لے آئیں گے بازار سے جا کر دل - فکاہیہ از عابد معز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-29

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل - فکاہیہ از عابد معز

le-aaenge-bazar-se-abid-moiz

یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ انیس ویں صدی میں مرزا غالب اردو زبان کے ایک نامی گرامی شاعر گزرے ہیں۔ اس بات کو دہرانے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ذائقہ ہی ہے۔ اس لیے میں مکرر عرض کر رہا ہوں۔ اردو زبان میں ایک شاعر ڈھونڈنے جائیں تو ہزاروں کی تعداد میں ملتے ہیں لیکن مرزا غالب تب سے اب تک ڈیڑھ سو برس سے زیادہ عرصہ سے شعر و ادب پر چھائے ہوئے ہیں۔
مرزا غالب نے ایسے عجیب و غریب اشعار کہے ہیں کہ "ادبی ماہرین" اب تک ان کی تشریح کرنے میں مصروف ہیں۔ اس ادبی ریاضت کے عوض انھیں اعلیٰ ڈگریاں عطاء کی جاتی ہیں۔ مرزا غالب نے ایک مصرعہ میں بازار سے دل لے آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ؎
لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور


یہ ایک طرح سے مرزا غالب کی پیشن گوئی تھی کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب ہم بازار سے دل و جاں لا سکیں گے۔ وہ وقت آ چکا ہے۔ سائنسدانوں کی انتھک کوششوں کے سبب اب بازار میں دل دستیاب ہے۔ دل کے ساتھ ہی جان ہے۔ دل دھڑکتا ہے تو جان رہتی ہے اور جیسے ہی دل کام کرنا بند کردیتا ہے تو جان بھی چلی جاتی ہے۔ گویا دل و جان لازم و ملزوم ہیں۔
بازار میں ملنے و الے دل کو امریکہ کی ابیو میڈ (Abio Med) نامی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ اسے پلاسٹک اور ٹیٹانیم سے بنایا گیا ہے۔ یہ خود کار، سافٹ بال جتنی جسامت والا دل، اصلی دل کا متبادل ثابت ہوگا اور اسے مریض کے سینے میں دل کی جگہ پیوند کیا جائے گا۔
امسال (2001ء) 2/ جولائی کو سرجن رابرٹ ڈولنگ نے پہلا مشینی، مصنوعی یا بازاری دل آپ جو مناسب سمجھیں نام دیں، کینٹکی ہسپتال میں ایک مریض کو لگایا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق مریض کے سینے میں یہ بازاری دل اچھی طرح کام کر رہا ہے گوکہ مریض کی عام حالت تشفی بحش نہیں ہے۔ آخری اطلاعات ملنے تک خودکار دل پندرہ لاکھ مرتبہ دھڑک چکا ہے۔ ڈاکٹر ڈولنگ بازاری دل کی شاندار کارکردگی سے مطمئن اور خوش ہیں اور انھوں نے کہا کہ مصنوعی دل سے ان کی ہمت افزائی ہوئی ہے۔ انھوں نے اسے ایک شاندار اور بے مثال کارنامہ قرار دیا۔ تاہم اپنے نئے دل کے حوالے سے مریض کے تاثرات اس لیے نہ معلوم ہو سکے کہ وہ بے حد کمزور ہو گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کے ہائی ٹیک علاج کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر اپنے کارنامے پر خوش ہوتے ہیں جبکہ مریض اپنی صحت تو دور اپنے ہی بارے میں تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے!


بہرحال مجھے خوشی ہے۔ آپ کو بھی خوشی ہوئی ہوگی کہ مرزا غالب کی دلی مراد پوری ہوئی اور بازار میں دل دستیاب ہے۔ جب دل چلا جائے گا، نکل جائے گا، پھسل جائے گا، چوری ہو جائے گا، چھین لیا جائے گا، اٹک جائے گا، کہیں لگ جائے گا، لٹ جائے گا، ٹوٹ جائے گا، اکھڑ جائے گا، بیٹھ جائے گا، ڈوب جائے گا، رُک جائے گا، جل جائے گا، چھلنی ہوجائے گا، بیمار ہوگا یا پھر دھڑکنا بند کردے گا تو بقول مرزا غالب، لے آئیں گے بازار سے جاکر دل و جاں اور۔۔۔


بازار میں فاضل دل ملنے سے نوجوانوں اور دل والوں کی بن آئے گی۔ وہ ہاتھ میں دل لیے پھریں گے اور جہاں موقع ملے گا اسے پیش کر دیں گے۔ دونوں طرف اگر محبت کی آگ برابر لگی ہو تو دلوں کا تبادلہ عمل میں آئے گا۔ نظروں سے اوجھل دلوں کا لین دین اب بھی ہوتا ہے لیکن بازار میں دلوں کی دستیابی سے یہ لین دین کھلے عام اور ببانگ دہل ہوگا۔ اب عاشق دل کی تصویر والے کارڈ بھیجنے کے بجائے سالم دل ہی پیش کر دیا کریں گے۔ دل کو حاصل کرنے کے بعد اسے چھپاکر سیف میں رکھیں گے۔ کوئی دل کو قید کرلے گا تو کوئی دل کی نمائش کرے گا۔ دل واپس بھی ہونے لگیں گے۔ محبوبہ کی رقیب کے ساتھ شادی پر عاشق ٹوٹے دل کو پیش کرے گا جس سے قیمتی تحفہ کوئی دوسرا نہ ہوگا۔ دلوں کے لین دین میں ایک دل کی قید بھی نہ ہوگی۔ حسب استطاعت دل والے دو، چار، چھ یا اس سے زیادہ دل لیے پھریں گے۔ اگر دل ساتھ نہ ہو تو بھی غم نہیں، ضرورت پڑنے پر بازار سے خرید لیں گے۔ دل پھینک لوگوں کی جیسے عید ہوگئی۔ وہ دلوں سے بھرا کارٹن لیے دل بانٹتے پھریں گے!


مصنوعی دل کے برائے فروخت ہونے پر میں خوشی سے دل کو واقعتاً بیس بال سمجھ کر قیاس کے گھوڑے دوڑانے اور دل سے کھیلنے لگا۔ لیکن بازار میں دل اتنا عام اور کھلا نہیں ملے گا۔ وہ مخصوص دواخانوں کے ذریعہ ہی مل پائے گا اور وہ بھی ڈاکٹر کے نسخہ پر۔ دل کی خرید و فروخت اور استعمال ماہرین کی نگرانی میں ہوگا۔ ماہرین فیصلہ کریں گے کہ کس کو ایک اور دل چاہیے اور کون دل خریدنے کا مستحق ہے۔ ابھی تو صرف ایک کمپنی کو اجازت دی گئی ہے اور اس کمپنی نے بازار میں اپنے دل کا نام ابیو کور (Abio Cor) رکھا ہے۔ اس دل کی لاگت پچھتّر ہزار ڈالر آئی ہے۔
اس کامیاب تجربہ سے قوی امید ہے کہ چند دوسری کمپنیوں کو بھی دل بنانے کی اجازت ملے گی اور دل کی قیمت بتدریج کم ہوتے ہوئے بیس پچیس ہزار ڈالر تک آ جائے گی۔


میرے خیال میں دل کی یہ قیمت کم ہی ہے۔ دل تو "لاقیمت" ہوتا ہے۔ بازار میں دل ملنے لگا ہے، یہی بہت ہے۔ اب تک مصنوعی گردے، پھیپھڑے، گھٹنے اور آنکھیں وغیرہ ملتے تھے، چلئے اب دل بھی دستیاب ہے۔ بنی نوع انسان کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ پانچ تا دس ہزار فاضل دلوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اتنی تعداد میں دلوں کی مانگ کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جلد ہی ماہرین کو دوسری کمپنیوں کو بھی دل بنانے کی اجازت دینی پڑے گی۔
بازار میں مختلف کمپنیوں اور مختلف مقامات کے دل ہوں گے۔ لوگ ڈاکٹر سے دریافت کریں گے کہ کون سادل اچھا رہے گا؟ امریکہ والا یا جاپان کا دل بہتر ہوگا۔ لوگ اپنا تجربہ بھی بیان کریں گے۔ "میں نے مقامی دل لگا لیا تھا اس کی کارکردگی اچھی نہیں ہے۔ سوچتا ہوں کہ اب امپورٹیڈ دل لگا لوں۔"


جب ایک سے زائد کمپنیاں دل بنائیں گی تو ان میں مسابقت بھی ہوگی۔ کمپنیاں اپنے دل کی مارکیٹنگ کریں گی۔ دوائیں اور طبی آلے بنانے والی کمپنیوں کی مارکیٹنگ یوں بھی بہت شاندار ہوتی ہے۔ اب تو انہیں دل بیچنا ہے۔ دل کی مارکیٹنگ قابل دید ہوگی۔ دل خریدنے پر تحفے دینا اور دو دل لینے پر ایک مفت جیسی ترغیبات پرانی اور عام ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ دل کے ساتھ دلبر یا دل آرام کا لالچ دیا جائے گا۔
بازار میں دستیاب دل کی گارنٹی یا اس کی عمر پانچ سال رکھی گئی ہے۔ یعنی نقلی دل ایک مرتبہ کام کرنا شروع کردے تو پانچ سال کے دوران مسلسل اور مستقل اٹھارہ کروڑ مرتبہ دھڑکتا رہے گا۔ اس کے بعد بازاری دل کی گارنٹی نہیں! وہ کام کرنا بند کر سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بانچ برس بھی بہت زیادہ ہیں انسان کا بھروسہ نہیں۔ نقلی دل لگا لینے والے بہت کم لوگ پانچ برس تک جی پائیں گے۔ ان کا خاتمہ بالخیر ہونے کی دل کے علاوہ دیگر کئی وجوہات ہوتی ہیں۔
مشینی دل کام کرتا رہے گا لیکن دل لگا لینے والا چل بسے گا۔ ایسی صورت میں دھڑکتا دل کسی دوسرے کے کام آ سکتا ہے۔ سیکنڈ ہینڈ یعنی استعمال شدہ دلوں کی بھی مانگ ہوگی۔ دل کو اوور ہال کرکے کسی نئے سینہ میں پیوست کر دیا جائے گا۔ مصنوعی دل کی یہ خوبی ہوگی کہ وہ تین چار لوگوں کے کام آ سکے گا۔


پہلا بازاری دل انسانی جسم میں پیوست کردیا گیا ہے۔ عنقریب مزید دل لوگوں کے سینوں میں بھی بازاری دل دھڑکنے لگیں گے۔ مصنوعی دل لگانے کے بعد ایک نئی صورت حال کا سامنا ہوگا۔ کچھ اندیشے اور کچھ اندازے ذہن میں ابھرتے ہیں لیکن حتمی باتوں کا علم تو تجربات کے بعد ہی ہوگا۔
اصلی دل دھڑکتا ہے تو "لب ڈب۔۔۔ لب ڈب۔۔۔ " کی آواز آتی ہے۔ اس آواز کو ڈاکٹر اپنے آلہ سماع الصدر کی مدد سے سنتے ہیں۔ یہ آلہ ڈاکٹر کی شان بھی ہوتا ہے۔ کیا مشینی دل بھی اصلی دل کی طرح ایسی ہی آواز پیدا کرے گا؟ شاید نہیں۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی دل ایک پمپ مشین ہے۔ دل کی آواز سننے پر محسوس ہوگا کہ جیسے سینے میں کوئی پمپ چل رہا ہے یا پھر پمپ کے موٹر کی آواز سنائی دے گی۔ مشین کی آواز دوسروں کو بھی سنائی دے سکتی ہے لیکن گمان غالب ہے کہ بنانے والوں نے سائیلنسر کا استعمال کیا ہوگا۔


قدرتی یا اصلی دل مختلف رفتار سے دھڑکتا ہے۔ کسی خوبصورت حسینہ کو دیکھ کر دل کی رفتار تیز ہو جاتی ہے جبکہ بیوی کی موجودگی میں دل آہستہ آہستہ دھڑکتا ہے۔ خطرناک حادثے سے دوچار ہونے پر دل یکدم پھڑپھڑانے بھی لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مشینی دل دھڑکنے کے لیے اس میں اکسیلیٹر اور گیئر لگے ہوتے ہوں گے۔ میرے اس قیاس کو سن کر ایک دوست نے کہا۔ "میاں یہ نظام پرانا اور فرسودہ ہو چکا ہے۔ آج موٹر کاریں تک آٹومیٹک آتی ہیں۔ مشینی دل خود سے رفتار بدلنے کا اہل ہوگا۔"


بازار میں ملنے والا دل برقی توانائی سے کام کرتا ہے۔ مصنوعی دل سلکی تاروں کے ذریعہ جلد کے نیچے لگی ہوئی بیٹری سے جڑا ہوتا ہے۔ یہ بیٹری دل کو کرنٹ فراہم کرتی ہے۔ اس بیٹری کو وقتاً فوقتاً شاید چھ آٹھ گھنٹوں بعد چارج کرنا پڑتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ مصنوعی دل کھانا نہیں کھائے گا۔ چلئے صاحب، مریض کو شکر، چکنائی اور کولیسٹرول سے نجات ملے گی۔ بازار سے دل لے آنے کے ساتھ مٹھائی بھی لیتے آئیں گے۔ مصنوعی دل لگنے کے بعد جو دل چاہے وہ کھا سکتے ہیں لیکن وہ اصلی دل کہاں ہے جو میٹھا اور چکنائی کھانا چاہے گا۔ مشینی دل تو کرنٹ مانگے ہے۔ بازاری دل کو بھوک لگنے پر بجلی کے تاروں سے جوڑنا پڑے گا۔


مصنوعی یا بازاری دل لگنے کے بعد صاحب دل کو روایتی بیماریوں سے نجات ملے گی۔ مصنوعی دل کو ہارٹ اٹیک جیسی جان لیوا بیماری نہ ہوگی۔ ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ بھی نہیں ہوگا۔ مشینی دل پریشر کو ہر دم نارمل رکھے گا۔ دل دھڑکنے کی رفتار یکساں رہے گی۔ رفتار میں ہونے والے بے قاعدگیوں سے بھی نیا دل محفوظ رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ مشینی اور برقی ہونے کے سبب نئے دل کو کچھ نئی بیماریاں لاحق ہوں۔ شارٹ سرکٹ ہونے کا اندیشہ لگا رہے گا۔ وقت پردل کی سروسنگ کروانی پڑے گی۔ پرزے بدلنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔
بازاری دل کے احساسات اور جذبات کیا اورکیسے ہوںگے؟ کیا وہ اصلی دل کی طرح ان کا مسکن ہوگا؟ میں نے یہ سوال ایک ماہر قلب سے کیا کہ اگر مصنوعی دل احساسات اور جذبات سے عاری ہوگا تو پھر ایسا قیمتی دل لگالینے سے کیا فائدہ! دل تو دھڑکتا رہے گا لیکن زندگی بے کیف اور بے لطف ہوگی۔
ماہر قلب نے مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور کہا۔ "میاں کئی مرتبہ ہم نے واضح کیا ہے کہ جذبات اور احساسات کا تعلق دماغ سے ہے۔ دل تو بس ایک پمپ مشین ہے۔ نہ جانے تمہارے دماغ میں یہ بات کیوں نہیں سماتی! کم از کم اب نقلی دل ایجاد ہونے کے بعد تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آ جانی چاہیے۔


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
***
ماخوذ: ہفتہ وار اردو میگزین، جدّہ۔ سعودی عرب (شمارہ: 19/اکتوبر 2001ء)۔

Le aaein ge bazaar se Dil. Humorous Essay by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں