یہ ہے بمبئی مری جان - انشائیہ از پرویز ید اللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-22

یہ ہے بمبئی مری جان - انشائیہ از پرویز ید اللہ مہدی

ye-hai-bombay-meri-jaan-essay-by-pervez-yadullah-mehdi

بمبئی کی ہر چال لاتعداد کمروں پرمشتمل ہوتی ہے۔ اور ہر کمرہ حجرہ سے کم نہیں۔ ان قبر نما کمروں کے محدود " حدود اربعہ " کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ پہلے پہل جن آرکٹیکٹ نے ان کمروں کا نقشہ بنایا ہوگا اس کے آباواجداد یقیناً " گورکن " رہے ہوں گے۔ ان کمروں کو گھر کہنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ماڈرن حسینہ کی بکنی ( Bikini ) کو لباس کہنا۔ اسی لیے سمجھدار لوگ ان نام نہاد کمروں کو کھولی کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ کھلے گلے کے " بلوز " کی طرح اپنے مکینوں کی کسمپرسی کی جی کھول کر نمائش کرتے ہیں۔ ویسے یہ کھولیاں بظاہر چار دیواروں ایک چھت ایک عدد دروازے اور ایک آدھ کھڑکی پر مشتمل ہوتی ہیں تاہم ان میں سوائے تازہ ہوا اور روشنی کے ہر چیز بلا روک ٹوک چلی آتی ہے۔ جیسے چوہے ، چینٹیاں ، جھینگر ، کھٹمل ، مچھر ، مکھیاں اور مہمان ۔۔ یوں بھی بمبئی کی کھولی اور فقیر کی جھولی میں کوئی فرق نہیں دونوں ہی " سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ " کی منہ بولتی تصویر ہیں۔


آپ نے قومی یک جہتی کے نعرے تو بہت سنے ہوں گے لیکن اگر " ہاوزنگ یک جہتی " کا نظارہ دیکھنا ہوتو بمبئی کی کھولیاں دیکھ لیجئے انشاء اللہ آپ کے چودہ طبق " ٹوٹل بلیک آوٹ " ہوجائیں گے۔ کہاوت ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں لیکن کھولیوں کی دیواروں کو قدرت نے کانوں کے علاوہ آنکھوں کی نعمت سے بھی نوازا ہے ، اس لیے کھولی نشین افراد اکثر ایک دوسرے کے عیوب اور کمزوریاں فریقین پر روشن ہوں تو آدمی آنکھ ہی نہیں کچھ بھی ملا کر بات نہیں کرسکتا ۔۔ !
کھولیوں کی چغل خور دیواریں کبھی کبھی بڑے عجیب تماشے بھی دکھاتی ہیں۔ رات کی خاموشی میں اچانک ایک میٹھی رسیلی سرگوشی کھولی نشین کے کانوں کے راستے دل تک پہنچتی ہے ، اور پھر خواہشات کی مرمریں کنکریاں جذبات کی جھیل میں گرداب پیدا کرتی ہیں۔ کھولی نشین بے قابو ہوکر اپنے پہلو میں لیٹی ہوئی شریک حیات کے اور قریب پہنچتا ہے لیکن وہاں جو ردعمل اس کا سواگت کرتا ہے وہ اس کے جذبات پر اوس ڈال دیتا ہے کیونکہ اس کی گھر والی تو اپنے سارے گھوڑے ، گدھے ، مرغیاں ، بلیاں بیچ کر مزے میں سورہی ہوتی ہے اور جس سرگوشی کے سگنل نے اسے گدگدا کر جگایا تھا وہ پڑوسن کا ثابت ہوتا ہے جو ظاہر ہے اس کے لیے نہیں " اپنے گھر والے کے لیے تھا گویا وہی بات کہ
" چوڑی کوئی کھنکے تو لگتا ہے کہ تم ہو "
اسی طرح بھوک کے مارے رو رو کے نڈھال کسی اور کھولی کا نونہال ہوتا ہے اور بغیر مانگ کے نہال کوئی اور کھولی کا نونہال کردیا جاتا ہے۔ !!


فلیٹ تھری پیس سوٹ۔ کھولیاں انڈرویر
بمبئی میں جو خوش نصیب اونچی اونچی پکی بلڈنگوں میں رہتے ہیں وہ فلیٹ پرداز کہلاتے ہیں۔ جبکہ چالوں میں رہنے والے کھولی نشین ۔۔ فلیٹ اور کھولی میں وہی فرق ہوتا ہے جو کسی عالیشان " مقبرے " اور مفلس کی " قبر " میں ہوتا ہے۔ فلیٹ میں ڈرائنگ روم ‘ بڈروم ، کچن ، باتھ روم سب کا اپنا الگ الگ مقام ہوتا ہے ، اپنی اپنی انفرادی حیثیت ہوتی ہے۔ جبکہ کھولیاں ٹو۔ ان۔ ون ( Two - In - One ) بلکہ " تھری۔ ان۔ ون (Three - In - One ) کی تعریف میں آتی ہیں چنانچہ صبح یہ کچن کا کام دیتی ہیں دوپہر میں ڈرائنگ روم کا اور رات میں بڈروم میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ کھولیاں اصل میں مفلس کی عزت کی طرح ہوتی ہیں جس پر ہر ایرا غیرا ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ جبکہ فلیٹ مالدار کے گناہ کی صورت عموماً پس پردہ رہتے ہیں۔۔


فلیٹ برداروں اور کھولی نشینوں کے رہن سہن ، عادات اطوار ، کردار گفتار ، یہاں تک کہ ان کے آدابِ نشست و برخاست بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کھولی کی کل کائنات چونکہ دس فیٹ دس فیٹ ( ۱۰x ۱۰) کے رقبے تک محددو ہوتی ہے۔ اس لیے ہر کھولی نشین اپنی چادر کی گنجائش اور کھولی کی پیمائش کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پاؤں پسارتا ہے بلکہ پاؤں پسارنے سے پہلے افراد خاندان کی صحیح تعداد کو بھی ذہن میں رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ کھولی کے ہر فرد کی اپنی حد یعنی سرحد متعین ہوتی ہے۔ نتیجتاً ہر کھولی نشین زندگی دینے والے سے خاموشی کی زبان میں اکثر یہ گلہ کرتا نظر آتا ہے۔
زندگی تو نے مجھے قبر سے تنگ دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے


اتفاق سے ہمارے ایک خیرخواہ ایک عدد والد ، ایک عدد والدہ ایک عدد بیوی سات عدد بچوں ، دو عدد کتوں اور چار عدد طوطوں کے ساتھ " دس بائی دس " کی ایک کھولی میں رہتے ہیں اور اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں اکثر یہ فرماتے ہیں کہ اکبر اعظم نے تو صرف ایک عدد انارکلی کو زندہ دیوار میں چنوادیا تھا۔ جبکہ آج جمہور کے دور میں سارا نچلا اور نچلا متوسط طبقہ کھولیوں کی دیواروں میں زندہ چنا ہوا ہے۔ موصوف چونکہ فطرتاً مہمان نواز بھی ہیں۔ اس لیے برس کے بارہ مہینے ان کے ہاں ثوابِ جاریہ کی طرح مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یوں بھی مہمان اور موت دونوں کو آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے اور ان کے ہاں تو مہمانوں کی آمدورفت کی ترتیب عموماً یہ ہوتی ہے کہ جتنی دیر میں ایک مہمان کا بوریا بستر بندھتا ہے اتنے عرصہ میں نئے مہمان کا بندھا ہوا بستر کھل جاتا ہے۔
مہمانوں کی سہولت کے لیے موصوف نے کھولی کی دیواروں سے ریلوے کے " تھری ٹائیر کمپارٹمنٹ " کی طرح برتھس ( Berths ) لگارکھی ہیں۔ جیسے ہی کوئی مہمان نازل ہوتا ہے فوراً ایک عدد " برتھ " الاٹ کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جو کھانا تین وقت مہمان کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے وہ ہوبہو ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ریلوے اسٹیشن کی کینٹینوں میں ملتا ہے جسے کوئی بھی ہوشمند مسافر ایک بار زہر مارکرنے کے بعد دوسری بار کھانے کی ہوس نہیں کرتا۔ بھارتیہ ریلوے کے اس آزمودہ نسخے کے سبب موصوف کے ہاں کبھی بھی مہمانوں کے " سرکیولیشن " کا توازن نہیں بگڑتا یعنی ہر مہمان دوسرے تازہ دار مہمان کے حق میں خوشی خوشی " اپنی " برتھ خالی کرکے " بیک ٹو دی پویلین " ہو جاتا ہے۔
ویسے ہمارے خیرخواہ کی کھولی کا ذکر خیر برسبیل تذکرہ آگیا۔ ورنہ سچ پوچھیئے تو ہم نے ایسی اورلوڈ (Over Load ) کھولیاں بھی دیکھی ہیں جن پر واقعی کسی ایکسپریس ٹرین کے کھچا کھچ بھرے ہوئے ان ریزروکمپارٹمنٹ کا گمان ہوتا ہے۔ جو لوگ یوگا سے دلچسپی رکھتے ہیں انہیں ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی یوگا کلاس میں داخلہ لینے کے بجائے پیمانے کی طرح لبریز کسی کھولی میں پنئینگ اگسٹ کی حیثیت سے صرف ایک مہینہ گذار لیں۔ انشاء اللہ یوگا کے جملہ چھوٹے بڑے کشیدہ و پیچیدہ ہر ڈھب کے " آسن " عمر بھر کے لیے ازبر ہوجائیں گے۔


جب بھی ہم نے ان کچی ادھ کچی کھولیوں کا موازنہ پکّے فلیٹوں سے کیا ہے تشبیہ ہمارے ذہن میں ابھری کہ پکے فلیٹ اگرتھری پیس سوٹ ہیں تو کچی کھولیاں " انڈرویئر " اور اسی مناسبت سے سماج میں کھولی نشینوں کی حیثیت اس شخص جیسی ہے جو صرف انڈرویئر پہن کر سڑک پر نکل آیا ہو جسے نہ تو پوری طرح بے عزت گردانا جاتا ہے اور نہ باعزت تسلیم کیا جاتا ہے ، اسی بات کو ذرا وسیع پیمانے پر دیکھئے تو بلاجھجھک یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج سارا نچلا اور متوسط طبقہ صرف انڈرویئر پہنے ہوئے ہے۔ جب تک اس طبقے کے افراد اپنی کھولی سے باہر رہتے ہیں انڈرویئر پہنے رہتے ہیں اور جب کھولی میں پہنچ جاتے ہیں تو یہی انڈروئیر انہیں پہن لیتا ہے۔ یوں بھی کھولیوں میں آدمی جیتا نہیں دن پورے کرتا ہے۔ ظاہر ہے کالی کوٹھری میں صرف سزا ہی کاٹی جاسکتی ہے اس لیے کھولی کے تنکنائے میں محبوس ہر کھولی نشین کے لب پر ایک یہی تمنا دعا بنکر بار بار آتی ہے کہ ؂
میرے خدا تو مجھے اتنا تو معتبر کردے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
شادی کا سوٹ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
ہیروئین کا کتا - مزاحیہ افسانہ از پرویز ید اللہ مہدی
پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
ماخوذ:
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

Yeh hai Bombay meri jaan. Light Essay by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں