کلام غالب میں شوخی و ظرافت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-03-25

کلام غالب میں شوخی و ظرافت

humour-and-playfulness-in-mirza-ghalib-poetry

اردو شاعری کی تاریخ میں اپنے فکر و فن کے اعتبار سے غالب ایک عہد آفریں شاعر ہیں۔ ہر چند کہ ان کی زندگی میں ان کی شاعری کی پزیرائی نہیں ہوئی تاہم ان کی موت کے بعد ان کی شاعری میں موضوعات اور انداز بیان میں جدت، شوخی، ظرافت اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب انہیں عالمی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی اور اس طرح غالب کے اس گلے کی تلافی ہوئی کہ:
"مدح کا صلہ نہ ملا، غزل کی داد نہ پائی۔آپ کہا اور آپ ہی سمجھا۔"


اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے
اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج ملا
آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے

غالب کے لائق ترین شاگرد مولانا الطاف حسین حالی نے 'یادگار غالب' میں غالب کو حیوان ظریف قرار دیا ہے۔ حالی کا یہ فقرہ غالب کی شوخی و ظرافت کی نہ صرف مکمل تشریح ہے بلکہ اسے حرف آخر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بقول احسن فاروقی:
"حیوان ظریف اردو تنقید نگاری کا سب سے اہم الہامی فقرہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ حالی کی تنقیدی نظر ہمیں غالب کی فطرت کے راز سے اس طرح آگاہ کرتی ہے جیسا کہ اردو کا کوئی تنقیدی فقرہ اب تک ہمیں کسی شاعر یا ادیب کی فطرت سے آگاہ نہ کر سکا۔"
کہا جا سکتا ہے کہ غالب کی فطرت میں شوخی و ظرافت کسبی نہیں بلکہ وہبی تھی۔ ورنہ جس طرح کے حالات سے ان کا زندگی بھر واسطہ رہا ان حالات میں ہنسی تو ایک طرف ایک خفیف تبسم کا ابھرنا بھی قریب از قیاس نہیں ہے۔ ماں باپ کا سایہ بچپن میں ہی اٹھ گیا، کم عمر میں شادی ہوگئی ، اہلیہ سے ان کے تعلقات بہتر نہیں رہے ، انہیں کوئی اولاد نہیں تھی، شطرنج اور چوسر کھیلنے کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا اور سزا ہوئی،غدر کی غارت گری کا ایک الگ غم تھا، مالی دشواریوں کے سبب ان کی زندگی پریشانی اور مفلوک الحالی میں گزری۔ ہمعصروں نے ان کی شاعری کی قدر نہیں کی۔ غرض تا عمر غالب ایک ایسی زندگی کے حصار میں مقید رہے جو ان کے خواب و خیال کی دنیا سے یکسر مختلف تھی۔
لیکن تمام کشمکش اور کشیدہ حالات کے درمیان بھی غالب ہنستے، مسکراتے رہے۔ یہ ان کی زندہ دلی تھی۔ لہٰذا وہ ہر حال میں اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک زندہ دل شخصیت کے مالک نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کی شاعری کے عواقب اور پس منظر میں ان کی زندہ دلی کبھی طنز تو کبھی مزاح کے پردہ میں بول رہی ہوتی ہے اس لحاظ سے غالب کے کلام کی فکری اساس کو کنگھالنے نیز مناسب اور موزوں تفہیم کے لئے ان کے شوخی و ظرافت بھرے اشعار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔


غالب نے اردو شاعری کے تمام معروف موضوعات مثلاً جنت، دوزخ، حور، ملا،محبوبہ، عشق،وصل، میخانہ، شراب وغیرہ پر شوخی و ظرافت بھرے اشعار کہے ہیں۔ غالب کا کمال فن یہ ہے کہ ان موضوعات پر ان کی شاعری مضحکہ خیز نہیں لگتی بلکہ پڑھنے والے کو زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔ یعنی غالب کے یہاں عامیانہ پن نہیں بلکہ شوخی میں بھی سنجیدگی ہے۔ یہ ان کی غیر معمولی شخصیت کی توانائی اور ذہن رسا کا ثمر ہے۔
غالب کے دل میں ہزاروں خواہشیں تھیں اور اس کے مقابل میں ہزاروں الجھنیں، لیکن الجھنیں ان کی خودپرستی اور زندہ دلی کےقلعہ میں سیندھ نہ لگا سکیں۔ لہٰذا مشکل سے مشکل حالات میں بھی وہ اپنی خودپرستی کا بھرم جانے نہیں دیتے اور اپنی زندہ دلی سے مصائب و آلام کی گھڑی میں بھی دکھوں اور غموں کا مردانہ وار مقابلہ کر کے خود ہنستے بھی ہیں اور دوسروں کو ہنساتے بھی ہیں۔ غالب کا یہ شعر دیکھئے۔
اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے


عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ تنگ حالی اور مالی دشواریوں کی وجہ سے بوسیدہ ہو رہے مکان کی دیواروں پر پودے اگ آتے ہیں۔ غالب کے گھر کی بھی یہی حالت ہو چکی ہے لیکن غالب دیواروں پر اگ آئے پودے اور اس کے سبز و شادابی کو بہار بنا دیتے ہیں۔ عموماً اس طرح کے حالات میں لوگ سر پکڑ کر اپنی قسمت کا رونا روتے ہیں۔ لیکن دکھ اور تکلیف کے تیئں غالب کا فکری ردعمل سر پکڑ کر رونے کا نہیں بلکہ اس پر قہقہے لگانے کا ہے۔ یہ غالب کی تخلیقی قوت اور تجربہ کی صلابت کی دلیل ہے۔ غالب کا کمال فکروفن یہ ہے کہ ان کی شوخی و ظرافت سے ایک دلیل کی کیفیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔


آتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یاد
مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ


کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی


پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا


غالب کے ان اشعار پر غور و فکر کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ غالب خدا سے بے تکلفانہ گفتگو کر رہے ہیں اور اس کے حضور میں اپنی شکایت کومدلل بیان کر رہے ہیں۔ خلاقانہ جرات کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہو سکتی ہے۔ غالب ایک طرف اپنی گناہوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں اوردوسری طرف پورے حق کے ساتھ اپنے گناہوں کا حساب دینے کے بجائےاپنے داغوں کو شمار کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ان گناہوں کے بدلے انہیں ثواب ملے۔ ایسے ہی موقعوں پر محسوس ہوتا ہے کہ غالب کے یہاں یہ خلاقانہ جرات دراصل اس لئے ہے کیونکہ انہوں نے اس جرات کی پرورش اپنی زندہ دلی کی آغوش میں کی ہے۔


جنت اور دوزخ کا تصور یہ ہے کہ جنت آرام و آشائس کی جگہ ہےجبکہ دوزخ کی ہولناکی انسان کو خوفزدہ کرتی ہے اور انسان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن غالب کے نزدیک دوزخ کا تصور خوفزدہ کرنے والا نہیں ہے۔ بلکہ اس اسے تفریح کی جگہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا غالب جنت اور دوزخ کو تفریح کا موضوع بنا کر خدا سے فریاد کرتے ہیں کہ فردوس میں دوزخ کو بھی ملا لیا جائے تاکہ سیرگاہ میں وسعت پیدا ہو سکے۔ غالب کو تو فرشتوں کے لکھے نامہ اعمال پر بھی اعتراض ہی ہے کیونکہ ان کے نزدیک فرشتوں کی شہادت معتبر نہیں ہے نکتہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت اور عادت کی پیچیدگیوں کو بھلا فرشتے کیا سمجھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمارے جرم کو ثابت کرنے کے لئےانسان کی شہادت ضروری ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ظرافت کے پردے میں دلیل مضبوط ہے۔ بقول اسلوب احمد انصاری "لفظ ناحق استعمال کر کے اس فیصلے کو نہ صرف مشکوک اور مشتبہ قرار دیا ہے بلکہ اسے مسترد بھی کر دیا گیا ہے۔" گویا غالب بڑی سے بڑی فکر میں بھی ظرافت کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ جہاں ہمیں اس امر کا ادراک ہوتا ہے کہ ارے ہم نے تو اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ یہ شعر دیکھئے -
کہاں میخانے کا دروازہ غالب! اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے


لفظوں سے تصویر کشی اور پھر اس میں شوخی و ظرافت نے اس شعر کو شاہکار بنا دیا ہے۔ یہاں واعظ سے مراد کوئی بھی صاحب اختیار ہے جو عام لوگوں کو غلط راہ پر چلنے سے منع کرتا ہے لیکن خود وہی کام کرتا ہے۔ لہٰذا غالب حیرت کا اظہار کرتے ہیں مجھ میں اور واعظ میں بھلا کیا فرق ہے۔ کل جب میں میخانے سے شراب پی کر نکل رہا تھا تو واعظ اس وقت شراب خانے میں داخل ہو رہا تھا۔ یعنی واعظ گفتار کا غاذی ہے۔ اشارہ اس طرف ہے کہ بات وہ اثر کرتی ہے جس پر پہلے خود عمل کیا جائے ورنہ نصیحت نہ کیا جائے۔
غالب کی شوخی و ظرافت کے دائرے میں ہر قسم کے موضوعات موجود ہیں جس کے پس منظر میں انسان کے ہر کیفیت کی روداد موجود ہے۔


نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے


عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے


ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں


ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے


زندگی اپنی جب اس شکل سے گذری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے


کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا


کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا


اس گفتگو کے حوالے سے جن چنندہ اشعار کی تشریح و تعبیر کی گئی ہے، ان کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ غالب کے یہاں ہر موضوع پر شوخی و ظرافت سے بھرے اشعار ملتے ہیں۔ان اشعار کی خوبی یہ ہے کہ ان کی شوخی و ظرافت میں عامیانہ پن نہیں ہے۔ساتھ ہی ان میں ایک دلیل کی کیفیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ وہ اپنی ذہنی اور فکری ردعمل کا اظہار کمال ہوشیاری اور اور ضبط و احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی شگفتہ مزاجی زندگی سے فرار نہیں بلکہ حوصلے اور زندہ دلی سے زندگی جینے کا جواز فراہم کرتی ہیں کیونکہ غالب خود اسی حوصلے اور زندہ دلی سے الجھنوں اور دلدوز تکالیف کو مسکرا کر جیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نوع کے اشعار کو پڑھنے کے بعد مسکراہٹ کے ساتھ دائمی سکون کی کیفیت میں پہنچ جانے کا احساس ہوتا ہے۔


ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا


***
Dr. Md. Shahnawaz Alam
Assistant Professor, Deptt.of Urdu, Millat College Darbhanga.
drshahnawaz52[@]gmail.com

Humour and playfulness in the poetry of Mirza Ghalib. Essay: Dr. Md. Shahnawaz Alam

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں