تین طلاق بل - صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد قانون بن گیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-02

تین طلاق بل - صدر جمہوریہ کی منظوری کے بعد قانون بن گیا

triple-divorce-bill

تین طلاق بل 2019 (تحفظ شادی حقوق بل) پر آج پارلیمنٹ کی مہرلگ گئی۔ راجیہ سبھا میں اس بل کو رائے دہی کے ذریعہ منظور کر دیا گیا ، جبکہ لوک سبھا پہلے ہی اسے منظور کر چکی ہے۔ بل 81 ووٹوں کے مقابلے میں 99 ووٹوں سے منظور ہوا ہے۔ لوک سبھا میں بل کے حق میں 303 اور بل کی مخالفت میں 82 ووٹ پڑے تھے۔
ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کے ایلامارم کریم اور متعدد دیگر ارکان پارلیمان کی بل کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کی تجویز کو 84 کے مقابلے میں 100ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ، سی پی آئی کے ونئے وشوم اور تین دیگر اراکین کی جانب سے مسلم خواتین (تحفظ حقوق شادی) آرڈیننس کو نامنظور کرنے کی تجویز کو صوتی ووٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ بل پر لائی جانے والی ترامیم کی تجاویز کو بھی صوتہ ووٹ سے رد کر دیا گیا۔

صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ کی جانب سے منظورہ تین طلاق بل کو منظوری دے دی ہے جس کے ساتھ ہی اب یہ ایک قانون بن گیا ہے، جس کے تحت بیک وقت مسلمانوں میں تین طلاق قابل سزا جرم بن گیا ہے۔
حکومت کے ایک اعلامیہ میں یہ بات بتائی گئی ہے۔ چہارشنبہ کے روز شائع کردہ گزٹ نوٹیفکیشن میں کہاگیا ہے کہ صدرجمہوریہ نے پارلیمنٹ کی جانب سے منظورہ بل کو منظوری دے دی ہے۔ اب یہ قانون جاریہ سال 21 فروری کو اسی ضمن میں جاری کئے گئے آرڈیننس کی جگہ لے گا۔ نئے قانون "مسلم خواتین (تحفظ حقوق بر شادی) ایکٹ 2019ء" کے تحت طلاق بدعت یا طلاق کی کسی بھی مماثل شکل کو جس کے تحت فوری اور ناقابل تنسیخ طلاق واقع ہو جائے، کالعدم اور غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت تحریری شکل میں، ایس ایم ایس یا واٹس ایپ یا دیگر کسی بھی الیکٹرانک رابطہ کے ذریعہ ایک ہی وقت میں تین طلاق کہنا غیرقانونی ہوگا۔ قانون میں کہاگیا ہے کہ کسی بھی مسلم شوہر کو جو اپنی بیوی کو غیرقانونی شکل میں طلاق دیتا ہے اسے تین سال تک کی سزائے قید دی جاسکتی ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

19/ ستمبر 2019ء کے بعد سے تین طلاق کے آنے والے سبھی معاملوں کی سماعت اسی قانون کے تحت کی جائے گی اور تین طلاق دینے والوں کو تین سال تک کی قید اور جرمانے کی سزا دینے کا التزام ہے۔ ساتھ ہی جس خاتون کو تین طلاق دی گئی ہے اسے اور اس کے بچوں کے اخراجات کے لئے ملزم کو ماہانہ گزارا بھتہ بھی دینا ہوگا۔
قانون میں التزام ہے کہ تین طلاق دینے والے کے خلاف صرف متاثرہ،اس سے خونی رشتہ رکھنے والے اور شادی سے بنے اس کے رشتہ دار ہی ایف آئی آر درج کرا پائیں گے۔ شوہر کو مجسٹریٹ کے ذریعہ ضمانت مل سکتی ہے۔ متاثرہ کو سننے کے بعد مجسٹریٹ کو معقول شرطوں پر صلح کرانے کا بھی حق دیا گیا ہے۔

جامع مسجد دہلی کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں پر مومنانہ فراست سے محروم اور زمینی حقائق و ملک کی سیاسی سماجی صور تحال کوسمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہونے کا الزام لگاتے ہوئے آج کہا کہ طلاق ثلاثہ پرقانون سازی اور اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے بیک وقت تین طلاقوں کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ مسلم پرسنل لا بورڈ کی زبردست ناکامی کی دلیل ہے۔
دریں اثنا تین طلاق بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کے دو روز بعد تلنگانہ میں مسلم گروپوں کا کہنا ہے کہ ٹی۔آر۔ایس پارٹی کے قابل اعتماد قائدین نے انہیں دھوکہ دیاہے۔ صدر کل ہند مجلس انقلاب ملت سید طار ق قادری نے ٹی آر ایس پارٹی پر مسلمانوں کو تین طلاق بل پر واک آؤٹ کے ذریعہ این ڈی اے کی حمایت کا الزام عائد کرتے کہاکہ ٹی آر ایس نے واک آؤٹ کے ذریعہ مسلمانوں کو گمراہ کیاہے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ تلنگانہ کے ریاستی وزیر داخلہ محمد محمودعلی کا رول بھی اس معاملے میں حیران کن رہا ہے۔

President Kovind gives assent to Triple Talaq bill

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں