نہ کسی ظاہری عبادت میں، نہ یوگ بیراگ میں۔ اگر سچے دل سے کھوجنے والا ہو تو پل بھر کی تلاش میں مل جاؤں گا۔۔۔ کبیر کہتے ہیں بھائی سادھو سنو وہ تو ہر سانس میں موجود ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے اختلاف مذاہب کے باوجود وحدت کو ایک دلچسپ حکایت کی شکل میں سمجھایا ہے ۔ ایک شخص نے چار آدمیوں کو جو چار مختلف زبانیں بولتے تھے، ایک درم دیا۔، ایرانی نے کہا کہ اس سے انگور خریدے جائیں۔ عرب نے کہا انگور نہیں عنب۔ ترک نے کہا تم دونوں بکتے ہو میری رائے میں ازم خریدنے چاہیں۔ چوتھے نے استافیل کا نام لیا۔ اس بات پر چاروں لڑنے لگے۔ اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے ۔ اس وقت اگر کوئی چاروں زبانوں کا جاننے والا موجود ہوتا تو ان بے وقوفوں کو بتاتا کہ تم سب ایک ہی چیز مختلف لفظوں میں مانگ رہے ہو ۔ لڑائی اصل چیز پر نہیں ہے صرف الفاظ کے ظاہری روپ پر ہے۔

علی رضا کی کہانی میں سارا جھگڑا بھگوان، خدا اور گاڈ کے لفظی اختلاف پر ہو رہا ہے ۔ نندن، رابرٹ اور رحیم تینوں کردار جاہل اور ان پڑھ ہیں اس طرح وہ ان تمام مہذب تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لئے ایک گہرا طنز بن جاتے ہیں جو علم اور تہذیب کی دولت کے بعد بھی وہ نیکی اور شرافت حاصل نہیں کر سکے جو ایک ننھے سے بچے نے تین غنڈوں کو سکھا دی۔
میں نے آٹھ دس سال پہلے یہ کہانی علی رضا کی زبان سے سنی تھی اور مجھے بہت اچھی لگی تھی۔ اس میں ایک ایسی عجیب و غریب سادگی ہے اور سچائی ہے جو بظاہر ناقابل یقین معلوم ہوتی ہے ۔ کہانی دراصل ایک تمثیل ہے جو کرداروں کے ذریعہ سے حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے اور علی رضا نے اس حقیقت کو بےنقاب کیا ہے کہ سب سے بڑی نیکی سب سے بڑا مذہب انسان کی تلاش ہے ۔ اور انسان صدیوں سے اپنی ہی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ ہندوستان نے ہزاروں سال پہلے مظاہر کی کثرت میں وحدت تلاش کرنے کی کوشش میں ویدانت اور اپنشد کو جنم دیا۔

علامہ اقبال کے الفاظ میں آج وحدت کے اندر کثرت کی جلوہ آرائی پھر دیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک قومی ہندوستان کے اندر مختلف مذاہب مختلف تہذیبوں اور مختلف زبانوں کی جلوہ گری ہے ۔۔
حرف بدرا برلب آوردن خطاست
کافر و مومن ہمہ خلقِ خدا ست
آدمیت احترام آدمی
باخبر شواز مقام آدمی
بندۂ عشق از خدا گیر و طریق
می شود بر کافر و مومن شفیق
ترجمہ:
بری بات زبان پر لانا غؒلطی ہے، کافر و مومن دونوں خدا کی مخلوق ہیں۔ آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے ۔ آدمی کے بلند مقام سے باخبر ہونا ضروری ہے ۔ اہل عشق خدا سے طریق زندگی سیکھتے ہیں اور کافر و مومن دونوں پر مہربان ہوتے ہیں۔

جو سادگی علی رضا کی کہانی میں ہے وہی ان کے حسن بیان میں ہے۔ "سادگی و پرکاری بےخودی و ہشیاری" اور کیوں نہ ہو یہ لکھنؤ کی پاکیزہ زبان کا کرشمہ ہے۔
سردار جعفری
2 / جولائی 1969ء

Novel Ram Mohammad Desouza, 4th Preface by Ali Sardar Jafri.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں