سلیمان اریب نے کہیں لکھا ہے کہ:
"ایک شخص زندگی بھر قلم گھس کر بھی اچھا شاعر نہیں بن پاتا اور ایک شخص چند ہی برسوں میں اہم ترین شاعر بن جاتا ہے لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور بڑے سے بڑے شاعر کو بھی اپنا مقام بنانے کے لئے کچھ مدت ضرور درکار ہوتی ہے۔"
سخن ہائے گفتنی یہ ہے کہ آج (اپریل 2001ء) ایک نو عمر شاعر سردار سلیم کے پہلے شاعری مجموعے "راگ بدن" کی تقریب رونمائی ہونے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس شعری مجموعے کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھائیں، کچھ کتاب کے نام کے تعلق سے عرض کریں۔ "راگ بدن" کی ترکیب چونکانے والی بھی ہے اور غور طلب بھی۔ ایک غیر مرئی چیز "راگ" کو ایک مرئی چیز "بدن" کے ساتھ منسلک کرکے یہ ترکیب بنائی گئی ہے۔ خود شاعر کو اس ترکیب کی تحریک جانثار اختر کے اس شعر سے ہوئی ہے
دم سادھ لیا کرتے ہیں تاروں کے مدھر راگ |
جب رات گئے تیرا بدن بات کرے ہے |
لیکن اس شعری مجموعے میں، اس ترکیب سے مماثلت رکھنے والی شاعری کا تناسب کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ کیا "راگ بدن" کو انگریزی ترکیب "باڈی لینگویج" کا ترجمہ سمجھا جائے یا شاعر نے "راگ" کے لفظ کو تجسیم یا personify کرنے کی خاطر "راگ بدن" کی اصطلاح وضع کی ہے؟ ہر دو صورتوں میں لگتا ہے شاعر نے اپنی کتاب کا انتساب جس پیکر خیال کے نام کیا ہے، اس کے لئے "راگ بدن" سے زیادہ موزوں ترکیب یا اصطلاح نہیں ہو سکتی کیونکہ شاعر نے خود اعتراف کیا ہے کہ یہ پیکر خیال اس کے شعر میں اس سے زیادہ بولتا ہے۔
شاعر کے سوانحی تفصیلات کے مطابق شاعر کی طبعی عمر 28 سال ہے۔ شعر گوئی اس نے 14 سال کی عمر سے شروع کی یعنی سن ستّاسی (1987ء) سے۔ پہلا مشاعرہ سن نّوے میں پڑھا اور کلام کی اشاعت کا سلسلہ سن پچانوے سے جاری ہے۔ شاعر نے جب میدانِ شعر و ادب میں اپنا اشہبِ قلم دوڑایا تو خود شاعر کی زبان میں بعض لوگوں نے اس پر سرقاتِ شعری کی تہمتیں چسپاں کر دیں اس استدلال کے ساتھ کہ کسی متبدی میں ایسی ندرت اور فن پر ایسا عبور ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن شاعر نے خود لکھا ہے کہ:
"احقر نے بہتوں کو فی البدیہہ طبع آزمائی کے ذریعہ قائل کر دیا مگر بیشتر افراد اب بھی بدگمان ہیں۔"
ہم دعاگو ہیں کہ خدا ان افراد کو نیک توفیق عطا فرمائے۔
سردار سلیم نے صرف (14) برس کی مشق و مزاولت کے بعد ہی اپنا پہلا شعری مجموعہ شائع کرڈالا۔ جو ڈیمائی سائز کے (120) صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں سے (12) صفحات پر مضطر مجاز، محمد علی اثر اور مسرور عابدی کے مضامین ہیں اور (8) صفحات سب ٹائٹل، انتساب، اظہار تشکر اور اشتہار کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ شاعری کا مواد (100) صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ان (100) صفحات پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو مایوسی نہیں ہوتی۔ (53) غزلیں، (12) نظمیں، کچھ ماہیے و ماہیا گیت، تروینی اور دوہوں میں ہمیں لب و لہجے کے دو واضح دھارے نظر آتے ہیں۔
پہلے دھارے میں زبان سنبھلی ہوئی، انداز بیان تازہ کاری لئے ہوئے اور لفظیات، جدت طرازی کی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر یہ تین شعر ملاحظہ ہو
ترے بغیر بھی اب پرسکون رہتا ہوں |
مرے مزاج نے تنہایاں پہن لی ہیں |
مکان اگنے لگے ہیں بجائے پیڑوں کے |
کہ جنگلوں نے بھی اب بستیاں پہن لی ہیں |
تری نظر کا لبادہ ہے بے نیازی کا |
مرے لبوں نے بھی خاموشیاں پہن لی ہیں |
دوسرا دھارا قدرے ناہموار، غیر استوار اور غیر متوازن ہے۔ کھردرا، کرخت اور عامیانہ۔ لفظیات، غزل کے روایتی مزاج سے نامانوس اور کہیں کہیں رکاکت کی حامل۔ اس دوسرے لہجے نے غزل کے رسیا کو انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ پتہ نہیں یہ ردّعمل ہے یا روایتی اور لکیر کے فقیر شاعروں کے خلاف یا کیا ہے؟ حالانکہ شاعر نے ایک جگہ خود کہا ہے
وہ بولنے کے لئے بے تکان بولے گا |
مگر کیا اہل زباں کی زباں بولے گا |
اس کے علاوہ شاعر کو اس بات کا بھی شدید احساس ہے کہ اس کے اپنے اظہار کے لئے موزوں لفظ نہیں مل رہا ہے۔ کہتا ہے
سوادِ شوق نے صفحوں کے صفحے چھان ڈالے ہیں |
مگر اک لفظ بھی اظہار کے قابل نہیں ملتا |
اینٹی غزل کے باب میں سردار سلیم نے کچھ زیادہ ہی کَھل کھیلنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں ایسے شعر معرض وجود میں آئے ہیں
چھینک سے لفظ بکھر جائیں گے |
شعر کی ناک میں انگلی نہ گھسیڑ |
گنگنا کر شاعری کرنے کا گر ہم میں نہیں |
دیکھنا کتنی سریلی دھن میں ڈکراتا ہے بیل |
ٹھیک ہے اچھے کام بھی کرنا |
نفس کے بندروں کو ہانک تو لے |
اس مجموعے کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے کہ لب و لہجے کے ان دو متضاد دھاروں میں شاعر کو کون سا لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے؟ میری ناچیز رائے میں اینٹی غزل کی ٹامک ٹوئیوں میں پھنسنے کے بجائے بہتر ہوگا کہ شاعر اپنی فنی استعداد و وسیع تر مطالعے اور ذوقِ شعری کو بروئے کار لاتے ہوئے شاعری کے اس لہجے کو اپنا لے جو اسے فکر و فن کے تئیں اعتبار بھی بخشے گا اور شعری ڈھانچے کو مثبت انداز کی انفرادیت بھی عطا کرسکے گا۔ شاعر نے ایک جگہ خود کہا ہے
کام اتنا تو مِری فکر رسا کرتی ہے |
ذہن کو قیدِ روایت سے رہا کرتی ہے |
"قیدِ روایت" سے تو وہ کبھی کا رہا ہوچکا ہے، اب باری ہے اس غیر معتدل اور غیر ثقہ، ژولیدہ بیانی سے چھٹکارہ پانے کی جس کے ہوتے ہوئے ممکن ہے شاعر درجۂ استناد کو نہ پہنچ سکے۔
"روایت گریزی"بہت اچھی چیز ہے لیکن شاعری بہرحال درد کی آنچ میں الفاظ کو پگھلانے کا فن ہے۔ مثال کے طور پر طنز و مزاح پر ظرافت کی کاٹ اگر پھکڑ پن اور اتبذال کا جامہ پہن لے تو ایوانِ ادب میں سبھی کو ناگوارِ خاطر محسوس ہوگا۔ میں یہاں کسی ناصح یا محتسب کا منصب نہیں ادا کر رہا ہوں بلکہ شعر و ادب کی خیر منا رہا ہوں۔ میری بات کی وضاحت خود سردار سلیم کے ان دو شعروں سے ہو جاتی ہے
نہ ڈالو خطرے میں ایک دوسرے کی خیریتیں |
ہے دل میں بغض تو پھر روک دو مراسلتیں |
یہ کیا تماشہ ہے اپنوں سے بیر رکھتے ہو |
اماں ہٹاؤ ! بہت ہو چکیں مخالفتیں ! |
آخر میں ہم اپنی تمام تر نیک تمناؤں کے ساتھ مبارکباد دیتے ہوئے اس بات کے آرزومند ہیں کہ سردار سلیم کا یہ پہلا مجموعہ، جلد یا بدیر ان کے دوسرے مجموعے کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں