امن کانفرنس - بچوں کی کہانی از واجدہ تبسم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-30

امن کانفرنس - بچوں کی کہانی از واجدہ تبسم

peace-conference-kids-short-story-wajida-tabassum

جب میز کے آزو بازو چار دن کرسیاں جمائی جا چکیں ، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے۔
"جناب راشد۔۔ مسٹر ٹلو۔۔۔ اور آپ محترمی پپّو!۔۔ آئیے اب یہاں تشریف رکھئے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجئے۔"
سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاق رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔۔چنانچہ جناب صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔


"جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔" یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لئے میں معافی چاہوں گا۔۔۔ اب ہمیں یہ ہے کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیاجائے۔۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں ، ہمارا یہ گھر۔۔۔ گھر کا ہے کوہے بوچڑ خانہ ہے ، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلادیں۔۔۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔
"ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔۔"
"ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟"
"توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔"


تو جناب سامعین!۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لئے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیاجائے، ایسا ریزولیشن پاس کیاجائے کہ بس۔۔۔" بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔
"او۔۔ یس( O.YES)"پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔
"بالکل ٹھیک ہے۔" راشد منمناہٹ سے بولے۔


"ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پر امن فضا قائم ہوجائے کہ پرندہ پر نہ مارے۔۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے ، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گل کاری کرنے لگے۔۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں ، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔۔۔ اسکیل بچوں کے لئے گھوڑا گاڑی کاکام نہ دینے لگے۔"
پپو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پردھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے ، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔
"اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔"
پپو نے ہڑ بڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔


راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جارہے تھے۔ معزز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔
"اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے ، کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں ، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہوجائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔(تالیاں)
"اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچوں کے سر منڈوادئیے ہوں، تو ان بچوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔"
ٹلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
" اور ہمیں یہ بھی چاہئے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوج نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری۔۔"


ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔" یہ ترکیب غلط ہوگئی ، اس لئے ہم شہر کے لئے امن کانفرنس نہیں کررہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لئے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ واقعی صحیح معنوں میں"امن پسند مکانی" بن کر دکھادیں۔ جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے ، اس کی ایسی خیر لی جائے کہ حضرت کی نانی مرجائے۔۔۔۔" صاحب صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:
"جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔"
راشد بھی خفا ہوکر بولے۔"اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقید حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔"
پپو موقع پاکر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔" چراغ تلے ہی اندھیر اہوتا ہے۔"
"مگر جناب۔۔ "صاحب صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔"یہ تو محض ایک تریب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چندنے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔"


پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقینا ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہوچکا ہوگا۔۔۔" اور تائید کے لئے راشد کی طرف دیکھا۔
راشد تاؤ کھاکر بولے۔" جناب صدر صاحب یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مرجائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں ، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔۔۔" ہائے مٹھائی" اور آپ ا نکے یوں لتّے لے رہے ہیں۔۔۔"
راشد نے بات میںوزن پیدا کرنے کے لئے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی ، مگر پپوکو مٹھائی۔۔۔۔؟؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی۔۔۔۔؟ پپو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھاکر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔
"دنیا کی نانیان مرگئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔۔۔" اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گلا منہ میں ڈال لیا۔
ٹلو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جناب صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔
"کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!"
ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھاکر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔
راشد نے جب یہ گڑ بڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔" صاحب صدر! ابھی بھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے ، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں۔۔؟"


رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔" میں نے دس کھائے؟"
"اور کیا ایک کھایا۔۔۔؟"
"تمہیں کس نے منع کیا تھا؟"
۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ بات۔۔۔۔؟"
"یہ بات۔۔۔۔!"
پہلے اسکیل اٹھی۔۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحب کرسی بھی چاروں خانے چت۔۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔۔ ساتھ ساتھ برا بھلا ، مار دھاڑ ، دھول دھپا بھی جاری تھا۔۔۔ گالیوں اور کوسوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔
چیخ و پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابا دوڑتے آئے۔۔۔۔ہائیں ہائیں کرکے سب کو ایک دوسریے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔
" یہ کیا سلسلہ تھا بھئی۔۔۔کاہے کی گڑ بڑ تھی۔۔۔یہ؟؟
رازی سر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔۔۔
"جی۔۔ جی۔۔ وہ ہم ذرا امن کانفرنس کررہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے۔!"


***
ماخوذ از کتاب: بند دروازے (بچوں کی کہانیاں)
مصنف: واجدہ تبسم۔ (سن اشاعت: 1979ء)

Peace Conference, Kids short-story by: Wajida Tabassum.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں