مائی ڈیئر سعید، تم پر سلامتی ہو۔
آج لندن میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کی ہڑتال ہے۔ میں بس کے ذریعے دفتر پہنچا ہوں جو کہ عجیب و غریب طویل اور پیچیدہ راستوں سے ہو کر آئی لیکن ایک سڑک سے گزرتے ہوئے میں ٹھٹھکا۔ جگہ بڑی مانوس سی لگ رہی تھی پھر مجھے یاد آ گیا کہ یہ تو وہی سڑک ہے جس کے ایک تہہ خانے میں فلم ڈائر یکٹر اور رائٹر ضیا سرحدی نے زندگی کے آخری دن گزارے تھے۔ مجھے بھی چند ہفتے اس تہہ خانے میں رہنے کا موقع ملا تھا جہاں میں ضیا سرحدی سے ان کی زندگی کے حالات سنتا اور ریکارڈ کرتا تھا کہ کس طرح "ہم لوگ" کا سکرپٹ تیار ہوا اور بلراج ساہنی والا کردار حاصل کرنے کے لئے دلیپ کمار نے بھی کوشش کی۔
ہم لوگ میں دلیپ کو کیوں نہ کاسٹ کیا گیا اور فٹ پاتھ میں ان کی شمولیت کس طرح ہوئی۔ یہ سب قصے تو ضیا سرحدی نے سنائے ہی لیکن ہر بات کی تان "فلسفہ اتفاق" پر ٹوٹتی تھی۔
ضیا سرحدی کا کہنا تھا کہ فلمی دنیا میں میری آمدمحض ایک اتفاق کا نتیجہ تھا اگر میں ایک روز وکٹر ہیوگو کا ناول پڑھتا ہوا چو پاٹی کی طرف نہ نکل جاتا تو اس ایکسٹرا اداکار سے کبھی میری ملاقات نہ ہوتی جوان پڑھ تھا اور مجھے کتاب پڑھتا دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ میرے پاس آن بیٹھا اور اس ناول کی کہانی سننے پر اصرار کیا۔ یہی ان پڑھ ادا کا ر بعد میں اپنی ایک فلم کی شونگ دکھانے کے لئے ضیا سرحدی کو سٹوڈیو لے گیا۔ دونوں کی دوستی ہوئی۔ دونوں ایک کھولی میں رہنے لگے یہی ایکسٹرا بعد میں ہندوستان کا معروف ہدایتکار" محبوب" بن کر ہمارے سامنے آیا۔
اگر ضیا سرحدی اور محبوب کی کہانی محض اتفاق کا نتیجہ تھی تو چند برس بعد برصغیر کے ایک گوشے میں اس سے بھی بڑا "اتفاق" وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ ایک بہن نے بھائی کو حکم دیا کہ بازار سے دھاگہ لاکے دو۔ بھائی باہر گیا تو کھیل کود میں دھاگہ لانا بھول گیا۔
بہن سلائی روک کے بیٹھی رہی۔ بھائی خالی ہاتھ واپس آیا تو باپ سے اس کی شکایت کی۔ باپ نے سارے گھر کے سامنے لڑ کے کوڈانٹا۔ نوجوان لڑ کے کی حساس طبیعت یہ بے عزتی برداشت نہ کرسکی۔ آخر وہ بیس برس کا ہونے والا تھا اسی رات وہ لڑ کا گھر سے بھاگ گیا اور سینکڑوں میل دور پونا جا کر ایک فوجی کینٹین میں ملازمت کر لی۔ وہ گورے سپاہیوں کے لئے چائے بناتا ان کی میز یں صاف کرتا لیکن وہ خوش تھا کہ ایک آزاد اور خودمختار زندگی بسر کر رہا ہے بعد میں اس نے پھلوں کا اپنا کھوکھو لگا لیا۔ چلوں کی تجارت اس کا خاندانی پیشہ تھا۔
ظاہر ہے کہ اس نوجوان کا نام یوسف خان تھا اور پونا سے بمبئی زیادہ دور نہیں ہے۔
دیو یکا رانی نے اس نوجوان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور بمبئی ٹا کیز کی فلم جوار بھاٹا میں یوسف خان کو کام مل گیا۔
یوسف خان نے اپنا فلمی نام "جہانگیر" تجویز کیا جو دیویکا رانی کو پسند نہیں تھا پھر اس نے اپنا نام" واسو دیو" رکھ لیا لیکن یہ بھی مسترد کر دیا گیا۔ بالاخر" دلیپ کمار" پر سمجھوتہ ہوگیا۔
میں ذاتی طور پر ”فلسفہ اتفاق" کا قائل نہیں تھا۔ میرے نزدیک ضیا سرحدی کا فلم رائٹر بننا۔محبوب کا ڈائر یکٹربننا اور یوسف خان کا اداکار بننا حالات و واقعات کی منطقی کڑیوں کے ایک طویل سلسلے کا نتیجہ تھا لیکن پچھلے ماہ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جو مجھے بھی "فلسفہ ا تفاق"کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہا ہے ہوا یوں کہ میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں پاکستان گیا ہوا تھا۔
لاہور کی مال روڈ سے گزرتے ہوئے شدید گرمی سے گھبرا کر کسی ٹھنڈے ریستوران کی تلاش شروع کی اور جب آس پاس کچھ نظر نہ آیا تو گرمی سے نڈھال ہوتے ہوئے جسم کو میں نے قریب ترین دکان کے اندر دھکیل دیا۔ یہ فیروز سنز کی دکان تھی۔ شدیدگرمی کا وقفہ ٹا لنے کے لئے کتابوں کی ورق گردانی شروع کر دی۔ چند منٹ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ قریب کھڑا ہوا کوئی شخص مجھے مسلسل گھور رہا ہے مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ وہ شخص تم ہی تھے۔
اتنے برسوں بعد یہ اچانک ملاقات ایک خوشگوار حادثہ تھا جس نے ماضی کی دھند لی اور اندھیری سڑک پر دور تک کم از کم 1967 ء تک یادوں کے قمقمے روشن کر دیئے۔ ان نو بیدار چراغوں کی روشنی میں آنسوؤں اورقہقہوںسے لبر یز کئی مناظر دکھائی دیئے۔ اور دیوسماج روڈ کی ایک گلی تو جیسے فلڈ لائٹ میں نہا گئی۔ امین صاحب کے کمرے میں پڑی ہوئی ایک ایک کتاب کا ٹائٹل الگ سے پڑھا جا رہا تھا۔ تمہارے کمرے میں منٹو کی پینٹنگ تمہاری میز کرسی اور کونے میں لگا بستر! اسی کمرے میں میز کی کسی خفیہ دراز میں یا بستر کی تہوں کے نیچے یا تکیوں کے ڈھیر تلے یا شاید جانی پہچانی کتابوں کے پیچھے کسی پوشیدہ گوشے میں تم نے وہ کتاب چھپا رکھی تھی جسے ڈھونڈنے کے لئے میں لاہور کے سارے کتب فروشوں کی خاک چھان چکا تھا۔
مجھے وہ لمحہ کبھی نہیں بھولے گا جب ایک روز Theoretical بحث کی گرما گرمی میں تمہارے منہ سے اچانک Pudovkin کا ایک جملہ نکل گیا اور جوش خطابت میں تم یہ بھی بتا گئے کہ یہ بات کتاب کے کون سے حصے میں کہیں گئی ہے۔ ذوالفقار رضوی دم بخود تھا اور مجھے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کتاب کی آرزو کو دل کے اس تہہ خانے میں پھینک دیا جہاں دیگر حسرتوں کا کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ تم سے جدا ہونے کے کئی برسوں بعد اس کتا ب تک میری رسائی ہو گئی لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔
اگر میں کتابوں کی دکان میں آنے کی بجائے کسی ریستوران میں پناہ لے لیتا تو تم سے ملاقات نہ ہوسکتی نہ ہی مجھے یہ پتہ چل سکتا کہ تم نے دلیپ کمار کی فلموں پر کوئی کتاب مرتب کی ہے۔ اور نہ ہی اس وقت بی بی سی عالمی سروس کی عمارت میں بیٹا میں یہ سطور لکھ رہاہوتا۔
بی بی سی اردو سروس کے " آواز خزانے" کی گرد آلود شیلفوں میں ذوالفقار بخاری اور بلراج ساہنی کی آواز میں سناٹے کی چادر تان کے سو رہی ہیں۔ یہ آوازیں اس وقت کی یادگار ہیں جب ہندی اور اردو سروس کا وجود نہیں تھا۔ صرف ایک ہندوستانی سروس تھی۔ کچھ آواز میں Tapes کی ایجاد سے پہلے کی ہیں اور بڑی بڑی سیاہ ڈسکوں پر مرقوم ہیں۔
اسی آواز خزانے میں نور جہاں کا وہ انٹرویو بھی مدفون ہے جو انہوں نے پہلی بار لندن آنے پر دیا تھا۔
اور اسی آواز خزانے میں مجھے دلیپ کمار کا وہ پرانا انٹرویو بھی ملا جسے سن کر مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ دلیپ کمار نے Stanislavsky کا باقاعدہ مطالعہ کیا تھا۔
تم تو روسی اسٹیج کے اس عظیم اداکار ،ہدایتکار اور فن اداکاری کے استاد سے بخوبی واقف ہولیکن تمہاری کتاب کے بہت سے "قارئین "اس نام سے واقف نہیں ہوں گے میں کوشش کروں گا کہ اس خط کے ذریعے Stanislavsky کا بھی تھوڑا سا تعارف ہو جائے۔
دلیپ کمار کی فلموں پر ایک کتاب مرتب کرتے ہوئے اکثر تمہارے ذہن کے دروازے پر اس سوال نے دستک دی ہوگی کہ آخر اداکاری کا فن ہے کیا؟
کیا یہ محض کسی ادیب یا شاعر کے لکھے ہوئے لفظوں کو ادا کر دینے کا نام ہے یا ان لفظوں کی تشریح و توضیح کو اداکاری کہا جاتا ہے یا پھر اس سے بھی بڑھ کر اداکاری کوئی تخلیقی عمل ہے جس میں اداکار سکرپٹ کے متن سے ماورا ہو کر ناظرین کے سامنے کوئی بالکل نئی چیز پیش کر دیتا ہے۔ یہ سوالات ہزاروں برس سے ہر سوچنے والے ذہن میں کلبلاتے رہے ہیں لیکن ان کا جواب اس لئے آسان نہیں ہے کہ اداکاری کا فن اپنی نوعیت اور ساخت میں دیگر فنون سے بہت مختلف ہے۔
کسی بھی فن کا معیار مقرر کرتے وقت اس کے عظیم ترین شہکار ہمارے پیش نظر ہوتے ہیں۔ موسیقی اور رقص کی طرح مصوری اور صنم تراشی کا صدیوں کا سرمایہ اس وقت
ہمارے سامنے ہے لیکن موسیقی کی طرح اداکاری کی کوئی" سرگم" متعین نہیں ہوسکتی چنانچہ اسے NOTATIONS کی شکل میں لکھ کر محفوظ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی رقص کی طرح اس کی کوئی طے شدہ" حرکات" ہوتی ہیں اس لئے اداکاری کو Choriography کی طرح ضبط تحریر میں کبھی نہیں لایا جا سکتا۔
موجود ہ صدی سے پہلے اداکاری کی ساری تاریخ اسٹیج سے وابستہ تھی اور اداکار برف کے بت بنانے و۱لا ایسا فنکار سمجھا جاتا تھا جس کا فن ہر شام اپنی پرفارمنس کے ساتھ ہی پانی بن کر ختم ہو جاتا تھا اور اگلی شام اسے ایک نیا آبی بت تراشنا پڑتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر فنون کے کئی ہزار سالہ سرمائے کے متن میں اداکاری کا سر ما یہ صرف موجودہ صدی کے ان واقعات تک محدود ہے جو متحرک عکاسی شروع ہونے کے بعد ریکارڈ کئے گئے اور کینوس پر بکھرے رنگوں’ کا غذ پہ لکھی سمنفی اور پتھر سے تراشے ہوئے بنوں کی طرح ہمارے پاس ہزاروں یا سینکڑوں برس پرانی اداکاری کے کوئی نمونے موجود نہیں ہیں۔
ماضی کے اداکاروں اور ان کی تکنیک کے بارے میں ہمیں ان کی ہم عصر تحریروں سے کچھ نہ کچھ پس انداز ہوتا ہے۔
1773ء میں فرانس کے معروف فلسفی اور دانشور DIDEROT نے اپنی کتاب PARADOX OF ACTING میں لکھا:
"مصنف کتنا ہی زور لگا لے وہ لفظوں کے سواکچھ تخلیق نہیں کر سکتا۔ یہ لفظ خواہ کتنے ہی دھانسو ہوں۔ بہر حال کاغدپہ بکھری ہوئی روشنائی کی بے جان لکیریں ہیں۔ ان تحریری علامتوں کے پس پشت جو خیال اورجذبہ کارفرما ہے وہ اس وقت سامنے آتا ہے جب ایک اداکار کے چہرے کا اتار چڑھاؤ اس کے جسم کی حرکات و سکنات اور اس کی آواز کا زیروبم اس خیال اور جذبے کو عملا بیان کرتا ہے۔"
دید رو کا خیال تھا کہ ناظرین کے یہ جذبات میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے اداکار کو خود جذباتیت سے ما وراء ر رہنا چاہئے۔ کیونکہ اداکار کسی جذباتی عمل میں ملوث ہو جائے تو صورتحال اس کے کنٹرول سے باہر ہو جاتی ہے۔ دید رو کا یہ معروف قول آج Paradox Of Acting کے نام سے جانا جاتا ہے اور تھیوری کی کتابوں میں اسے یوں بیان کیا جاتاہے۔
IN ORDER TO MOVE THE AUDIENCE, THE ACTOR MUST HIMSELF REMAIN UNMOVED.
لیکن اٹھارہویں صدی کے اس نقطہ نظر کو انیسویں صدی کے آخر میں Stanislavsky نے چیلنج کر دیا۔
یہ آج سے پورے ایک سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔
اکتوبر 1898ء میں ماسکو آرٹ تھیٹر کی جانب سے پیش کئے جانے والے ایک کھیل کے پہلے ہی شو میں Stanislavsky پر اچانک انکشاف ہوا کہ وہ اداکاری نہیں کر رہا۔ محض نقالی کر رہا ہے۔ ڈائریکٹر کی دی ہوئی ہدایات پر کسی مشین کی طرح عمل پیرا ہے۔ 26 اکتوبر 1898 کی وہ شام Stanislavsky کی زندگی میں ایک انقلاب لے آئی اور ساتھ ہی فن اداکاری کی تاریخ نے بھی ایک نیا موڑ اختیار کر لیا۔ Stanislavsky جلد ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ ناظرین کو متاثر کرنے کے لئے جذبات سے عاری ایک مشینی تال کی بجائے گوشت پوست کا جیتا جاگتا انسان Stage پر ہونا چاہئے جو اپنے باطن کو کرید کر مطلو بہ جذبہ بیدار کر سکے اور محضخارجی جسمانی حرکات پر تکیہ نہ کرے۔
"اپنے من میں ڈوب کے پا جا سراغ زندگی"
لیکن من میں ڈوبنے کا یہ عمل کوئی آسان کام نہیں ہے اور پھر یہ ایک ایسا پہاڑ ہے جسے اسٹیجکا اداکار ہر شام نئے سرے سے کاٹتا ہے اور فطری اداکاری کی جوئے شیر نکالتا ہے۔"
کوہکن کی اس مشقت کو Stanislavsky نے ایک منظم اور مرتب شکل میں ڈھال دیا ہے۔ اندرونی جذبات کو مطلو بہ وقت پر بیدار کرنے اور خارجی ذرائع سے ان کےسچے اور قابل یقین اظہار کی ایسی تکنیک کا نام آجMethod Acting ہے۔
" میتھڈ "کی تفصیل میں جانے کے لئے تو ایک اور کتاب درکار ہوگی لیکن کسی کردار کو اپنانے کے لئے "میتھڈ" کے مطابق ہر اداکار کو خود سے چار سوالات کرنے چاہئیں۔
1۔ میں کون ہوں؟ (کردار)
2۔ میں کہاں ہوں؟ (مقام)
3۔ میں یہاں کیا کر رہا ہوں؟ ( مقصد اور ایکشن)
4۔ میرے یہاں آنے سے پہلے کیا کچھ ہو چکا ہے (سچویشن)
ان سوالات کے بارے میں سوچے بغیر نہ تو اداکار کے لئے اپنے من میں ڈوبناممکن ہے اور نہ ہی کردار میں جذب ہونا۔ Stanislavsky نے "من میں ڈوبنے "اور گوہر مراد لے کر لوٹنے کے جوتفصیلی طریقے اپنے شاگردوں کو سکھائے تھے اس کا مفصل ذکر An Actor Prepares نامی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں جس بات کا ذکر ضروری ہے وہ دلیپ کمار کے بارے میں ہے۔ دلیپ نے بھی "میتھڈ" کا بغور مطالعہ کیا اور Stanislavsky سے متاثر بھی ہوئے۔ لیکن ان کی زیرک نگاہوں نے ایک بات شروع ہی میں بھانپ لی تھی کہ Stanislavsky کا طریق کار بنیادی طور پرسٹیج کے لئے ہے فلم میں اداکاری کا تصور بدل چکا ہے۔
سیلولائیڈ کے مختلف ٹکڑوں کو مہارت سے جوڑ کر ایک ایڈیٹر ایسی" اداکاری" تخلیق کر سکتا ہے۔ جو اداکار نے کی ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ دلیپ نے "میتھڈ" کا صرف وہی حصہ اپنایا جو ان کے انداز اداکاری کو راس آتا تھا۔" میتھڈ" سے انہوں نے کہاں تک استفادہ کیا ہے اس کا اظہار ابتدائی فلموں سے لے کر آج تک صاف نظر آتا ہے۔ 1950 ءکی فلم " جو گن" کے ضمن میں تم نے اس کتاب میں خود لکھا ہے۔
"دلیپ کے چہرے کے عضلات بے حد تربیت یافتہ ہیں وہ اپنے باطن کی کیفیت کو چہرے کی تصویر کے بدلتے ہوئے رنگوں آنکھوں کے مخصوص زاویوں نیز بھنوؤں کے پھیلنے اور سکڑنے کے عمل سے ظاہر کر دیتا ہے۔ وہ دل پر گزرنے والی نازک ترین کیفیت سے لے کر بڑے سے بڑے جذباتی طوفان کے رول کو اپنے ہاتھوں کی حرکت اور پورے وجود کی Presentation سے بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔"
میرے خیال میں دلیپ کی اداکاری پر یہ ایک انتہائی جامع تبصرہ ہے اور خوش قسمتی سے تمہاری کتاب میں اس طرح کے کئی اور جامع تبصرے بھی موجود ہیں جو "ملن" سے لے کر "سوداگر" تک کے دلیپ کی ساری داستان سفر ہمارے سامنے کھول کے رکھ دیتے ہیں۔
اور جو لوگ دلیپ کو ایک "ٹریجڈی کنگ" قرار دیتے رہے ہیں انہیں اب اپنے خیالات پر نظر ثانی کر لینی چاہئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہمہ گیری۔ ہمہ جہتی۔ اور تنوع (Verstality) ہمیشہ سے دلیپ کی اداکاری کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ غیر المیہ اداکاری کی طرف دلیپ کارجحان 1960ء کے بعد شروع ہوا جب مسلسل المیہ کردار کرنے کے باعث وہ شدید ڈیپریشن کا شکار ہو گئے تھے اور ڈاکٹروں نے انہیں طر بیہ کردار ادا کرنے کا مشورہ دیاتھا۔
اس بات میں صرف آدھی سچائی ہے کیونکہ دلیپ کمار روز اول سے ہر طرح کی اداکاری کے اہل تھے۔ 1949ء میں بننے والی " انداز" دیکھئے اور اسی سال ریلیز ہونے والی" شبنم "کے دونوں کرداروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
1952ء کی " داغ " میں اگر وہ نشے میں ڈوبا ہوا ایک فنکار ہے تو اسی سال بننے والی فلم " آن" میں پریم ناتھ کے مقابل ڈرامائی مکالمے ادا کر رہا ہے اور تلوار بازی کےکرتب دکھا رہا ہے۔
1955 میں اگر وہ ایک طرف "دیوداس" کا مغموم و مجبور کردار ادا کرتا ہے تو اسی سال" آزاد" کاجیالا نو جوان بن کر بھی سامنے آتا ہے۔
اور 1960ء میں جہاں و ہ"مغل اعظم" میں ایک مظلوم شہزادے کا کردار ادا کرتا ہے وہیں" کو ہ نور" جیسی ہلکی پھلکیFantasy میں بھی نمودار ہوتا ہے اور 1960 ءکے بعد تو یہ ورائٹی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
پیارے سعید اب میں یہ خط ختم کر رہا ہوں۔ تم نے دلیپ کمار کی فلموں پر یہ دستا ویز تیار کر کے ایک بہت بڑی کمی کو پورا کر دیا ہے۔ کاش اب کوئی اور ہمت والا اٹھے اور دلیپ کمار کی ایک مکمل اور جامع سوانح عمری لانے کا فریضہ انجام دے۔
فقط تمہارا
عارف وقار
ماخوذ از کتاب: دلیپ کمار - عہد نامۂ محبت
مصنف: سعید احمد۔ ترنگ پبلی کیشنز، لاہور۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں