بار خاطر - شوکت تھانوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-28

بار خاطر - شوکت تھانوی - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

baar-e-khatir-shaukat-thanvi
معروف و ممتاز مزاح نگار شوکت تھانوی کے تحریر کردہ مزاحیہ خاکوں پر مبنی کتاب "قاعدہ بےقاعدہ" پیش کی جا چکی ہے۔ اس بار ان کی دوسری کتاب "بارِ خاطر" پیش خدمت ہے۔
پہلی کتاب کے برعکس اس کتاب میں شوکت تھانوی کے مکاتیب طنز و مزاح کی شکل میں تقریباً پچاس مشاہیر کے نام تحریر کیے گئے ہیں۔ اور ان خطوط میں صاحبِ کتاب نے مولانا آزاد کی مشہور کتاب "غبارِ خاطر" کا طرز مستعار لیا ہے۔
311 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 14 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

مصنف اس کتاب میں دیباچہ میں لکھتے ہیں:
محمد طفیل صاحب جن کا کوئی تخلص نہیں ہے، میرے ہمعصروں میں گذر رہے ہیں۔ ان کی خاطر مجھے بےحد عزیز ہے اور میں خود ان کے لیے "بارِ خاطر" کی حیثیت بھی رکھتا ہوں اور "یارِ شاطر" کی بھی۔ چنانچہ یہ مجموعہ جو کچھ بھی ہے ان ہی کی ایک فرمائش کی تعمیل ہے۔
"غبارِ خاطر" دیکھ کر میں نے ازراہِ شامتِ اعمال چند خطوط ان کے رسالہ "نقوش" کے لیے لکھے تھے۔ معلوم نہیں وہ کون سی گھڑی تھی جب یہ خطوط لکھے گئے تھے کہ اس جرم کی سزا مجھ کو اور خود طفیل صاحب کو مدتوں بھگتنا پڑی۔ ان کا اصرار کہ میں اسی قسم کے خطوط کا ایک مجموعہ تیار کروں اور میرا اس فرمائش سے فرار۔ مگر آخر اس فرمائش نے فہمائش کی صورت اختیار کر لی اور یہ مجموعہ ہم دونوں کے لیے صحیح معنوں میں بارِ خاطر ثابت ہونے لگا۔ آخر خدا خدا کر کے اب چند خطوط ان کے حوالے کر رہا ہوں۔
ان مکاتیب کی تحریر کے کام سے میں فارغ ہو رہا ہوں اور اب ان کی اشاعت کا سر و سامان خود طفیل صاحب کو کرنا ہے۔ مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں نے یہ خطوط غبارِ خاطر والے مکاتیب کی طرح قلم برداشتہ تو نہیں البتہ دل برداشتہ ضرور لکھے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان خطوط میں کسی کو کوئی خوبی نظر آ جائے تو اس کو میری کرامت نہ سمجھا جائے بلکہ مولانا آزاد کا فیض سمجھا جائے جن کے مکاتیب کی یہ "ریڑھ ماری گئی ہے"۔
پیروڈی کا ترجمہ "ریڑھ مارنا" سید محمد جعفری سے مجھ تک پہنچا ہے اور وہ راوی ہیں کہ یہ ترجمہ ماجد صاحب کا ہے۔ بہرحال جس کا بھی ہو خوب ہے اور اس مجموعہ کے لیے تو خوب تر۔
غبارِ خاطر اور بارِ خاطر میں کوئی مناسبت نہیں۔ ع
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک
مولانا آزاد کو جو عشقِ صادق چائے سے ہے وہی پیمانِ وفا میں "پان" سے باندھے ہوئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجموعہ کے بیشتر خطوط میں تان آ کر پان ہی پر ٹوٹی ہے۔ اور اس کے علاوہ اس مجموعہ کے کسی خط میں وہ غبارِ خاطر والی کوئی بات کسی کو نہ ملے گی البتہ بارِ خاطر تو یہ ہے ہی۔

شوکت تھانوی
1956ء

ذیل میں چند منتخب خطوط سے دلچسپ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے نام
گڑھی شاہو، لاہور۔
2/جولائی 1954۔
سیدی و مولائی!
۔۔۔۔۔ یہ تو اطمینان ہے کہ اردو کو اس آسانی سے نہ مٹایا جا سکے گا جس آسانی سے اس کو مٹا دینے کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں۔ اس میں اردو کی سخت جانی کو اتنا دخل نہیں جتنا اس کی حریف زبان کی اجنبیت قصوروار ہے۔ وہ زبان جو اردو کی جگہ لائی جا رہی ہے خود ان کے لیے بھی اجنبی ہے جن کی وہ زبان کہلاتی ہے۔ ہندی ان کے ارادے، عزم اور قصد کی زبان تو بن سکتی ہے مگر ان کی بےساختگی کی زبان کبھی نہ بن سکے گی اور ان کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ ؎
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ہندی ان کی سرکاری زبان بےشک بن جائے گی مگر ان کی نجی اور گھریلو زبان نہ بن سکے گی۔ وہ شدتِ کرب سے ہندی میں آہ و بکا نہ کر سکیں گے۔ وہ خلوت میں ہندی کو محبت کی زبان نہ بنا سکیں گے۔ اپنے اچھے خاصے باپ کو "پِتا" کہنے والے جب ٹھوکر کھا کر گریں گے تو ان کی زبان سے "باپ رے باپ" ہی نکلے گا، "پتا رے پتا" وہ کبھی نہ کہیں گے۔

بابائے اردو کے نام
گڑھی شاہو، لاہور۔
سیدی و مولائی!
۔۔۔۔۔ حصولِ پاکستان کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اردو کی سرسبزی بھی تھا جس کو بھلا دیا گیا۔ اردو کے سلسلے میں قائد اعظم تک کے کسی وعدے کا احترام قائد اعظم زندہ باد کے نعرے بلند کرنے والوں نے نہ کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک یہ مسئلہ کھٹائی میں ڈالے رکھا اور آخر اب فیصلہ بھی کیا تو وہ جو قومی زبان کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا کر رکھ دے۔ بہرحال ان ذمہ داروں سے اب کچھ کہنا بیکار ہے۔ جو کچھ کہا جا سکتا تھا کہا جا چکا، آپ بھی کہتے کہتے تھک گئے ہوں گے ؎
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے؟
اب تو اردو کو اپنا جادو خود جگانا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے بنگال کی مناسبت سے جادو جگانا کس قدر برمحل اور بےساختہ صرف ہوا ہے۔ اس تقریب میں ایک تازہ گلوری اور سہی۔ مگر آپ کیا جانیں پان اور پاندان کے آداب کو۔ کاش اس میخانے میں کبھی آپ کا گذر بھی ہوا ہوتا اور وہ نفاست جو آپ کے مزاج میں موجود ہے پان اور پاندان کے حصے میں بھی آ جاتی۔ پان کھانے والوں کی کمی نہیں مگر یہ شغل جو نفاست چاہتا ہے وہ بہت کم نظر آتی ہے۔ مگر آپ سے اس عمر میں یہ توقع ہی بیکار ہے ع
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

پنڈت جواہر لال نہرو کے نام
گڑھی شاہو، لاہور۔
مکرمی!
انسان اپنی ایک زندگی کے اندر کتنی ہی مختلف زندگیاں بسر کرتا ہے۔ مثلاً آپ اپنی ہی زندگی کو دیکھ لیجیے۔ ایک آپ کی ذاتی اور نجی زندگی ہے دوسری آپ کی وزارت عظمیٰ کی زندگی ہے۔ اپنی ذاتی اور گھریلو زندگی میں آپ اردو کے دلدادہ ہیں خواہ آپ سوتے ہوئے انگریزی زبان میں بڑبڑاتے ہوں مگر عالمِ بیداری میں اردو ہی کو اپنی زبان سمجھتے اور سمجھاتے رہتے ہیں مگر جہاں وزیراعظم کی حیثیت سے بولے یہی زبان سماعت پر ایسے پتھر برسانا شروع کر دیتی ہے کہ پھول برسانے والے کی طرف سے یہ پتھراؤ حیران کر دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کی بےساختگی کو جب انتظاماً ہندی بولنا پڑتی ہے تو آپ کا ایسا جادو بیان مقرر بھی ہکلانے لگتا ہے۔ زبان لڑکھڑاتی ہے۔ دماغ اردو میں سوچتا ہے اور زبان اس کو ہندی میں پیش کرتی ہے۔ اٹک اٹک کر ایک عجیب تکلف بلکہ تکلیف کے ساتھ اور بعض اوقات خود اپنے ساتھ اس زبردستی سے آپ خود بھی عاجز آ کر اردو کی حمایت کر جاتے ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے بھی اردو کے خونِ ناحق کی فریاد آپ کی زبان پر آ جاتی ہے مگر ایک عجیب بےکسی اور بےبسی کے ساتھ۔ وزیراعظم اور یہ بےبسی؟ پردھان منتری اور اس قدر مجبور؟ ع
مجبور اس قدر ہوں کہ بااختیار ہوں
۔۔۔ شاید آپ سے زیادہ اس حقیقت سے کوئی باخبر نہ ہوگا کہ بھارت میں اردو کو مٹانے کی جتنی کوششیں ہو رہی ہیں اردو اسی شد و مد سے ابھر رہی ہے۔ اردو کو جتنا جتنا پامال کیا جا رہا ہے، اردو اسی قدر پیر جماتی جا رہی ہے۔ اردو کو ہندوستان کی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا مگر سر چڑھ کر جو جادو بول رہا ہے وہ اردو ہی کا ہے اور ایک عام عالم یہ ہے کہ ع
تکلم بنی ہے مری بےزبانی
۔۔۔ ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے، اردو کے لیے اپنے دل میں ایک جگہ رکھتے ہوئے اور اردو ہی کو اپنے ضمیر کی زبان سمجھتے ہوئے بھی آپ کی یہ مصلحت جس میں آپ مبتلا ہیں سیاست ہو تو ہو ، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیفیت آپ اپنے اوپر کب تک طاری رکھیں گے کہ ؎
اقرار نہیں لیکن اقرار کی صورت ہے
انکار کی صورت ہے انکار نہیں کرتے

لتا منگیشکر کے نام
گڑھی شاہو، لاہور۔
عالمہ محترمہ!
آپ کے نام یہ خط اس ذیل میں ہرگز نہیں آتا کہ ع
تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیے
اس لیے کہ جس حد تک ملاقات ضروری ہے وہ ہوتی ہی رہتی ہے ؎
تو نہیں تو کیا ہوا کون سی کمی رہی
ہم ترے بغیر بھی تجھ سے ہم کلام ہیں
آپ کی نواؤں سے جو دنیا آج گونجی ہوئی ہے اسی دنیا کے بسنے والوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ آپ کی یہ دنیا صرف بھارت یا پاکستان تک محدود نہیں بلکہ آپ کے نغموں کی گونج میں تو افغانستان، سیلون، ایران، برما، انڈونیشیا بھی بستے ہیں۔ انگلستان اور امریکہ کی نشرگاہیں بھی آپ کی آواز فضا میں منتشر کرتی ہیں اور یہ آفتِ ہوش و ایماں آواز تو در در اور گھر گھر پہنچی ہوئی ہے۔ کون سا خطہ ہے جہاں یہ شراب نہ برستی ہو۔ ان نغموں کی زبان کوئی سمجھے یا نہ سمجھے مگر یہ گیت گنگنانے والے وہاں بھی مل جاتے ہیں جہاں اردو ابھی تک نہیں پہنچی ہے۔ میں نے اردو کے سب سے بڑے مبلغ مولانا عبدالحق کے نام جو خط لکھا ہے اس میں نہایت سنجیدگی کے ساتھ عرض کیا ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی مولانا عبدالحق لتا منگیشکر ہے جس کے گانے اس ہندوستان کے گوشے گوشے میں رچے ہوئے ہیں جو اردو سے اپنا دامن بچانے کا دعویٰ دار ہے مگر اردو ہے کہ لتا کے گانوں کی شکل میں اپنے گن گوا رہی ہے اور خداجانے ان گانوں کے بھیس میں کن کن ممالک میں پہنچ چکی ہے؟ یہ واقعہ ہے کہ اردو کی جتنی تبلیغ غیر ارادی طور پر آپ نے کی ہے اردو کے کسی مبلغ یا اردو کے کسی تبلیغی ادارے سے ممکن نہ ہو سکی۔ ہندوستان میں تو خیر گلگلوں سے پرہیز کرنے والے بھی یہ گڑ کھاتے رہتے ہیں مگر ہندوستان اور پاکستان سے باہر بھی اردو نہ سمجھنے والے بھی یہ گنگناتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ؎
شمع پر آ کر گرتے ہیں کیوں جل جل کر پروانے
مر کر جینا جی کر مرنا پگلے تو کیا جانے ۔۔۔ بلما جا جا جا
۔۔۔ مکتوب یہیں تک پہنچا تھا کہ ریڈیو سے آپ کا نغمہ ابھر کر فضا پر چھا گیا۔ لہذا اب میں بھی ایک تازہ پان کھا کر آپ سے باتیں کرنے کے بجائے آپ کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ معلوم نہیں آپ پان کھاتی ہیں یا نہیں مگر میں بغیر پان کھائے آپ کا گانا سننا ایک قسم کی گستاخی سمجھتا ہوں۔ ایک معطر گلوری منہ میں ہو اور کانوں میں آپ کی آواز کا رس انڈل رہا ہو تو اس دو آشتہ کا کیف مجھ کو واقعی گم کر دیتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ کو نہ ڈھونڈے۔

کرنل شفیق الرحمن کے نام
گڑھی شاہو، لاہور۔
شفیقِ مکرم!
آپ کا تصور پیدا کرنے کے لیے عجیب اجتماعِ ضدین محدودِ تخیل کرنا پڑتا ہے۔ ادب اور فوج، تھرمامیٹر اور وردی، ذوقِ سلیم اور کورٹ مارشل، مزاحِ لطیف اور کوئک مارچ۔ اور مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ایک میز پر قلم، ریوالور اور تھرمامیٹر تین مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ان تینوں کو اگر طبِ یونانی کے ماہروں کی اصطلاح میں "سائیدہ حل کردہ" کی کیفیات سے گذارا جائے تو یہ تینوں مل کر ایک شفیق الرحمن پیدا کر دیں گی اور پھر میں اس شفیق الرحمن سے پوچھوں گا کہ ؎
تم اہل صفا اہل رضا اہل وفا ہو
سب کے لیے سب کچھ سہی میرے لیے کیا ہو
مجھے آپ سے ایک تعلقِ خاطر ضرور ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سن لیجیے کہ میرا دل نہ تو چھاؤنی ہے کہ اس میں آپ وردی پہن کر قواعد کرتے پھریں۔ نہ یہ کوئی فوجی اسپتال ہے کہ اس میں جناب والا میرے ارمانوں کو "رنگروٹ" سمجھ کر ان کا بلڈ پریشر دیکھتے رہیں۔ میرے دل میں صرف اس شفیق الرحمن کی جگہ ہے جو اردو کا بڑا ہی پیارا صاحبِ طرز انشا پرداز ہے۔
۔۔۔ جب کبھی اور جہاں کہیں آپ سے ملاقات ہوئی آپ سے مل کر وہی لطف آیا جو آپ کو پڑھ کر آتا ہے۔ آپ کی ایک ہی زندگی میں خواہ کتنی ہی مختلف زندگیاں کیوں نہ ہوں مگر آپ کی مجلسی گفتگو اور ادبی تحریروں میں عجیب یک رنگی ہے اور میرا مطالعہ یہ ہے کہ آپ کے یہاں جو دل میں ہے وہی زبان پر ہے اور جو زبان پر ہے وہی کاغذ پر بھی آتا ہے۔ آپ کی تحریروں کے خلوص کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپ میں ادبی دیانت غیرارادی طور پر موجود ہے اور یہی آپ کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔

***
نام کتاب: بارِ خاطر
مصنف: شوکت تھانوی
تعداد صفحات: 311
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 14 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
baare-khatir-shaukat-thanvi.pdf

Direct Download link:
https://archive.org/download/baar-e-khatir-shaukat-thanvi/baar-e-khatir-shaukat-thanvi.pdf

بارِ خاطر - از: شوکت تھانوی :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1دیباچہ7
2سید امتیاز علی تاج9
3حفیظ جالندھری31
4حفیظ ہوشیارپوری42
5عابد علی عابد51
6حضرت جگر مرادآبادی60
7عشرت رحمانی68
8فضل احمد کریم صاحب فضلی78
9سید محمد جعفری86
10مولانا ابوالکلام آزاد91
11راز مرادآبادی101
12پنڈت آنند نرائن ملا106
13بابائے اردو117
14بہزاد لکھنؤی127
15ارشد تھانوی132
16محمود نظامی137
17مجید لاہوری142
18پنڈت جواہر لال نہرو147
19صوفی غلام مصطفی تبسم152
20مولانا عبدالماجد دریابادی157
21صباح الدین عمر167
22لتا منگیشکر172
23حکیم محمد امین177
24حضرت تسکین قریشی182
25نسیم ممتاز سید187
26مولوی عبدالرؤف عباسی192
27مولانا نیاز فتح پوری197
28سید ذوالفقار علی بخاری202
29ڈاکٹر عبادت بریلوی207
30پروفیسر وقار عظیم212
31کرنل شفیق الرحمن217
32میجر منان اللہ بیگ222
33میر عزت حسین227
34مولانا عبدالمجید سالک232
35ساغر نظامی237
36اقبال صفی پوری242
37پروفیسر مسعود حسن ادیب247
38حاجی محمد اصطفی خاں252
39امین سلونوی257
40کنور مہندر سنگھ بیدی 262
41ظریف جبلپوری267
42پنڈت ہری چند اختر272
43نواب مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنؤی277
44سراج لکھنؤی282
45فیض احمد فیص287
46شکیل بدایونی292
47احمد ندیم قاسمی302
48شوکت تھانوی307

Baar-e-Khatir, a collection of Urdu humorous letters by Shaukat Thanvi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں