ہماری سڑکیں - انشائیہ از عابد معز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-09-30

ہماری سڑکیں - انشائیہ از عابد معز

hamari sadkein - humorous essay by abid moiz

مضمون کا عنوان "ہماری سڑکیں" غلط ہے۔ جناب والا ، ہمارے اور محمد قلی قطب شاہ کے شہر میں سڑکیں ہیں کہاں۔ شہر میں صرف راستے ہیں اور ہر راستہ کسی چھوٹے یا بڑے حادثے کی طرف لے جاتا ہے۔ جب کوئی اجنبی کسی حیدرآبادی سے دریافت کرتا ہے:
"یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟" اسے جواب ملتا ہے:
" یہ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ یہیں پڑی رہتی ہے لیکن اس پر سفر کرنے والے عالم بالا کو پہنچ جاتے ہیں۔ "
ہمارے مضمون کا عنوان "حیدرآباد کے (خطرناک) راستے" ہونا چاہئیے تھا۔ ہماری سادگی کا اندازہ لگائیے کہ ہم ان خطرناک راستوں کو سڑکیں کہتے ہوئے کئی برس سے دھوکہ کھاتے اور حادثوں سے گزرتے چلے آ رہے ہیں۔

مسافرین کی سہولت کے لئے سڑکیں بنوائی جاتی ہیں۔ یہ سڑکیں کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ مٹی کی سڑک، سنگ سیلو کی سڑک ، ٹار کی سڑک، سمنٹ کی سڑک وغیرہ۔ ہمارے شہر میں مختلف راستوں پر مختلف قسم کی سڑکیں بنوائی گئی ہیں لیکن ان سڑکوں کی انفرادیت یہ ہیکہ راہ گیروں سے زیادہ سڑکیں بنانے اور مرمت کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
سنگ سیلو کی سڑکیں آس پاس کے مکانوں میں فرش کا مسئلہ حل کرتی ہیں۔ راہ گیروں کو سڑکیں استعمال کرنے کی پاداش میں نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ سنگ سیلو کی سڑکوں پر ٹھوکریں کھائے بغیر چل نہیں سکتے۔ یوں بھی شہر کی سڑکوں پر پیدل چلنا ایک آرٹ ہے۔ کبھی ٹھوکر کھا کر سنبھلنا پڑتا ہے تو کبھی گر کر اٹھنا پڑتا ہے۔ کبھی چھلانگ لگانی پڑتی ہے تو کبھی اچھلنا اور کودنا پڑتا ہے۔ کبھی ایک ٹانگ سے لنگڑانا پڑتا ہے تو کبھی پیروں اور ہاتھوں کی مدد سے جانوروں کی طرح پھدکنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں پیدل چلنے سے بہتر کوئی ورزش نہیں ہے، اگر آپ اس مقولے کی حقیقت جانچنا چاہیں تو حیدرآباد کی سڑکوں پر پیدل چلا کیجیے۔ ورزش کے علاوہ بعض مرتبہ آپ کی مرمت بھی ہو جائے گی۔ گھٹنے اور کہنیاں چھل جاتی ہیں۔ پنڈلیوں پر ورم آ جاتا ہے۔ اعضاء شکنی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ سواری استعمال کرنے والوں کے لئے ٹائر ٹیوب ایک مستقل مسئلہ بنے رہتے ہیں۔ مضبوط سے مضبوط ٹائر ٹیوب بار بار پنکچر ہو کر بہت جلد داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔ سیکل اور اسکوٹر پنکچر ہو کر سوار پر سواری کرنے لگتے ہیں۔
ہم بطور حفظ ماتقدم بمیشہ چار عدد ٹائر ٹیوب ساتھ رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں کب اور کہاں گاڑی پنکچر ہو جائے۔ ٹائر اور ٹیوب ساتھ رکھنے پر پڑوسیوں کو ہم پر ادیب کے بجائے پرانے ٹائر اور ٹیوب کے بیوپاری کا گمان ہونے لگا ہے۔ ٹائر اور ٹیوب کے بعد فارگ، شاک ابضاربر، سسپن سر اور دوسرے پرزے خراب ہونے لگتے ہیں۔ میکانک حضرات گاڑیوں کی ہر خرابی کی ذمہ داری شہر کی سڑکوں پر ڈالتے ہیں۔ ہم وکالت کرتے ہیں کہ گاڑیوں کے فاضل پرزے تیار کرنے والی کمپنیاں ہماری سڑکوں کی نگہداشت کرنے والوں کو کمیشن دیں۔ کیا پتہ دے بھی رہی ہوں!

ہمارے شہر کی سڑکیں حساس اور نازک طبیعت کی مالک ہیں۔ گرمی ان سے برداشت ہو نہیں پاتی انہیں پسینہ آتا ہے۔ پھیل جاتی ہیں اور سواری سے چمٹ جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بارش کا موسم سڑکوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ ذرا سی بارش سڑکوں کو بہا لے جاتی ہے۔ بعض سڑکیں بارش کے موسم میں سڑکیں نہیں رہتیں۔ اپنا وجود گنوا کر تالاب بلکہ ندیاں بن جاتی ہیں۔ سرما کے موسم میں سڑکیں سردی میں پڑی پڑی ٹھٹھر جاتی ہیں۔ سڑکیں حساس ہونے کے علاوہ نحیف ، کمزور اور ناتواں بھی ہیں۔ آخر بیچاری سڑکیں کہاں تک اپنے سینے پر بوجھ برداشت کریں گی۔ زاید بوجھ سے سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ ہر دن سڑکوں کے دامن سے کئی گڑھے تولد ہوتے ہیں، جن کا درد زہ مسافرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہماری بات کا یقین نہ آئے تو آٹو رکشہ میں چند فرلانگ سفر کر لیجیے۔

ہماری سڑکیں عجیب و غریب اور بے ہنگم ہیں۔ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک کشادہ سڑک چلتے چلتے پتلی گلی بن جاتی ہے اور کبھی تنگ اور تاریک گلی میں سے ایک میدان نکل آتا ہے۔ پرانے شہر کی گلیاں تو وبال جان ہوتی ہیں۔ اجنبی کو چھوڑیئے خود حیدرآبادی ان گلیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ تبھی تو صبح کا بھولا شام گھر آئے تو اسے حیدرآباد کی گلیوں کا مارا کہتتے ہیں۔ بعض راستے پراسرار طریقے سے ختم ہوتے ہیں، کسی راستے کا اختتام کسی گھر کے صحن میں ہوتا ہے۔ کوئی راستہ کسی کے بیت الخلاء میں پہنچا دیتا ہے۔

سڑکیں اپنے شکم میں بہت ساری فاضل اور فضول اشیا لئے ہوتی ہیں۔ کرنٹ اور ٹیلیفون کے تار، نل کے پائپ اور ڈرینج کی ناقص موریاں سڑک کے نیچے موجود رہتی ہیں۔ مختلف محکمہ جات میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ وقت بے وقت اور ضرورت بلا ضرورت سڑک کے شکم کو بے دردی سے چیر پھاڑ کر کرنٹ، ٹیلیفون ، نل اور ڈریخ کے نظام کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ چیر پھاڑ سے جو زخم بنتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوتے، ناسور بن جاتے ہیں، رستے رہتے ہیں۔ پانی اور غلاظت جوالا مکھی بن کر ابل پڑتے ہیں۔ سڑک ڈوب جاتی ہے۔ گندگی کا راج ہوتا ہے۔ چو طرف بدبو پھیل جاتی ہے۔ ایسے وقت ہمیں ان ممالک کی یاد آتی ہے جہاں کی سڑکیں عطر ریز ہوتی ہیں۔

بارش کے دوران سڑکوں پر پانی کی نکاسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بوندا باندی سے ہی سڑک پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ معمولی بارش سے گھٹنوں بلکہ بعض جگہ کمر تک پانی جمع ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کا سفر رک جاتا ہے صرف پانی کا سفر جاری رہتا ہے۔ سہ راہے اور چوراہے ندیوں کے سنگم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ان مشکلات کے پیش نظر ہمارے ایک دوست بارش میں بڑبڑاتے ہیں:
"یا میرے مولا شہر میں نہ بارش کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی قدر ہوتی ہے۔ تو اپنی اس رحمت کو شہر میں برسا کر ضائع نہ کر۔ بارش کی ضرورت کھیتوں اور باؤلیوں پر ہوتی ہے۔ تو بارش کو وہیں لے جا۔"

سڑک پر سواریوں کی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لئے جگہ جگہ اسپیڈ بریکر بنائے گئے ہیں۔ ہماری نظر میں اسپیڈ بریگر بنانا غیر دانشمندانہ قدم ہے، اس لئے کہ سڑکوں پر ہر لمحہ کئی اسپیڈ بریکر بلکہ سواری بریکر بنتے رہتے ہیں۔ بنائے گئے اسپیڈ بریکر کے لئے اشارہ موجود رہتا ہے جس پر عمل کرنے سے نقصان کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ بغیر اشارہ ابھرنے والے اسپیڈ بریکر یکدم سے نمودار ہوتے ہیں۔ راہ گیر بوکھلاہٹ میں ایکسیڈنٹ کر بیٹھتا ہے۔ تب اسپیڈ بریکر ، سواری بریکر اور راہ گیر بریکر بلکہ بعض مرتبہ لايف بریکر بن جاتے ہیں۔

ہمارے شہر کی سڑکیں کھمبوں کی سڑکیں ہیں۔ سڑک پر کئی کھمبے کھڑے رہتے ہیں۔ برقی اور ٹیلیفون کے کھمبے ، خیر مقدی کمانوں کے کھمبے، سڑک اور گلی کے نام کی تختیوں کے کھمبے، اشتہارات کے کھمبے، ٹی وی اور ریڈیو کے کھمبے ، پتنگ لوٹنے کے کھمبے اور بلا مقصدی کھمبے۔ غرض سڑک پر کھمبے ہی کھمبے بکھرے نظر آتے ہیں۔
ہماری سڑکوں کی طبی افادیت سے اطبا کو انکار نہیں ہے۔ سڑکیں زود ہضم اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ جب ہم بدہضمی اور قبض کی شکایت لئے ڈاکٹر سے رجوع ہوتے ہیں تو ہمیں شہر کی سڑکوں پر چند فرلانگ چہل قدمی کا پر خلوص مشورہ دیا جاتا ہے۔

سڑکوں کی نگہداشت ایک نامور محکمہ کرتا ہے جسے عرف عام میں "کھایا پیا اور چل دیا " کہتے ہیں۔ اس محکمے کی کارکردگی کے تعلق سے ہم ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس کی تشہیر لطیفہ کے طور پر ہو چکی ہے۔
شہر کے ایک گڑھے کے پاس ایک شرابی کھڑا ہو کر گنتی کر رہا تھا:
"پچیس۔۔۔ پچیس۔۔۔۔ "
ایک صاحب کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے قریب جا کر استفسار کیا۔ شرابی نے گڑھے میں دھکا دے کر کہا:
"چھبیس ۔۔۔ چھبیس ۔۔۔"

ہم حیدرآبادی شہر کی سڑکوں سے حیران اور پریشان رہتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر لئے سر سے کفن باندھے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔
کونسا ہے وہ شہر بھلا بچو ! بوجھو تو جانیں
فتنے جس کی گلیوں میں ، سڑکیں ہیں نالیوں جیسی !

Hamari Sadkein. Humorous Essay by: Abid Moiz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں