شادی کا سوٹ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-05-20

شادی کا سوٹ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی

shaadi-ka-suit

ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ سوٹ کی خواہش نے کس شبھ گھڑی ، ہمارے گھڑے یعنی دل میں گھر کیا تھا۔ البتہ اب یہ خواہش کسی آسیب کی طرح ہمارے دل پر قابض ہوچکی ہے۔ اور جس طرح کسی آسیب زدہ کھنڈر میں کوئی با ہوش و حواس آدمی بھول کر بھی قدم نہیں رکھتا ، اسی طرح کوئی اور خواہش اب ہمارے دل کا رخ بھی نہیں کرتی سوٹ کی اس خواہش نا تمام کو ایک زمانے سے ہم دیگر غموں کے ساتھ اپنا بچا کھچا خون دل پلا کر لخت جگر کی طرح پالتے آرہے ہیں لیکن یہ کم بخت خواہش ہے کہ کسی فلمی ہیروئن کی طرح صرف پردہ خواب ہی پر ادائیں دکھاتی ہے۔ سوٹ کے بغیر سچ پوچھئے تو ہمارا وہی حال ہے جو ایک بد نصیب لاولد باپ کا ہوتا ہے۔ گویا سوٹ کے بغیر دنیا و عاقبت دونوں میں سرخروئی ناممکن نظر آتی ہے۔ بالفاظ دیگر نہ وصال صنم کی امید ہے اور نہ ہی خدا کے ملنے کی کوئی صورت حالانکہ سوٹ کی چاہ میں ہم اسی طرح رسوا ہوئے ہیں جس طرح اسرائیل کی چاہ میں امریکہ۔۔
یہ بات نہیں ہے کہ ہماری ناساز گار زندگی میں کبھی وہ ساز گار لمحہ آیا ہی نہ ہو جب ہماری رفو شدہ جیب اس بات کی متحمل ہوتی کہ ایک عدد سوٹ بنوانے کی دیرینہ خواہش پوری کرسکتے۔ بارہا ہماری مالی حیثیت اتنی اونچی ضرور ہوئی کہ کم از کم دو چار قسطوں میں اس آرزو کو شرمندہ تعبیر کرسکتے۔ یعنی پہلی کوشش میں مقطع کہتے ، دوسری میں مطلع اور پھر درمیانی اشعار موزوں کرتے۔ گویا چار چھ قسطوں میں غزل مکمل ہو کر زیور طبع سے آراستہ ہوجاتی۔ لیکن ہر بار ایسے موقعوں پر کوئی اس سے بھی زیادہ اہم ضرورت یعنی مسائلی نظمیں اس غمل کو ، حسرت کے مقبرے میں ڈھکیل کر اس طرح بڑھ آتیں جیسے آج کی مغرب زدہ مشرقی عورت اپنے پیچھے شوہر اور بچوں کو گھر میں چھوڑ کر خود ہوٹلوں ، کلبوں اور پارٹیوں میں چلی آتی ہے۔۔
ہم یہی سوچ کر چپ ہوجاتے کہ :
غم ہیں کچھ اور بھی اے سوٹ ترے غم کے سوا!


پھر یوں ہونے لگا کہ ہم ' شوکیسوں ' میں ٹنگے اور صاحب حیثیت خوش نصیبوں کے جسموں پر سجے سوٹ دیکھ کر ہی اپنی تسلی کرنے لگے۔ جب بھی کوئی اچھا سا سوٹ نظروں سے گذرتا ہمارے لیے ایک بار دیکھ کر دوسری بار دیکھنے کی ہوس کو دبانا مشکل ہوجاتا۔ لہذا جہاں تک ممکن ہوسکتا سوٹ والے کا پیچھا کرتے۔ اس سلسلے میں دو ایک مرتبہ تو تعاقب کے شبہ میں پولیس کے ہتھے چڑھنے سے بال بال بچے ہیں۔ پھر بھی اس حرکت خطرناک سے باز نہیں آئے کیوں کہ بقول جگر :
اتنی ہی بڑھی حسرت جتنا کہ اُدھر دیکھا
اس سوٹ کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا

البتہ ایک مرتبہ اسی علت کے ہاتھوں ہماری ایسی درگت بنی کہ بعد ازاں ہم اس قدر محتاط ہوگئے کہ صاحب سوٹ اگر بائیں بازو والے فٹ پاتھ پر ہوتا تو ہم ' دائیں بازو والے ' فٹ پاتھ پر ہوتے اور اگر وہ بھری پری سڑک کو چھوڑ کر اچانک مشتبہ قسم کی گلیوں میں داخل ہوجاتا تو ہم تعاقب کی کارروائی کو فوراً منسوخ کردیتے۔ اس احتیاط کی وجہ بھی سن لیجئے۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ ہم اپنے ایک افسانہ نگار دوست سے ان کے طویل مختصر اور مختصر طویل قسم کے درجن بھر افسانے سننے کے بعد دل ہی دل میں ملاقات کی ڈائری میں کم از کم اس سال ان سے آئندہ ملاقات کی ہر گنجائش کو آئندہ سال کی طرف منتقل کرتے ہوئے گلی کے نکڑ تک پہنچے تھے کہ ایک ایسا جاذب نظر سوٹ نظر سے ٹکرایا کہ نظر سیاہی کے دھبے کی طرح اسی میں جذب ہوگئی۔ اب وہ اسمگل شدہ سوٹ آگے آگے تھا اور خالص دیسی ' کرتاپائجامہ ' یعنی ہم پیچھے پیچھے۔ مختلف گلیوں اور راستوں کے چکر کاٹنے کے بعد ' عامل ' اور ' معمول ' دونوں جیسے ہی بھنڈی بازار کے ایک مشہور زمانہ ہوٹل کے روبرو پہنچے۔عامل نے پلٹ کر معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ معمول پر ایک ایسی نظر ڈالی جیسی شکاری اپنے جال میں پھنسے بے بس شکار پر ڈالتا ہے۔ پھر صاحب سوٹ نے ہماری طرف دو چار قدم بڑھائے اور زبردستی ہمارا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ' بڑی خوشی ہوئی پرویز صاحب آپ سے مل کر خاکسار نے آپ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے دو ایک مرتبہ آپ کو مختلف ادبی محفلوں میں دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا ہے لیکن آپ شاید نا چیز سے واقف نہیں ہیں۔ بندہ ٔعاجز کو بدمزاجؔ دھول دھپہ پوری کہتے ہیں۔ اس تمہید کے ساتھ موصوف ہمیں زبردستی ہوٹل میں لے گئے اور پھر اپنے اور اپنے آبا و اجداد کے کئی غیر مطبوعہ دیوان سنانے کے بعد میز پر سگریٹوں کی راکھ اور ہوٹل کا بل چھوڑ کر چلتے بنے۔۔
اس حادثے کے بعد کئی دن تک ہم یہی سوچتے رہے کہ بدمزاجؔ صاحب شاعر تھے یا اسمگلر ، ان کو شاعر ماننے میں دراصل ان کا اسمگل شدہ سوٹ مانع ہورہا تھا۔ ہوسکتا ہے سرکار کے نئے قانون کے تحت ہونے والی مزاج پرسی سے بچنے کے لیے ایک اسمگلر نے شاعر کا روپ دھار لیا ہوگویا۔
ایک اسمگلر نے شعروں کا سہارا لے کر
ساری جنتا کا کھلے عام اڑایا ہے مذاق

یہاں تک تو خیر عام سوٹ کا ذکر ہوا۔ اب ذرا سوٹوں کے 'مغل اعظم ' یعنی شادی کے سوٹ کا ذکر خیر ہوجائے۔ شادی کے سوٹ کو دیکھ کر تو ہماری پیاسی آنکھوں میں بالکل ویسی ہی حریصانہ چمک پیدا ہونے لگتی ہے جیسی کہ ان دنوں عرب دنیا کے تیل کے چشموں کو دیکھ کر امریکہ سرکار کی آنکھوں میں چمکتی نظر آتی ہے۔ لفظ سوٹ میں بذات خود کچھ ایسی خوابناک کیفیت پائی جاتی ہے کہ ذہن کے پردے پر ' ڈبل نٹ ' کے اسمگل شدہ تھان اس کیبرے رقاصہ کی طرح لہرانے لگتے ہیں جو اپنے بدن پر تہمت کے طور پر نصف گرہ کپڑا لپیٹے سارے ' راز ہائے بستہ ' کے تفصیلی اجمال سے آگاہ کرنے کے بعد خود تو جنس گم گشتہ ہوجاتی ہے لیکن دیکھنے والوں کے رہے سہے ہوش و حواس ٹھکانے سے لگانے کے لیے اپنا نصف گرہ کپڑا چھوڑ جاتی ہے۔۔
شادی کے سوٹ کے پہلے مرحلے یعنی کپڑے کے انتخاب اور خریدی سے لے کر آخری ' ہلّے ' یعنی سوٹ کے جسم مبارک پر پہونچنے تک اس کے اتنے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں کہ شاید کسی نئی نویلی دلہن کے پہلی بار پانوں بھاری ہونے پر بھی اتنے نخرے نہیں اٹھائے جاتے۔ آج کے دور میں عموماً سوٹ کے بغیر شادی نہیں ہوتی اور اگر بالفرض محال ہوتی بھی ہے تو سوسائٹی کی نظر میں سوٹ سے محروم یعنی سوٹ لیس (suit less) دولھا کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں رہتی۔۔
یہ دراصل ہماری غلامانہ ذہنیت کی کارفرمائی ہے انگریز تو چلا گیا مگر اس کی انگریزیت کے کچھ نقال اب بھی اپنے ہاں نظر آتے ہیں۔ چنانچہ سوٹ زیب تن کرنے کے بعد ہر شخص خواہ مخواہ مہذب معلوم ہوتا ہے۔ گویا سوٹ پہننے کے بعد ہر گنگوتیلی راجہ بھوج نظر آتا ہے ( یہ ساری برکتیں ہیں مہذب سماج کی اس آدم خور داشتہ کی جو عرف عام میں سوسائٹی کہلاتی ہے ) جس دن آپ بلا شرکت غیرے کم از کم ایک عدد سوٹ کے مالک بن گئے اسی دن سے سوسائٹی آپ کے وجود کو مکمل تسلیم کرلیتی ہے۔۔
قبل اس کے کہ سوٹ کی اس خواہش دیرینہ کے ہاتھوں ہم 'قصہ پارینہ ' بن جاتے ہماری منہ بولی خالہ کے منہ بولے بھانجے جناب شیخ چاند عرف چاند پاشاہ نے جب اپنی تیسری شادی کے نامبارک و نا مسعود موقعہ واردات پر یہ کہتے ہوئے کہ سوٹ میں سوٹ شادی کا سوٹ باقی سب جھوٹ ، اپنی پہلی شادی کا آوٹ آف فیشن سوٹ زیب تن کر کے ایک بے گناہ وجود کو اپنی چنگیزیت عرف زوجیت میں لینے کی غرض سے قتل گاہ عرف حجلۂ عروسی کا رخ کیا ، تب ہم نے نیم مردہ و نیم زندہ دل و دماغ کے ساتھ سوچا اس سے پہلے کہ ہماری حقیر ہستی وجود و عدم کی چکی میں پس کر فنا ہوجائے کیوں نہ ہم شیخ چاند عرف چاند پاشاہ کے نقش قدم پر نقش بہ نقش چل کر اپنی اس دیرینہ آرزو کو پاےۂ تکمیل تک پہونچائیں۔ چنانچہ جہاں جہاں بھی بیری کی جھلک نظر آئی یا اس کے پائے جانے کی بھنک پڑی ہم نے پتھر پھینکنے اور پھینکوانے شروع کردئیے۔ اس نشانہ بازی کے دوران پتہ چلا کہ متوسط طبقے کا ہر نوجوان شادی صرف اس لیے کرتا ہے کہ اس بہانے ایک عدد اچھا سوٹ بن جاتا ہے ورنہ ایک وہ بھی زمانہ تھا جب شادی کے دن صرف سہرے کی اہمیت ہوا کرتی تھی بلکہ اس کا وہی درجہ ہوتا تھا جو اگلے وقتوں کے دربار عام میں بادشاہ سلامت کا۔ ویسے اس کے علاوہ سہرے کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے جو نامۂ اعمال کی طرح قلمبند کی جاتی ہے۔ چچائے شعر و ادب مرزا غالبؔ کو اللہ میاں سے یہ شکایت رہی کہ :
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا


سہرے کے سلسلے میں البتہ اس قسم کی شکایت کا حق کسی کو نہیں پہونچتا کہ آدمی ہی اس کا دم تحریر ہے جو عرف عام میں شاعر کہلاتا ہے۔ سہرا لکھنا ویسے بھی بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن شادی کی محفل میں اسے سنانا آبیل میں تجھے ماروں کے مصداق ہے۔ جن شاعروں کا گزارا صرف سہروں پر ہوتا ہے وہ سہرا نویس کہلاتے ہیں ( لیکن نانا فرنویس سے ان کے ڈانڈوں کا ملنا ضروری نہیں ) سہرا دراصل شاعری کی ایسی خطرناک صنف ہے جو بیک وقت قصیدہ بھی ہے اور مرثیہ بھی قصیدہ شاعر کے نقطۂ نظر سے اور مرثیہ ، نوشہ کے حساب سے چنانچہ آگے چل کر دونوں کے تعلقات ( ہر قسم کے تعلقات ) اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اگر اتفاقاً کہیں آمنا سامنا ہوجائے تو ایک دوسرے کو کینہ توز نظروں سے گھورنے لگتے ہیں جیسے انتخابات کے دوران مخالف پارٹیاں ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتی ہیں۔۔
جیسے جیسے لوگوں کا اخلاق اور ایمان کمزور ہوتا گیا۔ سہرا معدوم اور سوٹ مقبول ہونے لگا۔ چنانچہ اب نہ تو باضابطہ بارات نکلتی ہے نہ ڈنکے کی چوٹ پر نکاح ہوتا ہے نہ سات پھیرے ہوتے ہیں۔ بلکہ اب تو چوروں کی طرح رجسٹرار بہادر کے سامنے اقبال جرم کیا جاتا ہے جو عرف عام میں ' سیول میرج ' کہلاتا ہے اور اس حادثے کو بعض اوقات ' ناجائز حمل ' کی طرح اس وقت تک چھپایا جاتا ہے جب تک کہ حالات موافق نہیں ہوجاتے۔ بلکہ بعض صورتوں میں یہ بھید عموماً اس وقت کھلتا ہے جب مکمل احتیاط کے باوجود غلطی سے ' مجموعۂ کلام ' مرتب ہوجاتا ہے اور اس کا اجرا بھی عمل میں آجاتا ہے۔۔


کئی پشتوں سے ہمارا تعلق چونکہ پرانے شہر کے تاریخی محلے سے رہا ہے اس لیے تمام پرانی روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے آج کے ننانوے فی صد نوجوانوں کی طرح ہونے والی سسرال کو ہماری طرف سے جو مطبوعہ مجموعہ کلام یعنی فرمائشوں کی فہرست بھجوائی گئی اس میں سوٹ کی مانگ معہ تفصیلی اخراجات کے سرفہرست تھی۔ لیکن بعض پارٹیوں کی طرف سے سوٹ کی رقم کے بارے میں یہ اعتراض کیا گیا کہ بہت زیادہ ہے جب کہ اس کی نصف رقم میں مکمل سوٹ معہ جوتے ، موزے ، ٹائی ، قمیص اور بنیان وغیرہ کے تیار ہوسکتا ہے اس نا معقول اعتراض کا معقول جواب ہم نے یہ دیا کہ اس زائد رقم میں کئی ضروری مدیں شامل ہیں۔ مثلاً کپڑے کی خریدی بغیر دوست احباب کے مشورے کے ناممکن ہے ہوسکتا ہے کہ اس سلسلے میں ہمیں اپنے خاص احباب کے ہمراہ اس شہر کا قصد کرنا پڑے جو دو نمبر کے کاروبار ، دو نمبر کے امیروں اور دو نمبر کے ہنگاموں کے لیے ملک بھر میں پہلے نمبر پر آتا ہے ایسی صورت میں آمد و رفت کا خرچہ ، قیام و طعام کے تمام تر اخراجات کا بار قاعدے کے مطابق لڑکی والوں ہی کو اٹھانا ہے علاوہ ازیں اس رقم میں مستقبل میں سوٹ کی ڈرائی کلیننگ ، آلٹرنگ اور آوٹ فٹنگ کے اخراجات بھی تخمیناً جوڑ کر پیشگی شامل کردئیے گئے ہیں تاکہ دونوں پارٹیاں بار بار کی زحمت سے بچ جائیں۔ ہمارا یہ جواز اس قدر ٹھوس بلکہ مدلل ثابت ہوا کہ کئی پارٹیوں نے اپنی اپنی نور چشم کو مثل چشمہ ہماری آنکھوں پر بٹھانا ، بہ الفاظ دیگر پارٹنر ، بنانا اپنی خوش نصیبی تصور کیا مگر ہم نے اسی نور چشم کا انتخاب کیا جس کے چشمے میں صورت و سیرت کا نور بہت کم بلکہ مفقود تھا لیکن ' مال پانی ' کے اعتبار سے چشمہ لبریز تھا۔۔

ہمارے حق میں سوٹ کے کپڑے کا انتخاب پارلیمانی انتخاب سے کم نہیں تھا۔ یار دوستوں سے توقع تھی کہ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں گے لیکن ہر ایک نے اپنی اپنی پسند مسلط کر کے اس مرحلے کو مسئلہ لاینحل بنادیا۔ چنانچہ ہم نے بھی اٹھتے بیٹھتے یار لوگوں کو یاد دلایا کہ شادی ہماری ہونے جارہی ہے۔ آپ حضرات کی نہیں ، لیکن جواب میں یاروں نے اشاروں کنایوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شادی یقینا آپ ہی کی ہونے جارہی ہے لیکن سوٹ پر تو ہم سب کا حق ہوگا۔ اس خطرناک ارادے کو بھانپتے ہی ہم چپکے سے بازار گئے اور اپنی پسند کا کپڑا خرید لائے اور خریدی کے معاملے میں یار لوگ چونکہ منہ کی کھا چکے تھے اس لیے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصادق درزی عرف ٹیلر ماسٹر کے انتخاب کے وقت ہر شخص اپنے درزی کی تعریفوں کے اس طرح پل باندھنے لگا جیسے وہ درزی نہ ہو کوئی معشوق ہو۔ ایک موصوف نے فرمایا ' جناب من میرا درزی امریکن وضع کے سوٹ سینے میں امریکنوں کے بھی ناک کان کاٹتا ہے '۔ جواب میں ہم نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر ناک سکوڑتے ہوئے کہا ' ٹیلروں کے بارے میں عموماً یہ بات مشہور ہے کہ جیب اور گلے کاٹنے میں ماہر ہوتے ہں۔ آپ کا درزی تو ناک اور کان بھی کاٹتا ہے۔ ویسے مجھے امریکن وضع کے سوٹ قطعاً پسند نہیں ہیں۔ ان دنوں ویسے بھی امریکہ کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے۔ کیا پتا امریکن وضع کا سوٹ پہننے کے بعد میری اقتصادیات اور معاشیات بھی خطرے میں پڑ جائے '۔ ہمارے اس سیاسی قسم کے جواب پر موصوف اپنے امریکن درزی سمیت اپنا سا منہ لے کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے بعد توقع کے مطابق ایک اور دوست اپنے ولایتی درزی کی شان میں قصیدہ پڑھتے ہوئے آگے بڑھے۔ لیکن ہم نے ان کے قصیدے کو یہ کہہ کر مرثیے میں بدل دیا کہ ' میاں سلطنت انگلشیہ کا سورج اب ڈوبا ہی سمجھو ، ولایتی وضع کا سوٹ پہن کر مجھے اپنے مرتبہ و اقبال کے سورج کو ڈبونا نہیں ہے۔ جو بے چارہ ابھی طلوع بھی نہیں ہوا ہے۔۔


قصہ مختصر۔ ہم نے شہر کے تمام نام ور درزیوں کو رد کر کے اپنے خاندانی درزی کو ہی اس سوٹ کے سینے کا اعزاز بخشا اور جب سوٹ تیار ہو کر ہماری بے چین و مضطرب نگاہوں کے سامنے آیا تو یوں لگا کہ جیسے ساری کائنات سمٹ کر سوٹ میں ڈھل گئی ہو۔ زمین سوٹ بن گئی۔ آسمان سوٹ ، مکین سوٹ ، مکان سوٹ حالانکہ یہ صرف نظروں کی فریب کاری تھی ، جس طرح ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اسی طرح ہمیں بھی حد نظر تک صرف سوٹ نظر آرہا تھا کل تک جس آرزو کو حسرت کے پالنے میں جھلانے پر مجبور تھے آج وہی آرزو اپنی تکمیل کو پہنچ کر یوں نکھر اور سنور گئی تھی جیسے شب وصال کے بعد کسی نوخیز حسینہ کی دوشیزگی نکھر آتی ہے۔۔
ابتدا میں سوٹ کی خوشی اس قدر غالب تھی کہ ہم خود کو غالب جدید سمجھتے رہے لیکن جب کائی چھٹی تو معلوم ہوا کہ اس سوٹ نے ہمیں لوگوں کی نظر میں آدمی سے کارٹون بنادیا ہے۔ اب ہم دن رات اس مسئلہ پر غور کرنے لگے کہ :
جس سوٹ سے انساں کو میسر نہ ہو عزت
اس سوٹ کے ہر ریشۂ ریشم کو جلا دو


لیکن افسوس ہم اس شاعرانہ ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ، کیوں کہ لوگوں کی نظر میں اپنا وقار گرانے کے ذمہ دار خود ہم تھے۔ ہماری بے جا مانگیں تھیں ہماری بکاؤ فطرت تھی ، دوسرے شادی کے سوٹ سے جذباتی وابستگی بھی ہوتی ہے ، یعنی جذبات سے مغلوب ہو کر ایک اچھا بھلا شخص شادی کے روپ میں جو حماقت کر بیٹھتا ہے ، شادی کا سوٹ اسی غلظی کی یاد دلا کر اسے زندگی بھر کف افسوس ملنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن اس کے منہ سے سچ مچ کف جاری ہوجاتا ہے جسے دیکھ کر لوگ افسوس کرتے ہیں۔۔
آخر میں سوٹ کے خواہش مندوں کے لیے ایک عبرتناک حقیقت پیش ہے شادی کے سوٹ پر آپ کی جیب سے بظاہر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوتا لیکن اس کا بڑا بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ زندگی بھر قسط وار یہ ادائیگی چلتی رہتی ہے حتیٰ کہ اپنی عمر طبعی کو پہنچ کر ایک دن سوٹ بھی داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ لیکن ادائیگی تا دم آخر چلتی رہتی ہے۔



Shaadi ka suit. Humorous Essay by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں