کرناٹک ہائیکورٹ حجاب فیصلہ : انصاف کی بے پردگی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-20

کرناٹک ہائیکورٹ حجاب فیصلہ : انصاف کی بے پردگی

hijab-case-verdict-by-karnataka-high-court

حجاب کے تعلق سے کرناٹک ہائی کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلہ کو ٹھوس دلائل کی روشنی میں انصاف نہیں کہا جاسکتا۔ پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے اور ماہر قانون 'منو سیبسٹین' کے مشاہدے کا مطالعہ وتجزیہ بتاتا ہے کہ یہ فیصلہ "تضادات اور تجاوزات" کا مجموعہ ہے۔۔ اس فیصلہ کے خلاف کلیدی عرضی گزار طالبہ ریشم اور ایک 65 سالہ مسلم خاتون نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔ چیف جسٹس نے ہولی کے بعد سماعت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل ہے جب تک سپریم کورٹ کی آئینی بنچ اس فیصلہ کو کالعدم قرار نہ دیدے۔


سہ رکنی بنچ کے اس فیصلہ پر جذباتی رد عمل ظاہر کرنے کی بجائے اس کا قانونی اور آئینی جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اس بنچ میں چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم خاضی (قاضی) شامل تھیں۔جسٹس دکشت اس قضیہ کی اولین یک رکنی بنچ کے بھی جج تھے جنہوں نے اس قضیہ کے آئینی پہلوئوں کے جائزہ کیلئے مقدمہ کو بڑی بنچ کے حوالہ کرنے کا حکم دیا تھا۔جب یہ مقدمہ ان کی یک رکنی عدالت میں تھا تو انہوں نے کچھ ایسے زبانی تبصرے بھی کئے تھے جن سے عرضی گزار بجا طور پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ جسٹس دکشت حجاب کے تقدس، اہمیت اور ضرورت کی حساسیت کو سمجھتے ہیں۔


میں نے اس قضیہ کو عدالت میں لے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جسٹس جے ایم خاضی کا پورا نام 'زیب النساء محی الدین قاضی' ہے۔ پوری 11 روزہ بحث کے دوران انہوں نے بہت کم تبصروں یا سوالات میں حصہ لیا۔ عرضی گزاروں کے وکیلوں، خاص طور پر دیودت کامت نے پردہ سے متعلق قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ سمجھ کر بطور خاص جسٹس قاضی کو مخاطب کیا تھا کہ وہ قرآنی حوالوں کی حساسیت اور اہمیت کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں اور پھر اپنے دونوں ساتھی ججوں کو وضاحت کے ساتھ سمجھا سکتی ہیں۔


ہائی کورٹ کی آئینی بنچ کا یہ فیصلہ 'ایسنشیل رلیجیس پریکٹس' [essential religious practice] یعنی لازمی مذہبی عمل (ای آر پی) کے نظریہ کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ای آر پی پراب سپریم کورٹ کی 9 رکنی بنچ نظر ثانی کر رہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 1994 میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ دیدیا تھا کہ نماز کی ادائیگی کیلئے مسجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے لہذا حکومت کے ذریعہ مسجد کی جگہ کو ایکوائر کیا جانا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔۔
اس ای آر پی نے بڑے مسئلے کھڑے کر رکھے ہیں۔ لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں متضاد اور متجاوز نکات پیش کرکے خود اپنی معتبریت پر سوال کھڑے کرلئے ہیں۔یقینی طور پر سپریم کورٹ میں ان نکات پر بھی بحث ہوگی۔سپریم کورٹ سمیت کئی ہائی کورٹس اس سے ملتے جلتے کئی معاملات میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے برعکس فیصلے دے چکی ہیں۔لیکن یہ درست ہے کہ داڑھی' حجاب اور اسی طرح کے دوسرے شعائر اسلام کے تعلق سے ابھی تک سپریم کورٹ سے کوئی واضح' حتمی اورمطابق اسلام فیصلہ نہیں آسکا ہے۔۔


کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں :
1- عرضی گزاروں کی طرف سے پیش کئے گئے چند خاص نکات اور چند نظائر پر غور نہیں کیا گیا۔
2- کچھ خاص مواد اور دلائل کو نظر انداز کیا گیا۔
3- خود کرناٹک حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کی طرف سے طالبات کو پیش کی گئی رعایتوں کو خاطر میں نہیں لایا گیا
4- یونیفارم اور خواتین کی آزادی کے تعلق سے کچھ وسیع اور یکطرفہ مشاہدات پیش کئے گئے۔۔


ایسا لگتا ہے کہ عدالت نے درست عدالتی استدلال کی بجائے کچھ پہلے سے قائم کردہ تصورات کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا۔ اور یہی اس فیصلہ کی سب سے بڑی خامی ہے۔یہی خامی اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے کا بڑا سبب بن سکتی ہے۔لیکن سپریم کورٹ میں عرضی گزاروں کے وکیلوں کو ان چھوٹے نقائص اور فروگزاشتوں سے بچنا ہوگا جو ہائیکورٹ میں بحث کے دوران سامنے آئیں اورجن میں سے بعض کی نشاندہی اس فیصلہ میں بھی کی گئی۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ عرضی گزاروں نے حجاب کے لازمی اسلامی عمل ہونے کے حق میں وافر مواد اور مناسب عرضداشت پیش نہیں کی۔عدالت نے لکھا کہ اس کے سامنے جو مواد پیش کیا گیا وہ انتہائی معمولی ہے۔مزید براں عدالت نے فیصلہ کے 12ویں پیراگراف کی شق نمبر ایک میں لکھا کہ عرضی گزاروں نے قرآن کی جن سورتوں (آیات) کا حوالہ دیا ان کے مضمرات کی وضاحت کیلئے کسی 'مولانا' کا حلف نامہ پیش نہیں کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ عدالت وافر مواد کے بغیر کس طرح حجاب کے غیر ضروری ہونے کا عالم گیر اعلان کرسکتی ہے؟ اوراگر عرضی گزاروں کی عرضداشتوں اور وکلاء کے استدلال میں اتنے نقائص تھے تو پھر تو انہی بنیادوں پر ان عرضداشتوں کو اولین سماعت میں ہی خارج کر دینا چاہئے تھا۔ جب عرضی گزار کوئی مضبوط مقدمہ بناہی نہیں سکے اور اپنا دعوی قائم ہی نہیں کرسکے تو اتنا بڑا فیصلہ کیسے دے دیا گیا؟


یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عدالت میں کوئی پبلک انٹرسٹ لٹی گیشن (پی آئی ایل) یعنی عوامی مفاد کی عرضی نہیں دائر کی گئی تھی۔طالبات نے ایک ذاتی مقصد کے تحت یعنی کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت کیلئے مقدمہ قائم کیا تھا۔لہذا اگر عرضی گزار کافی مواد پیش کرنے میں ناکام رہے تو اس کاخمیازہ بھی صرف انہی کو بھگتنا چاہئے تھا۔آخر عرضی گزاروں کے نقائص کی سزا پوری کمیونٹی کو کیسے دی جاسکتی ہے؟


ایک بہت دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن پر بھروسہ کیا ہے۔اس کا سبب یہ بتایا ہے کہ یہ ترجمہ مستند ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی شاعرہ بانو کے طلاق ثلاثہ کے مقدمہ میں اس کا حوالہ دیا ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے صرف اس نسخہ کے متن اوراس کے ترجمہ کومستند قرار دیا ہے۔لیکن کرناٹک ہائی کورٹ نے پردہ کی آیات کے حوالہ سے عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن میں صرف حواشی یا تفسیر پر بھروسہ کرتے ہوئے حجاب کو 'غیر ضروری مذہبی عمل' قرار دیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ نے عبداللہ یوسف علی کے ذریعہ کی گئی تفسیر کو مستند قرار نہیں دیا ہے۔۔لیکن کرناٹک ہائیکورٹ نے لکھا کہ 'بار میں کسی نے بھی عبداللہ یوسف علی کی تفسیر کی معتبریت پر شک ظاہر نہیں کیا ہے۔'


اب ایک اور نکتہ دیکھئے کہ عرضی گزاروں نے عبداللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن کی بجائے دوسرے مفسرین کے تراجم وتفاسیر کا حوالہ دیاتھا لیکن عدالت نے انہیں یہ کہہ کر قبول نہیں کیا کہ ان مفسرین کی کوئی سند قائم نہیں کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے ان مترجمین کی معتبریت کو بھی مشکوک قرار دیدیا جن کو مستند مان کر کیرالہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ حجاب اسلام میں ایک لازمی مذہبی عمل ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی برمحل ہے کہ عرضی گزاروں نے مدراس ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کو پورے اعتماد کے ساتھ بطور نظیر پیش کیا تھا۔ایم اجمل خان بنام الیکشن کمیشن کے مقدمہ کے فیصلہ میں مدراس ہائی کورٹ نے لکھا تھا کہ: "پیش کئے گئے مواد کو دیکھ کریہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ تقریباً تمام مسلم اسکالرس کے درمیان اس پر اتفاق ہے کہ اسلام میں پردہ تو لازمی مذہبی عمل نہیں ہے لیکن اسکارف وغیرہ سے سر کو ڈھانپنا واجب ہے۔"
لیکن حیرت ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے اس فیصلہ میں مدراس ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کا کوئی ذکر تک نہیں کیا۔۔


عدالت نے اپنے فیصلہ میں الی نوئس (امریکہ) کی ایک قلم کار 'سارہ سلی ننگر' کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ حجا ب کو زیادہ سے زیادہ ثقافتی عمل کہا جاسکتا ہے۔حجاب کی 11 روزہ بحث پر نظر رکھنے والے منو سیبسٹین نے لکھا ہے کہ سماعت کے دوران سارہ سلی ننگر کے اس مضمون کا کسی بھی فریق نے' نہ مدعیان نے اور نہ ہی حکومت نے' کوئی حوالہ نہیں دیا تھا۔حیرت ہے کہ عدالت نے اتنے اہم فیصلہ میں سارہ جیسی قلم کار کا حوالہ دینے سے پہلے اس کی معتبریت کو جانچنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔


5 فروری 2020 کو حکومت کرناٹک نے جو عمومی حکم نامہ جاری کیا تھا اس میں اس مفہوم کی بات بھی لکھی تھی کہ حجاب پر پابندی آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی کیونکہ حجاب لازمی مذہبی عمل نہیں ہے۔لیکن بحث کے دوران حکومت کے وکیل'ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے کہا تھا کہ اس حکم نامہ کی زبان اور بہتر ہوسکتی تھی اور یہ کہ حجاب پر پابندی لگانے کی حکومت کی کوئی منشا نہیں تھی۔لیکن عرضی گزاروں نے بحث میں کہا تھا کہ حکومت کمال ہوشیاری کے ساتھ کالجوں کی کمیٹیوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ حجاب پر پابندی عاید کر سکتی ہیں۔۔


جب یہ حکم نامہ عدالت کے زیر غور آیا تو ایڈوکیٹ جنرل نے کہا تھا کہ:
"حکومت مذہبی عمل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی اور یہ کہ اس نے اپنے حکم نامہ میں طلبہ سے صرف یہ کہا تھا کہ وہ یونیفارم کا اہتمام کریں۔اس حکم نامہ کی زبان اور بہتر ہوسکتی تھی اور حجاب کے ذکر سے بچا جاسکتا تھا لیکن جو ہونا تھا وہ ہوگیا۔"
اس پر بنچ نے پوچھا تھا کہ اگر کوئی کالج انتظامیہ حجاب کی اجازت دیتی ہے تو کیا حکومت کو اس پر کوئی اعتراض ہوگا؟اس پر ایڈوکیٹ جنرل نے سیدھا جواب نہیں دیا تھا لیکن یہ ضرور کہا تھا کہ اگر اس کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے تو اس وقت غور کیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔حیرت ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔حالانکہ ایڈوکیٹ جنرل ایک آئینی اتھارٹی ہے اور اس کے بیان کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔اگر اس کا ذکر ہوتا تواس کا مطلب یہ ہوتا کہ کالج انتظامیہ اس امر کیلئے آزادہے کہ وہ حجاب کی اجازت دے سکتی ہے اور یہ کہ حکومت کے مذکورہ حکم نامہ میں مذکور حجاب پر پابندی کے بیان سے اسے متاثر نہیں ہوناچاہئے۔ لیکن عدالت نے یقینی طور پر ایک طرف جہاں اس حکم نامہ کے اثرات کا دائرہ وسیع کردیا ہے وہیں عرضی گزاروں کے چیلنج کو بھی بے اثر کر دیا ہے۔


عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل نے جو بیان دیا تھا اس کی رو سے کالج کمیٹیاں حجاب سے متعلق فیصلہ کرنے میں آزاد ہوجاتیں لیکن عدالت نے اس کا دروازہ بند کرکے وہ صورتحال پیدا کردی جس کا ارادہ خود حکومت کا بھی نہیں تھا۔حکومت کے حکم نامہ میں لفظ 'پبلک آرڈر' کے استعمال کو بھی ایڈوکیٹ جنرل نے ڈرافٹ تیار کرنے والے کا 'جوش میں حد سے آگے بڑھ جانا' قرار دیا تھا۔لیکن عدالت نے کچھ اضافی زحمت اٹھا کر اس کی تشریح فرما دی اور اسے جائز قرار دیدیا۔


عرضی گزاروں کے وکیل روی ورما کمار نے مسلم لڑکیوں کے ساتھ بالواسطہ امتیازی سلوک کا الزام لگاتے ہوئے پوچھا تھا کہ چوڑیاں'بندی اور صلیب بھی مذہبی علامتیں ہیں' آخر صرف انہی مسلم بچیوں کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟حیرت ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں اس پہلو کا کوئی ذکر نہیں کیا اورایک ہی جملہ میں اس پورے استدلال کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ضابطہ تمام مذاہب کیلئے یکساں ہے۔عدالت نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کو کہ کلاس روم میں تنوع نظر آنا چاہئے 'خالی بیان بازی' کہہ کر مسترد کر دیا۔


فیصلہ کے آخر میں عدالت نے حجاب پر پابندی کو عورتوں کی اور خاص طور پر مسلم عورتوں کی آزادی سے جوڑ دیا۔ عدالت نے پردہ کے خلاف آئین کے خالق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے بیان کاحوالہ دیتے ہوئے پردہ اور حجاب کو خلط ملط کر دیا۔ عدالت کے سامنے کسی بھی فریق نے یہ نہیں کہا تھا کہ حجاب مسلم خواتین کی ترقی یا ان کی آزادی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ لیکن عدالت نے از خود ہی کسی سروے رپورٹ، اعداد و شمار اور کسی ڈاٹا کے بغیر ہی بالواسطہ طور پر حجاب کو ان کی ترقی کی راہ میں روکاوٹ سے جوڑ دیا۔ کیا عدالت نے تمام قانونی شواہد اور آئینی دلائل کو پس پشت ڈال کر کوئی اور فیصلہ کرنے کا ذہن پہلے ہی بنا لیا تھا؟
سپریم کورٹ میں اس سوال پر پہلے بحث ہونی چاہئے۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 20 مارچ 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Hijab case and its verdict by Karnataka HC - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں