تقریباً 300 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 13 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
فکر تونسوی کا اصل نام رام لال نارائن تھا۔ وہ 7/اکتوبر 1918 کو تونسہ شریف (ڈیرہ غازی خان، پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام دھنپت رائے تھا جو بلوچ قبائل میں تجارت اور طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔
گورنمنٹ ہائی اسکول تونسہ شریف سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فکر تونسوی نے ایک سال ملتان کے ایمرسن کالج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز اسکولی تعلیم کے دوران ہی شروع ہو چکا تھا۔ چھوٹے موٹے رسائل و اخبارات میں ان کا تخلیق کردہ کلام شائع ہوتا رہا۔ پھر 1942 میں جب مولانا صلاح الدین احمد کے موقر ادبی رسالے "ادبی دنیا" میں ان کی ایک نظم "تنہائی" شائع ہوئی تو وہ حلقۂ ارباب ذوق لاہور کی جانب سے سال کی بہترین نظم قرار پائی۔ اس کے بعد معروف ادبی رسائل ادب لطیف، ہمایوں، ادبی دنیا وغیرہ میں ان کی نظمیں پے بہ پے شائع ہوتی رہیں۔ 1945 میں معروف ادیب ممتاز مفتی کی مشترکہ ادارت میں انہوں نے ایک طرزِ نو کا دو ماہی میگزین "سویرا" شائع کیا جس نے بڑے بڑے ادبی رسائل کو چونکا دیا۔
1946 میں فکر تونسوی نے "ادبِ لطیف" کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی جو 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات کے باعث زیادہ عرصہ چل نہ سکی اور انہیں بطور رفیوجی ہندوستان آنا پڑا۔
تقسیم ہند کے فسادات کے بعد فکر تونسوی نے شاعری ترک کر کے طنز و مزاح میں نثر لکھنا شروع کیا جو عوام میں مقبول ہوتا گیا۔ ان کی سب سے پہلی نثری تصنیف "چھٹا دریا" ہے جو فسادات پر ایک دردناک ڈائری کی شکل میں تھی۔ انہوں نے 1985 میں اردو میں ایک سو سالہ کالم نگاری پر مشتمل رسالہ "چنگاری" کا ایک ضخیم نمبر مرتب کیا۔ دہلی کے مستند ادبی رسالہ "شاہراہ" کی دو 1956-57 ، دو سال تک ادارت کا فریضہ انجام دیا۔ ریڈیو اسٹیشن جالندھر اور دہلی پر سینکڑوں ڈرامے، فیچر اور تقریریں نشر کیں۔ ان کے ایک ریڈیائی ڈرامہ "آج کا سچ" کو ہندوستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن نے براڈ کاسٹ کیا تھا۔
دہلی کے روزنامہ "ملاپ" کا مشہور و مقبول طنزیہ کالم "پیاز کے چھلکے" فکر تونسوی نے ہی 1956 میں شروع کیا تھا جو بلاناغہ 25 برس تک جاری رہا۔
انہیں 1987 میں "غالب ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ اس سے قبل 1983 میں "میر اکادمی ایوارڈ" اور اپنی مجموعی ادبی خدمات پر 1969 میں سوویٹ لینڈ نہرو ایوارڈ سے بھی انہیں سرفراز کیا جا چکا تھا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی تین کتابوں (چوپٹ راجہ، فکرنامہ اور آخری کتاب) انعام کا مستحق قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف انعامات و اعزازات بھی انہیں حاصل ہوئے۔
12/ستمبر 1987 کو فکر تونسوی انتقال کر گئے۔
1950 سے 1987 تک طنز و مزاح پر مبنی ان کی 16 درج ذیل تصانیف شائع ہو چکی ہیں:
- تیرنیم کش - 1953
- پروفیسر بدھو - 1954
- ماڈرن الہ الدین - 1955
- خد و خال - 1955
- ساتواں شاستر - 1956
- ہم ہندوستانی (ہندی) - 1957
- بدنام کتاب - 1958
- آدھا آدمی - 1959
- آخری کتاب - 1961
- فکر نامہ - 1966
- پیاز کے چھلکے - 1972
- چھلکے ہی چھلکے - 1973
- فکر پانی - 1982
- گھر میں چور - 1983
- میں (آپ بیتی حصہ اول) - 1987
- میری بیوی (آپ بیتی حصہ دوم) - 1987
نامور مزاح نگار دلیپ سنگھ نے فکر تونسوی کے فن اور شخصیت کے تذکرے کے ذیل میں لکھا ہے:
فکر کی اپنے قارئین میں بےپناہ مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ اس نے وہی زندگی جی جس کا وہ داستان گو بنا۔ بہت کم لوگوں کو یہ صلاحیت عطا ہوتی ہے کہ اس دنیا میں رہ کر وہ نہ صرف دوسروں کے اندر جھانک سکیں بلکہ خود کو اس طرح بےنقاب کر سکیں کہ بدن پر سے چمڑی تک اتر جائے۔ فکر ان بہت ہی کم لوگوں میں سے تھا۔ اس نے اپنی آپ بیتی میں جس فکر کی رونمائی کی ہے شاید وہ کوئی دشمن بھی نہ کر سکتا۔ آپ بیتی میں قریباً تین چوتھائی جھوٹ کی ملاوٹ کا برا نہیں مانا جاتا۔ لیکن فکر نے اس تسلیم شدہ حق کا بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس نے اپنے ایک مضمون "قبر سے واپسی" میں ایک ایسے جلسے کا ذکر کیا ہے جو اس کی فرضی موت کے بعد اس کی یاد میں کیا گیا۔ فکر کی دوربینی اور شخص آشنائی کی اس سے بہتر کیا مثال دی جا سکتی ہے کہ فکر کی حقیقی موت کے بعد جو تعزیتی جلسے ہوئے ان اکثر جلسوں میں مجھے احساس ہوا کہ لوگ وہی تقاریر کر رہے ہیں جن کی امید فکر ان سے کیے ہوئے تھا۔
فکر اگرچہ کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں تھا، لیکن اس کے دماغ میں ایک ایسے نظام کا نقشہ ضرور تھا جس میں انسانی زندگی پنپ سکتی ہے۔ اسے اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ قارئین اس کے مضامین سے لطف اندوز تو ہو رہے ہیں ، مستفید نہیں ہو رہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار جامعہ ملیہ کے ماس کمیونکیشن ڈپارٹمنٹ کے صدر نے کچھ ادیبوں کو بلا کر ان سے درخواست کی تھی کہ ہم لوگ دیہات سدھار کے مسئلہ پر کچھ پروگرام لکھیں۔ فکر نے وہاں بیٹھے بآواز بلند کہا کہ میں نہیں لکھوں گا۔ صدر صاحب نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "فکر صاحب، ایسا کیوں؟" فکر نے جواب دیا: "پہلے جو اتنا لکھ چکا ہوں، اس پر کون سا عمل ہو رہا ہے؟"
فکر کی ادبی صلاحیتوں کا اس سے بہتر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس نے اخبار کے کالموں کو ادبی شان عطا کی اور سیاسی طنز کو بامِ عروج تک لے آیا۔ طبقاتی کشمکش کی بات تو ہر سیاستداں کرتا ہے لیکن فکر نے اس کرب کو جس سطح پر محسوس کیا ، کسی اور نے نہیں کیا۔
فکر کو اپنی زندگی میں بےحد شہرت ملی لیکن اس نے کبھی اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی ، کبھی میں نے اسے اپنی شہرت کے کندھے پر بیٹھ کر اپنا قد اونچا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
فکر نے اردو میں لکھنا شروع کیا۔ تقسیم ملک کے بعد جب اردو کے کئی اور ادیبوں نے زیادہ معاوضے کی خواہش میں دوسری زبانوں کی طرف رجوع کیا ، فکر اردو سے ہی جڑا رہا۔ اردو زبان کے لیے فخر کی بات ہے کہ فکر کی ادبی صلاحیت کی وجہ سے فکر کی شہرت کم ہونے کے بجائے اردو کا نام بلند ہوا۔
***
نام کتاب: چھلکے ہی چھلکے
مصنف: فکر تونسوی
تعداد صفحات: 296
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 13 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
ChilkeHiChilkeFikrTaunsvi.pdf
Direct Download link:
https://archive.org/download/ChilkeHiChilkeFikrTaunsvi/ChilkeHiChilke_FikrTaunsvi.pdf
چھلکے ہی چھلکے - از: فکر تونسوی :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | ہیونگ سانگ دہلی میں | 7 |
2 | ریٹائرمنٹ | 61 |
3 | اور پھر بڑھاپا آ گیا | 72 |
4 | یہ نعمتیں خدا کی | 79 |
5 | غلطی آشو ڈاکیے کی | 91 |
6 | کلچر پیسے کا | 99 |
7 | ؟؟ | 109 |
8 | میرے دوست کا کتا | 114 |
9 | بھانت بھانت کے لوگ | 120 |
10 | الہ الدین کی دیوالی | 125 |
11 | دھرم کرم شاہ | 130 |
12 | تین دنوں کی ڈائری | 135 |
13 | ماچس کا بارٹر سسٹم | 140 |
14 | تقریر بے سر و پیر کی | 145 |
15 | ایک بچے نے کہا | 150 |
16 | میں کہ ایک بزدل ہوں! | 155 |
17 | بلیک لوٹنے والے | 160 |
18 | ہمارا پہناوا | 166 |
19 | مجھ سے انٹرویو | 171 |
20 | جیو جیو تنہا تنہا | 176 |
21 | کتابیں پڑھنا | 181 |
22 | ایک سو روپیہ میں لاش | 186 |
23 | اوٹ پٹانگ باتیں | 191 |
24 | تین کانے | 201 |
25 | ہندوستان کے سیاستداں | 207 |
26 | گو گو گو گو گوبند! | 211 |
27 | ناطہ چڑی چھکے کا | 216 |
28 | میں کی ایک اور کہانی | 222 |
29 | میں نے پوچھا! | 228 |
30 | میں کی کہانی | 233 |
31 | سڑک | 239 |
32 | ایک شاعر کی سمسیا | 245 |
33 | فیملی پلاننگ پر ایک تقریر | 250 |
34 | ووٹر | 256 |
35 | قطار میں آئیے! | 262 |
36 | غالب بنام فکر | 267 |
37 | جس کا کام اسی کو ساجھے | 275 |
38 | بالائی آمدنی | 280 |
39 | میں نے شیو کی | 285 |
40 | آج کا عنوان - خط | 292 |
Chhilke hi chhilke, a collection of Urdu humorous Essays by Fikr Taunsvi, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں