ساحر لدھیانوی پر مجروح سلطان پوری کے اعتراضات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-13

ساحر لدھیانوی پر مجروح سلطان پوری کے اعتراضات

sahir-majrooh-janisar
مشہور و مقبول شاعر ساحر لدھیانوی کا انتقال 25/اکتوبر 1980ء کو بعمر 59 سال ہوا تھا۔ ان کی وفات کے تقریباً 6 سال بعد ماہنامہ "شمع" شمارہ: ستمبر:1986 میں مجروح سلطان پوری کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں مجروح نے انکشاف کیا کہ ساحر نے مجروح اور جانثار اختر کے متعدد گیت فلموں میں اپنے نام سے پیش کیے۔ اس حیرت انگیز انکشاف پر "شمع" کے بعد کے شماروں میں قارئین اور فلمی شخصیات کا سخت ردعمل شائع ہوا۔ اسی ضمن میں نوشاد اور حسرت جےپوری کے مراسلات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ واضح رہے کہ ساحر اور مجروح کی ادبی اور کاروباری چشمک سے بمبئی کی فلم انڈسٹری بخوبی واقف رہی ہے۔

شمع کے ایک قاری ایم۔اے۔واجد (نظام آباد، تلنگانہ) شمارہ: اکتوبر-1986 میں شائع شدہ اپنے خط میں لکھتے ہیں ۔۔۔

مجروح سلطان پوری نے عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کے بارے میں مجروح کن اور حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔ جبکہ ساحر کے بارے میں جاں نثار اختر نے لکھا تھا:
"یہ حقیقت ہے کہ ساحر کے گیتوں کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا ترقی پسندانہ مواد ہے۔ وہ ایک بیدار و پختہ شعور لے کر فلمی دنیا میں داخل ہوا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ساحر کا یہ کارنامہ ہے کہ اس نے فلموں کو ایسے گیت دئے جو سیاسی اور سماجی شعور سے لبریز ہیں۔ یہ ایک بڑا قدم ہے جو ساحر نے بڑی دلیری سے اٹھایا۔ وہ ہمارے دوسرے شاعروں کی طرح فلمی دنیا کی گندگی میں ڈوب کر نہیں رہ گیا، بلکہ اس نے اپنے قلم کی قوت سے فلمی گیتوں کو اگر ایک طرف حسن کی لطافت، نزاکت، عشق کا درد اور کسک بخشی تو دوسری طرف سماجی مادی اور اقتصادی شعور دیا۔ اس نے نہ خود کو دھوکہ دیا، نہ اپنے فن کو اور نہ عوام کو۔"


شمع کے ایک اور قاری افتخار احمد (ممبرا، تھانے) شمارہ: اکتوبر-1986 میں شائع شدہ اپنے خط میں لکھتے ہیں ۔۔۔

ستمبر-1986 کے شمع میں مجروح صاحب نے جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں انہیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ جاننا ہوگا کہ ان گیتوں میں سے کتنے جاں نثار اختر نے لکھے تھے اور کتنے مجروح نے؟ تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ الزام تراشی ایک ایسے شخص نے کی ہے جس کا اپنا دامن چوری کے گناہ سے پاک نہیں ہے۔
"آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا" ۔۔ یہ مصرع قتیل شفائی کا ہے، مگر مجروح نے اسے فلم "آرتی" میں استعمال کیا۔
"تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے" ۔۔ یہ مصرع فیض احمد فیض کا ہے۔ اسے بھی مجروح نے اپنے ایک گیت میں استعمال کیا ہے۔ طلعت محمود کی آواز میں مشہور گیت جو مجروح نے لکھا ہے:
"اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو"
دراصل غالب کے اس مصرع سے استفادہ ہے:
"رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو"
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ انکشافات اس وقت کیوں سامنے نہیں آئے جب ساحر لدھیانوی اور جاں نثار اختر زندہ تھے؟ بہرحال مجروح صاحب لاکھ انکشافات کرتے رہیں لیکن ۔۔۔ تاج محل، چکلے، خوبصورت موڑ اور کبھی کبھی جیسی نظموں کا خالق ساحر لدھیانوی ہم نوجوانوں میں مقبول تھا، مقبول ہے اور مقبول رہے گا۔


شمع کے شمارہ: دسمبر-1986 کے کالم "بازگشت" میں شائع شدہ اپنے مکتوب میں عظیم موسیقار نوشاد علی لکھتے ہیں ۔۔۔

شمع میں بازگشت کالم کے تحت کچھ مہینے سے ایسے خطوط شائع ہو رہے ہیں جن میں میرے تین دوستوں مجروح سلطان پوری (جو نہ صرف میرے دوست بلکہ عزیز بھی ہیں)، ساحر مرحوم اور جاں نثار اختر مرحوم کا ذکر ہوتا ہے۔
مجروح صاحب فلموں میں میری دریافت ہیں (فلم "شاہ جہاں")۔ ساحر مرحوم کے ساتھ میرا دو فلموں "لیڈر" اور "چانکیہ چندر گپت" میں اشتراک ہونے والا تھا مگر میری بدقسمتی کہ ہم دونوں ایک ساتھ کام نہ کر سکے۔
ساحر لدھیانوی بلاشبہ ایک عظیم شاعر تھے۔ جاں نثار اختر مرحوم تو میرے بہت ہی گہرے دوست تھے۔ ان سے نہ صرف فلموں کا تعلق تھا، بلکہ ہم ایک ایسے برادرانہ رشتے سے بندھے ہوئے تھے جس کا تذکرہ اس مختصر سے خط میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت تو صرف ان تینوں ہستیوں کے بارے میں چھڑی ہوئی بحث کے سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔


میں کرشن چندر مرحوم کی کہانی پر بننے والی فلم "چنبل کی رانی" کی موسیقی دے رہا تھا۔ فلم کی تکمیل کے دوران جاں نثار اختر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ فلم کے دو گانے باقی رہ گئے تھے۔ مجروح صاحب اس موقع پر آگے بڑھے اور انہوں نے باقی دو گانے لکھے اور ان کا معاوضہ جاں نثار اختر کی بیوی کو دلوایا۔ یہی نہیں، انہوں نے نہ تو پردۂ فلم پر اپنا نام دیا اور نہ گیتوں کے ریکارڈز پر۔


دوسرا واقعہ یہ کہ میں فلم "انداز" (1949ء) کی موسیقی ترتیب دے رہا تھا۔ اس فلم کے ایک مشہور زمانہ گیت "جھوم جھوم کے ناچو آج گاؤ خوشی کے گیت، آج کسی کی ہار ہوئی ہے آج کسی کی جیت" کا یہ مکھڑا پریم دھون کی اس نظم کا حصہ تھا جو ملک کی آزادی کے موقع پر بمبئی کے تاج محل ہوٹل میں ایک مشاعرے میں سنائی گئی تھی۔ پریم دھون اور مجروح صاحب گہرے دوست تھے اور آج بھی ہیں۔ جب فلم "انداز" میں مذکورہ گیت کی سجویشن نکلی تو یقیناً دونوں دوستوں نے تبادلۂ خیال کیا ہوگا۔ پریم دھون نے مجروح صاحب سے اصرار کیا کہ وہ یہ مکھڑا اپنے گیت کے لیے لے لیں اور مجروح صاحب نے وہ مکھڑا لے لیا۔ یہ پریم دھون کی عظمت ہے کہ یہ بات آج تک انہوں نے نہ کسی سے کہی اور نہ کہیں لکھی۔


ایک زمانہ میں شکیل بدایونی صاحب، خمار بارہ بنکوی صاحب اور مجروح صاحب میرے ساتھ میرے غریب خانے پر رہتے تھے۔ شکیل صاحب میرے لیے گیت لکھتے مگر تبادلۂ خیال میں تینوں شعرا بیٹھتے اور گیت کو سجانے سنوارنے میں نہ صرف مشورے دیتے بلکہ اکثر ایسا بھی ہوا کہ کسی نے گیت کا کوئی مصرع بھی کہہ کر دے دیا۔
جن دنوں شکیل صاحب علیل تھے، ان دنوں اکثر مجروح صاحب نے میرا ہاتھ بٹایا، لیکن نام شکیل صاحب کا رہا۔ ساحر اور جاں نثار بہت گہرے دوست تھے۔ جاں نثار کا کافی وقت میرے ساتھ بھی بیتتا تھا، مگر انہوں نے زندگی بھر یہ کبھی نہیں کہا کہ انہوں نے ساحر کے لیے کوئی گیت لکھا ہو۔


جاں نثار اختر کیسے شاعر تھے، اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔
سہراب مودی مرحوم "پکار" کا ری-میک بنا رہے تھے۔ جہانگیر کو اپنی بیگم نورجہاں کے ہاتھوں ہونے والے خون کے مقدمے کا فیصلہ سنانا ہے۔ جہانگیر پریشان ہے۔ رات بھر اس کو نیند نہیں آتی۔ اس سچویشن پر میں ایک گیت سوچ رہا تھا۔ جاں نثار میرے پاس بیٹھے تھے، میں نے آرزو لکھنوی کا یہ مصرع "میں کس کا پیار نبھاؤں، اور کیسے پیار نبھاؤں" پڑھا اور جاں نثار اختر کو گیت کی سچویشن بتائی۔
انہوں نے گرہ لگائی: "عشق بھی جنت فرض بھی، کعبہ ڈھاؤں تو کس کو ڈھاؤں"۔
جاں نثار اختر نے بلاشبہ ایسی گرہ لگائی تھی کہ میں مبہوت رہ گیا اور اسی وقت مودی صاحب کو فون پر اطلاع دی کہ فلم "پکار" کے گیت جاں نثار اختر لکھیں گے۔


شمع کے شمارہ: دسمبر-1986 کے کالم "بازگشت" میں شائع شدہ اپنے مکتوب میں حسرت جےپوری لکھتے ہیں ۔۔۔

مجروح صاحب میرے لیے قابل احترام ہیں۔ جگر مرادآبادی کے بعد میں نے مجروح صاحب کو اکثر اپنی غزلیں دکھا کر ان کی قیمتی رائے لی ہے اور آج بھی لیتا ہوں۔ کچھ ایسی ہی بات جاں نثار بھائی کے ساتھ بھی تھی۔ میں کوئی نئی غزل یا نظم کہتا تو جاں نثار کو ضرور دکھاتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ وہ غزل مجھے مجروح صاحب نے یا جاں نثار صاحب نے دی ہو۔


ساحر اور جاں نثار گہرے دوست تھے۔ ایک زمانہ میں باندرہ میں جاں نثار اور میں پڑوسی تھے۔ ساحر اکثر ان کے گھر آتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب فلم "برسات کی رات" (مدھو بالا، بھارت بھوشن) بن رہی تھی، تو اس فلم کے لیے ساحر نے ایک طویل قوالی لکھی تھی۔ قوالی لکھنے کے بعد ساحر میری موجودگی میں جاں نثار کے پاس آئے اور انہیں قوالی سنائی۔ جاں نثار نے قوالی کی بےحد تعریف کی اور ساحر سے کہا: "آپ نے لاجواب قوالی لکھی ہے۔ روشن (موسیقار) سے کہو کہ اسے ریکارڈ کر لیں۔"
اپنی کوئی تخلیق اپنے کسی دوست کو دکھانا اور مشورہ لینا ایک روایت ہے۔ اس کے معنی یہ تو نہیں ہوئے کہ وہ قوالی جاں نثار نے لکھ کر ساحر کو دی ہو۔


ساحر اپنے رنگ کے منفرد شاعر تھے۔ اور یہ رنگ جاں نثار میں نہیں تھا۔ دونوں کے کہنے کا انداز جدا تھا۔ ساحر نہ صرف باکمال شاعر تھے بلکہ بڑے غیور انسان بھی تھے۔ زندگی بھر وہ موسیقاروں کے سامنے نہیں جھکے بلکہ اپنی بات منوائی۔ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ایسا انسان اپنے کسی شاعر دوست کے کلام کو اپنے نام سے پیش کرے۔


جب میں اور شیلندر ایک ساتھ کام کرتے تھے تو ہم دونوں اکثر ایک دوسرے سے مشورہ کرتے تھے۔ وہ اپنا گیت مجھے سناتے اور میں انہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ تو نہیں نکلتا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے گیت کہتے تھے۔ شیلندر کا اپنا انداز تھا اور میرا اپنا۔ اسی طرح ساحر کی شاعری میں جو رنگ تھا وہ ہمیں جاں نثار کی شاعری میں نہیں ملتا۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جو شاعری ساحر کر گئے وہ جاں نثار نہیں کر سکے۔ غالب کے اس شعر پر بات مکمل کروں گا:
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے


***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (دسمبر-1986) ، کالم 'بازگشت'۔

When Majrooh Sultanpuri blames Sahir Ludhianvi for plagiarism.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں