ان کا جال مت کاٹیے ۔۔۔ - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-14

ان کا جال مت کاٹیے ۔۔۔ - کالم از ودود ساجد

wadood-sajid-column

یہ خبر بہت بڑی ہے۔
سپریم کورٹ نے ان تمام نوٹسوں کو کالعدم کرنے کا واضح اشارہ دیدیا ہے جو یوپی حکومت نے سینکڑوں لوگوں کو بغیر کسی قانون کے جاری کردئے تھے۔اپنے اس کارنامہ کی یوپی پولیس نے بڑے پیمانے پر تشہیر کرکے عزت دار شہریوں کوخوب ذلیل کیا تھا۔لیکن بات بات پر شور مچانے والے میڈیا نے اس خبر کو مجرمانہ طور پر کچل دیا۔۔


2019 میں سی اے اے کے خلاف ملک بھر میں جوبے مثال مظاہرے ہوئے تھے ان میں دہلی کے بعد سب سے زیادہ منظم مظاہرے یوپی میں ہوئے تھے۔یوپی کے بیشتر اضلاع میں رضاکاروں، انسانی حقوق کے علم برداروں، دانشوروں اور وکیلوں تک نے مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ ان مظاہروں میں بڑے پیمانے پرخواتین نے حصہ لے کر انہیں عدیم المثال بنادیا تھا۔ دہلی کا 'شاہین باغ' تو حکومت کی یکطرفہ پالیسیوں کے خلاف خواتین کے عالمی احتجاج کی ایک زندہ ومتحرک علامت بن گیا تھا۔


اس صورتحال سے دہلی اور یوپی، دونوں ہی پریشان ہو اٹھے تھے۔ دہلی میں فروری 2020 کے فسادات کھلے طور پر شرپسندوں کی اس جارحانہ کوشش اورمجرمانہ سازش کا حصہ تھے جس کے سہارے احتجاجیوں کو خوف زدہ کرکے گھروں میں بٹھانا تھا۔لیکن یوپی حکومت نے اس سے بھی دس قدم آگے کا منصوبہ بنایا اور جو لوگ پر امن طور پر اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے ان کے خلاف 'ریکوری' کے نوٹس جاری کردئے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کی ہے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔اس نقصان کی 'تلافی' کیلئے نوٹس جاری کرکے ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھاری رقمیں ادا کریں۔
بہت سے ایسے افراد کو نوٹس جاری کئے گئے جو موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے کہ جن کی عمر اور صحت ان پر عاید الزامات سے میل ہی نہیں کھاتی تھی۔ مزدوروں تک کو نوٹس دیدیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔ ایک 'مجرم' کو تو مرے ہوئے چھ سال ہوگئے تھے۔ ان تمام کے خلاف کوئی مجرمانہ مقدمہ دائر کئے بغیر ہی نوٹس جاری کردئے گئے تھے۔یہ عمل آئین و قانون کی حکمرانی کو جوتوں تلے روند دینے کے مترادف تھا۔لیکن اس عمل پر یوپی حکومت کو کوئی حیا نہیں آئی۔اس وقت بھی نہیں جب الہ آباد ہائی کورٹ کے(اس وقت کے) چیف جسٹس گووند ماتھر نے ایسے بہت سے نوٹسوں پر سخت ناگواری ظاہرکرتے ہوئے متاثرین کو راحت دیدی۔


ایس آر داراپوری، پوتے پوتیوں والے ایک غیر مسلم ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ہیں۔ وہ بھی سی اے اے کے خلاف مظاہروں کی قیادت کر رہے تھے۔ ان پر الزام عاید کیا گیا کہ انہوں نے بھی عوامی املاک کی توڑ پھوڑ میں حصہ لیا تھا۔ 6/جولائی 2020 کو ان کے اہل خانہ نے انڈین ایکسپریس کو بتایا تھا کہ 3 جولائی کو 20 پولیس والے ان کے گھر پر آ دھمکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جرمانہ کی رقم ادا نہ کی تو پولیس ان کا گھر قرق کرلے گی۔اس وقت داراپوری گھر پر موجود نہیں تھے۔
ان کے بچوں اور پوتوں کو دھمکایا گیا۔اسی طرح سماجی رضاکار اور کانگریس کی کارکن صدف جعفر کو بھی 'نقصان کی تلافی' کیلئے نوٹس جاری کیا گیا۔ان کو جس انداز سے گرفتار کیا گیا بڑے پیمانہ پر اس کےخلاف تشویش ظاہر کی گئی۔ 19 دسمبر2019 کو لکھنؤ اور پھر یوپی کے مختلف اضلاع میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں 23 افراد ہلاک اور 538 زخمی ہوئے۔اس سلسلہ میں پولیس نے 480 لوگوں کو گرفتار کیا۔ 343معاملات میں زیادہ تر مظاہرین کے خلاف درج کئے گئے۔ سینکڑوں لوگوں کو نوٹس بھیج کر معاوضہ کے طورپربھاری رقم طلب کی گئی۔یہی نہیں ان لوگوں کی تصاویر، نام، پتے اور ٹیل فون نمبروں کے ساتھ بڑے بڑے ہورڈنگس اور بینرس لکھنؤ اور دوسرے شہروں کے چوراہوں پر نصب کئے گئے۔ ایسا کرتے وقت شہریوں کی پرائیویسی کے قوانین کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔


الہ آباد ہائی کورٹ نے متعدد معاملات میں یوپی حکومت سے سوالات کئے اور حقوق انسانی کے اداروں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو یوپی حکومت کو خیال آیا کہ جمہوری طور پر مظاہرہ کرنے والوں کو کچلنے کیلئے کوئی قانون تو ہونا ہی چاہئے۔لہذا سینکڑوں شہریوں کو نوٹس جاری کرنے کے ڈھائی مہینے بعد یکم مارچ 2020 کو یوپی اسمبلی میں اس ضمن میں ایک بل پاس کردیا گیا۔اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالہ کیا جائے لیکن حکومت نے تمام جمہوری اقدار کو روندتے ہوئے قانون بنادیا۔اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ابھی سماعت چل رہی ہے۔


گزشتہ 8/نومبر کو سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے گوکہ یوپی حکومت کو 22 نومبر تک تفصیلی جواب داخل کرنے کی مہلت دیدی ہے تاہم یہ واضح کردیا ہے کہ قانون بننے سے پہلے جاری کئے گئے نوٹس کالعدم ہوجائیں گے۔اب اس کا امکان بھی بڑھ گیا ہے کہ جب یوپی حکومت نئے قانون کے مطابق نوٹس جاری کرے گی تو پھر یہ سوال اٹھے گا کہ قانون بننے سے پہلے جو مبینہ 'جرم' سرزد ہوچکا ہے اس پر نئے قانون کے مطابق کیسے گرفت ہوسکتی ہے۔اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں جب اونچی عدالتوں نے ایسے معاملات میں ملزمین کو راحت دی ہے اور ایسے نوٹسوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔


17جنوری 2020 کو ممتاز ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل 'پیوپلس ٹریبونل' کی ایک کمیٹی کے سامنے حقوق انسانی کے مشہور علم بردار ہرش مندرکی تنظیم 'کاروان محبت' نے ایک 'فیکٹ فائنڈنگ' رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ نے یوپی حکومت کی قلعی ادھیڑ کر رکھ دی تھی۔اس رپورٹ کی روشنی میں جیوری نے میڈیا کو بتایا تھا کہ :
"یوپی کے حالات بتاتے ہیں کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے اور جس انتظامیہ کی ذمہ داری قانون کے تحفظ کی تھی وہی اپنے شہریوں پر تشدد برپا کر رہا ہے۔"


پیوپلس ٹریبونل میں جسٹس اے پی شاہ،جسٹس سدرشن ریڈی اور جسٹس وی گوپالا گوڈابھی شامل تھے۔جسٹس گوپالاگوڈا نے، سپریم کورٹ کی اس سہ رکنی بنچ کی قیادت بھی کی تھی جس نے گجرات کے اکشردھام مندر پر حملہ کے ان چھ ملزموں کو 16مئی 2014 کوباعزت بری کردیا تھا جن میں سے تین کو ہائی کورٹ تک نے سزائے موت کے فیصلہ کی توثیق کردی تھی۔ ان ججوں پر مشتمل جیوری نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سننے کے بعد مزید کہا تھا کہ:
"ہم خوف زدہ اور مایوس ہیں۔ہم اس نکتہ پر متفق ہیں کہ اعلی قیادت میں ریاست کی تمام مشینری نے قانون سے ماورا ہوکر ایک خاص کمیونٹی 'مسلمانوں'، سماجی رضاکاروں اورتحریک کے قائدین کے خلاف تشدد برپا کیا۔"


جیوری نے یہ بھی بتایا تھا کہ پولیس زیادتیوں، توڑ پھوڑ اور تشدد کے خلاف متاثرین کی شکایتیں یا تو درج ہی نہیں کی گئیں یا غلط درج کی گئیں۔ جبکہ دوسری طرف ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف تشدد اور توڑ پھوڑ کی شکایتیں درج کرلی گئی تھیں۔نہ صرف پولیس نے بلکہ انتظامیہ اورسیاسی قیادت نے بھی مظالم اور تشدد کی طرف سے آنکھیں پھیر لی تھیں۔مغربی اترپردیش میں چھوٹے موٹے کام کرنے والے 16مسلمانوں کی پولیس کی گولیوں سے موت ہوگئی تھی۔
جیوری کے سامنے بہت سی ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئیں جن میں پولیس والے ہی متاثرین کے مکانات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھے گئے۔جیوری کے مطابق زخمیوں کو اس لئے بروقت علاج نہ مل سکا کہ ڈاکٹروں تک کو ان کا علاج کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ جیوری کے سامنے بعض متاثرین نے بھی پولیس کی زیادتیوں کی روداد سنائی۔ ریٹائرڈ آئی پی ایس، ایس آر داراپوری نے بتایا کہ:
"پولیس نے مجھے ساڑھے 11 بجے گرفتار کیا لیکن ایف آئی آر میں گرفتاری کا وقت بدل کر شام کے سات بجے کردیا گیا،مجھے اپنے وکیل کو بلانے کی بھی اجازت نہیں دی گئی، پولیس نے لوگوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر الگ کرکے بڑی بے رحمی سے زدوکوب کیا۔"


بہر حال اب ایسا لگتا ہے کہ یوپی کے ان متاثرین کو سپریم کورٹ سے کوئی بڑی راحت ملنے والی ہے۔
شرپسندوں اور ان کے آقاؤں کوچند مہینوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے ابھی سے ڈر لگنے لگا ہے۔ پارٹی کارکنوں کوان کے بڑے لیڈروں کی ہدایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں یوپی میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی ناراضگی کا احساس ہوگیا ہے۔ ایسے میں لکھنؤ کے ایک ملعون کو کھڑا کردیا گیا ہے۔
ہم اس کا نام اور اس کی حرکتوں کے تعلق سے کچھ لکھ کر اپنے اخبار کے صفحات کو غلیظ کرنا نہیں چاہتے۔ ہم نے مذہبی قائدین سے درخواست کی تھی کہ اس ملعون کے خلاف بیانات دے کر اس کی سازش کو اعتبار مت بخشئے۔ خدا کا شکر ہے کہ بہت سے قائدین نے ہماری درخواست پر توجہ دی۔ لیکن بعض ادارے اور کچھ افراد اب بھی اس ملعون کے خلاف جلسے جلوس اور بیان بازی کر رہے ہیں۔ وہ اس کے خلاف اس حکومت سے کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس حکومت نے اسے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔


مہاراشٹر میں آج بعض علاقوں میں حالات خراب ہیں۔ امراوتی اور مالیگاؤں کی تفصیلی خبر آپ نے انقلاب کے صفحات پرملاحظہ کرہی لی ہوگی۔ تریپورہ میں اب کسی حد تک امن قائم ہو گیا ہے۔ لہذا تری پورہ اور ملعون کے خلاف مظاہرے نہیں کرنے چاہئیں تھے۔ آپ ایسا کرکے ایک طرف جہاں شرپسندوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے رہے ہیں وہیں خود اس ملعون کی سازش کا حصہ بن رہے ہیں۔آپ اس کے خلاف تحریک چلاکر اس جال کو کاٹ رہے ہیں جس میں شرپسند، ان کے آقا اور خود یہ ملعون پھنس چکا ہے۔


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 14 نومبر 2021ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Notices To Anti-CAA Protesters On Damage Recovery Virtually Revoked: Supreme Court - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں