اسٹیج بھر گیا تو بس! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-08

اسٹیج بھر گیا تو بس!

full stage
جمعرات کی شام میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ادبی محفل ضرور منعقد ہوتی ہے۔ آپ نے کبھی نہ کبھی ایسی محفل میں شرکت کی ہوگی۔ میں ایسی محافل میں پچھلے پندرہ، بیس برسوں سے جاتا رہا ہوں کہ یہ میرا وقت گزاری کا مشغلہ اور شوق بھی ہے ۔ دو چار ہفتے پہلے میں ایک محفل میں شریک تھا، محفل کا "معلنہ وقت" ہو چکا تھا ۔ سوائے دو چار منتظمین کے کوئی اور موجود نہیں تھا اور یہ حضرت بھی انتظامات کے سلسلے میں ادھر ادھر دوڑنے میں مصروف تھے ۔ انہیں کام نمٹانے کی جلدی تھی کہ کام تمام کرنے کے بعد تیار ہو کر اسٹیج پر بیٹھنا بھی تھا۔ جب کافی دیر ہو چکی اور لوگ آتے نہ دکھائی دئیے تو میں نے منتظم اعلیٰ سے، جو اس محفل کی صدارت بھی کرنے والے تھے پوچھا:
"کیا ابھی دیر ہے؟"
"کچھ منٹ اور انتظار کیجئے۔" موصوف نے جواب دیا:
"میں نے فون کیا ہے ، مہمانان خصوصی اور اعزازی راستے میں ہیں۔ کبھی بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اسٹیج بھر گیا تو بس! ہم پرواگرام شروع کرتے ہیں۔"
"اور سامعین؟" میں نے سوال کیا۔
"سامعین کا بھروسہ نہیں۔ معلوم نہیں آئیں گے بھی یا نہیں۔" پاس کھڑے ایک دوسرے منتظم نے جواب دیا۔

پھر میں نے دیکھا کہ اسٹیج بھر گیا تو پروگرام شروع ہوا ۔ اسٹیج کے سامنے چند لوگ بیٹھے تھے جس میں سے ایک صاحب تو فوٹو گرافر تھے دوسرے مائیکرو فون ٹیکنیشن تھے اور دو چار ایسے معززین تھے جنہیں اسٹیج پر مختلف بہانوں سے بلایا گیا تھا ۔ کبھی مہمان خصوصی یا اعزازی کی گلپوشی کرنے ، کبھی مومنٹو پیش کرنے یا کبھی کان میں کھسر پھسر کرنے کے لئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انہیں طمانیت دے کر بٹھایا گیا تھا کہ موقع بے موقع اسٹیج پر طلب کیا جاتا رہے گا ۔ خالص سامع شاید ہی کوئی تھا۔ میں نے بےچین ہوتے ہوئے پھر اپنا سوال دہرایا:
"سامعین کہاں ہیں؟"
"تم نے بہت اہم سوال کیا ہے۔" میرے ایک شاعر دوست نے جواب دیا:
"سامعین آرام سے گھروں میں ٹیلی ویژن کے آگے صوفے پر نیم دراز ہیں۔ مختلف چینلز کی شکل میں کئی اسٹیج ان کے سامنے ہیں اور وہ مانوس ماحول میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔"
ایک دوسرے صاحب نے اظہار خیال کیا : "وہ بھلا سفر کر کے محفل میں دو زانو بیٹھنے کیوں آنے لگے!"

یہی وجہ ہے کہ اب اسٹیج ہی سجتے دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی کی طرح اب کوئی اسٹیج کا تماشا دیکھنے نہیں آتا ۔ اب 'معززین' تماشا کرتے ہیں اور خود تماشا بین بھی بنتے ہیں۔ اسی لئے اسٹیج کی آبادی میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ اسٹیج پر لوگوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے ۔ جنہیں مختلف عہدے پیش کئے جاتے ہیں۔ محفل کا ایک ہی صدر ہوتا ہے لیکن یہ اختراع کی گئی ہے کہ محفل کے دو تین حصوں کے مختلف صدر ہو سکتے ہیں۔ یوں ایک اسٹیج پر دو تین صدور کی گنجائش نکل آتی ہے۔
مجھے ایک محفل یاد آ رہی ہے جس میں ایک صاحب کو تہنیت پیش کی گئی تھی۔ تہنیت کے بعد مشاعرہ تھا اور مشاعرے سے پہلے ایک شاعر کے مجموعۂ کلام کی رسم اجرا بھی تھی ۔ اس محفل کے تین صدور تھے ۔ تہنیتی کارروائی کی صدارت ایک صاحب نے کی، دوسرے صدر کی صدارت میں کتاب کی رسم اجرا انجام پائی اور تیسرے صاحب نے مشاعرہ کی صدارت کی ۔ تینوں صدور اسٹیج پر براجمان تھے اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو رہے تھے ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کون کس کام کا صدر ہے؟

اسٹیج پر صدر کے علاوہ نائب صدور اور دوسرے عہدیدار بھی جگہ پاتے ہیں ۔ وہ کرتے کچھ نہیں ، بس تشریف رکھتے ہیں۔ اب ایسا کوئی لزوم بھی نہیں کہ اسٹیج پر بیٹھنے والا ہر شخص سامعین کو مخاطب کرے بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ اسٹیج پر جگہ پانے کا اہل ہو! خاموش تماشا دیکھنے والے بھی اسٹیج پر بیٹھتے ہیں۔ اسٹیج پر بیٹھنے والے ایسے حضرات اسٹیج کے آگے بیٹھ سکتے ہیں لیکن نہیں بیٹھتے۔ وہ محٖفلوں میں اسٹیج پر بیٹھنے کے لئے ہی آتے ہیں۔ جہاں اسٹیج پر بیٹھنے کی گنجائش نہیں ہوتی اور جہاں خدشہ ہوتا ہے کہ انہیں اسٹیج پر ٹنگایا نہیں جائے گا تو ایسے لوگ محفلوں میں نہیں آتے۔

اسٹیج پر مہمان بھی ہوتے ہیں۔ خصوصی اور اعزازی ۔ مہمانوں کی تعداد پر "دو یا تین بس" کی طرح کوئی پابندی نہیں ہوتی ، کئی لوگ مہمان بن سکتے ہیں بلکہ بنائے جاتے ہیں۔ اب اسٹیج پر مہمانانِ خصوصی اور مہمانانِ اعزازی کی بھرمار ہوتی ہے ۔ تین چار مہمانوں کی گنجائش نکل آتی ہے ۔ زیادہ مہمان ہونے سے مقررین ان کا نام لینا بھول جاتے اور مہمان ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔
ایک ناظم محفل نے اس کا حل یوں نکالا کہ وہ مہمانوں کو نمبر دیتے ہیں ، مہمان خصوصی نمبر 1، نمبر2، مہمان اعزازی اول، دوم ، سوم وغیرہ۔ اس طرح مہمانوں کو یاد رکھنے میں سہولت ہوتی ہے لیکن کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مہمانان کی حاضری لی جا رہی ہے ۔ مہمان خصوصی اور اعزازی کے علاوہ عام اور زبردستی کے مہمان بھی ہوتے ہیں ۔ عام مہمان پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتے وہ محفل میں یوں ہی چلے آتے ہیں یا کسی مہمان کے ساتھ ان کے مہمان بن کر چلے آتے ہیں۔ ایسے مہمان کے لئے بھی اسٹیج پر کرسی کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ جہاں عام مہمان ہوتے ہیں وہیں زبردستی کے مہمان بھی ہوتے ہیں ۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان کا نعرہ بلند کر کے ایسے مہمان اسٹیج پر ٹک جاتے ہیں اور انہیں یا کسی کو بھی اسٹیج سے نیچے اتارنا کسی مشکل میں پڑنے کے مترادف ہوتا ہے ۔

اسٹیج کی آبادی میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو حقیقت میں محفل کا حصہ ہوتے ہیں یعنی وہ لوگ جو تقریر کرتے ، کلام پیش کرتے یا مضمون سناتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی خاصی تعداد ہوتی ہے ۔ اسٹیج کا دامن تنگ ہوا تو انہیں اسٹیج کے آگے بٹھایا جاتا ہے ۔ یوں محفل بھری بھری محسوس ہوتی ہے ۔ اسٹیج پر محفل کا ناظم بھی ہوتا ہے ۔ کاروائی چلاتا ہے ۔ ایک سے زیادہ ناظم کا رواج بھی چل پڑا ہے ۔ دونوں یا تینوں جگل بندی میں نظامت کرتے ہیں ۔ دو یا تین ناظموں کے ساتھ کوئی منتظم اعلیٰ بھی ہوتا ہے جو ان کو ڈائریکٹ کرتا رہتا ہے۔ ناظم کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ شروع سے آخر تک اسٹیج پر موجود رہتا ہے جب کہ دوسرے لوگ اسٹیج سے آتے جاتے رہتے ہیں ۔ جب کوئی اسٹیج چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ خود اپنی جگہ کسی کو دے جاتا ہے یا منتظمین اس کی جگہ پر کر دیتے ہیں ۔بعض لوگ اسٹیج پر بیٹھتے نہیں لیکن وہ اسٹیج پر اتنا زیادہ آتے جاتے رہتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسٹیج پر ہی ہیں۔

بہرکیف دور حاضر کی محفلوں میں اسٹیج کی آبادی میں بہت زیادہ اور بے ہنگم اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسٹیج پر معززین دو تین صفوں میں بیٹھتے ہیں۔ انتشار کی سی کیفیت رہتی ہے ۔ معلوم نہیں ہوتا کہ کون کہاں بیٹھا ہے ۔ نام پکارنے پر اٹھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صدر تیسری صف میں دائیں کونے پر تشریف فرما ہے۔ب یٹھنے کے لئے جگہ نہ بھی ملے تو لوگ اسٹیج پر کھڑے رہتے ہیں۔

ماخوذ:
ہفت روزہ "اردو میگزین" (سعودی عرب) شمارہ: 24-31/جولائی 2009

Stage bhar gaya to bas. Humorous Essay by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں