شاعری سے پرہیز - فکاہیہ از عابد معز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-12

شاعری سے پرہیز - فکاہیہ از عابد معز

Shairi se parhez. Humorous Essay by Abid Moiz

میں ایک ادبی رسالے کی ورق گردانی کررہا تھا کہ میری نظر ایک چونکا دینے والی خبر پر پڑی۔ 'شاعری سے اجتناب' کی سرخی لگی تھی۔ چند نئے قلم کاروں نے ایک ادبی منشور جاری کیا ہے جس کا سب سے اہم نکتہ نظم گوئی اور شاعری سے پرہیز ہے۔ منشور میں شاعری کے برخلاف نثر کی اہمیت اور برتری کو ثابت کرکے نثر کو فروغ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔


یقین جانیے۔ خبر پڑھ کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ میں شاعروں سے پریشان اور ان کی بڑھتی ہوئی تعداد سے برانگیختہ رہتا ہوں۔ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر عرض کیا ہے کہہ کر مجھ پر چڑھائی کر رہا ہے اور اپنی غزلوں، نظموں اور قطعات سے تابڑ توڑ حملے کرکے مجھے لہولہان کر رہا ہے۔
شاعروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے آسان کام شاعری ہے۔ شاعروں کی بہتات کے سبب میں شاعری سے متنفر ہونے چلا تھا کہ ایسے میں یہ خبر میرے لیے اطمینان اور سکون کا باعث بنی ہے۔ نئے قلم کاروں نے شاعری سے دامن بچانے کا بہت صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں انھیں مبارک باد اور نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اگر یہ منشور چند برس پہلے جاری کیا گیا ہوتا تو شاعروں کی تعداد میں کچھ تو کمی ہوئی ہوتی۔
شعر و شاعری کے خلاف منشور کی خبر پڑھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں یہ دیکھنا ہی بھول گیا کہ یہ خبر کہاں سے آئی ہے اور کس زبان کے قلم کاروں نے ایسا انقلابی فیصلہ کیا ہے۔ میں نے پھر غور سے خبر پڑھی تو پتا چلا کہ اس منشور کو برطانیہ کے قلم کاروں نے ظاہر ہے کہ انگریزی زبان کے لیے جاری کیا ہے۔ میں مایوس ہوا اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر میں نے اپنے آپ سے کہا:
'کاش ایسا کوئی منشور اردو ادب کے حوالے سے بھی جاری کیا گیا ہوتا!'


عقل نے ڈھارس بندھائی کہ تقلید کرنے میں کیا قباحت ہے۔ عرصے سے ہم انگریزی کی تقلید کرتے آ رہے ہیں اور ہماری تنقید تو خالص تقلید ہی ہے۔
میرے اس خیال سے آپ اتفاق کریں گے کہ اردو زبان میں شاعر بہت ہیں۔ شاعروں کی بہتات کے معاملے میں شاید ہی کوئی دوسری زبان اردو کی ہم پلہ ہوگی۔ شاعروں کی بہتات کی یہ روایت عربی اور فارسی سے اردو میں آئی ہے لیکن اردو شاعروں نے اپنی آبادی کے معاملے میں عربی اور فارسی شعرا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جو بھی اردو جانتا ہے 'اس نے شعر ضرور کہنا ہے' والی صورت ہے۔ اگر کوئی اردو بولتا ہے اور شعر نہیں کہتا ہے تو وہ 'مجھے اردو نہیں آتی' کا دعویدار ہوتا ہے۔


بعض لوگوں نے اردو شاعری کے اسیر ہو کر اردو زبان سیکھی اور جب اردو پڑھنے لکھنے لگے تو خود بھی شعر کہنے لگے۔ ایسے ہی مشاہدے کا اثر ہے کہ ایک صاحب نے اردو زبان کے تعلق سے مضمون لکھا:
"اردو زبان ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور ان کی مقامی لوگوں سے ارتباط کے سبب وجود میں آئی۔ پھر یہ مسلمانوں کی زبان کہلائی گئی لیکن وقت کے ساتھ مسلمان بھی اردو میں تعلیم حاصل کرنے اور اردو سیکھنے سے گریز کرنے لگے۔ اب یہ شاعروں کی زبان ہے۔ اردو میں شاعری بہت زیادہ ہوتی ہے اور اردو شاعری پسند بھی کی جاتی ہے۔ لوگ مشاعروں میں اردو شاعری سناتے اور محفلوں میں اردو شاعری گاتے ہیں۔ انھیں واہ واہ، سبحان اللہ، بہت خوب، مکرر مکرر کی بے تحاشا داد ملتی ہے۔"


اردو زبان کے مدارس ایک ایک کرکے بند ہوتے جارہے ہیں لیکن نئے نئے مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی چار اردو داں یکجا ہوتے ہیں وہاں مشاعرہ ضرور بپا ہوتا ہے۔ شرکا اپنے یا دوسروں کی شاعری سناتے اور واہ واہ کرتے ہیں۔ دنیا کا ایسا کوئی خطہ نہیں ہوگ جہاں مشاعرہ نہ ہوا ہوگا۔ ہمارے شاعر مشاعرہ پڑھنے کے لیے دوردراز کا سفر بھی کرتے ہیں۔


میرے ایک دوست اپنی عظمت کا سینہ ٹھونک کر یوں اظہار کرتے ہیں:
"میں براعظمی شاعر ہوں۔ میں نے دنیا کے پانچوں براعظموں میں اپنا کلام سنایا ہے۔ ایشیا تو اردو ہی کا براعظم ہے۔ یہاں میں نے کئی شہروں میں مشاعرے پڑھے ہیں۔ یورپ میں لندن، اوسلو، جنیوا وغیرہ کے مشاعروں میں شریک رہا ہوں۔ آسٹریلیا میں سڈنی اور ایڈیلیڈ میں منعقدہ مشاعروں میں مجھے خوب ادا ملی ہے۔ آفریقہ کے شہروں قاہرہ، خرطوم اور ماریشیس میں بھی داد پائی ہے۔ شمالی اور جنوبی امریکہ کی فضاؤں میں بھی میں نے اپنا ترنم بکھیرا ہے۔ اردو شاعری نے مجھے دنیاکی سیر کرائی ہے۔ حسرت ہے تو بس اتنی کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی میں اب تک کلام سنانے کا موقع نہیں ملا۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ شرف بھی جلد حاصل ہوگا۔"


اردو والوں کی نئی نسل کا ایک قابل لحاظ حصّہ مجھے اردو نہیں آتی کہنے والوں کا ہے۔ یہ نوجوان زناٹے دار انگریزی بولتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ وہ بھی اردو گاتے ہیں۔ ان نوجوانوں کے پاس اردو سیکھنے کا مقصد دوسرا ہوتا ہے۔ میں نے ایک دوست کے لڑکے سے جو مجھ سے انگریزی میں ہمکلام تھا، مشورہ دیا۔ 'بیٹا آپ اردو سیکھیے۔'
لڑکے نے جواب دیا: 'انکل میری آواز خراب ہے۔'
میں اردو سیکھنے اور آواز کے درمیان تعلق کا اندازہ نہ کرسکا۔ میں نے وضاحت چاہی۔ 'میں کچھ سمجھا نہیں!'
'انکل آئی مِین ، میں اردو گا نہیں سکوں گا۔ میرے ایک دوست کی آواز اچھی ہے۔ وہ اردو پاپ گاتا ہے۔ اس کا البم بھی خوب چل رہا ہے۔ اسے اردو آتی ہے اور وہ پوئٹری کرتا ہے۔' میرے فرینڈ کے سَن نے جواب دیا۔


شاعری کی بہتات کے سبب بعض لوگ اپنے بچوں کو اردو سیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر ادیبوں اور شاعروں کے بچے انگریزی میڈیم میں تعلیم پاتے ہیں۔ انھیں خدشہ رہتا ہے کہ عنفوان شباب میں اردو کا طالب علم شاعری میں مبتلا ہو کر نکما اور ناکارہ بن جائے گا۔ عاقل اور بالغ ہونے کے بعد اردو شاعری سے بالعموم خطرہ نہیں رہتا لیکن بڑھاپے میں پھر قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ چند بوڑھے شاعروں نے نوجوان شاگردوں سے بیاہ رچایا ہے۔ یہ شاعری کا کمال ہے۔


اردو ادب میں شاعری اس حد تک حاوی ہے کہ خالص نثر نگار خال خال ملتے ہیں۔ خالص نثر نگار سے میری مراد یہ ہے کہ انھوں نے نثر ہی لکھا ہے، کبھی غلطی سے یا بھول کر بھی شعر نہیں کہا ہے۔ مشہور نثرنگاروں کو ٹٹولیے تو ان کے پاس سے بھی شاعری برآمد ہوتی ہے۔ اگر وہ پابند شاعری کرنے کے اہل نہیں ہیں تو انھوں نے آزاد یا نثری شاعری ضرور کی ہوگی۔ اگر کسی نثرنگار نے ابھی تک شاعری نہیں کی ہے تو امید رکھیے کہ وہ کبھی بھی شاعری کر سکتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اردو کے نقاد تک شعر کہتے ہیں۔ دوسروں کی شاعری پر وہ کڑی تنقید کرتے ہیں لیکن خود شعر کہنے سے باز نہیں آتے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اردو زبان کی جبلت ہی کچھ ایسی ہے کہ اس میں شاعری بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے اور اردو زبان میں اتنے شاعر ہیں کہ گنتی ممکن نہیں ہے۔ بھلا کوئی سر کے بالوں اور آسمان کے تاروں کو گن سکا ہے؟


کئی شاعروں سے میری دوستی اور شناسائی ہے۔ اپنا کلام سنانے وہ خود آتے ہیں یا مجھے بلا لیتے ہیں۔ میں مشاعروں میں بھی مدعو کیا جاتا ہوں لیکن میں شاعروں کی 'سنیے شعر کہا ہے' سے بہت گھبراتا ہوں۔ مختلف بہانوں سے شعر سننے کے موقعوں سے غائب ہو جاتا اور شاعروں سے دور ان کی زیادتیوں کے بارے میں غورکرنے لگتا ہوں۔


ماضی میں شاعروں کی بہت عزت ہوا کرتی تھی۔ عوام انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ ان کا کلام گلی کوچوں میں گونجتا تھا۔ شاعر کو قوم اپنا سرمایہ گردانتی تھی۔ شاعر کی قدر بادشاہ اور راجا مہاراجا تک کرتے تھے۔ انھیں نوازتے تھے۔ اس شہرت، عزت اور قدر سے متاثر ہو کر ہر کوئی شاعری کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے بھی شاعر زیادہ ہوتے تھے۔ شاعروں کی اس 'زیادتی' کی روایت آج بھی باقی و برقرار ہے۔ گو کہ اب وہ راجے مہاراجے نہیں رہے۔ وہ زمانہ بھی نہیں رہا۔ شاعروں کی وہ عزت اور قدر بھی نہیں رہی۔ اس کے باوجود بھی شاعروں کی 'زیادتیاں' جاری ہیں۔ شاید شاعروں کو تاریخ دہرائی جانے کا انتظار ہے۔


کہتے ہیں کہ شاعری کے لیے موزوں طبع ہونا ضروری ہے اور یہ خوبی قدرتی ہوتی ہے۔ اکتسابی نہیں۔ یعنی کوئی محنت کرکے شاعری نہیں کر سکتا۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے کسی پہلوان کو شاعری کرتے نہیں دیکھا۔ پہلوان کے برخلاف دبلے پتلے موزوں طبیعت کے مالک کئی شاعروں کو لہک لہک کر کلام سناتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ واپس موضوع کی طرف آتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان خود موزوں طبیعت کی مالک ہے۔ اس نے اپنے دامن میں عربی، فارسی، ترکی، برج اور دوسری زبانوںکے الفاظ کو بڑی چابکدستی سے موزوں کیا ہے۔ جب کوئی اردو بولتا ہے تو خود بخود شاعری ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلیس اردو بولنا بھی شاعری کے زمرے میں آنے لگی ہے۔ ایک بزرگ نے الٹی ٹوپی پہنے ہوئے نوجوان سے دریافت کیا۔ 'مزاج گرامی۔'
نوجوان نے گرہ لگائی۔ 'جی تقی بلگرامی!'


شاعروں کی بہتات کی ایک اہم وجہ داد بھی ہے۔ شاعر جتنے جوش اور ولولے سے کلام سناتا ہے سامعین اپنی یہ ادبی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ اتنی ہی پرجوش داد دی جانی چاہیے۔ بعض مرتبہ مشاعروں میں شاعر اور سامعین کے درمیان ایک دوسرے کی مدح سرائی کا مقابلہ چل پڑتا ہے۔ شاعر سامعین کی تعریف کرتا ہے کہ اس نے آج تک اتنا باذوق مجمع نہیں دیکھا اور اپنے کئی اشعار اور قطعات ان کے ذوق، حسن داد اور خود کو ان کی نذر کرتا ہے۔
سامعین واہ واہ، سبحان اللہ اور مکرر مکرر کے نعروں سے شاعر کو جواب دیتے ہیں۔ بعض لوگ مشاعرے میں سامعین کی موجودگی کا مطلب کچھ اور ہی سمجھتے ہیں۔ میرے ایک دوست اکثر مشاعرے میں ساتھ چلنے کے لیے اصرار کرتے تھے سو ایک دن میں انھیں مشاعرے میں لے گیا۔ وہ مستقل داد دیے جا رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے پوچھا:
'آپ مستقل واہ واہ کیوں کیے جارہے ہیں؟'
موصوف نے الٹا مجھ سے سوال کیا۔ 'پھر ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟'


شاعری اور مشاعروں میں کچھ دیر بھٹکنے کے بعد مجھے اپنے کالم کا موضوع یاد آیا تو میں نے اپنے ایک نقاد دوست سے سوال کیا:
'اگر میں شاعری سے اجتناب کا مشورہ اردو والوں کو دوں تو کیسا رہے گا؟'
'دوں کیا؟ تم نے بین السطور یہ مشورہ دے دیا ہے۔ تم نے سر منڈھوا لیا ہے۔ اب اولے پڑنے کا انتظار کرو۔' میرے نقاد دوست نے جواب دیا۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
***
ماخوذ: ہفتہ وار اردو میگزین، جدّہ۔ سعودی عرب (شمارہ: 7/ستمبر 2001ء)۔

Shairi se parhez. Humorous Essay by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں