ناول رام محمد ڈیسوزا - کہانی کی کہانی - حرفِ دوم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-24

ناول رام محمد ڈیسوزا - کہانی کی کہانی - حرفِ دوم

ram-mohammad-desouza-ali-raza
مشہور مصنف علی رضا کا ناول "رام محمد ڈیسوزا" آج سے 60 سال قبل شائع ہوا تھا۔ ادارہ "شمع" کے تمام رسائل (شمع، شبستان، مجرم، بانو، کھلونا) میں اس ناول کا اشتہار شائع ہوا کرتا تھا۔
ذیل میں اسی ناول کے پہلے ایڈیشن کا دوسرا مقدمہ ، ناول نگار کی اہلیہ نمی (مشہور بالی ووڈ اداکارہ) کے قلم سے ملاحظہ فرمائیں جو 15/ اگست 1958 کو تحریر کیا گیا تھا۔

ناول کے پہلے ایڈیشن کا مقدمہ : کہانی کی کہانی
ناول کے تیسرے ایڈیشن کا مقدمہ : تیسرا ایڈیشن - کہانی کی کہانی
میں کوئی آٹھ برس کی تھی، چھوٹے سے دیہات میں اپنے نانا نانی کے پاس رہتی تھی ، گڑیاں کھیلنا اور ان کا بیاہ رچانا میرا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ میری سب گڑیوں میں زبیدہ میری سب سے چہیتی اور لاڈلی گڑیا تھی۔ میں اس کو بہت عیش و آرام میں رکھتی تھی ۔ اس کے سونے کے لئے کنس کے میلہ میں سے جست کے پاؤں کی پنچ رنگے دھاگوں سے بنی مسہری خریدی تھی ،جالی کی مچھر دانی بنائی تھی، سنہری پٹی کی پاؤں کی جوتی، ریشمی کپڑے، کالی ساٹن کا برقعہ، مخمل کے توشک، تکئے، غرض کہ عیش و آرام کی ہر چیز اپنا پیٹ کاٹ کے پائی پائی جمع کر کے اس کے لئے مہیا کرتی تھی، گہنوں پاتوں سے تو خدا کے فضل سے زبیدہ لدی ہی رہتی تھی ۔ کیا چیز تھی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ اس پر بھی میں ہر روز اس کے لئے نت نئی چیزیں بنانے کی فکر میں لگی رہتی تھی۔ میرے کلیجہ کا ٹکڑا تھی وہ مجھ کو چاند سورج سے بھی زیادہ حسین لگتی تھی ۔ زبیدہ پر میری ساری سہیلیوں کی نظر تھی، باری باری سب ہی اپنے گڈوں کے لئے زبیدہ کا رشتہ مانگ چکی تھیں لیکن میں نانی کی طرح ناک چڑھا کر صاف انکار کر دیتی تھی ۔ زبیدہ کو اپنے سے جدا کرنے کو میرا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ جب محلہ میں کسی جوان لڑکی کی بات ہوتی اور چار عورتیں اس کی ماں سے ٹھنڈی آہ بھر کر کہتیں:
"اب تو کر دو، اب تو کردو کریماً کی ماں لڑکی کا رشتہ، جوان لڑکی کو کب تک گھر میں بٹھائے رکھوگی، عمر نکل گئی تو زندگی بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرکے روتی رہو گی۔"
تو میرا کلیجہ دھک سے رہ جاتا اور مجھ کو اپنی زبیدہ کا خیال آ جاتا میری سہیلی مرادن میری بڑی ہمدرد اور جانثار سہیلی تھی۔ زبیدہ کی اس کو بھی بہت فکر تھی ۔ وہ خوشی خوشی ایک دن رام پیاری کے شہر سے آئے ہوئے نئے گڈے کا پیغام لے آئی۔
گڈے کا رنگ بہت گورا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں بھی کھلتی بند ہوتی تھیں اور وہ بولتا بھی تھا۔ گڈے کی تعریف سن کر میں نے فوراً رشتہ منظور کر لیا۔
اناً فاناً بات پھیل گئی ، بتاشوں کے ڈھول پر منگنی ہوئی، شگون دیکھ کر شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ دونوں طرف دھوم دھام سے تیاریاں شروع ہوئیں، شادی کا دن کیا آیا ایک قیامت آ گئی، میں نے خود رات بھر جاگ کر اپنے ننھے ہاتھوں سے کھانا پکایا ، صبح بارات آئی سارے رسم و رواج بخیر و خوبی ادا ہوئے ۔ لیکن جب پانت کا وقت آیا تو رام پیاری نے تڑاخ سے کہہ دیا کہ وہ مسلمان کے گھر کا کھانا نہیں کھا سکتی۔
مجھ پر تو گویا بجلی گر پڑی۔ اتنا دکھ شاید مجھ کو اپنی ماں کے مرنے پر بھی نہیں ہوا تھا۔ بتائیے جو میرے گھر کھانا بھی نہیں کھا سکتی۔ اس کے گھر میں میں اپنی زبیدہ کو کیسے بھیج دیتی۔ میں نے کہہ دیا کہ بارات واپس جائے گی ۔ لیکن رام پیاری کی سہیلیوں نے یہ حق جتایا کہ زبیدہ تو ان کی ہو چکی، اب مجھے زبیدہ پر کوئی حق نہیں رہا۔ نہ کبھی میں اب اپنی زبیدہ کا کسی اور جگہ بیاہ کرسکتی ہوں۔
انہوں نے اپنی طرف سے اس کا نام بھی بدل کر ساوتری رکھ دیا تھا میں تو ایک دم حواس باختہ ہو گئی، اور میں نے بارات واپس لوٹا دی۔ رام پیاری چیختی چلاتی اپنے گھر چلی گئی اور میں اپنی زبیدہ کو سینہ سے چمٹائے اس کی بدنصیبی پر رات بھر سسکیاں بھرتی رہی۔
مولوی صاحب نے مجھ کو اللہ میاں کے قہر سے بہت سہما دیا تھا، زبان سے تو کچھ نہ کہہ سکتی تھی لیکن دل فریاد کر رہا تھا کہ اگر اللہ میاں نے سب ہی کو مسلمان یا سب کو ہندو بنایا ہوتا تو میری زبیدہ کا مقدر اس طرح تو نہ پھوٹتا۔
نہ جانے رام پیاری اب کہاں ہے ؟ اس کا گڈا کدھر ہے؟ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میری زبیدہ کدھر گئی، لیکن یہ بات یقینی طور پر جانتی ہوں کہ جو جہاں بھی ہو اب تک میری طرح نامراد ہوگا۔ سب کے مردہ ارمان ان کے دلوں میں اب تک دفن ہوں گے ؟

ایک ڈیڑھ سال پہلے جب رضا صاحب نے اپنی کہانی "رام محمد ڈیسوزا" سنائی تو ان تینوں کرداروں میں مجھے اپنے بچپن کی معصوم روح تڑپتی نظر آئی اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ آج بھی میری طرح ان گنت معصوم روحیں ان توہمات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہوں گی۔
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان جب لاکھوں انجانی حقیقتوں سے واقف ہو گیا ہے ، وسعت عقل نے پھیل کر چاند تاروں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے کوہ کے دامن کو چاک کر کے سمندر کی اتاہ گہرائیوں مین ڈوب کر جدید ترقیوں میں بجلی کی سرعت سے گامزن ہونے کے بعد بھی وہی انسان اتنی سی سطحی حقیقت کا اقرار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے ، کہ خالق ایک ہے، انسان ایک ہے ۔

میں کوئی ادبی ناقد نہیں ہوں اور نہ ہو سکتی ہوں ، کیونکہ اس کہانی کی روح اور اس کے پاکیزہ مقصد کے ہاتھوں بن داموں بک چکی ہوں اور یہ میرا عقیدہ ہے کہ "رام محمد ڈیسوزا" انسان کے خود اپنے پیدا کردہ طلسماتِ توہم کو توڑنے کا اسم اعظم ہے ۔ چھوت چھات سے لتھڑے دماغوں کے لئے گنگا اشنان ہے ، تفرقہ کی تاریک راہوں پر بھٹکنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ آج یہی مقصد حیات ہونا چاہئے ۔
میں نے جب یہ سنا کہ رضا صاحب اس کو خود فلمانا چاہتے ہیں تو میں نے اپنے مونہہ بولے بھائی اور ان کے دوست فلم آرٹسٹ مقری کے ذریعہ ان کو پیغام بھجوایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی سرمایہ ہے وہ بغیر کسی شرط کے ان کے نذرانے کو حاضر ہے ، لیکن انہوں نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں آج بھی منتظر ہوں۔

نمی
سمٹ ، 8 ، ایس۔پی۔روڈ ، ورلی ، بمبئی نمبر 18
15/ اگست 1958ء

Novel Ram Mohammad Desouza, 2nd Preface 1st Edition.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں