قاعدہ بےقاعدہ - شوکت تھانوی - پی۔ڈی۔ایف کتاب ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-24

قاعدہ بےقاعدہ - شوکت تھانوی - پی۔ڈی۔ایف کتاب ڈاؤن لوڈ

qaida-beqaida-shukat-thanvi
معروف و ممتاز مزاح نگار شوکت تھانوی کی ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب "قاعدہ بےقاعدہ" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ شوکت تھانوی نے مختلف ادبی شخصیات پر مزاحیہ انداز میں خاکے تحریر کیے ہیں۔
121 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3.7 میگابائٹس ہے۔
کتاب ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

میاں محمد طفیل اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
اس بےقاعدہ کو اپنی طرف سے بڑے قاعدے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی، اس کے باوجود چند اسباق بےقاعدہ ہو گئے۔
شوکت تھانوی صاحب کی یہ کوشش تھی کہ اس قاعدہ میں صرف زندہ ادیبوں کا ذکر آئے گا مگر وہ اپنی کوشش میں پورے کامیاب نہیں ہوئے۔ آج جب یہ قاعدہ چھپ کر بازار میں آ رہا ہے تو ان میں سے منٹو، مولانا ظفر علی خان، پطرس اور یگانہ اللہ کو پیارے ہو کر بھی زندہ ہیں۔
یہ قاعدہ پختہ عمر کے بچوں کے لیے لکھا گیا ہے۔ اس کے مطالعہ سے شعور بالغ ہوگا۔

درج ذیل ادیب/شاعر پر لکھی گئی تحریر کے دلچسپ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
  1. پطرس
  2. جوش ملیح آبادی
  3. خدیجہ مستور
  4. منٹو
  5. شوکت تھانوی
  6. مولوی عبدالحق
  7. فراق گورکھپوری
  8. احمد ندیم قاسمی
  9. کرشن چندر
  10. ن م راشد
  11. ہاجرہ مسرور

پطرس
بچو! یہی ہیں پطرس۔
ان کا نام سید احمد شاہ بخاری ہے۔ پطرس کے نام سے وہ اردو میں مضمون لکھا کرتے تھے، جن کو پڑھ پڑھ کر تمہارے اباجان اکیلے میں ہنسا کرتے تھے اور تمہاری امی جان رو رو کر دعا میں مانگا کرتی تھیں کہ خدا تمہارے اباجان کے دماغ کو ٹھکانے کرے۔ مگر جب تمہارے اباجان نے وہ مضمون تمہاری امی جان کو سنائے تو وہ بھی اپنا دماغ ٹھکانے نہ رکھ سکیں۔
بچو! یہ زندہ اردو کے سب سے بڑے مزاح نگار ہیں۔ مگر مزاح نگاری نہیں کرتے تاکہ لوگ ترسیں اور اردو زبان خدانخواستہ اتنی ترقی نہ کر جائے کہ انگریزی زبان بھی منہ دیکھتی رہ جائے جس کے وہ مانے ہوئے ادیب ہیں۔ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے پانی بھرواتے ہیں۔

جوش
دیکھو بچو! یہ جوش ملیح آبادی ہیں جو اپنی زندگی ہی میں اتنے بڑے شاعر بن گئے ہیں اور بن ہی نہیں گئے بلکہ مان بھی لیے گئے ہیں۔ شاعر تو جو کوئی بنتا ہے وہ اپنے نزدیک بڑا ہی بنتا ہے۔ مگر ہم کسی شاعر کو اس وقت تک بڑا نہیں مانتے جب تک اسے مار نہ لیں۔
بچو! یاد رکھو کہ ہم اپنے فنکاروں کو پہلے مار ڈالتے ہیں پھر ان کو پوجتے ہیں اور ان کی بڑائی ان کے جیتے جی تسلیم نہیں کرتے۔ مگر جوش ملیح آبادی کو ان کی زندگی ہی میں ہم نے بڑا شاعر مان لیا ہے، لہذا اب ان کو مرنے کی ضرورت نہیں۔ آؤ دعا کریں کہ وہ زندہ رہیں۔

خدیجہ مستور
بچو! ان کو دیکھو یہ خدیجہ مستور ہیں۔ یہ وہی خدیجہ مستور ہیں جن کی کہانیاں تمہارے اباجان اس وقت بھی پڑھتے ہیں جب چائے میں مکھی پڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ان کے افسانے تمہاری اماں جان اس وقت بھی پڑھتی ہیں جب چولہے پر چڑھی ہوئی ہانڈی جل رہی ہوتی ہے۔
بچو۔ ان کی کہانیوں میں نہ افیون ہوتی ہے اور نہ تمہارے اباجان خدانخواستہ افیون کے رسیا ہیں، مگر لطف اتنا ہوتا ہے کہ شروع کرنے کے بعد جب تک ختم نہ ہو باقی سب کچھ ختم کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانیاں اسی زبان میں لکھتی ہیں جس زبان میں ہمارے تمہارے گھروں میں آئے دن کہانیاں واقع ہوتی رہتی ہیں مگر لکھی نہیں جاتیں۔ ان کی گھریلو زبان میں چونکہ ادب ہے لہذا ادبی زبان میں گھریلو پن پایا جاتا ہے۔

منٹو
بچو! ان کو دیکھو یہ منٹو ہیں۔ وہ منٹو جو مقدمہ چلوانے کے لیے افسانے لکھتے ہیں، افسانہ رسالے میں جاتا ہے اور یہ خود عدالت میں۔
بچو! یہ اپنے وقت کے سب سے بڑے افسانہ نگار مانے جاتے ہیں۔ ان کے آرٹ نے ان کو عروج پر پہنچایا ہے مگر وہ خود اپنے عروج سے گھبرا کر بار بار پستی کی طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا فن ان کو زندہ جاوید بنا چکا ہے مگر وہ خودکشی کی کوشش میں دن رات مصروف نظر آتے ہیں۔
بچو! یہ بہت اچھے آدمی تھے۔ اور اب بھی بہت اچھے آدمی ہیں۔ مگر ایک دن ایک بوتل سے انڈیل کر نہ جانے کیا پی گئے کہ پھر نہ سنبھلے۔ سنا ہے کہ آج کل وہی بوتل خود ان کو پی رہی ہے۔ اس بوتل کی موت کو وہ اپنی زندگی بنائے ہوئے ہیں۔ خدا ان پر رحم کرے۔

شوکت تھانوی
بچو! دیکھنا ذرا یہ شوکت تھانوی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مزاح نگار ہیں۔ اگر تم کو ان کے اس خیال پر ہنسی آ گئی تو بھی یہ اس کو اپنی مزاح نگاری کی کرامت سمجھیں گے۔
بچو! یہ شاعر بھی ہیں، جب سنجیدہ کلام رو رو کر پڑھتے ہیں تو سننے والوں کو ہنسی آتی ہے، جب مزاحیہ کلام سناتے ہیں تو لوگ عبرت پکڑتے ہیں حالانکہ خود ان کو پکڑ لینا چاہیے۔
بچو! ان کے مزاحیہ مضامین کو پڑھ کر اگر تم کو ہنسی نہ آئے تو اپنے کو سمجھ دار سمجھنا اور اگر ہنسی آ جائے تو کسی فقیر سے اپنے لیے تعویذ لکھوانے کی کوشش کرنا۔

مولوی عبدالحق
دیکھو بچو! ان کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ اگر تم ان کو بھی نہ پہچانے تو اردو کے حروف کیسے پہچانوگے؟ یہ بابائے اردو مولانا عبدالحق ہیں۔ یہ ڈاکٹر بھی ہیں مگر علاج صرف اردو کا کرتے ہیں۔
بچو! بابائے اردو اس لیے نہیں ہیں کہ اردو ان کی بیٹی ہے۔ البتہ جب یتیم ہو گئی تو مولوی عبدالحق نے اردو کو گود لے لیا۔ کہلائے صرف بابائے اردو مگر سچ پوچھو تو اردو کو ماں اور باپ دونوں بن کر پالا اور اردو کے لیے اپنی زندگی تج دی۔ اب ان بچارے کا سوائے اردو کے اور کوئی نہیں ہے۔ اولاد ہے تو اردو، دوست ہے تو اردو، مونس ہے تو اردو، غمگسار ہے تو اردو، یہ اردو ہی کے غم میں بوڑھے ہو گئے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اردو انے کے سہارے زندہ ہے یا یہ اردو کے سہارے زندہ ہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ہی باتیں ٹھیک ہیں۔

فراق گورکھپوری
بچو! یہی وہ فراق گورکھپوری ہیں جن کی غزلیں باوجود اس قدر پسندیدہ ہونے کے اب تک قوالوں سے بچی ہوئی ہیں۔ یہ پروفیسر ہیں مگر مشاعروں میں جس انداز سے اپنا کلام بناتے ہیں، شبہ یہی ہوتا ہے کہ یہ کسی کالج کے پروفیسر نہیں بلکہ شعبدہ باز پروفیسر ہیں اور ابھی اپنے شعر کے دوسرے مصرعے سے کبوتر نکال کر اڑا دیں گے۔ گول گول آنکھیں اس انداز سے گھما پھرا کر اپنے ہر مصرعے کے ہر لفظ کو باقاعدہ جمناسٹک کرا کے جس وقت وہ پڑھتے ہیں سننے والوں کو درپردہ ایک صدمہ سا ہوتا ہے کہ اتنا اچھا شعر ان پر کیوں نازل ہو گیا تھا؟
بچو! فراق گورکھپوری بڑے خوفناک قسم کے صاف گو آدمی ہیں۔ ایک رکھائی سے بعض سچی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ تکلف ایسے منہ پھٹ آدمی سے خود پناہ مانگتا ہے، مگر ان کی باتیں سن کر یہ اعتماد ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس شخص کی کسی بات میں کسی غلط فہمی کا کوئی امکان نہیں۔

احمد ندیم قاسمی
دیکھو بچو! یہ احمد ندیم قاسمی ہیں۔ شاعر، افسانہ نگار، ادیب، صحافی، سب کچھ مگر سب سے بڑھ کر ایک اچھے آدمی۔
بچو! اچھے شاعر، اچھے افسانہ نگار، اچھے ادیب اور اچھے صحافی تو پھر بھی مل جاتے ہیں مگر اچھا آدمی مشکل سے پیدا ہوتا ہے، اس کی پیدائش عام انسانوں کی پیدائش سے ذرا مختلف ہوتی ہے۔ اس کی پیدائش کے لیے نرگس کو ہزاروں سال اپنی بےنوری پر رونا پڑتا ہے، پھر ایسا آدمی پیدا ہوتا ہے۔
بچو! احمد ندیم قاسمی کا کوئی دشمن اگر تم دریافت کر سکو تو اس کی تصویر اخباروں میں چھپوا دینا تاکہ یہ دعویٰ باطل ہو سکے کہ احمد ندیم قاسمی نے خواہ دوست کم بنائے ہوں مگر دشمن کوئی نہیں بنایا۔ یہ جتنے بڑے سخن گو اور سخن سنج ہیں اتنے ہی کم سخن بھی واقع ہوئے ہیں۔ غیرت داری کا عالم دیکھنا ہو تو عینک کے پیچھے مسکرانے والی آنکھیں دیکھ لو جو دو کنواری بہنیں معلوم ہوتی ہیں۔

کرشن چندر
بچو! یہ کرشن چندر ہیں۔ تم ہنس کیوں رہے ہو؟ واقعی یہ کرشن چندر ہیں۔ ہنسی اس بات پر آئی ہوگی کہ جس کرشن چندر کا نام اتنا ہو، وہ بھلا صرف اتنا سا کیسے ہو سکتا ہے؟ تم نے کرشن چندر کا تصور بہت بھاری بھرکم قائم کیا ہوگا مگر وہ تو واجبی سے نکلے۔ وجہ یہ کہ لکھتے زیادہ ہیں، ورزش کم کرتے ہیں۔
بچو! یہ کرشن چندر بھولی بھالی شکل کے نہایت سادہ آدمی نظر آتے ہیں مگر اپنے افسانوں میں بڑے پرکار بھی بن جاتے ہیں۔ ان کے متین چہرے پر دو شرارت سے بھری ہوئی آنکھیں ہر وقت جزئیات کا جائزہ لیتی رہتی ہیں۔ وہ پیش پا افتادہ مسائل سے خاموشی کے ساتھ گذر نہیں جاتے بلکہ ان میں بھی اپنے لیے افسانہ ڈھونڈتے ہیں اور صرف ڈھونڈتے نہیں بلکہ پاتے بھی ہیں۔ ان کی کتابیں، ان کے افسانے اور ان کی تحریریں شور مچاتی ہیں، ہنگامے برپا کرتی ہیں مگر وہ اس طرح معصوم بنے رہتے ہیں جیسے ان کا اس شور، اس ہنگامے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
بچو! یہ کرشن چندر بھی ترقی پسندوں کی جامع مسجد کے امام رہ چکے ہیں، مگر چونکہ اذان دینے سے گھبراتے ہیں، لہذا اب صرف مجاور بن کر رہ گئے ہیں۔

ن م راشد
دیکھو بچو! یہ ن۔ م۔ راشد ہیں۔ اپنے وقت کے بہت بڑے شاعر۔ یہ بہت اچھی غزلیں کہتے تھے، مگر جب ان کو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اور شاعر بھی اچھی غزلیں نہ کہنے لگیں تو باقی شاعروں کو بہکانے کے لیے کچھ آزاد نظمیں بھی کہہ ڈالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب آزاد نظمیں کہنے لگے اور جب لوگ آزاد نظمیں کہنے لگے تو یہ پھر اطمینان سے غزل کی طرف متوجہ ہو گئے۔
بچو! تم اگر کہیں آزاد نظم دیکھنا تو پڑھنا نہیں ورنہ ہنسی آ جائے گی۔ خیر ہنسنا تو کوئی بری بات نہیں مگر اس نظم کو یاد کرنے کی صرف اس وقت کوشش کرنا جب پہاڑے یاد کرنے کو جی چاہے۔ اور ایک بات گرہ میں باندھ لو کہ اس نظم کو گانے کی کبھی کوشش نہ کرنا، اس لیے کہ علم موسیقی میں اب تک کوئی راگ ایسا ایجاد نہیں ہوا ہے جس میں کوئی آزاد نظم گائی جا سکے۔ یہ نظم کسی ایسے ستار پر بجائی بھی نہیں جا سکتی جس کے تمام تار صحیح و سالم ہوں۔

ہاجرہ مسرور
بچو! یہ ہاجرہ مسرور ہیں۔ یہ اس دور کی بہت بڑی افسانہ نگار خاتون ہیں اور ان چند خواتین میں سے ہیں جن کی وجہ سے بہت سے غور و فکر کے مریض مرد ہر کام چھوڑ کر اس بات پر غور کیا کرتے ہیں کہ اگر حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، ہاجرہ مسرور، قرۃ العین اور خدیجہ مستور قسم کی عورتیں برابر پیدا ہوتی رہیں تو ہم ناقص العقل کس کو کہا کریں گے؟
بچو! یہ میٹھی میٹھی زبان میں ایسے افسانے لکھتی ہیں کہ ان کی گہرائیوں میں جانے سے پہلے تم کو اپنی زبان اردو سے سچ مچ کا عشق ہو جائے گا۔ بعض اوقات تم کو محسوس ہوگا کہ تم ہاجرہ مسرور کا افسانہ نہیں پڑھتے بلکہ ان سے باتیں کرتے ہو۔
ہاجرہ مسرور افسانہ نگار بنی نہیں ہیں پیدا ہوئی ہیں۔ اس پر طرہ ان کی زبان دانی۔ بلکہ زبان دانی بھی نہیں، اہل زبان ہونا۔ اہل زبان کی زبان میں مٹھاس اور رس ہوتا ہے اور زبان دان کبھی کبھی زبان درازی بھی کر جاتا ہے جو ہاجرہ مسرور نہیں کرتیں۔

***
نام کتاب: قاعدہ بےقاعدہ
مصنف: شوکت تھانوی
تعداد صفحات: 121
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3.7 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
qaida-beqaida-shukat-thanvi.pdf

Archive.org Download link:

قاعدہ بےقاعدہ - از: شوکت تھانوی :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1ابتدائیہ9
2عرض مصنف11
3امتیاز علی تاج19
4میاں بشیر احمد23
5احمد شاہ پطرس بخاری25
6صوفی غلام مصطفی تبسم29
7میرا جی ثناءاللہ33
8جوش ملیح آبادی35
9عبدالرحمن چغتائی39
10حفیظ ہوشیارپوری43
11خدیجہ مستور47
12خواجہ دل محمد51
13ذوالفقار بخاری53
14رشید احمد صدیقی87
15زہرہ نگاہ59
16سعادت حسن منٹو61
17شوکت تھانوی68
18صلاح الدین احمد69
19ضیا جالندھری73
20محمد طفیل75
21ظفر علی خان77
22مولوی عبدالحق81
23غلام عباس85
24فراق گورکھپوری87
25احمد ندیم قاسمی91
26کرشن چندر95
27ل۔ احمد99
28مجنوں گورکھپوری101
29ن۔ م۔ راشد103
30وقار عظیم107
31ہاجرہ مسرور111
32حکیم یوسف حسین115
33میرزا یاس یگانہ117

Qaida Beqaida, a collection of urdu humorous Essays by Shaukat Thanvi, pdf download.




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں