راجندر سنگھ بیدی : اردو کا قد آور اور منفرد افسانہ نگار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-07

راجندر سنگھ بیدی : اردو کا قد آور اور منفرد افسانہ نگار

rajendra-singh-bedi

راجندر سنگھ بیدی
پیدائش: یکم ستمبر 1915ء
وفات: 11 نومبر 1984ء


فارسی کا مشہور شعر ہے ؂
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت رامی شناسم


اگر اس شعرکا اردو ترجمہ، شعر ہی میں کیا جائے تو کچھ یوں ہوگا ؂
چُھپتے رہو جس رنگ میں تم بھیس بدل کر
ہم قد سے تمھارے ، تمھیں پہچان گئے ہیں


بالکل یہی صورت بیدی کے اندازِ تحریر کی ہے کہ وہ تحریروں کے انبار میں بہ آسانی پہچانی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کم و بیش (70)سال کی عمر پائی اور اپنی ادبی زندگی کے (50) برسوں میں جو تخلیقی سرمایہ اردو ادب کو دیا وہ اپنی جگہ ایک کارنامہ ہے۔ دیکھا جائے تو ان کی تخلیقات"مقدار" کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیں۔ یہی افسانوں کے چھ مجموعے(دانہ و دام، گرہن، کوکھ جلی، اپنے دکھ مجھے دے دو، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے اور مہمان)دو ڈراموں کے مجموعے(بے جان چیزیں اور سات کھیل) اور ایک ناولٹ(ایک چادر میلی سی) مطبوعہ شکل میں، یہ سرمایہ کُل دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ لیکن "معیار " کے لحاظ سے عالمی ادب کے کسی بھی کڑے سے کڑے انتخاب میں جگہ پانے کے قابل ہے۔
بقول قمر رئیس"بیدی کے افسانوں کی جڑیں ہندوستانی معاشرے اور زندگی میں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ پیچیدہ سماجی رشتوں اور ان کی تہہ دار نفسیات کے ادراک کی بدولت"روحِ عصر"ان کے افسانوں میں"موجِ خوں"کی طرح دوڑتی نظر آتی ہے"۔


ان کے افسانوں میں" تہہ داری" کی شرح کرتے ہوئے کسی ہم عصر نے بہت خوب لکھا ہے کہ بیدی کی کہانیوں کو پڑھنے کے لئے پہلا صفحہ پڑھنے کی منزل سے گذرنابہت ضروری ہے کیونکہ بعد میں ان کی تحریر، قاری کی دلچسپی پوری طرح اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اوراس طرح قاری افسانہ ختم کئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ کہانی دھیرے دھیرے ذہن و دل پر اپنا رنگ جماتی ہے۔ اسے ایک خوبی ہی کہا جائے گا نہ کہ خامی۔ اس حقیقت سے قطع نظرکہ بیدی کے فن کی قدر شناسی ہر حلقۂ فکر کے اہلِ ذوق نے کی۔ پدم شری اور ساہتیہ اکیڈمی کے قومی اعزاز ملے۔ ہندوستان اور سویٹ یونین میں ان کی تصانیف پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھے گئے(سویٹ یونین میں اس لئے کہ سماجی حقیقتوں کا مارکسی نظریۂ ان کے فن میں جابجا ملتا ہے اور اسی بناء پر وہ ترقی پسند ادب کے صفِ اوّل کے ادیب کہلاتے ہیں)اور یہ کہ ان کی تصانیف کے ترجمے ہندی، پنجابی، بنگلہ، مراٹھی، گجراتی کے علاوہ روسی، انگریزی، ترکی و جرمن وغیرہ میں ہوچکے ہیں،اس کے باوجودشاید اردو کے جدیدافسانوی ادب میں ان کے فن کو جدید کلاسک(New Classic)کی حیثیت سے جیسا تسلیم کیا جانا چاہئیے، ویسا تسلیم نہیں کیا گیا۔


بیدی کے ہم عصر ادیبوں میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اُپیندر ناتھ اشک، خواجہ احمد عباس، بلونت سنگھ، قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی جیسے صف اوّل کے تخلیق کاروں کی ایک کہکشاں ہے اور حیرت ہے کہ کسی ایک کا طرزِ بیان، دوسرے سے نہیں ملتا۔ ان سب میں اپیندر ناتھ اشک جو ان کا حلیف بھی ہے اور حریف بھی، بیدی کے بارے میں تنقیدانہ استدراک بھی رکھتا ہے اوران کے فن کا مداح بھی ہے، کنہیا لال کپور کے حولے سے لکھتا ہے کہ "بیدی تھیم کا بادشاہ ہے۔ بیدی کے بیشتر افسانوں میں کہانی نہیں صرف تھیم ہوتی ہے۔ اخبار یا کوئی کتاب پڑھتے ہوئے،دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے یا بھیڑ بھرے بازار سے گزرتے ہوئے اپنی غیر آسودہ خواہشوں سے پریشان یا اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں سے پشیمان،اس کے دماغ میں کوئی لفظ یا فقرہ یا محاورہ یا کہاوت یا کوئی مبہم سا خیال آتا ہے بالکل اسی طرح جیسے سیپ کے منھ میں بہت ہی مہین ریت کا ننھا سا ذرّہ اور بیدی کا فنکاراس پر اپنے جوہر کی آب چڑھا کر اسے 'نایاب موتی' بنانے پر تُل جاتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی کردار یا حادثے پر افسانہ نہیں لکھتا، وہ جزئیات کا 'اندر جال' بنتا چلا جاتا ہے اوران میں قاری کو الجھائے رکھ کر اسے اس مقام پر لے جاتا ہے جہاں قاری کے دماغ پر وہ خیال پوری طرح نقش ہو جاتا ہے۔ "


بیدی کے ناقدین عموماً بیدی کے افسانوں پر دو الزام ضرور لگاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے اعصاب پر عورت سوار ہے اور دوسرے یہ کہ وہ گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتوں اور دکھ درد میں کھو کر بڑی حقیقتوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ دونوں الزام بھی درست نہیں۔ عورت، دراصل بیدی کا حاوی موضوع ضرور ہے لیکن اس سچائی کے ساتھ کہ وہ عورت کی جنسیات نہیں ، نفسیات کو بیان کرتا ہے اور یہ کہ ماں کا کردار اسے عورت کے ہر روپ میں نظر آتا ہے۔ اب رہا گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتوں میں کھو جانا تو انہی جزئیات کی مدد سے وہ بڑی حقیقتوں کا تانا بانا بنتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اندرونی جبلتوں اور خواہشوں کی موزوں تربیت سے انسان مہذب، شائستہ اور صحت مندبن جائے ۔ ڈاکٹر محمد حسن کے الفاظ میں: "دنیا کے سارے فکری، جذباتی اور معاشرتی انقلاب کا مرکز، شخصیت کی یہی پُراسرار توازن پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ "
خود بیدی نے اپنی تحریروں کے تعلق سے غالب ایوارڈ کی تقریب کے موقع پرایک تحریر میں اپنے فن کے بارے میں لکھا تھا:
"اپنے ہاتھوں میں قلم اٹھا کر، کاغذ پر نظریں جما کر دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کسی نے کہا تھا ؂
کبھی پیلے سیہ کاغذ پر سیاہ لفظوں میں کچھ لکھنا
کبھی نظروں سے لکھ کر یوں ہی کاغذ کو جلا دینا


یعنی قلم اور کاغذ کا رشتہ قائم ہے اور میں ضرور لکھوں گا، اور اب تک جو لکھا ہے وہ پوری ایمانداری اور جتن سے لکھا ہے۔ شاید اسی لئے اب بھی لکھنے کی خواہش باقی ہے!"
اب کچھ باتیں ان کی فلمی زندگی کے بارے میں۔۔۔ بیدی صاحب 1949ء میں ممبئی آئے اور اُن کی ادبی شہرت اُن کے ساتھ آئی۔ ایک مستند رائٹر کی حیثیت سے اُن کا اونچا مقام محتاجِ تعارف نہیں تھا۔ چنانچہ وہ جس شان سے آئے اُسی انداز سے فلم انڈرسٹری پر چھا گئے۔ پہلی فلم"بڑی بہن"کے کامیاب منظر نامے اور مکالموں سے ان کی شہرت پھیل گئی۔ پھر دلیپ کمار کی کئی فلموں داغ، دیوداس اور مدھومتی کے مکالمے لکھے۔ ان مکالموں نے ان فلموں میں ایک نئی جان ڈال دی۔ رشی کیش مکرجی جیسے باصلاحیت ڈائرکٹر کے لئے انوپما، مسافر، انورادھا، ستیہ کام اور میم دیدی جیسی صاف ستھری فلمیں لکھیں اور سہراب مودی کے لئے 'مرزا غالب' کے مکالمے لکھے۔ ان تمام فلموں میں بیدی نے اپنی ادبیت قائم رکھی اور ان کا معیار نیچا نہ ہونے دیا۔ انہوں نے اپنے مشہور ریڈیو ڈرامہ"نقل مکانی"پر مبنی ایک اسکرپٹ لکھی اور "دستک" کے نام سے فلم بنائی جس کے پروڈیوسر ڈائرکٹر وہ خود تھے اور جو فنّی اعتبار سے ایک چونکا دینے والی تجرباتی فلم ثابت ہوئی۔ اُن کی کہانی"گرم کوٹ" اور ناولٹ"اک چادر میلی سی" پر بھی فلمیں بنیں۔ انہوں نے ایک کمرشیل ٹائپ کی فلم"پھاگن" بھی بنائی جو زیادہ کامیاب نہ ہوئی۔
1979ء میں بیدی صاحب پر فالج کا حملہ ہوا اور 11 ؍نومبر 1984ء کو وہ ممبئی میں انتقال کر گئے۔ راجندر سنگھ بیدی اپنی ندرتِ فکر و فن اور منفرد اسلوب کے سبب ادب و فلم کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔


***
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش

Rajendra Singh Bedi: A great and unique fiction writer of Urdu. Essay: Raoof Khalish

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں