شوکت تھانوی (پیدائش: 2/فروری 1904 ، وفات: 4/مئی 1963)
اردو دنیا کے ممتاز و مقبول ادیب رہے ہیں جنہوں نے ادب کی ہر صنف صحافت، افسانہ/ناول/ڈراما/انشائیہ نگاری، مزاح نگاری اور شاعری میں نام کمایا مگر ان کی اصل شہرت مزاح نگاری سے قائم ہوئی۔ ان کی لاتعداد تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے چند کتب تعمیرنیوز کے ذریعے پیش کی جا چکی ہیں جیسے ۔۔۔ بقلم خود آپ بیتی "مابدولت"، مزاحیہ خاکے "قاعدہ بےقاعدہ" اور "شیش محل"، مشاہیر کے نام شگفتہ خطوط "بارِ خاطر"، مزاحیہ افسانے "جی ہاں پٹے ہیں"۔
اس بار ان کے منتخب مزاحیہ مضامین کا مجموعہ پیش خدمت ہے جس میں 19 مضامین شامل ہیں۔ تعمیرنیوز کے ذریعے تقریباً پونے دو سو صفحات کی یہ دلچسپ کتاب پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش ہے جس کا حجم 8 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
پروفیسر نورالحسن نقوی اپنی کتاب "تاریخِ ادبِ اردو" (ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۔ سنہ اشاعت: 1997) میں شوکت تھانوی کے فن کے تعارف میں لکھتے ہیں ۔۔۔
لفظوں کے الٹ پھیر سے، لطیفوں سے رعایت لفظی سے، محاورے سے، املا کی ناہمواریوں سے اور زیادہ تر مضحکہ خیز واقعات سے شوکت تھانوی نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے طنزومزاح میں گہرائی نہیں بلکہ سطحیت ہے۔ اعلیٰ درجے کی تخلیق بہت غوروفکر اور بے حد محنت کے بعد ہی وجود میں آسکتی ہے۔ شوکت تھانوی کے یہاں ان دونوں چیزوں کی کمی ہے۔ ان کی تصانیف کی تعداد چالیس کے قریب ہے۔ اتنا زیادہ لکھنے والا نہ سوچنے کے لیے وقت نکال سکتا ہے اور نہ اپنی تحریروں پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ ظرافت کو فنکارانہ انداز میں پیش نہ کیا جائے تو وہ ہنسانے کی ایک ناکام کوشش بن کے رہ جاتی ہے۔ شوکت ہنسانے میں تو کامیاب ہیں مگر قاری کو غور و فکر پر مجبور نہیں کرتے حالانکہ ان کی تحریروں میں مقصدیت موجود ہے۔ وہ سماجی خامیوں اور انسانی سیرت کی ناہمواریوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان پر ہنستے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سودیشی ریل، تعزیت اور لکھنؤ کانگریس سیشن ان کی کامیاب کوششیں ہیں۔
زیر نظر مجموعہ کے مضمون "مشاعر" سے ایک اقتباس ۔۔۔
شاعر سنا تھا۔ متشاعر بھی سنا تھا۔
ایک سرکاری قسم کے مشاعرے میں "مشاعر" بھی سن لیا۔
بانئ مشاعرہ شعرائے کرام کا شکریہ ادا فرما رہے تھے:
"میں مشاعر صاحبان کا بےحد شکرگزار ہو۔ مشاعر حضرات نے بڑی تکلیف فرمائی ہے۔ اس مشاعرے میں چوٹی کے مشاعر جمع ہیں۔" وغیرہ وغیرہ
پہلے تو کان کھڑے ہوئے کہ اور تو اور یہ "مشاعر" کیا بلا ہے؟ مگر پھر فوراً سمجھ میں آ گیا کہ مشاعر دراصل اس شاعر کو کہتے ہیں جس کا شاعر ہونا بھی مشکوک ہو سکتا ہے اور متشاعر ہونا بھی یقینی نہیں ہوتا۔ مگر چونکہ وہ مشاعروں میں شرکت کرتا ہے لہذا شاعر یا متشاعر ہو یا نہ ہو مگر "مشاعر" ضرور ہوتا ہے۔
گویا یہ شاعروں کی وہ قسم ہے جو صرف مشاعروں میں پڑھنے کے لیے شعر کہتے ہیں۔ جن کا میدان عمل اور میدانِ بےعملی جو کچھ بھی ہے مشاعرہ ہے اور جن کا مقصدِ زندگی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مشاعرہ خواہ وہ کسی قسم کا ہو، کہیں بھی ہو، کسی نے بھی کیا ہو، اس میں شرکت کرنا ضروری ہے۔
شاعروں کی یہ قسم مشاعروں کے لیے پیدال قافلوں میں، بیل گاڑیوں اور تانگوں میں، لاریوں اور موٹروں میں، ریل اور ہوائی جہاز تک میں مشاعروں کی شرکت کے لیے رواں دواں نظر آتی ہے۔ موسم کی کوئی قید نہیں۔ گرمی ہو تو کرتے اور انگرکھے میں جائیں گے۔ جاڑا ہو تو چسٹر اور کمبل میں جائیں گے۔ برسات ہو تو چھتری اور برساتی میں جائیں گے مگر جائیں گے اور ضرور جائیں گے سو کام چھوڑ کر جائیں گے۔ دفتروں سے رخصت علالت لے کر جائیں گے۔ شادیوں کی تاریخیں بڑھوا کر جائیں گے۔ کوئی مر جائے تو قبرستان پر مشاعرے کو ترجیح دیں گے اور جائیں گے۔ بیمار ہیں تو دوا کی شیشیاں لے کر جائیں گے۔ مختصر یہ کہ مشاعرہ ان سے نہیں چھوٹ سکتا یوں چاہے زمانہ کا زمانہ ان کو چھوڑ دے۔
***
نام کتاب: اے دلربا تیرے لیے (مزاحیہ مضامین)
مصنف: شوکت تھانوی
ناشر: اہلووالیہ بکڈپو، نئی دہلی۔ سنہ اشاعت: 1998
تعداد صفحات: 177
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 8 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Ay Dilruba Tere Liye by Shaukat Thanvi.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | اے دلربا تیرے لیے | 5 |
2 | آزادی کا شوق | 14 |
3 | لیاقت نہرو معاہدہ | 22 |
4 | مشاعر | 29 |
5 | بخیال خویش خبطے | 39 |
6 | جنس ہنر بیچتا ہوں | 49 |
7 | کافی | 60 |
8 | میں ایک شاعر ہوں | 66 |
9 | ان کی سسرال | 82 |
10 | اے روسیاہ تجھ سے تو | 93 |
11 | جگر کے مریض | 101 |
12 | سو کا نوٹ | 107 |
13 | سسرالی رشتہ دار | 115 |
14 | میں میراجی کو نہیں جانتا | 125 |
15 | اپنے مضامین اپنی نظر میں | 131 |
16 | ہم زلف بکرا | 140 |
17 | خان بہادر صاحب | 148 |
18 | بوہنی میں السیٹ | 155 |
19 | کرکٹ میچ | 166 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں