بیوی کی سوتن - افسانہ از عابد معز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-21

بیوی کی سوتن - افسانہ از عابد معز

biwi-ki-sautan-humorous-short-story-by-abid-moiz

صبح آنکھ کھلنے پر ہر شریف شوہر کی آنکھ بیوی کی آنکھ سے ملتی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بیوی سے آنکھ لڑتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں ہر صبح کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش رہتا ہے جس پر شوہر اور بیوی کی آنکھیں "لڑ پڑتی" ہیں اور ان کے درمیان ایک نئی صبح کا آغاز اس قدیم لڑائی سے ہوتا ہے جو آدم اور حوا کے جانشینوں کے درمیان روزِ اول سے چلی آرہی ہے۔


شرٹ کا بٹن نہ ٹانکنے پر بہتان۔ "کتنے دن سے ٹوٹے بٹن والا شرٹ پہن کر دفتر جا رہا ہوں۔ لوگ سوچتے ہوں گے کہ میں نے کس پھوہڑ سے شادی کی ہے۔"
راشن ختم ہونے پر سوال۔"چاول ختم ہوچکے ہیں، اب کیا میں خود چولہے پر چڑھ جاؤں؟"
"ہمارا تعلق آدم خور خاندان سے نہیں ہے۔ اس لیے آپ کی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔" جواباً لڑائی کا آغاز ہوا۔
اسکول کی فیس نہ دینے پر شکایت۔ "آج اگر منے کے اسکول کی فیس نہیں دی گئی تو اسے ادھم مچانے کے لیے گھر بھیج دیا جائے گا، پھر گھر کا کام کاج کیسے ہوگا؟"
ٹفن ساتھ نہ لے جانے پر طنز۔ "گھر کا کھانا پسند نہیں آ رہا ہے۔ ہوٹل میں مزے ہو رہے ہوں گے۔"
"جی نہیں، بات یہ نہیں ہے۔ وقت پر ٹفن دیا ہوتا تو یوں فضول پیسے خرچ نہ ہوتے!" جوابی وار ہوا۔
"کل رات آپ میری بات سنتے ہوئے سوگئے تھے۔ میں سنئیے۔۔۔ سنئیے۔۔۔ کرتی رہ گئی۔ کیا دفتر میں سونے کا موقع نہیں ملا؟"


آج صبح بھی ہماری آنکھیں کھلتے ہی بیوی کی آنکھوں سے لڑ پڑیں۔ انھوں نے ہر دن کی طرح غمِ روزگار کا رونا رونے کے بجائے ایک عجیب و غریب شکایت کی۔
"پچھلے چند دنوں سے میں محسوس کر رہی ہوں کہ گھر میں آپ کی پہلے جیسی دلچسپی نہیں رہی۔ شام میں دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر تھکے تھکائے گھر آتے ہیں۔ دوچار نوالے زہر مار کرتے ہیں۔ کچھ دیر منہ پھلائے بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ آتی ہے اور آپ اس کے پیچھے ہو لیے۔ گھر والوں سے کچھ پوچھا اور نہ ہی ان سے کچھ سنا۔ پپو کا ہوم ورک دھرا کا دھرا رہ گیا۔ منی کی رپورٹ بھی نہیں دیکھی۔ صرف ایک مضمون میں پاس ہوئی ہے۔ ہم ہیں کہ آپ کو صبح دفتر روانہ کرنے کے بعد سے ارمان لیے بیٹھے ہیں کہ کب صاحب بہادر آئیں گے۔ انھیں پیٹ بھر کھلا کر جی بھر کر باتیں کریں گے۔ دن تمام کی تھکن اتاریں گے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ماتم کریں گے۔ لیکن وہ آئی کہ آپ غائب! ہمارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے۔ میں ایک بات کہنے کے لیے پندرہ دن سے سوچ رہی ہوں لیکن وہ موقع دے تب ناں۔۔۔"


بیوی کی شکایتی داستان جاری رہتی اگر ہم نے ٹوکا نہ ہوتا۔ " اچھا بابا کہو۔ پندرہ دن سے نہ کہی ہوئی بات پندرہ مرتبہ کہو۔"
بیوی ہمیں زیر کرنے کے بعد قریب کھسکتے ہوئے خوشامدی لہجے میں بولیں۔ "پچھلی جمعرات کو میں اور چھوٹی بھابی ان کی بڑی بھابی کے چچازاد بھائی کے سالے کی لڑکی کی شادی میں گئے تھے۔ آپ کو یاد ہے نا۔"
ہم نے ناگواری سے جواب دیا۔ "ہاں اکثر بیگانوں کی شادی میں آپ لوگ فیشن کی روش دیکھنے جاتی ہیں۔ کس نے کیسی ساڑی پہنی ہے۔ کس کا زیور کیسا ہے۔ کس نے کیسا میک اپ کیا ہے۔ پچھلی ملاقات کے بعد سے کس نے کتنے نئے زیور خریدے اور کپڑے بنوائے ہیں اور پھر گھر آکر شوہر سے مطالبہ کرنا کہ مجھے ایسی ساڑی چاہیے، ویسا زیور چاہیے۔"


ہمارا تیر نشانے پر لگا۔ بیوی ناراض ہوکر کہنے لگیں۔ "ہم بے چارے شوہروں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ہمارا منہ تو صرف فرمائشوں کے لیے کھلتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے۔ ہم ہوٹلنگ نہیں کرتے، سہیلیوں کے ساتھ فلمیں نہیں دیکھتے، بلا مقصد ادھر ادھر نہیں گھومتے! کبھی کبھار کپڑے اور زیور کی فرمائش کرتے ہیں سو وہ بھی ناگوار گزرتا ہے۔ شاید اسی لیے آپ ہم سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کے آتے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔"
ہم نے بیوی کو منانے کے لیے کہا۔ "ہم کب کہتے ہیں کہ بیویاں بے جا فرمائشیں کرتی ہیں۔ آپ کی فرمائشیں حق بجانب ہوتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ آپ کے اکثر مطالبات ہم شوہروں کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ شوہر بے چارہ کیا کرے؟ دن تمام کولھو کے بیل کی طرح کام کرکے شام گھر آیا نہیں کہ بیوی کے مطالبات کی فہرست پیش ہوئی۔ خوش کرنے کے لیے دو ایک پیار بھری باتیں کیں، چائے پلائی اور اپنا مدعا پیش کیا کہ عید کے لیے کپڑے چاہیے، آپا کے لڑکے کی شادی میں شرکت کے لیے نیا زیور چاہیے، وغیرہ۔
اس کے برخلاف وہ آتی ہے تو راحت ملتی ہے۔ پچھلے ہفتہ کی بات ہے۔ ہم گرمی سے پریشان، پسینہ میں شرابور تھے۔ ہمارے ہونٹ اور منہ خشک تھے۔ ہم نڈھال پڑگئے تھے کہ وہ آئی اور ہمیں کشمیر کی وادیوں کی سیر کو لے گئی۔ برف سے ڈھکے پہاڑ، نیلے آسمان پر کہیں کہیں سفید بادل کے ٹکڑے۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ہم گرم کوٹ پہنے ایک ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ اور دوسرے ہاتھ میں روسٹیڈ تمباکو کا سگریٹ اور سر پر کن ٹوپ، اسکیٹنگ کے لیے تیار۔۔۔"


بیوی نے ہمیں کشمیر کی وادیوں کا لطف اٹھانے نہ دیا اور ہمیں بیچ میں روک کر سوال کیا۔ "میں کہاں تھی؟"
ہم نے کچھ دیر سوچ کر کہا۔ "پتہ نہیں! لیکن قیاس اغلب ہے کہ آپ اپنے گھر میں تھیں۔ پڑوس کی عورتیں جمع تھیں۔ پھٹے کپڑے سیتے، بٹن ٹانکتے اور ترکاری چنتے ہوئے ایک دوسرے کی شکایتوں میں مگن تھیں۔"
بیوی کو یوں ہمارا موج مستی کرنا پسند نہ آیا، روٹھتے ہوئے کہا۔ "اسی لیے مجھے وہ سوت لگتی ہے۔ جی جلانے روز آتی ہے۔ کبھی آپ کو وہ کلب اور ناچ گانے کی محفل میں بھی ساتھ لے گئی ہوگی!"
ہم نے کان پکڑکر گال پیٹتے ہوئے کہا۔ "نہیں بیگم ، وہ ہمیں ایسی جگہوں پر مطلق نہیں لے جاتی۔"


ہم نے سفید جھوٹ بولا، حالانکہ وہ ہمیں کم سن اور خوب صورت حسیناؤں کے پاس تقریباً روز ہی لے جاتی ہے۔ ان سے مل ہم بہت خوش ہوتے ہیں۔ کل ہی کا واقعہ ہے۔ دفتر سے ہم مثل پروانہ سیدھے شمع کے گھر پہنچے۔ سن سولہ کے قریب، کھلتا ہوا رنگ، کتابی چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں جن میں ہمارا انتظار تھا۔ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ جو مسکرانے کے لیے بے چین تھے۔ ہمارے استقبال کے لیے شمع دروازے میں موجود تھی۔ جوش ملیح آبادی کے ادائے سلام کی تفسیر بن کر اس نے ہمیں سلام کیا۔
آنکھوں میں غنچہ ہائے نوازش نچوڑ کر
میرے دلِ شکستہ کو نرمی سے جوڑ کر
ہونٹوں پہ نیم موج تبسم کو توڑ کر
میری طرف خفیف سا گردن کو موڑ کر
کل صبح راستے میں سہانی حیا کے ساتھ
اس نے مجھے سلام کیا کس ادا کے ساتھ


شاعرانہ سلام کے بعد اس نے ہمارے ہاتھ سے بستہ لیا اور ہمیں باتھ روم میں دھکیلا۔ نہا دھوکر گلفام بنے باہر آئے۔ شمع چائے کی میز پر ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ مخروطی انگلیوں سے چائے بنا کر پیش کی۔ ہم نے چائے پی اور شمع کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر چہل قدمی کے لیے چل دیئے۔
اس رنگین منظر کے بر خلاف ہماری بیوی کا رویہ ملاحظہ فرمایئے۔ ہم دفتر سے تھکے ماندے گھر لوٹتے ہیں۔ تھک اس لیے جاتے ہیں کہ ہمیں گھر میں آرام نہیں ملتا اور دفتر میں باس سونے نہیں دیتا۔گھر لوٹنے پر دروازہ کھلا ملتا ہے۔ متوسط طبقہ کے گھروں میں چرانے کے لیے عزت کے علاوہ کوئی اور قیمتی چیز نہیں ہوتی۔ قدموں کی آہٹ سن کر کہیں سے بیوی کی آواز آتی ہے۔
"آ گئے!"
ہمیں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے آنے کی امید نہ تھی۔ ابھی ہم سوچتے ہی رہتے ہیں کہ خوش آمدید کہنے کا یہ کیسا انداز ہے، بیوی کچن سے برآمد ہوکر بچے کو اپنی گود سے ہماری گود میں منتقل کر کے "سنبھالیے اپنی اولاد کو" طنز کا تیر چلا کر یہ جا، وہ جا۔ ابھی ہم سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ مزید چند بچے اِدھر اُدھر سے نمودار ہوکر ہمیں نرغے میں لے لیتے ہیں۔ کوئی میؤوں کا طالب ہے تو کوئی بسکٹ اور چاکلیٹ کے لیے رو رہا ہے۔ ڈرا دھمکا کر بچوں کو بھگایا اور گود کے بچے کو واپس کرنے بیوی کی تلاش میں نکلے۔ بیوی کو پانی کے نل کے پاس کپڑوں کے ڈھیر میں غرق پایا۔ بیوی کے منع کرنے کے باوجود گود میں سے بچے کو اتارا اور انہیں سونپا۔
بیوی بھلا کہاں نچلی بیٹھنے والی تھیں۔ سانسیں درست ہی کی تھیں اور دو گھونٹ پانی پیا ہی تھا کہ بیوی نے اشیائے صرف کی فہرست تھما کر باہر کا راستہ دکھا دیا۔ بھلا یہ بھی کوئی شریکِ زندگی کا طرزِ حیات ہے! کیا ہم شوہر اور بیوی صرف اس لیے ہیں کہ راشن لائیں، کپڑے دھوئیں، بچے پیدا کریں اور ان کی پرورش کریں۔


ہم اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرنے کے لیے دو منٹ خاموش رہے۔ بیوی نے خاموشی توڑی۔ "جب آپ اس کے پاس ہوتے ہیں تو کیا میں بھی کبھی آپ کے ساتھ ہوتی ہوں؟"
ہم نے سچ کہا۔ "کیوں نہیں بیگم۔ آپ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ اور ہم شاپنگ کرتے ہیںبلکہ یوں کہیے کہ آپ شاپنگ کرتی ہیں اور ہم آپ کی خدمت کرتے ہیں۔ صبح بازار کھلنے سے رات بند ہونے تک آپ شاپنگ کرتی ہیں۔ آپ کی ہر خواہش پر ہمارا دم نکلنے کے بجائے اسے پوری کرنے کے لیے ہماری جیب میں ڈھیر سارے پیسے اور چند بلینک چیک ہوتے ہیں۔ کپڑوں کی خریداری پر ہم نے ہزاروں روپے ادا کردیئے، اف تک نہ کی۔ آپ نے ہمہ اقسام کے زیور خریدے اور ہم نے خوشی خوشی بل ادا کردیا۔ بھاؤ تاؤ کرنے میں آپ نے وقت گنوایا۔ ہم نے ٹوکا تو آپ نے اسراف پر لیکچر دیا۔ کئی دکانیں گھوم پھر کر آپ نے وہی پہلی جگہ سے خریداری کی۔ ہم نے شکایت کی تو آپ نے اسے ٹھوک بجا کر خریدنے کا گر کہا۔ ہم خاموش رہے۔ غرض شام میں دوکان ، دوکان پھر کر اور پیکٹ اور تھیلیوں بلکہ تھیلوں کا بوجھ ڈھو کر تھکے ماندے گھر پہنچے۔ گھر پہنچنے کے بعد سستانے کے بجائے آپ نے پیکٹ کھول کر دیکھنا شروع کیا۔ زیور پہن کر خوش ہوئیں۔ ایک پیکٹ سے پتہ چلا کہ ساڑی کا میچنگ بلوز دوکان میں چھوٹ گیا ہے۔ آپ نے ہمیں الٹے پیر بازار دوڑایا۔"
"آپ نے بہت اچھا خواب دیکھا۔ ایسی میری قسمت صرف خواب ہی میں ہوسکتی ہے۔ "بیوی نے اپنی رائے دے کر کہا۔ "آپ کے اس خواب کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کیا آپ سیدھے گھر سے دوکان گئے؟"
"سچ کہنے پر آپ خفا تو نہ ہوں گی۔ " ہم نے استفسار کیا۔
بیوی نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔ "ہر کوئی سچ کہنے کے لیے کہتا ہے لیکن سچ سننا کوئی گوارا نہیں کرتا۔لیکن آپ صرف سچ کہیے۔مجھے سچ کہنا اور سننا دونوں پسند ہے۔"


"تو پھر سنیے۔" ہم نے سچ کہا۔"آپ کا پیکٹ اٹھائے ہم اپنے دوست کے پاس پہنچے۔ انھیں ساتھ لے کر رسٹورنٹ گئے۔ وہاں تھکن اتاری۔ پیٹ بھرا۔ گپ شپ کی اور گھر واپس آکر آپ کو بتایا کہ دوکان بند ہوچکی ہے۔"
سچ بات سن کر بیوی کو غصّہ آیا، کہنے لگیں۔ "آپ کو بس دوست احباب اور وہ چاہیے۔ جب بھی موقع ملے آپ ان کے ساتھ ہوا ہوجاتے ہیں۔"
"آپ صحیح فرماتی ہیں۔" بیوی کا الزام ہم نے بخوشی قبول کیا۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ دوستوں اور اس کے یہاں ہمارے مسائل کا حل تو نہیں ہے لیکن ان مسائل سے فرار ہے۔ دوستوں کے ساتھ ہم اپنی مشکلات اور مصائب کو بالائے طاق رکھ کر ادب، آرٹ اور سیاست جیسے موضوعات پر گھنٹوں بحث اور مباحث میں الجھ جاتے ہیں۔ لیکن دوستوں سے زیادہ وہ ہماری ہمدرد، غم گسار اور بہی خواہ ہے۔ جب بھی ہم پریشان ہوتے ہیں وہ ہمارا سر سہلاتے ہوئے آتی ہے۔ آنکھیں خود بخود بند ہونے لگتی ہیں۔ پھر کوئی مسئلہ درپیش رہتا ہے اور نہ ہی کوئی سوال۔ ہماری حالت کی ترجمانی حضرت میر کے اس شعر سے ہوتی ہے کہ
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی


وہ بہت پیاری، معصوم اور میٹھی ہے۔ اس کی آغوش میں پہنچ کر ہم دنیا سے بے خبر ہوجاتے ہیں اور ہم اپنی ایک خیالی دنیا آباد کرلیتے ہیں۔ بستر سے اٹھنے کے بعد سے اس کا انتظار رہتا ہے۔ بعض وقت وہ جلد آتی تو بعض مرتبہ بہت انتظار کرواتی ہے۔ کبھی بے وفائی بھی کرتی ہے۔ نہیں آتی تو اس کی جدائی بے چین کردیتی ہے۔ طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔ گھنٹوں تڑپانے کے بعد جب وہ آتی ہے تو پھر ایک نشہ سا طاری ہو جاتا ہے۔
ہماری کئی خواہشات اور ارمانوں کو اس نے پورا کیا ہے۔دن تمام سرکاری بس میں پسینہ بہاتے پھرتے ہیں لیکن اس کی آغوش میں پہنچ کر ایر کنڈیشنڈ امپالا کار میں گھومنے کا ارمان پورا کرتے ہیں۔ صبح سے شام تک دفتر میں کئی صفحات کالے کرتے ہیں لیکن اس کی سنگت میں ہم صرف چیک پر دستخط کرتے ہیں۔ کئی افسروں کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ ان کا ہر حکم بجا لاتے ہیں لیکن اس کے بل بوتے نوکروں کی فوج پر حکم چلاتے ہیں۔ بھوکے پیٹ اس سے ملنے کے بعد عالی شان ہوٹل میں مرغ و ماہی تناول کرتے ہیں۔ کیا آپ نے اندازہ لگایا ، ہماری "وہ" کون ہے اور بقول ہماری بیوی کے وہ آتے ہی ہم گول بلکہ گل ہو جاتے ہیں۔


ہماری "وہ" نیند ہے۔ غمِ روزگار کا مداوا۔ ہمارے اور آپ کے مسائل سے فرار بلکہ بیشتر مسائل کا حل نیند ہی تو ہے۔ بیوی کی شکایت سننے اور ان سے بحث میں الجھنے کے بعد ہم نے ان سے سوال کیا۔
"بیگم کیوں ہم پر اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کا الزام رکھتی ہیں۔ جب وہ آپ کے پاس آتی ہے، کیا آپ بھی اس کے پیچھے نہیں ہو جاتیں؟"

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
***
ماخوذ: ماہنامہ شگوفہ۔ حیدرآباد (شمارہ: نومبر 1986ء)۔

Biwi ki sautan. Humorous short-story by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں