رپورتاژ - اردو میں مہجری ادب - کرنول سمینار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-08

رپورتاژ - اردو میں مہجری ادب - کرنول سمینار

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ
وہاں بھی آگئے آخر ، جہاں رسائی نہ تھی

گذشتہ دنوں ینبع، سعودی عرب میں مقیم میرے ہائی اسکول کے دیرینہ رفیق نوید علی خان نے میری ہی ایک تصویر پر ممتاز پاکستانی شاعر نصیر ترابی کا درج بالا شعرچسپاں کرکے واٹس ایپ پر روانہ کیا ہے۔ تصویر میں مجھے واضح طور پر اتوار یکم اپریل 2018ء کو آندھرا پردیش اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار "اردو میں مہجری ادب" میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔قریب دو دہوں سے زاید عرصہ محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے تحت منعقدہ بیشتر سیمیناروں میں اکثر و بیشتر میری شرکت سے تو بیرون ملک مقیم میرے سبھی احباب واقف تھے۔ اب بالکلیہ پہلی بار کسی اردو سیمینار میں میری شرکت اور مقالے کی پیشکشی پر موصوف نے خود کے بشمول دیگر احباب کی جانب سے مبارکباد و تہنیتی کلمات بھی لکھ بھیجے۔ نوید علی خان نے شکایت بھرے انداز میں مزید لکھا ہے کہ آٹھ ماہ قبل منعقدہ اس سیمینار کی تفصیلات سے دیارِ غیر میں مقیم ان کے بشمول دیگر ادبی ذوق رکھنے والے رفقأ ہنوز محروم ہیں۔ انھیں، تاحال احباب کے گروپس سے اب تک محض سیمینار کی تصاویر ملیں۔ جو کچھ امیدیں میرے کسی مضمون میں اس سیمینار کی مفصل روداد اور اس میں پڑھے گئے مقالہ جات کی تفصیل سے وابستہ تھیں وہ بھی اب گزرتے وقت کے ساتھ معدوم ہورہی ہیں۔ بظاہر، دو عشروں سے زائد عرصہ بیرون ملک قیام کے سبب میرے ان احباب کی اس موضوع سے دلچسپی واقعی فطری بات لگتی ہے۔ اس سیمینار کے موضوع "اردو میں مہجری ادب" اور اس میں پڑھے گئے مقالوں سے اپنی واحباب کی شدید دلچسپی کے تناظر میں موصوف نے ممتاز شاعر قیصر الجعفری کا اک شعر بھی لکھ بھیجا ہے:

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

اس اہم موضوع پر منعقدہ سیمینار پر بروقت مضمون نہ لکھنے کا سبب گذشتہ کئی مہینوں سے جھارکھنڈ و آندھرا پردیش کے علاقوں کے زمینی سروے و ان کی تفصیلات پر مبنی نقشہ جات کی تیاری جیسی مصروفیات رہیں۔ وطن ہی میں اپنی موجودہ ملازمت کے تقاضوں کے تحت مختلف علاقوں میں اپنے سفر در سفرکے تناظرمیں، میں نے جواباً انھیں قیصر الجعفری ہی کا ایک شعر لکھ بھیجا:

گھر بسا کر بھی مسافر کے مسافر ٹھہرے
لوگ دروازوں سے نکلے کہ مہاجر ٹھہرے

دلچسپ بات یہ رہی کہ جواب الجواب کے طور پر نوید علی خان نے اپنے مافی الضمیر کو واضح کرتے ہوئے ممتاز مابعد جدیدیت شاعر شہپر رسول کا ایک شعر مجھے روانہ کیا:

مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

یادش بخیر، برادرِ کلاں سید مکرم نیاز نے 1995ء میں بغرض ملازمت ریاض، سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران اسی شعر کو کراچی سے شائع ہونے والے مشہور ماہنامہ "دوشیزہ" میں "میرا پسندیدہ شعر" کے تحت اشاعت کے لئے روانہ کیا تھا۔ جبکہ یہی شعر ڈائجسٹ کے ڈسمبر 95ء کے شمارے میں انعام اول کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔

"اردو میں مہجری ادب" پر مشتمل سیمینار کا موضوع دراصل ہمارے رفیق ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری کا تجویز کردہ تھا جو سال دیڑھ سال کے عرصے سے معرض التوأ رہا۔ اس موضوع پرسیمینار منعقد کروانے کی خواہش و ارادے کا اظہار وصی بختیاری نے اپنے ایک مضمون میں کیا ہے جو ممتاز شاعر سعید نظرکی شخصیت و شاعری کے موضوع پر شائع شدہ تصنیف "نظر نظر کے چراغ" میں شامل ہے۔ ممتاز شاعر و ادیب اور"وسیلہ ٹی وی" کے ڈائریکٹر جناب محمود شاہد، کڑپہ نے بھی اس موضوع پر سیمینار کے انعقاد کا بہت دنوں سے ارادہ کر رکھا تھا۔ امسال جب مارچ میں آندھرا پردیش اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے چیئرمین ڈاکٹر ایس محمد نعمان نے وجئے واڑہ، گنٹور اور کرنول میں اکیڈمی کے پروگراموں کو قطعیت دی تو فوراً انہیں سیمینار کے لیے یہ موضوع بتایا گیا۔ جسے قبول کرتے ہوئے موصوف نے ڈاکٹر وصی بختیاری کو اس سیمینار کی نظامت تفویض کرنے کے علاوہ مقالات کی پیشکش کے لیے مقالہ نگار حضرات سے رابطہ کرنے اور سیمینار کو قطعیت دینے کی ذمہ داری سونپ دی۔ ڈاکٹروصی بختیاری اولین فرصت میں پروفیسر قاضی حبیب احمد صاحب (صدرِ شعبہ عربی، فارسی و اردو، مدراس یونیورسٹی چینائی) سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جواب تو مثبت دیا لیکن چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر سیمینار میں شریک نہ ہو سکے۔ اسی طرح برادرم ڈاکٹر ایس۔محمد یاسر بھی اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث شرکت سے محروم رہے۔ ڈاکٹروصی بختیاری نے مارچ 2018ء کے اواخر میں مقالات کی پیشکشی کے لئے ملک کی جامعات ودلچسپی رکھنے والی ادبی شخصیات کو دعوت نامے جاری کئے۔

اردو اکیڈمی، آندھرا پردیش کے زیر اہتمام منعقدہ اس سیمینارکی اطلاع یوں تو مجھے سب سے پہلے 29مارچ کو واٹس ایپ گروپ "اردو کلچر" سے ملی ۔ گروپ کے معاون مدیر وصی بختیاری نے لکھا تھا:
"31 مارچ 2018ء کو وجئے واڑہ میں سیمینار، محفل داستان گوئی اور پھر گنٹور میں عالمی مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ جبکہ یکم اپریل 2018ء کو کرنول میں ایک عالمی سیمینار اور مشاعرے کا انعقاد عمل میں آئیگا اور اس سیمینار میں ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صاحب، مدیرِ جہانِ اردو، بانی منتظم ادبی محاذ اور بانی واٹس ایپ گروپ اردو کلچر، اپنی سالگرہ کے پْر مسرت موقعہ پر شریکِ سیمینار ہوں گے۔"

سیمینار کے موضوع سے میری دلچسپی کو دیکھے ہوئے ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری نے مجھے بھی شہر دکن سے تعلق رکھنے والے جدیدیت سے وابستہ کسی ایک ادیب یا شاعر کے فن پر مقالہ پڑھنے کی اصرار کیساتھ دعوت دی تھی۔ دعوت نامے کے ہمراہ ڈاکٹر وصی بختیاری نے رہنمائی اورموضوع سے متعلق وضاحت کی خاطر مقالہ نگاروں کے لئے مختصر نوٹ بھی فراہم کیا تھا:

"اردو کے مہجری ادب پر منعقد شدنی سیمینار میں اردو کے ان قلمکاروں پر مقالات پیش کئے جائیں جنھوں نے وطن عزیز سے دور بیرونی ممالک میں اردو میں اپنی تخلیقات کا وسیلہ بنایا اور اردو کی اپنی تخلیقات میں وطن سے دوری اور مہجوری کے کرب کو شدت کے ساتھ بیان کیا۔ ان میں وہ تمام قلمکار، شعراء و ادباء شامل ہیں جو مغربی ممالک، خلیجی ممالک یا دیگر علاقوں میں قیام پذیر رہے ہیں یا ہیں۔ خواہ یہ قیام عارضی ہو یا مستقل، اس بیرون ملک قیام کی وجوہات میں کسب معاش ہو یا سیاسی و سماجی اسباب، اس دوران ان شعراء و ادباء کی تخلیقات میں ترک وطن کا کرب، اہلِ وطن سے دوری کا احساس اور وطنِ مالوف سے محبت و الفت نیز اہل وطن کے لیے فکر مندی اور اس کے علاوہ اجنبی ممالک کے ماحول میں اپنے ماضی کی یاد اور تاریخیت و نیم تاریخیت شعوری یا غیر شعوری، موروثی عناصر و اجزائے توریث، جس میں غالب پہلو ان کی نفسیاتی تشویش اور اپنی جڑوں سے دور ی اور مستقبل میں تہذیبی و تمدنی محرومیوں کا شدید احساس کے ساتھ کرب و کسک اور فکر انگیزی کے ساتھ ایسا اظہار جس میں امید و ناامیدی دونوں شامل ہوں۔ ایسے جدید تنقیدی مطالعہ کو "مہجری ادبی مطالعہ" کا نام دیا گیا ہے۔ عربی و انگریزی ادب میں اس قسم کے مطالعات گذشتہ ربع صدی سے جاری ہیں۔(وصی بختیاری)"

ہجرت کے ضمن میں حیدرآباد کے بیشتر ادیب و شعرأ جوگذشتہ نصف صدی کے عرصے میں خلیجی ممالک یا دنیا کے دیگر ملکوں میں مستقلاً یا عارضی طور پرقیام پذیر رہے جن کی شخصیت و فن کے مطالعے سے مجھے بارہا مواقع ملے ان میں رضاالجبار(کینڈا)، انور رشید(کراچی)، حبیب حیدرآبادی(انگلستان)، اسلم عمادی (کویت)، علی ظہیر(ایران)، اعتماد صدیقی، رؤف خلش، بیکس نواز شارق، مہتاب قدر، رشید الدین رشید(سعودی عرب) وغیرہ شامل ہیں۔ تنگئی وقت کے باعث مجھے عالمی اسلامک مالیاتی کارپوریشن، سعودی عرب میں بحیثیت افسر تعلقات عامہ عمر عزیز کے (22 )برس اپنی خدمات فراہم کرنے والے جدید لب و لہجے کے شاعر اعتماد صدیقی کی شخصیت و فن پر مقالے کی تیاری مناسب لگی۔

چہرے پہ ہجرتوں کا عجب رنگ ہے میاں
آئینہ مجھ سے مل کے بہت دنگ ہے میاں

شہرِ دکن حیدرآباد سے وابستہ اعتماد صدیقی کا یہ شعر فی الواقعی ہجرت کا کرب جھیلنے والے کسی بھی فرد کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ہر چند میرے مقالے کا موضوع "اعتماد صدیقی: ہجرتوں کے کرب کا جدید شاعر " رہا لیکن دیگر اہل علم و دانش کی طرح میں خود بھی اپنے طالب علمانہ مطالعے کے پرتو "اردو میں مہجری ادب" کا مختصرالفاظ میں تعارف بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں.

ادب میں ایسی تمام تخلیقات جو بھلے ہی شعر میں ہوں کہ نثر میں، تخلیق کار کی"ہجرت" یعنی "ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب نقل مکانی" کے عہد میں اس کی اپنے وطن مالوف سے محبت اور اس کی یادوں پر مبنی ذاتی تجربات، مشاہدات و احساسات کا احاطہ کرتی ہوں تو اسے عرف عام میں "مہجری ادب" کہا جاتا ہے ۔
اردو فکشن میں"مہجری ادب" کے حوالے سے "ہجرت" کاتذکرہ ہوگا تو بات کی ابتداء سب پہلے مہاجر کی حیثیت سے حضرت آدم ہی کی ہوگی یعنی جنت (بلندی) سے زمین (پستی) کی جانب ان کی آمد کو ہجرت ہی کے پس منظر میں برتا جائے گا۔ مذہبی اصطلاح استعمال کی جائے تو پیغمبر صلعم کی چودہ سو برس قبل مکہ سے مدینہ کی جانب نقل مکانی، ہجرت ہی کے ضمن میں لی جائے گی۔ ہندو دیو مالائی ادب میں رام چندر جی کا اپنی شریک حیات سیتا اور بھائی لکشمن کے ہمراہ چودہ سالہ بن باس کو بھی اسی تناظر میں لیا جاتا ہے۔
قریب سات دہوں قبل برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں دو ملکوں کے عوام کی نقل مکانی کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کہا جاسکتا ہے۔ آج بھی دنیا کے بیشتر ممالک میں خانہ جنگی کے سبب جلاوطنی اور نقل مکانی کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس کے سبب مہاجرین میں پنپپتے کرب کو برملا محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ اور برتے جانے والے پرتعصب و حقارت آمیز سلوک کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال انفرادی طور پر ان مہاجرین کے لئے اور متعلقہ ممالک کے مفاد میں کبھی نہ رہی۔
اردو کے مہجری ادب میں نثری تخلیقات کے حوالے سے قرۃالعین حیدر اور انتظار حسین کے نام کافی مشہور ہیں۔ ان کی تخلیقات کا محور برصغیرکی تقسیم کے المیے اور اس کے نتیجے میں ہند و پاک، ہر دو جانب سے لاکھوں افراد کی نقل مکانی اور اس کے تناظر میں جنم لینے والی کہانیاں رہی ہیں۔ ان دونوں ہی ادیبوں کے افسانوں اور ناولوں میں ہجرت کے سبب پیش آنے والی المیہ صورتحال اورذہنی طور پر وطن مالوف کی تہذیبی و ثقافتی یادوں سے وابستگی جیسے موضوعات کی منفرد اندازمیں پیشکشی ملاحظہ کی جاسکتی ہے. گذشتہ نصف صدی کے عرصے میں جہاں تک مہجری ادب میں شعری تخلیقات کے حوالے سے اگر کسی شاعر کو شرف امتیاز و افتخار حاصل ہے تو وہ ہیں ممتاز پاکستانی شاعر افتخار حسین عارف۔ان کا ایک شعر ہے:

پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے

ہجرت، بھلے ہی دو ملکوں کی تقسیم کے حوالے سے ہو کہ معاشی بحران / بہتری کے خیال سے ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب نقل مکانی کے تناظر میں، بہرحال تادم زیست روح کو گھائل کئے رکھنے کا نام ہے۔ گذشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں برصغیر سے لاکھوں کی تعداد میں خلیجی ممالک کی جانب روزگار اور بہتر معیشت کے ضمن میں کی جانے والی "معاشی ہجرت" میں بھی تعصبات اور احساس محرومی و تنہائی کے علاوہ اجنبیت کے احساسات ایک عرصے تک محسوس کئے جاتے رہے۔ جسے اس عہدکے بیشمار شعراء کے کلام میں واضح انداز میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ہجرت / نقل مکانی کے دوران یا مابعد پیدا ہونے والے دکھ ودرد کو صرف وہی فرد جان / سمجھ سکتا ہے جس نے ہجرت کا دکھ سہا ہو اور اس کا کرب و تکلیف برداشت کی ہو۔ ایسے افراد کا "ناسٹلجیا" میں مبتلا ہوجانا یا اس کا شکار ہونا ناممکنات میں سے نہیں۔ ناسٹلجیا دراصل دو یونانی الفاظ یعنی(nostos)مطلب گھر واپسی اور (algos) یعنی کرب کی جمع ہے۔ ہجرت کا کرب جھیلنے کے دوران ناسٹلجیا کے شکار افراد کو عموماً اپنی تہذیبی روایات ، اپنی ثقافتی قدروں، اپنی علاقائی شناخت اورپہچان کی ہمیشہ ہی فکر ہوتی ہے جو ان کے رہن سہن، بود باش اور طرزِ فکر و اظہار سے برملا ظاہر ہوتی ہے۔ ناسٹلجیا کی بھی عارضی و مستقل اشکا ل میں دو اقسام ممکن ہیں۔ جن کی افراد کے عارضی و مستقل ہجرت کے تناظر میں گزرتے وقت کیساتھ وضاحت ممکن ہو پاتی ہے۔بقول اعتماد صدیقی:

مقدر نے لکھی مسافت بھی ایسی
جہاں دھوپ کم تھی وہاں سائباں تھا

یکم اپریل 2018ء کی صبح آٹھ بجے ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کے ہمراہ کا چیگوڑہ ریلوے اسٹیشن سے سیمینار کے مقام شہر کرنول کے لئے تنگابھدرا ایکسپریس ٹرین میں اپنی نشست سنبھالنے کے بعد میرے جذبات واقعی عجیب سے تھے۔ کرنول میرا ننھیالی شہر ہے۔ بیسویں صدی کی چھٹی تا آٹھویں دہائی میں میرے نانا سید عبدالصبور مرحوم کرنول کے تحصیلدار رہے۔ ہر چند کہ میری مکمل تعلیم یعنی پرائمری اسکول سے 1990 ء میں ڈگری کورس کی تکمیل تک حیدرآباد دکن ہی میں ہوئی۔ سال میں دو ماہ کی چھٹیوں اور وقفہ وقفہ سے کرنول آمد رفت کی بدولت 1988ء تک مجھے اپنے نانا محترم کے زیر سایہ و شفقت، زندگی کے ہر محاذ پر علمی و عملی طور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع نصیب رہے۔ کم سنی میں سماعت سے مکمل محرومی کے باوجود چہرہ شناسی، لبوں کی جنبشوں اور حرکات و سکنات کے سہارے گفتگو کے ہنر میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ اردو، انگریزی، تیلگو و ہندی زبانوں کو سنے بغیر بول چال سیکھنے کے فن میں انھوں نے میری بھرپور رہنمائی کی۔ قدرت بھی مہربان رہی کہ 1993ء میں سروے ملازمت میں آنے کے بعد تلنگانہ و آندھرا پردیش کے دیگر بیشمار مقامات کی طرح شہر کرنول کا مفصل زمینی سروے کرنے کے علاوہ نقشہ جات تیار کرنے کے بھی مجھے دو مرتبہ مواقع نصیب رہے۔ طویل عرصے بعد شہر کرنول کو ایک علحدہ حیثیت یعنی" اردو میں مہجری ادب" کے موضوع پر منعقد شدنی سیمینارمیں ایک مقالہ نگار کے بطور روانگی کے تناظرمیں قیصر الجعفری کے دو شعر یادآئے:

در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں
آؤ ! ہم اپنے بزرگوں کے نشاں دیکھ آئیں
اپنی قسمت میں لکھے ہیں جو وراثت کی طرح
آؤ ! اک بار وہ زخمِ دل و جاں دیکھ آئیں

ٹرین کے کرنول روانگی کے دوران فلک نما اسٹیشن پر ڈاکٹر سید فتح اللہ بختیاری(برادر خوردوصی بختیاری) اور بعد ازاں جڑچرلہ اسٹیشن سے ڈاکٹر عزیز سہیل ہمارے ہم سفر ہوئے۔ زائد از تین گھنٹے کے اس سفر میں سبھی نے مل کر ٹرین ہی میں ڈاکٹر عزیز سہیل کی جانب سے انتظام کئے گئے نمکین و مٹھائی کے لوازمات کے طفیل ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم صاحب کی سالگرہ منائی۔ کرنول اسٹیشن پہنچنے تک درس و تدریس سے وابستہ ان تین اصحاب سے علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو کے دوران سفر کے اختتام کا پتہ ہی نہ چلا۔

ریلوے اسٹیشن سے ہم سبھی سیدھے تھری اسٹار ہوٹل میورا اِن، نزد راج وہار سرکل، کرنول پہنچے۔ جہاں سبھی کےلئے موسم گرما کا خیال کرتے ہوئے اے سی کمروں کا انتظام کیا گیا تھا۔ وہیں سیمینار کے کنونیر ڈاکٹر سید وصی بختیاری اور سیمینارمیں شرکت کے لئے ملک کے دوسرے علاقوں سے آئے دیگر شرکأ سے گرم جوش تعارفی ملاقات بھی رہی۔ جن میں قابل ذکر ڈاکٹر نقی اللہ خان، بزرگ شاعر جناب قمر امینی، ڈاکٹر واحد نظیر، ڈاکٹر محمد نثار احمد، جناب محمد فیض اللہ، جناب شیخ نجات اللہ شریف، ڈاکٹر شیخ فاروق باشا، جناب محمد خان پٹھان غیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر وصی بختیاری اور ڈاکٹر نقی اللہ خان کی رہنمائی و سرکردگی میں سبھی نے متصل ہوٹل انٹرنیشنل کے ڈائننگ ہال پہنچے۔ پرتکلف عصرانہ سے فراغت کے بعد سیمینار ہال کی جانب روانگی عمل میں آئی۔ مقررہ وقت یعنی ڈھائی بجے دوپہر ہمارے پہنچنے تک سیمینار کا جائے وقوع یعنی ضلع پریشد ہال سامعین سے مکمل پُر ہوچکا تھا۔ جناب رحمت اللہ خان صاحب، شاعر و موظف صدر مدرس، کرنول اردو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید عبدالخالق کے علاوہ کرنول میں مقیم میرے بیشمار کزنز سرکاری اسکول میں صدر مدرس و نوجوان شاعرسالار محمد اشفاق حسین، سید فہیم، اسسٹنٹ کمرشیل ٹیکس آفیسر معہ فیملی، مزمل احمد وغیرہ سے بھی ملاقات رہی۔ کے۔ وی۔ آر کالج کی بیشمار طالبات بھی شریک سیمینار نظر آئیں۔

ابتدأ میں اردو اساتذہ اور اردو کی تنظیموں کی جانب سے اردو کی صورت حال اور طلبہ و اساتذہ کے مسائل و تجاویز کے سلسلے میں مختلف تقاریر ہوئیں۔ اردو تعلیم کی صورت حال، اردو اسکولوں اور کالجوں کے قیام کے سلسلے میں بھی مختلف افراد نے اپنی آراء پیش کیں۔ سیمینار سے پہلے ضلعی محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے اردو تنظیموں اور صحافیوں نیز اساتذہ کی خدمت میں تہنیت پیش کی گئی۔ کرنول ضلع کے ڈی ایم ڈبیلو او اور ضلع کلکٹر نے کثیر تعداد میں موجود مہمانوں، صحافیوں اور اساتذہ کی شال پوشی و گل پوشی کی۔ سب سے پہلے ڈاکٹر نقی اللہ خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شال و گل پوشی عمل میں آئی۔ دیگر اصحاب میں جناب رحمت اللہ خان صاحب، شاعر و موظف صدر مدرس کرنول اور ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، حیدرآباد شامل رہے۔ تہنیت اور مسائل کے مرحلے کی وجہ سے سیمینار دوپہر کے بجائے سہ پہر بلکہ سر مغرب تک مسلسل مؤخر ہوتا رہا۔

بالاخراردو اکیڈمی آندھرا پردیش کے چیئرمین ڈاکٹر ایس محمد نعمان صاحب کی آمد کے بعد سیمینار کا با ضابطہ آغاز ہوا۔ اس سیمینار کی صدارت پروفیسر مظفر علی شہہ میری صاحب، وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی کرنول نے فرمائی۔ جبکہ نظامت کے فرائض انتہائی فراست و خوش اسلوبی کے ساتھ ڈاکٹر سید وصی اللّٰہ بختیاری عمری نے انجام دیئے ۔

سیمینار کا پہلا مقالہ ناظم سیمینار ڈاکٹر وصی بختیاری نے پیش کیا، جس کا موضوع تھا: "اردو کا مہجری ادب: تعارف، ماہیت اور امکانات"۔سیمینار میں کل گیارہ مقالے پڑھے گئے ۔ مقالہ نگار اور عنوان مقالہ درج ذیل ہے :
٭ ڈاکٹر سید سلطان معین الدین حسینی: "مہجری ادب کا مختصر جائزہ"،
٭ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم : "ہجر کا کرب اور جنابِ رؤف کی خلش"،
٭ خاکسار یعنی سید معظم راز: "اعتماد صدیقی- ہجرتوں کے کرب کا جدید شاعر"،
٭ ڈاکٹر محمد نثار احمد: "سعید نظر کے کلام میں مہاجرت کی جھلکیاں"،
٭ ڈاکٹر شیخ فاروق باشا: "ڈاکٹر حنیف ترین کی شاعری میں مہجری کرب"،
٭ ڈاکٹر سید فتح اللہ بختیاری :"افتخار عارف کی شاعری میں مہاجرت کے عناصر"،
٭ ڈاکٹر محمد عبد العزیز سہیل: "مہجری ادب، برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی"
٭ جناب محمد فیض اللہ: "افتخار راغب کی غزلوں میں ہجرت کا کرب"،
٭ جناب شیخ نجات اللہ شریف:" رضا عبد الجبار - ادب مہجری کا درخشندہ ستارہ"
٭ جناب ابرار مجیب:"مہجری ادب پر چند نظریاتی مباحث"

ڈاکٹر واحد نظیرنے "مہجری ادب" پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔جبکہ کے۔ وی۔ آر کالج کی ایک لائق و فائق طالبہ نے بھی اپنا پرمغز مقالہ پیش کیا۔
پروفیسر مظفر علی شہہ میری صاحب کے فاضلانہ صدارتی خطاب پر سیمینار کا اختتام عمل میں آیا۔
بعد ازاں پروفیسر مظفر علی شہہ میری صاحب، وائس چانسلر ڈاکٹر عبد الحق اردو یونیورسٹی کرنول کے ہاتھوں سیمینار کے تمام مقررین کو اسناد و مومنٹو سے نوازا گیا۔ حسب روایت سیمینار کے تمام شرکأ کی اکٹھے تصویر کشی عمل میں آئی۔

شب ساڑھے نو بجے کے قریب سیمینار ہال سے ہوٹل واپسی عمل میں آئی جہاں "وسیلہ ٹی وی" کے ڈائریکٹر جناب محمود شاہد نے خاکسار کا تعارف ممتاز ادیب و نقاد ابرار مجیب سے کروایا۔ کچھ وقفہ بعد انٹرنیشنل ہوٹل میں عشائیہ کے موقع پر اسی شب منعقد شدنی مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے دیگر مہمان ادیب و شعرأ سے بھی علیک سلیک و تعارفی ملاقات رہی۔ جن میں جاوید دانش کینڈا، مہتاب قدر جدہ، دلشاد نظمی جھارکھنڈ، ڈاکٹر عطا اللہ خان سنجری کیرلا، صفدر امام قادری، اسلام صاحب بنگلہ دیش، پروفیسر قاسم علی خاں، پروفیسر خطیب سید مصطفٰی (سابق پروفیسر علی گڑھ) ، مختار احمد فردین اور کڑپہ کے نوجوان شاعر و مدرس غیاث الدین شارب، و دیگر علمی ادبی شخصیات شامل ہیں۔

سیمینار کے کنونیر ڈاکٹر وصی بختیاری نے ایک حالیہ ملاقات میں بتایا ہے کہ اس سیمینار کے تمام مقالات کو اردو اکیڈمی آندھرا پردیش کی جانب سے جلد ہی کتابی شکل میں شائع کیا جائیگا۔ عنقریب ایک تقریب میں تمام مقالہ نگاروں کو دوبارہ مدعو کئے جانے کے ساتھ انھیں تہنیت و اعزاز یہ سے نوازا جائے گا۔

اس سیمینار کے بعد کرنول میں عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا۔ سیمینار کے دوران مشاعرے میں شرکت کے لیے آئے بہت سے شعراء کرام جو علاقہ رائل سیما کی نمائندگی کرتے ہیں موجود تھے۔ ان میں بزرگ شاعرجناب قمر امینی، محمود شاہد ، جناب نور محمد جالب، جناب سید شکیل احمد شکیل کڈپوی، جناب ستار فیضی، جناب یونس طیب ، جناب ش م ہاشم طلیق، جناب امام قاسم ساقی، وصی بختیاری، محمد نقی اللّٰہ خان نقی گرم کنڈوی، محمد خان پٹھان، سید شاہ رضی الدین رضوان قادری، جناب سردار ساحل، جناب غیاث الدین شارِب، جناب محبوب خان محبوب، وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ مشاعرے کی صدارت جناب ڈاکٹر سید وحید کوثر صاحب نے فرمائی۔ موصوف کو حال ہی میں اکیڈمی کی جانب سے مولانا آزاد ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ جو سوا لاکھ روپیہ، شال اور توصیف نامہ پر مشتمل ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب لگتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران سیمینار کے بعض مقالہ نگاروں نے انفرادی طور پر ترقی و کامیابی کے زینے سر کئے ہیں۔ ڈاکٹر محمد نثار احمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اردو، سری وینکٹیشورا یونیورسٹی، تروپتی کا 26 جون2018ء کو ڈائریکٹر/سکریٹری اردو اکیڈمی آندھرا پردیش کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ 18 جولائی2018ء کو ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو آرٹس کالج، حمایت نگر، حیدرآباد نے بحیثیت پروفیسر شعبہء اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد میں اپنے نئے عہدے کا جائزہ لیا۔ جبکہ ڈاکٹر عزیز سہیل نے بھی اسی دوران گورنمنٹ ڈگری کالج، محبوب نگر سے بحیثیت لکچرر اپنی خدمات کو حکومت تلنگانہ کے تحت چلائے جانے والے اقامتی اسکول میں منتقل کرتے ہوئے اپنی تدریسی خدمات کا احیا کیا۔

مجھے اور ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کو دوسرے روز یعنی 2 اپریل بروز پیر، اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے خیا ل سے نہ چاہتے ہوئے بھی دل پر جبر کرکے اسی شب حیدرآباد کے لئے واپسی کرنی پڑی۔ جبکہ ڈاکٹر عزیز سہیل بھی اس مشاعرے میں شرکت کئے بغیر دوسرے روز چینائی میں منعقد شدنی ایک اور سیمینار میں شرکت کے ارادے سے بحالت مجبوری روانہ ہوگئے۔ پیر کی علی الصبح ڈاکٹر فضل اللہ مکرم کے ہمراہ سیمینار کے بعد منعقدہ عظیم الشان مشاعرے کے شعرأ کو نہ سننے کا ملال دل میں لئے جب ملک پیٹ، حیدرآباد واپسی ہوئی تو بے ساختہ اعتماد صدیقی کی اک غزل کا مطلع و مقطع لبوں پر در آیا:

تمنا اس سے ملنے کی نہ گھر جانے کی خواہش تھی
مجھے کب باغ سے یوں بے ثمر جانے کی خواہش تھی
ابھی تک اعتمادؔ آیا نہیں جینے کا ڈھب تم کو
وہیں سے لوٹ آئے ہو جدھر جانے کی خواہش تھی

***
سید معظم راز
16-8-544, New Malakpet, Hyderabad-500024.
mzm544[@]gmail.com

سید معظم راز

Urdu meiN mahjari adab, Seminar in Kurnool. Reportaz: Syed Moazzam Raaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں