شعر و ادب کا زوال - مضمون از رؤف خلش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-08-23

شعر و ادب کا زوال - مضمون از رؤف خلش

decline-of-poetry-and-literature

ادب کبھی عوام کی دلچسپی کی چیز نہیں رہا کیونکہ جو "ابتدائی اہلیت" اس کے لئے درکار ہے وہ عوام میں کبھی موجود نہیں رہی۔ البتہ جس سطح پر عوام کا ایک بڑا طبقہ ادب، آرٹ اور فنونِ لطیفہ سے لطف اندوز اور محظوظ ہوتا ہے، اس کا مظاہرہ ہماری فلموں اور مقبول عام لٹریچر میں صاف نظر آتا ہے اور وہ سطح اتنی نچلی ہے کہ صحیح طور پر ادب عالیہ تک پہنچ نہیں پاتی۔ ہم جس شعر و ادب کی بات کررہے ہیں وہ خالصتاً عوام کی پسند نہیں بلکہ منتخب قارئین، ناظرین اور سامعین کا شعر و ادب ہے۔ لہذا اس میدان میں متوازی طور پر دو دھارے چل رہے ہیں۔ پہلا دھارا "پاپولر لٹریچر" کا ہے، دوسرا دھارا "آرٹسٹک لٹریچر" کا۔ اردو میں اس کے لئے بالترتیب "مقبول عام ادب" اور "فنکارانہ ادب" کی اصطلاح رائج ہے۔


یہ بات اہم نہیں کہ ادب عوام سے جڑا ہوا ہے یا نہیں؟ یا یہ کہ اس میں عام آدمی کے مسائل و مصائب اپنی جھلک دکھاتے ہیں یا نہیں ؟ اہم بات پیشکشی کی ہے۔ اردو ادب کی چار سو سالہ تاریخ میں(اگر ہم دکنی شاعر قلی قطب شاہ کو اردو کا شاعر مان کر چلیں!)بلحاظ موضوع جن باتوں کو دہرایا جاتا رہا ہے۔ ہم ان باتوں کو آج بھی دہرا رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کہنے کا انداز بدل گیا ہے۔ کچھ الفاظ متروک ہو گئے ہیں۔ کچھ الفاظ کو نئے معانی پہنا دئیے گئے ہیں۔


ترقی پسند تحریک ہو یا کہ جدیدیت، دونوں کا کارنامہ یہ ہے کہ مواد اور ہئیت کے اعتبار سے دونوں نے جدت طرازی اختیار کی اور ادب کے جسدِ ناتواں میں نیا خون دوڑایا۔ اب یہ اور بات ہیکہ جب باڑھ آتی ہے تو کچرا بھی ساتھ لاتی ہے۔ چنانچہ ترقی پسندی اور جدیدیت کی باڑھ میں کچرا بھی در آیا اور مخالفوں نے اس کچرے کو اس تحریک یا رجحان بنا کر پیش کرنے کی غلطی کی اور نتیجہ میں طعن و تشنیع کا ایک غیر ضروری دفتر کھل گیا۔ صاف گوئی سے کام لیا جائے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو شعر و ادب کو جتنا نقصان ان بالشتیوں، چھٹ بھئیوں اور گھس پٹیوں نے پہنچایا ، جو ایوان ادب میں بلا شرکت غیرے شہرت و ناموری کے تمغے اپنے سینوں پر لگاتے پھرے، اتنا نقصان ان بے لوث ، سادہ دل قلم کاروں نے نہیں پہنچایا جن کے اذہان استحصال اور منفعت بخشی کے احساسات سے خالی تھے۔


جہاں تک اردو مشاعروں کا معاملہ ہے، ہمارا خیال ہے کہ مشاعرے اپنا تاریخی رول ادا کرچکے ہیں اور اب اس ادارے کو چھوٹی چھوٹی نجی شعری نشستوں میں تبدیل ہوجانا چاہئیے کیونکہ یہ نام نہاد مشاعرے اس لحاظ سے اردو شعر و ادب کو نقصان پہنچا رہے ہیں کہ ان میں سیاسی گٹھ بندیوں کے باعث گلے بازوں اور نچلی سطح کے مشاعروں کی بن آئی ہے۔


بقول احمد ندیم قاسمی آج کل مشاعرہ، بیشتر تماشہ بن کر رہ گیا ہے اور لوگ مشاعروں میں یوں جاتے ہیں جیسے سرکس میں جا رہے ہوں۔ اس رجحان میں اصلاح کی ضرورت ہے ورنہ مشاعرے کا ادارہ "زوال پذیر" ہو جائے گا۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ تاثر ہمارے لئے لمحۂ فکر ہے۔


اس گمبھیر صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ؟ شاعر، ادیب؟ نقاد، نظریۂ ساز ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بڑی حد تک اس کی ذمہ دار وہ مکروہ ذہنیت ہے جو ادبی پینترہ بازیوں اور ادبی گروہ بندیوں میں متبلا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ادب کے لئے زہر قاتل کا حکم رکھتی ہیں اور فی الحال ان "مکروہات قبیحہ" کے انسداد کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن ایک سوالیہ علامت بھی ابھرتی ہے کہ "بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے ؟"


ہمارا یہ پرخلوص مشورہ ہے کہ وہ دردمند احباب (جن میں شاعر، ادیب، صحافی، سامع، قاری و ناظر سبھی شامل ہیں!)اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس گمبھیر صورتحال کی روک تھام نہایت ضروری ہے، کمر باندھ لیں اور ابتدائی مرحلہ کے طور پر ان بالشتیوں، چھٹ بھئیوں اور گھس پیٹیوں کو پہچانیں اور ہر سطح پر ان کا مقاطعہ کریں تاکہ ان کی بری طرح حوصلہ شکنی ہو اور پھر دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔ تبھی اس ادب کے لئے گنجائش فراہم ہوگی جس کے لئے اقبال نے کہا تھا کہ "جہاں کوئی اچھا شعر سنو تو یقین کرلو کہ کوئی نہ کوئی عیسیٰ مصلوب ہوا ہے!!!"


***
ماخوذ از کتاب: حکایت نقدِ جاں کی (مضامین و تبصرے)
مصنف: رؤف خلش۔ سن اشاعت: دسمبر 2012ء
رؤف خلش

Decline of poetry and literature. Essay: Raoof Khalish

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں