نٹ کھٹ روزہ دار - انشائیہ از نادر خان سَرگِروہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-22

نٹ کھٹ روزہ دار - انشائیہ از نادر خان سَرگِروہ

nat-khat-rozadaar-light-essay-by-nadir-khan-sargiroh

کھانا پینا ہمارے لیے کتنا ضروری ہے، اِس کا علم ہمیں تب ہوا، جب ہم سے پہلا روزہ رکھوایا گیا۔ بچپن میں رمضان کی ایک تپتی ہوئی دوپہر کا ذکر ہے کہ ہم روزے سے تھے اور افطار کی منزل ابھی دُور تھی۔ ہماری والدہ پاس بیٹھی چاول چُن رہی تھیں کہ بے خیالی میں ہم نے چاول کی ایک چٹکی اُٹھا کر منہ میں ڈال لی۔ والدہ نے چیخ کر اور ہمیں چونکا کر یاد دلایا کہ ہمارا روزہ ہے۔ ہمیں بڑا افسوس ہوا کہ کہیں روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا۔ پھر اُنہوں نے اطمینان دلایا کہ نہیں! اگر بھول سے کچھ کھا لیا تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ یہ جان کر پہلے سے بھی زیادہ افسوس ہوا کہ کاش ہم بھول سے ٹھنڈے پانی کا ایک بڑا سا گلاس پی گئے ہوتے! کوئی فرحت بخش شربت ہی منہ میں اُنڈیل گئے ہوتے! اُس کے بعد کئی روزے رکھے اور چاہا کہ بھول جائیں کہ ہم روزے سے ہیں، لیکن لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا نہ ہو سکا۔


یہ اُن دنوں کی بات ہے جب لوگ ہمیں چاند کہتے تھے۔ تب ہم یہ سمجھتے تھے کہ چاند صرف سال میں دو مرتبہ ہی نظر آتا ہے۔ وہ بھی اِتنا سا؛ ہمارے ناخن سے بھی چھوٹا! اور ذرا تِرچھا۔ اِس کے علاوہ بھی ہم نے کئی بار پورا پورا چاند بھی دیکھا، لیکن کسی کو اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب کہ رمضان و عید کا چاند نظر نہ آئے تو بھی بہت سوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ دیکھتے ہوئے دیکھا ہے، بلکہ شہادت دیتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
ہم بھی وہ دونوں چاند بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے قدموں سے دو، دو سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے مسجد کی چھت پر چڑھ جاتے اور جہاں سَر اُٹھایا وہیں چاند تلاش کر نے لگتے۔ وہاں شام کے دُھندلکے میں ہر بچہ الگ الگ سمت میں چاند ڈھونڈتا نظر آتا۔ گویا ہر بچے کے لیے الگ الگ چاند نکلنے والا ہو۔ ہماری کیفیت دیکھ کر کوئی بڑا ہمیں گود میں اُٹھا کر اُنگلی کے اشارے سے چند درختوں کے پیچھے آپس میں گُتھم گُتھا بجلی اور ٹیلی فون کے تار دکھاتا۔ پھر آسمان سے فضول باتیں کرتی اُونچی اُونچی عمارتیں اور اُن کے بیچ میں سے خالی جگہ تلاش کرکے گھوڑوں، پہاڑوں اور غُبّاروں کی شکل کے بادل دکھاتا۔ ہم اِس تمہید پر بے چین ہو جاتے۔ اِتنا سب کچھ دکھانے کے بعد وہ ہماری پلک جیسی کوئی چیز دکھا کر کہتا:
"دیکھو بیٹا! یہ وہی چاند ہے جس کا تمہیں سال بھر سے انتظار تھا"۔
ہم سر اُوپر اُٹھائے ایک ہاتھ سے اپنی ٹوپی سنبھالے اوردوسرے ہاتھ میں چپل تھامے وہ نازک سا، تِرچھا چاند دیکھتے، جسے دیکھ کر ایسا لگتا کہ اب گِرا جب گِرا۔ لیکن چاند سے زیادہ ہمیں اپنی ٹوپی کے گِر جانے کا ڈر رہتا، کیو ں کہ گھر لوٹنے پر کوئی یہ نہیں پوچھتا تھا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟ امتحانوں میں کامیابی کے لیے دعا مانگی یا نہیں مانگی؟ وہاں تو سب سے پہلا سوال ٹوپی اور چپل کی سلامتی کے متعلق ہوتا تھا۔


ہاں تو ! ۔۔۔ بڑوں کے ساتھ جب بھی ہم چاند دیکھتے تو اُن ہی کے طریقے سے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں سکیڑ کر چاند کی طرف دیکھتے، پھر اُن کی طرف دیکھتے۔ وہ اگر آنکھوں کے آگے ہاتھ سے سائبان بناتے تو ہم بھی تھوڑی دیر کو اپنی ٹوپی چھوڑ کر اَپنا ہاتھ آنکھوں کے اُوپر رکھ کر چھوٹا سا سائبان بناتے۔ لیکن جب ہم بڑے ہوئے تو یہ کُھلا کہ یہ دُور کی چیزوں کو قریب دیکھنے کا کوئی جدید فارمولا نہیں ہے، بلکہ بڑے بوڑھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ آہ! بڑوں کی بعض عادتوں کی تقلید میں ہم نے اپنا بچپن بہت ضائع کیا۔
ہمارے دوست پُرجوش پُوری؛ اُس وقت ہم سے ایک دو سال بڑے ہوں گے۔ وہ بچپن میں روزے کم ہی رکھتے، مگر اکثر روزہ داروں جیسی شکل بنائے پھرتے اور روزہ دار کو جو مراعات حاصل ہوتیں وہ پوری پوری استعمال میں لاتے، جب کہ ۔۔۔۔۔۔
ہم نے اُن کو بھی چُھپ چُھپ کے کھاتے دیکھا ہے گلیوں میں


ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ افطار کے وقت دسترخوان پر وہی سب سے زیادہ ڈَٹ کر کھاتا ہے جس نے روزہ نہیں رکھا ہوتا۔
اُن دنوں ہمیں کبھی کبھار محلے کی مسجد میں افطار کرنے کے مواقع بھی ملتے۔ مسجد کی بالائی منزل پر چھوٹی بڑی تھالیوں میں قسم قسم کے پکوان سجائے جاتے۔ افطار شروع ہوتے ہی بچے اُن پکوانوں کو تھالیوں کے باہر بھی سجا دیتے۔ ہر بچہ پورے کا پورا ۔۔۔۔۔۔ اُن تھالیوں میں بیٹھنے کی کوشش میں ہوتا۔ کبھی کبھار دھکم دھکا میں کسی کی 'پانچوں انگلیا ں تھالی میں ہوتیں اور سَر لڑائی میں'۔
بڑے بچے جو عام طور پر ایسی ہنگامی افطاری میں ماہر و مشّاق ہوتے، وہ اپنے لیے جگہ بنانے کی غرض سے ہمارے سَر کی ٹوپی نکال کر دُور اُچھال دیتے۔ جب تک ٹوپی لے کر ہم واپس آتے، تب تک 'خالی' جگہ 'پُر' ہو چکی ہوتی اور تھالی 'پُر' سے 'خالی' ہو چکی ہوتی۔ وہ تمام چیزیں ہر بچے کی دونوں مٹھیوں میں ہوتیں اور کچھ اُن کے پھُولے ہوئے منہ میں بھی، اور یہ سب تو ہم چھیننے سے رہے!


بچوں کی نوچ کھسوٹ کا وہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آج کے بعد دنیا سے کھانا پینا اُٹھ جائے گا۔ آج موقع ہے، نیت نہیں تو کم اَز کم پیٹ ہی بھر لیا جائے۔ اُس ہنگامے میں کچھ غریب بچے ایسے بھی ہوتے تھے جو افطار کے بعد اِدھر اُدھر بکھری ہوئی، کُچلی ہوئی اشیا چُنتے اور اپنی میلی ٹوپیوں میں ڈال کر گھر لے جاتے۔ یہ سب دیکھ کر ہم جب پُرجوش پُوری کو سمجھاتے کہ جو خوشی اپنا لقمہ دوسروں کو دے کر ملتی ہے، اصل میں وہی سچی خوشی ہوتی ہے۔ وہ کہتے:
"میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ اپنا چھوٹا لقمہ دوسروں کو دے کر خوش ہوتا ہوں اور دوسروں کا بڑا لقمہ ہتھیا کر اُنہیں بھی خوش ہونے کا موقع دیتا ہوں۔"


رمضان میں ہر بچے کو گھر سے نماز اور افطاری کے لیے تھوڑی چھوٹ ملتی، اِس خیال سے کہ بچے کا روزہ بہل جائے۔ ماں باپ یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ ہمارا بچہ نمازی بن گیا ہے اور بچے خوشی سے مسجد میں دوڑتے پھرتے کہ اِتنی کھلی جگہ اُنھیں نہ اپنے گھر میں ملتی اور نہ پورے محلّے میں۔ مسجد میں آکر اُن کے ہاتھ پیرکھل جاتے۔
بچے اِس انتظار میں ہوتے کہ بڑے نیت باندھ کر پابند ہوجائیں اور وہ آزاد۔ پھر بڑوں کی کیا مجال کہ اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔ جب نماز ختم ہوتی تو بڑے اُن بچوں کو ڈانٹنے سے زیادہ اُن کے والدین کو اِس ناقص تربیت پر کوستے اور غائبانہ مشورے بھی دیتے۔ وہ مشورے گھوم پھر کر خود اُن تک بھی پہنچتے تھے، کیوں کہ اُن کے اپنے بچے بھی اُس شرارتی ٹولے میں ہوتے، جن پر اُن کی نگاہ نہیں پڑتی تھی۔


یوں تو عام دنوں میں مغرب کے بعد ہمارے گھر کے دروازے باہر جانے کے لیے ہم پر بند ہو جاتے، لیکن رمضان میں تراویح تک ہمیں 'دینی' چھوٹ مل جاتی۔ تراویح میں اکثر یہ ہوتا کہ سجدے میں ہماری آنکھ لگ جاتی۔ ہم یہ سوچتے کہ کاش پوری تروایح سجدے میں ہوتی! تراویح میں امام صاحب تیزی سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد جو کچھ پڑھتے تھے، اُس میں ہمیں ہر آیت کے آخری لفظ کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے امام صاحب سے 'چھوٹی سی' ہمت کر کے پوچھا بھی کہ وہ اِتنی تیزی سے کیوں پڑھتے ہیں؟ تو اُن کا جواب تھا کہ منتظمین نے آدھے گھنٹے میں تراویح ختم کرنے کی پابندی رکھی ہے۔ ہم نے اپنی ہمت بڑھائی اور کہا: "لوگوں کی سمجھ میں بھی تو کچھ آنا چاہیے۔ "
"آہستہ پڑھنے پر بھی لوگوں کی سمجھ میں کیا آنے والا ہے؟ ایسا منتظمین کہتے ہیں۔ کاش منتظمین کو کوئی سمجھائے!" امام صاحب ہمیشہ اِسی طرح سرد آہ بھر کر اپنی بے اختیاری کا اظہار کرتے۔


رمضان کی اِتنی ساری خوشیوں کے بعد ہمیں عید کی دُہری خوشی ملتی۔ ہماری خوشی میں مزید اضافہ اُس وقت ہو جاتا، جب ہم بڑوں کو یہ کہتے سنتے کہ "یہ تو بچوں کی عید ہے۔ " پھر ہم اُن سے خوب عیدی وصول کرکے اُن کے قول و فعل میں تضاد پیدا نہ ہونے دیتے۔


ایک مرتبہ پُرجوش نے ہماری مٹھیوں میں ‘ کَسمَساتے ’نوٹ دیکھے تو اُنہیں بڑا ترس آیا، نوٹوں پر نہیں ہم پر۔ وہ بولے:
"نادر خانُو ! تم کب سُدھرو گے ؟ تمہارے ہاتھ میں اِتنے سارے پیسے دیکھ کر کوئی تمھیں ایک روپیہ بھی نہیں دے گا۔ اِن پیسوں کو جلدی سے کہیں ٹھُونسو اور ایسے بنو جیسے تمھیں کسی نے کچھ بھی نہیں دیا۔ بڑوں کو بھُولنے کی بیماری ہوتی ہے، اِس سے فائدہ اُٹھاؤ! مجھے دیکھو، میں نے تمہارے ابو سے دو ۔۔۔۔۔۔ دو بار عیدی اَینٹھی ہے۔ "


پُر جوش پُوری کا رمضان اور اُن کی عید اپنی جگہ۔ ہم اُن کا ہر سبق ہَوا میں اُڑا کر، اپنی پوری شرارتوں کے ساتھ ایک نئے چاند او ر ایک نئے رمضان کے تصوّر میں گُم ہو جاتے۔

تحریر و آواز: نادر خان سرگروہ
NaT khaT rozadaar. Light Essay by: Nadir Khan Sargiroh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں