اردو تعلیم اور روزگار کے مواقع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-12-11

اردو تعلیم اور روزگار کے مواقع

urdu-education-employment
اردو تعلیم اور روزگار کا موضوع اپنے آپ میں ایک بڑا موضوع ہے اور شائد منٹوں میں اس وسیع موضوع سے انصاف کسی سے بھی اور کسی بھی طرح ممکن نہیں ہوگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح دیگر ریاستی و علاقائی زبانوں سے جڑے روزگار کا موضوع منٹوں میں محیط نہیں ہوسکتا۔چاہے وہ تلگو ہو کہ مرہٹی ، کنڑی ہو کہ گجراتی ۔عمومی طور پر بھی اگر ہم اس موضوع کے ایسے خطوط کا ذکر کرلیتے ہیں جن سے روزگار اور خوشحالی کے سوتے پھوٹتے ہوں تو یہ بھی ان چند منٹوں میں بڑا کام ہوگا۔ اور ہم آج اس موضوع پر اسی طریقہ پر بات کررہے ہیں۔
روزگار آج اکیسویں صدی کا سب سے مطلوب لفظ ہے جو نوجوانوں کے کیریر کے لئے اپنے اندر منزل مقصود کا معنی رکھتا ہے ۔ کیریر کی بات سوچ ،سمجھنے اور کرنے والوں کے سامنے حصول علم روزگار سے جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ بنیادی طور پر پہلی جماعت سے کورسس کی ایک خاص اور متعینہ منزل تک طالب علم اس لئے تگ و دو کرتا ہے کہ اسے اپنے پاوں پر ساری زندگی کھڑا ہونا ہے اور اس کے لئے یہی علم ایک عصا کا کام کرتا ہے ۔ اس کے بعد ایک فرد جو بھی علوم حاصل کرتا ہے انہیں روزگار سے جوڑا بھی جاسکتا ہے یا روزگار کے علاوہ بھی انہیں سوچا جاسکتا ہے ۔ ادھر یہ جو بحث بعض حلقوں میں چل پڑی ہے کہ علوم کے حصول کو روزگار سے جوڑا نہیں جانا چاہئے ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اس بنیادی تعلیم پر لاگو نہیں کی جانی چاہئے جو ایک طالب علم پہلی جماعت سے گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن سطح تک حاصل کرتا ہے
اکیسویں صدی علوم کی صدی ہے ۔ اگر ہم دنیا کو سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہر ایک دن دنیا میں کم از کم ایک نیا کورس یا ایک نیا تعلیمی پروگرام سوچا اور متعارف کیا جارہا ہے ۔اور یہ سارے پروگرام اپنے اندر بھرپور روزگار کی بھرپور ضمانت رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ سارے پروگرام (چند ایک استثنا کے ساتھ ) طالب علم کے معیار اور حصول علم کی سہولتوں کے دائرہ میں رہ کر متعارف کئے جارہے ہیں ۔ چاہے وہ ریگولر تعلیم کا طریقہ ہو ، فاصلاتی طریقہ تعلیم ہو کہ آن لائن ۔
اس پس منظر میں ہم اگر بات کرتے ہیں اردو تعلیم اور روزگار کی تو بظاہر موضوع خود ہمارا منہ چڑانے لگتا ہے مگر دیکھا جائے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ روزگار اور علوم کے اس وسیع منظر نامے میں اردو طالب علم اکیلا نہیں ہوسکتا مگر درحقیقت اردو طالب علم کو اکیلا کھڑا دیئے جانے کے حالات بہت زیادہ پیدا کردیئے گئے ہیں ۔ دراصل ان میں سے اکثر و بیشتر تعلیم و روزگار کے مواقع حاصل کرنے کے لئے اور طالب علم کو اس کے تعلیمی مدارج کی مختلف منازل میں اس کے اندر اتنی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ضرورت شدید ہوگئی ہے تاکہ وہ ان میں سے بیشتر مواقع سے بہتر طور پر استفادہ کرسکے ۔ مثال کے طور پر یم بی اے پروگرام کو لیجئے ۔ کامرس ایجوکیشن کو لیجئے ۔ قانونی تعلیم کو لیجئے ۔ صحافتی تعلیم کو لیجئے ۔ یہ تمام پروگرامس آج کے اور اکیسویں صدی کے کامیاب اور روزگار کی بھرپور ضمانت رکھنے والے تعلیمی شعبے ہیں۔ اور یہ تمام علوم کے شعبے اردو ذریعہ تعلیم میں بھی موجود ہیں صرف ایک قانونی تعلیم کو چھوڑ ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس زبان کا چلن عام ہے انگریزی ۔ اس میڈیم میں فراہم مذکورہ کورسس کی صلاحیتیں کیا اردو ذریعہ تعلیم سے یہ کورسس کرنے والے طالب علم میں پیدا ہیں ؟میں نے صرف مثال کے طورپر چند ایک تعلیمی شعبوں کے نام گنائے ہیں تاکہ بات آسان ہو۔
آج کے روزگار مارکٹ کی صورتحال یہ ہے کہ آج صرف اسی طالب علم کو روزگار کے بہتر سے بہترین مواقع آسانی کے ساتھ دستیاب ہیں جس میں نہ صرف نصابی قابلیت ہو بلکہ
1) اس کا ذہن اختراعی ہو ،
2) اس کا مزاج علمی موضوع کے مطابق انقلابی ہو اور
3) اس کا طریق کارکردگی Approach متنوع ہو ۔
یہ تینوں زائد صلاحیتیں جو کسی بھی کورس کے نصاب سے طالب علم کے اندر پیدا نہیں ہوتیں بلکہ تعلیمی ماحول ، تدریسی طریقے اور کیمپس کا بحیثیت مجموعی ماحول کسی بھی اچھے اور سنجیدہ طالب علم میں یہ صلاحیتیں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے ۔ نصاب کی تدریس اور نصاب کی تکمیل طالب علم کے لئے ڈگری عطا کرسکتی ہے مگر مذکورہ اضافی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتی جن کی جانب خود طالب علم کو، اساتذہ کو اور اداروں کو غور کرنا ہوگا۔
سردست مہیا مواقع: اب آئیے اس حالت کا جائزہ لیں جو اردو طالب علم کے لئے روزگار مارکٹ میں موجود اور دستیاب ہے۔ اس کا جائزہ لینے سے قبل اس حقیقت کا علم ضروری ہے کہ آج اردو ذریعہ تعلیم سے کون کون سے کورسس ہیں جو فراہم ہیں اور کون کون سے تعلیمی شعبے ہیں جن میں اردو ذریعہ تعلیم کے طالب علم جوق درجوق لپک رہے ہیں ۔ ان میں دیکھا جائے تو سرفہرست اردو تدریس نظر آتی ہے ۔ ایک طرف ڈی ایڈ اور بی ایڈ اردو میں فراہم ہیں۔ طلباء کی بے تحاشہ تعداد ان کورسس سے جڑی ہوئی ہے اور اس بنیاد پرطلبا کی بیشتر تعداد سرکاری تعلیمی اداروں میں روزگار سے وابستہ ہورہی ہے ۔ دوسری بڑا تعلیمی شعبہ کامرس کا ہے جہاں بی کام اردو میڈیم میں فراہم ہے اور طلباء یہ کورس کربھی رہے ہیں مگر جتنی تعداد بی کام اردو میڈیم سے جڑی ہوئی ہے اس کا بہت ہی کم فیصد گریجویشن سطح کی تعلیم کی بنیاد پر نسبتاً اتنے اچھے روزگار سے جڑا ہوا نہیں جتنا انگلش میڈیم کامرس گریجویٹس جڑے ہوتے ہیں اور جڑرہے ہیں ۔ مثال کے طور پر صرف بی کام کئے ہوئے ہزاروں طلباء کے لئے ITانڈسٹری ہو ، بنکنگ شعبہ ہو، مواصلاتی کمپنیاں ہوںBPOہوں کہ کاروبار کے مختلف شبوں سے تعلق رکھنے والے قومی و بین الاقوامی کال سنٹرس ہوں ۔ کیا ان تمام جگہوں سے اردو میڈیم سے بی کام کامیاب طلباء کا اتنا ہی فیصد جڑا ہوا ہے جتنا انگلش میڈیم کا طلباء طبقہ ہے ؟ جواب خود بخود ہمارے سامنے آجائے گا ۔ اگر ہم وجوہات پر غور کرتے ہیں تو صرف دو بنیادی وجوہات ہمارے سامنے آتی ہیں جو بہت کلیدی ہیں۔
(1 لینگویج
(2 پرسنالٹی
جب کہ ان تمام عہدوں کے لئے کوئی بھی کامرس گریجویٹ اگر اہل قرار دیا جائے تب بھی اردو میڈیم کے کامرس گریجویٹس عام طور پر ان عہدوں کی لازمی اہلیت سے اپنے آپ کو بہت دور محسوس کرنے لگیں گے۔ اس کی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا وہی دو باتیں، ایک زبان اور دوسری شخصیت ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر طالب علم اردو میڈیم سے بی کام اعلی نشانات سے پاس کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی رابطہ کی زبان پر اچھی مہارت اور اپنی پرسنالٹی کو قابل قبول بنالیتا ہے تو پھر ہزاروں بلکہ لاکھوں دیگر بی کام گریجویٹس کی طرح اردو میڈیم بی کام گریجویٹس بھی روزگار سے آسانی سے جڑسکتے ہیں۔ اردو میڈیم سے سائنسی پروگرام بھی کم کم حد تک ہی سہی ریگولر میں اور فاصلاتی طرز میں فراہم ہیں جن سے اردو میڈیم طالب علم کی اچھی خاصی تعداد اپنے آپ کو جوڑرہی ہے ۔ ان کے لئے فی الحال روزگار مارکٹ بہت ہی سکڑی ہوئی ہے تاآنکہ یہ مزید کوئی سرٹیفکیٹ یا ڈپلوما سے اپنے آپ کو متصف نہ کریں۔ البتہ اردو میڈیم طالب علم کواعلی تعلیم کے جن جن شعبوں میں مواقع دستیاب ہیں ان تمام کے فارغ التحصیل طلباء کو روزگار مارکٹ اسی وقت خوش آمدید کہہ سکتا ہے جب وہ روابطہ کی زبانCommunicative Language میں ماہر ہوں اور اپنی پرسنالٹی کو موجودہ روزگار مارکٹ کے قابل بناسکیں۔ چاہے وہ مینجمنٹ ایجوکیشن ہو ، ٹرانسلیشن کا شعبہ ہو ، ویمن اسٹڈیز کا شعبہ ہو،سوشیالوجی ، معاشیات ، نظم و نسق عامہ ہوصحافت ہو کہ ایجوکیشن ۔
اردو میڈیم گریجویٹس اور پوسٹ گریجویٹس کے لئے صرف اپنے ہی محدود میدان میں ملازمتوں کی تلاش کے علاوہ ان کے لئے موجود و مہیا دوسرے میدانوں میں قسمت آزمائی کے لئے انھیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا ۔ جیسے مثال کے طور پر یم اے اردو کرلیا ہے اس کے ساتھ کسی ایک زبان میں مہارت پیدا کرلی جائے، چاہے وہ ہندی ہو ، انگریزی ، عربی ہو کہ فارسی ، تلگو ہو کہ کوئی بین الاقوامی زبان اور پھر سرکاری یا بین الاقوامی اداروں ، سفارتی اداروں تعلیمی یا کاروباری ایجنسیوں میں مترجم InterpretorیاFacilitatorکے طور پر عہدے پاسکتے ہیں۔ اگر ان میں تکنیکی یا کاروباری اصطلاحات کی نالج بھی ہوتو پھر کسی بھی چھوٹے بڑے کاروباری اداروں میں، تشہیری ایجنسیوں میں Copy writerکی طرح بھی کام کرسکتے ہیں۔ یا پھر Content Writerکی طرح خدمات انجام دے سکتے ہیں ان شعبوں میں روزگار مارکٹ اتنی لچکدار ہے کہ گھر بیٹھے آن لائن یہ کام حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے کئی ویب سائٹ ہیں جو کسی بھی زبان سے کسی بھی زبان میں کسی بھی علمی شعبہ سے تکنیکی وفنی شعبے میں مترجم کی خدمات حاصل کررہی ہیں۔
طوالت سے گریز کر تے ہوے میں آخر میں صرف اتنی خواہش اردو میڈیم طالب علم سے کروں گا کہ وہ اپنے آپ میں
1) خود اعتمادی پیدا کریں۔
2) اپنے آپ میں سبجکٹ کی بھرپور نالج پیدا کریں۔
3) اپنے آپ میں روزگار مارکٹ کے قابل بننے والی صلاحیتیں پیدا کریں۔
اور
4) اپنے آپ کو اسی طرح کے کورسس حاصل کرنے والے دیگر میڈیم کے طلباء کے کم از کم ہم پلہ ہونے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
اور آخر میں اردو میڈیم اسکولوں، کالجوں اور سرکاری اداروں اور اردو تعلیم کے فروغ میں ممد و معاون مجاز سرکاری عہدیداروں بشمول اساتذہ برادری سے میری پرخلوص گزارش یہی ہوگی کہ وہ سماج میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لئے اجتماعی کوشش کریں۔

ماخوذ از:
سوونیر برائے: شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کا ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل"۔
***
ڈاکٹر سلمان عابد
اسسٹنٹ پروفیسر، اردو آرٹس کالج، حیدرآباد

Urdu education and employment opportunities.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں