خدا چھٹی پر - انشائیہ از دیویندر سنگھ ستھیارتھی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-08

خدا چھٹی پر - انشائیہ از دیویندر سنگھ ستھیارتھی

khuda-chhutti-par

دیویندر سنگھ کا خیال ہے کہ خدا چھٹی پر گیا تھا تو نظام حیا ت بگڑ گیا تھا۔ لیکن اب وہ واپس آگیا ہے۔ مگر اپنا خیال ہے کہ نظام حیات کا بگاڑ تو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے خدا دائمی چھٹی پر گیا ہوا ہے۔
اتوار کا دن تھا۔ میں علی الصبح اس کمرے کی طرف جارہا تھا جہاں سری گوروگرنتھ صاحب کا پرکاش تھا۔ ننھے"شرن" نے رضائی سے منہ نکال کر انتہائی مسرت پوچھا۔ "تایاجی۔ خدا کو چھٹی نہیں ہوتی کیا؟" میں "پاگل کہیں کا" کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ مگر میرے دل میں ایک خلش سی لگ گئی۔
بچے نے سوال پوچھا تھا ، اسے جواب ملنا ہی چاہئے تھا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے دل میں بچپن میں سنی کسی کہانی کے نقش ابھرنے لگے۔ دل ہی دل میں میں نے سوچا کہ اگر اسے وہ کہانی سنا دوں تو اس کے لئے کافی دلچسپی کا سامان رہے گا۔
جب میں پاٹھ سے فارغ ہوکر آیا تو میں کہانی سنانے کے لئے بیتاب تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے شرن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ "ننھے شیطان ادھر آؤ۔ تمہیں کہانی سناؤں۔ خدا کی چھٹی کی۔
شرن لگ بھگ نو برس کا نٹ کھٹ سا بچہ تھا۔ وہ پھدک کر بستر سے نکل آیا۔ ہم دونوں بیٹھنے کے کمرے کی طرف چلے گئے۔


"لو سنو۔" میں نے شرن کو ایک کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ "خدا بھی چھٹی پر گیا تھا۔ صرف ایک دن کے لئے۔اپنی نوجوانی کے دنوں میں۔"
" ایک دن؟"
"ہاں صرف ایک دن۔"
"پھر کبھی چھٹی پر نہیں گیا وہ؟"
"نہیں"
"کیووں۔ اسے تکان محسوس نہیں ہوتی؟"
"تھکتے یا نہ۔ اسے پہلی چھٹی اتنی مہنگی پڑی کہ اسے دوبارہ چھٹی جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔"
"وہ کیوں؟"
"یہ ان دنوں کی بات ہے جب خدا بھی نوجوان تھا۔ دنیا بن رہی تھی۔ نیا نیا کام تھا۔ اس لئے خدا کچھ زیادہ مصروف رہتا۔ ایک دن علی الصبح جب ساری دنیا سوئی ہوئی تھی خدا بیدار ہوا ، اس کا بدن تکان سے چور ہو رہا تھا۔ ساری رات وہ کروٹیں بدلتا رہا تھا۔ ایک دن چھٹی لے کر آرام کرنے کو اس کا جی چاہ رہا تھا۔
فرشتے بلائے گئے۔ کافی غور و خوض کے بعد خدائی کا سارا کام ایک دن کے لئے ایک اچھے شاعر کو سونپنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ سنتے ہی شرن کچھ پوچھنے کے لئے بیتاب ہوا تھا اور اس نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا۔ "تایا جی آپ بھی تو شاعر ہیں۔"
"ہاں بیٹا۔"
"آپ کو نہیں بلایا گیا تھا وہاں؟"
"نہیں بیٹا اس زمانے میں میں نہیں تھا۔"
"بابا جی وہ دادا جی تھے؟"
"نہیں وہ بھی نہیں تھے۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ بہت پرانی۔"
"چلو پھر کوئی ہوگا۔"جب کوئی اپنا نہیں تھا تو اس میں شرن کی دلچسپی اڑ گئی تھی۔
"اچھا کوئی ہوگا۔ تم خاموشی سے بات سنتے رہو۔"


"ہاں تو شاعر کو ایک دن کا خدا بنایا گیا۔ چارج لینے کے بعد نئے خدا نے کبیر کو حکم دیا کہ وہ ساری دنیا کے لئے اس دن کے کھانے پینے کا انتظام کرے۔
"کبیر کون تھا۔ تایا جی۔ شاعر کا بھائی؟"
"نہیں بیٹا۔ وہ شاعر کا بھائی نہیں تھا۔ وہ خدا کا اسٹریکچر ہے۔ دنیا میں کھانے پینے کی جو اشیا ہیں، ان سب کے ذخیروں کی کنجیاں اس کے پاس رہتی ہیں۔"
"بابا جی کی طرح؟"
میں مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ شرن کے بابا جی اور میرے چچا کمرے میں آگئے تھے۔ شرن جھینپ گیا۔ میں نے کہانی پھر شروع کردی۔


"چند ہی لمحے گزرے تھے کہ دروازہ پر چیخ و پکار کی آواز سنائی دی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ کوئی بوڑھی سی عورت ہے جو کھانے کے لئے کچھ بھی لینے کو تیار نہ تھی۔ وہ خدا سے صرف ملاقات کرنا چاہتی ہے۔


خدا نے حکم دیا۔ "حاضر کرو۔"
"خدا کے درباری چترنگیت نے جو بڑھیا پیش کی اس کی شکل بہت بھیانک تھی۔ سارا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا ، جس پر گوشت کی بوٹی تک نہ تھی۔ اس کے بال لوہے کے تاروں کی طرح سخت تھے۔ اس کے گلے میں مختلف قسم کی کھوپڑیوں کے ہار پڑے ہوئے تھے۔اس نے اندر آتے ہی نئے خدا کی تعریف میں چند فقرے کہے۔ داتا۔ میں بس تمہارے سہارے ہوں۔ پہلے خدا کو تو نئی دنیا بنانے سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔ میری فریاد کون سنتا۔ بہت مدت سے میں بھوکی ہوں مجھے بھی کچھ کھانے کو مل جائے۔ آپ کا اقبال قائم رہے اور اس طرح اس نے ان گنت دعائیں نئے خدا کو دیں۔
نئے خدا نے تعریف سے پھول کر کہا۔ "مانگ کیا مانگتی ہے؟"
بڑھیا نے بہت انکساری سے کہا۔"حضور میری درخواست بس یہی ہے کہ آئندہ مجھے بھی پیٹ بھر کھانے کو ملے۔ جب آپ کی خدائی میں سب کو کھانے کو ملتا ہے تو مجھے کیوں نہ ملے۔"
فرشتے کانپ اٹھے۔ تخت الٰہی سے فرمان ہوا۔"جا تیری درخواست قبول ہوئی۔"
۔۔۔ کبیر نے آگے بڑھ کر کچھ کہنا چاہا مگر خدا نے اسے روک دیا۔ بڑھیا کھل کھلاکر ہنسی اور واپس ہوتے ہوئے بولی: "شاید خد اکی بنائی ہوئی یہ ساری دنیا میرا ایک لقمہ بن سکے۔"


نیا خدا سکتے میں آگیا۔ اس کے منہ سے نکلا: "کیا تم موت ہو۔"
اس وقت تک بڑھیا غائب ہوچکی تھی۔ نیا خدا اپنی سادگی اور رحمدلی کو کوس رہا تھا۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔ تخت الٰہی سے دیا گیا فرمان واپس نہیں ہو سکتا تھا۔ خود خدا بھی اسے واپس لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔


دوسرے دن جب پرانا خدا واپس آیا تو پہلے دن کی کارروائی سن کر وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اس کا کام اور بڑھ گیا تھا۔ جتنی دنیا وہ بنائے گا موت کھاجائے گی۔ یہ خیال اس کے لئے دکھ کا باعث بن گیا تھا۔
اس دن سے اس نے چھٹی پر نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
طنز خطرناک مشغلہ ہے - انشائیہ از رشید احمد صدیقی
انقلاب پرستوں کے لیے - برنارڈ شا کے زریں اقوال
چھلکے ہی چھلکے - فکر تونسوی کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
(پنجابی سے ترجمہ)
ماخوذ از رسالہ: شاہراہ (طنز و مزاح نمبر)، شمارہ جولائی - 1955
مدیر: محمد یوسف ، مرتب: فکر تونسوی

The reading standard of Nawab Bahadur Yar Jang. Essay by: Nazeeruddin Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں