رمضان میں کہیں وزن نہ بڑھ جائے - فکاہیہ از عابد معز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-04-04

رمضان میں کہیں وزن نہ بڑھ جائے - فکاہیہ از عابد معز

ramzan-fukahia-abid-moiz
اشارہ سرخ ہونے پر میں نے گاڑی روکی اور آس پاس نظر دوڑائی تو سگنل کے پاس لگے ایک اشتہارپر نظر پڑی۔ پتہ چلا کہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ ایک نامور سوپر مارکٹ نے رمضان کریم کی مبارک باد دے کر اپنے یہاں شاپنگ کی دعوت دی تھی۔ اشیا سستے دام آفر کرنے کے ساتھ لکی ڈرا کا لالچ بھی تھا۔ تین عدد کار کے علاوہ گھریلو اشیا اور کمپیوٹر بھی انعام میں تھے۔ گھر پہنچ کر میں نے بیگم کو رمضان کی مبارک باد دے کر گزارش کی:
"براہ کرم آپ رمضان کی شاپنگ چاند دکھائی دینے سے پہلے کر لیں۔ سوچ کر فہرست بنائیں تاکہ رمضان میں کسی شے کی کمی نہ ہو جائے اور مجھے بازار دوڑنا پڑے۔ رمضان میں روزہ دار کو ستانا اچھا نہیں رہتا۔"
"مجھے معلوم ہے کہ رمضان ایک ہفتہ بعد شروع ہو رہا ہے۔ دو دن پہلے ہی میں نے شاپنگ کرنے کے لیے فہرست تیار کرلی ہے۔ اب اشتہارات دیکھ رہی ہوں کہ کہاں شاپنگ کی جائے۔" بیگم نے جواب دے کر میرے ہاتھ میں شاپنگ لسٹ تھما دی۔
"کہیں سے بھی خریداری کرلیں گے جہاں ایک چھت کے نیچے تمام اشیا مل جاتی ہیں۔" میں نے مشورہ دیا۔
"مہنگائی کے سبب بازار میں آگ لگی ہوئی ہے۔" آگ لگا کر بیگم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ "میں ایسے شاپنگ مول کی تلاش میں ہوں جہاں دام کم ہوں اور ڈھیر سارے انعامات بھی ملتے ہوں۔"


بیگم کے شعبہ میں زیادہ دخل اندازی نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے سبب میں نے "ٹھیک ہے" کہا اور فہرست پر سرسری نگاہ ڈالی۔ تیل کے آگے ایک بیرل لکھا تھا۔ میں نے چونک کر بیگم کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہا۔ "بیگم کھانے کا تیل ڈبوں یا کنستر میں ملتا ہے۔ بیرل میں نہیں!"
"جی میں جانتی ہوں لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ رمضان میں ڈبوں اور کنستر میں ملنے والا تیل ہماری ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ بیرل کے حساب سے ہمیں تیل چاہیے۔" بیگم نے جوب دیا۔
"آپ تیل کھاتی ہیں یا پیتی ہیں؟" میں نے ایک روایتی شوہر بن کر سوال کیا۔
"جی میں تیل کھاتی ہوں اور آپ تیل پیتے ہیں۔" بیگم جواب دینے لگیں۔ "رمضان میں ہر دن آپ کو تلی ہوئی اور فرائیڈ ڈشش چاہیے اور میں آپ کے موڈ اور روزوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے آپ کی یہ خواہش پوری کر دیتی ہوں۔"
"ہوں۔" کے ساتھ ایک گہری سانس لے کر میں نے جوابی وار کیا۔ "گھی بنائے سالنا بڑی بہو کا نام کے مصداق آپ کو گھی کا ایک بڑا ڈبہ بھی چاہیے ہوگا۔"
"ایک ڈبہ گھی کم ہے لیکن آپ کہتے ہیں تو گزارا کرلوں گی۔" بیگم نے جواب دیا۔
"ایک بوری شکر شاید ناکافی ہوگی۔" میں نے جل کر کہا۔
"آپ نے بہت صحیح اندازہ لگایا۔ آپ کو میٹھا بہت پسند ہے اسی لیے ٹھیک ٹھیک اندازہ لگالیا۔ میٹھے، شربت اور چائے میں ڈالنے کے لیے ڈیڑھ دو بوری شکر درکار ہوگی۔" بیگم نے جواب دیا۔
میں دانت پیس کر خاموش ہوا تو بیگم نے مجھے چھیڑا۔ "آپ نے چنا اور چنے کی دال کی ریکوائرمنٹ نہیں دیکھی؟"
"اب مجھ میں فہرست دیکھنے کی تاب نہیں ہے۔" میں نے فہرست اور بیگم دونوں ہی سے جان چھڑائی۔


تیل، شکر اور چنے پر ہی کیا موقوف ہے رمضان میں غذا ہی زیادہ حاصل کی جاتی ہے۔ ہم اس مہینے میں بڑے اہتمام سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کھانے پینے کے اہتمام اور انتظام میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ عبادتوں کے لیے بہت تھوڑا ہلکا ناشتہ کرنے جتنا وقت ہی نکال پاتے ہیں۔
رمضان میں کھانے اور سونے کا شیڈول ایک دوسرے سے بدل جاتا ہے۔ عام دنوں میں اکثر لوگ تین وقت کھاتے اور دو وقت سوتے ہیں جبکہ رمضان میں دو وقت کھاتے اور تین مرتبہ سوتے ہیں۔ افطار اور سحری کے بعد سونا مجبوری ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد میٹھی اور سوندھی نیند آتی ہے اور پھر سہ پہر میں جھپکی اس لیے ضروری ہو جاتی ہے کہ افطار سے پہلے بھوک بے چین نہ کر دے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس مہینے میں کھاتے اور سوتے ہی رہتے ہیں۔ رمضان میں زائد سونے والے ایک صاحب کا عذر سماعت فرمائیے کہ کام سے دو ایک گھنٹوں کی چھٹی سونے اور آرام کرنے کے لیے ہی دی جاتی ہے۔


افطار پر اکثر دعوت رہتی ہے۔ ہم دوستوں کو مدعو کرتے ہیں یا احباب ہماری دعوت کرتے ہیں۔ افطار کی دعوتیں روزہ شروع ہونے سے پہلے سے آنے لگتی ہیں۔ باضابطہ "افطار ڈائری" بنانی پڑتی ہے کہ کہیں بھول چوک نہ ہوجائے اور کوئی دعوت چھوٹ نہ جائے۔ میزبان کو ثواب نہ ملنے اور ہمیں اچھے کھانے سے محروم رہنے کا خدشہ رہتا ہے۔ بعض مرتبہ روزوں سے زیادہ دعوتیں آ جاتی ہیں۔ ایک روزے کے دو افطار کرنا پڑتا ہے۔ ایک جگہ روزہ کشائی کی تو دوسرے دوست کے یہاں تناول طعام کیا۔


ہم شاندار دعوتیں کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ بعض مرتبہ اغیار کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم دعوت کر رہے ہیں یا عداوت۔ مہمان کو کھلا کھلاکر ادھ مرا کر دیتے ہیں۔ دعوتوں کا اہتمام اور انتظام یوں کیا جاتا ہے جیسے میزبان اپنا ولیمہ کر رہا ہے۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ کامیاب دعوت وہ ہے جس میں کھانے اور کھلانے والے دونوں کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ہماری دعوتوں کی ایک اور خوبی "غذا بالجبر" کا رواج ہے۔ لوگ زبردستی ایک دوسرے کی پلیٹ میں کھانا انڈیل کر کھانے کے لیے اصرار کرتے ہیں۔


افطار کی دعوت نہ بھی ہو تو خود کے لیے افطار میں کیا جانے والا اہتمام بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اہتمام ہونا بھی چاہیے کہ بارہ پندرہ گھنٹوں کے بعد روزہ کشائی جو ہوتی ہے۔ ہمہ اقسام کی نعمتوں سے دسترخوان چنا جاتا ہے۔ افطار پر کئی قسم کی اشیا اس لیے بھی ضروری ہوتی ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی نعمتوں کو چکھ کر اس کی ثنا خوانی کر سکیں۔ یوں شاندار افطار سے ہمیں عملی اور زبانی دونوں عبادتوں کا لطف ملتا ہے۔


ماہ رمضان کی برکت ہے کہ اس مہینے میں کھانا کچھ زیادہ ہی میسر آتا ہے۔ دعوتیں آتی ہیں۔ اڑوس پڑوس سے پلیٹ اور ٹرے بھر بھر کر افطاری آتی ہے۔ افطار کروانے کے لیے لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بازار اور راستوں بالخصوص گھر سے مسجد تک کھانے کی دکانیں ایستادہ ہوتی ہیں۔ ان دکانوں اور ہوٹلوں کو دیکھ کر خواہ مخواہ ہی کھانے کو طبیعت مچلتی ہے۔ یوں بھی روزہ داروں کی خدمت کے لیے لوگ محنت کرتے ہیں تو انھیں محنت کا صلہ ملنا ہی چاہیے یعنی کہ ہمیں مختلف طریقوں سے ملنے والے کھانوں کو نوش جان کرنا چاہیے۔ اس طرح بعض لوگوں کا منہ افطار سے سحری تک چلتے رہتا ہے۔


رمضان کے مہینے میں کچھ زیادہ کھایا بھی جاتا ہے۔ معلوم نہیں بھوک چہک اٹھتی ہے یا کھانوں کی افراط کو دیکھ کر دل مچل اٹھتا ہے۔ افطار میں دو نوالے زیادہ اس لیے بھی کھائے جاتے ہیں کہ ہم نے دوپہر میں نہیں کھایا تھا اور سحری میں چار نوالے اس نیت سے زیادہ زہرمار کئے جاتے ہیں کہ اب سورج ڈھلنے کے بعد ہی کھانا ہے۔ کم کھانے سے کہیں دن میں مشکل نہ ہو جائے!


ماہرین کہتے ہیں کہ رمضان میں ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ روزے رہنے کے باوجود بعض لوگ اپنا وزن بڑھا لیتے ہیں۔ عید کے دن اپنے آپ کو تولنے پر پتہ چلتا ہے۔ کوئی آدھا، ایک یا دو کلو زیادہ تلتا ہے۔ اس لیے رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی آپ کو انتباہ دیا جارہا ہے:

"ہوشیار، کہیں اس رمضان میں آپ کا وزن تو بڑھنے والا نہیں ہے!"

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
***
ماخوذ: ہفتہ وار اردو میگزین، جدّہ۔ سعودی عرب (شمارہ: 21/ستمبر 2007ء)۔

Ramzan mein kahein wazan na badh jaye. Humorous Essay by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں