شاہ رخ خاں - فلموں کا جنٹل مین سپر اسٹار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-30

شاہ رخ خاں - فلموں کا جنٹل مین سپر اسٹار

shah-rukh-khan-gentleman-star
شاہ رخ خاں (پیدائش: 2/نومبر 1965ء، نئی دہلی)
بالی ووڈ فلمی صنعت کے ایسے منفرد سپر اسٹار ہیں جو اپنے فن کے ذریعے تقریباً تین دہائیوں سے لاکھوں فلمی شائقین کے دلوں کی دھڑکن بنے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے فرزند آریان خان کی منشیات کیس میں گرفتاری کے باعث میڈیا کی سرخیوں میں ان کا نام نمایاں رہا۔ ان کے 56 ویں یوم پیدائش پر کتاب "ہندوستانی فلموں کا آغاز و ارتقا" سے ماخوذ ایک مضمون پیش خدمت ہے۔

شاہ رخ خان کی پیدائش 2/نومبر 1965ء (نئی دہلی) کی ہے۔ ان کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی دور نئی دہلی میں بسر ہوا۔ اکنامکس کے طالب علم تھے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ماس کمیونکیشن سے انھوں نے ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ انھوں نے دریا گنج دہلی میں ایک ریسٹورنٹ بھی چلایا اور مٹی کا تیل بھی بیچا۔


شاہ رخ خان کا تعلق بھی دلیپ کمار اور راج کپور کی طرح پشاور سے رہا۔ ان کے والد تاج محمد جنگ آزادی کے مجاہد تھے۔ ان کا نام کم عمرفریڈم فائٹرس میں سرفہرست رہا۔ آزادی ملتے ہی 1947ء میں وہ ہندوستان آ گئے اور دہلی میں رہائش پذیر ہو گئے۔ 1942ء میں جب لاہور کے ایک اسکول میں تاج محمد 12 ویں کلاس
کے طالب علم تھے تو انہوں نے 'بھارت چھوڑ دو' تحریک میں حصہ لیا اور انگریزوں کے خلاف نعرے اور تقریر کرنے کے جرم میں گرفتار کر لئے گئے۔ شاہ رخ کے چچا غلام محمد کا خاندان ابھی بھی پشاور کے قصبہ خوانی بازار کے اسی مکان میں رہتا ہے۔ شولی تل علاقے کا وہ پشتینی مکان ماضی کی یادگار ہے اور شاہ رخ کو اس پر فخر ہے۔ شاہ رخ کے بہنوئی نے اپنے بڑے بیٹے کا نام شاہ رخ خان ہی رکھا ہے۔ والد تاج محمد گاندھی وادی ضرور تھے لیکن انقلابیوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ کھودی رام ہوس، سبھاش چندر ہوس، بھگت سنگھ کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد ان کے نزدیک قابل تعظیم شخصیات تھیں۔


شاہ رخ خاں - یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
کنگ خان شاہ رخ خاں کی فلموں کا باکس آفس تجزیہ
ہم اداکار نہیں بازار ہیں - شاہ رخ خاں
شاہ رخ خاں - بالی ووڈ فلموں کا لاثانی دیوانہ
شاہ رخ خان بونے کے کردار میں - فلم کا نام زیرو

شاہ رخ کا رجحان طالب علمی سے ہی فنون لطیفہ کی جانب تھا۔ اسکول اور کالج کے اسٹیج پر پرفارم کرتے تھے اور اپنی بیوی گوری چھبر سے عشق بھی۔ بی عشق اس جوانی کی اٹھان کا جنون خیز عشق تھا جب وہ 19 سال کے اور گوری محض سولہ سال کی تھیں۔
2005ء میں برطانیہ کی صحافی خاتون نسرین منی کبیر نے
Shah Rukh Khan's inner outer world
کے عنوان سے ایک دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ اس فلم کے مطابق 19 سال کی عمر میں پہلی بار 14 سالہ گوری چھبر سے ملے تو عشق کے دیوتا کیوپڈ نے دونوں کو احساس دلایا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں۔ تب شاہ رخ خاں اکونومکس کے طالب علم تھے اور گوری تاریخ کی طالبہ۔ شاہ رخ کا مضمون نہ ہوتے ہوئے بھی وہ تاریخ کے نوٹس تیار کر کے گوری کو دیتے کہ کچھ تو بہر ملاقات چاہیے۔ شاہ رخ کچھ اور Possitive ہوئے تو گوری نے فاصلے بڑھا دئے کہ حسن کا یہ بھی ایک انداز ہے دیوانہ بنا دینے کا۔ یہ سلسلہ دو سال تک قائم رہا۔ والد اور والدہ انتقال کر چکے تھے۔ مذہب کی کوئی آڑ اور رسم و رواج کی پابندیاں دیوانگی کے آگے ہمیشہ ریت کی دیواریں ثابت ہوتی رہی ہیں۔ گوری جب 21 سال کی ہو گئی تو دونوں نے گوری کے والدین کی رضا مندی سے ہندو رسم و رواج کے مطابق 25/ اکتوبر 1991ء کو شادی کر لی۔ پھر بعد میں سول میرج بھی ہو گئی۔ شاہ رخ پہلے گھوڑی پر اور پھر ہاتھی پر چڑھ کر سسرال گئے تھے۔ اس دستاویزی فلم کے مطابق شاہ رخ اتنے خوش تھے کہ ایک کلومیٹر تک خود بھی ناچتے ہوئے گئے تھے۔


اپنی شادی سے قبل انھوں نے ٹی وی سیریلس سے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا آغاز کیا تھا۔ نیشنل چینل تب سب سے پہلے اور فعال چینل ہوا کرتا تھا۔ انہیں سب سے پہلے بریک ٹی وی سیریل "دل دریا" (ہدایت : لیکھ ٹنڈن) میں ملا لیکن سکھ نوجوان کا رول ہونے کی وجہ سے کوئی انہیں پہچان نہیں سکا۔ اس سے بھی قبل انھیں شنکر ناگ کے مشہور سیریل "واگلے کی دنیا" میں دیکھا گیا تھا۔ اس میں وہ صرف چند سکنڈ کے لئے آتے تھے جس کا معاوضہ انہیں پانچ سو روپے فی ایپی سوڈ ملتا تھا۔


اس کے بعد عزیز مرزا کا سیریل "سرکس" اور لیکھ ٹنڈن کے سیریل "دوسرا کیول" میں شاہ رخ خان کی پہچان قائم ہوئی۔ شادی کے بعد بالی ووڈ نے انھیں اپنی جانب راغب کر لیا۔ پہلی بار منی کول کی فلم "ایڈیٹ" (1991ء) میں انھیں مرکزی کردار ملا مگر فلم ناکام رہی۔ اسی سال ہیمامالنی نے اپنی فلم 'دل آشنا ہے' میں انھیں موقع دیا لیکن بات نہیں بنی۔ شاہ رخ کے سامنے فن اداکاری کا ایک سمندر موجزن تھا۔ انھوں نے اس سمندر سے ایک نایاب موتی منتخب کیا اس موتی کو اپنی صلاحیت کے گلے میں تعویز کی مانند پہن لیا۔
اور یوں 1992ء میں جب ان کی فلم "دیوانہ" ریلیز ہوئی تو ایک نوعمر دلیپ کمار، شاہ رخ کے وجود میں پردۂ فلم پر منعکس ہوا تھا۔ قلم کامیاب ہوئی تو شاہ رخ میں اعتماد آ گیا مگر انہیں کسی کی کاربن کاپی بننا منظور نہیں ہوا۔ بہت غور کے بعد انھوں نے اپنی ایک کمزوری کو اپنی خوبی میں بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔ آغاز میں وہ بہت نروس ایکٹر تھے۔ کیمرے کا سامنا کرتے ہی ہکلانے لگتے تھے۔ یہی لکنت ان کی آئیندہ فلموں کی کامیابی کی ضامن بنی۔ لوگ ان کی اس کمزور سی خوبی کے دیوانے ہو گئے اور وہ خود کو بہت آسانی مگر ذہانت کے ساتھ کاربن کاپی بنانے سے بچ نکلے اور پھر کسی نے ان پر دلیپ کمار کی پرچھائیں ہونے کا الزام نہیں لگایا۔


1992ء میں ہی "چمتکار"، "راجو بن گیا جنٹل مین" اور "مایا میم صاب" ریلیز ہوئیں۔ عزیز مرزا نے "راجو بن گیا۔۔۔" کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا تھا۔ 1993 میں کنگ انکل کوئی خاص تاثر نہ چھوڑ پائی۔ اسی سال یش چوپڑہ کی فلم "ڈر" اور عباس مستان کی فلم "بازی گر" نے شاہ رخ کو اپنے ایک ایک پرستار کے نزدیک کر دیا۔ نگیٹو ہوتے ہوئے بھی شاہ رخ کو ہیرو شپ کا وہ منصب ملا جس پر وہ آج بھی بڑی آن اور شان سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی سال ان کی فلم "کبھی ہاں کبھی ناں" نرم گئی۔ 1994ء میں "بازیگر" کے کردار کو فلم "انجام" میں انہوں نے پھر دہرایا۔ مگر 1995 میں راکیش روشن کی فلم "کرن ارجن" میں سلمان خان کے مقابل انہوں نے اپنے بھرپور اداکارانہ کمالات کا مظاہرہ کیا اور یہیں سے ان کی جوڑی کاجول کے ساتھ ہٹ مان لی گئی۔
1995 میں ان کی چھ (6) فلمیں ریلیز ہوئیں۔ زمانہ دیوانہ، اوہ ڈارلنگ یہ ہے انڈیا، گڈو، دل والے دلہنیا لے جائیں گے، رام جانے اور تریمورتی۔
ان میں سے پانچ فلمیں ناکام رہیں لیکن "دل والے دلہنیا لے جائیں گے" کی زبردست کامیابی نے پانچ فلموں کی ناکامی کا داغ دھو دیا اور شاہ رخ ہر نوجوان لڑکے اور ہر نوعمر لڑکی کا آدرش بن گئے۔


یش چوپڑہ کی "محبتیں" سے ان کا ساتھ امیتابھ بچن سے ہوا جو "کبھی خوشی کبھی غم" سے فلم "کبھی الودع نہ کہنا" تک قائم رہا ہے۔ وہ امیتابھ بچن کی بے حد عزت کرتے ہیں کہ وہ ان کے نہ صرف سینئر بلکہ بہترین اداکار ہیں یہاں تک کہ انہوں نے امیتابھ کی گزشتہ دور کی لاجواب فلم "ڈان"۔ (ہدایت : چندر باروٹ 1978ء) کی ری میک فلم "ڈان" (ہدایت : فرحان اختر 2006ء) میں امیتابھ کا Challenging رول بہت اعتماد سے ادا کیا۔
اسی طرح وہ دلیپ کمار کے بھی بڑے پرستار ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کی قدم بوسی کو اپنی سعادت مانتے ہیں۔ فلم "دیوداس" (1952ء ہدایت: بمل رائے) کو جب سنجے لیلا بھنسالی نے دوبارہ بنایا تو شاہ رخ خاں نے عقیدتاً "دیوداس" بننا قبول کیا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ دونوں فلموں میں وہ فن کی کسوٹی پر کھرے نہیں اترے۔ انھوں نے اپنا فلمی ادارہ بھی قائم کیا جس کے تحت "ون ٹو کا فور" ، "پھر بھی دل ہے ہندوستانی" اور "پہیلی" جیسی فلمیں بنائیں مگر فلم سازی انہیں نہ تو راس آئی اور فلمی معیار قائم کر پائی۔


شاہ رخ بہت منکسر المزاج اداکار ہیں ۔ غرور کا دور تک نام و نشان نہیں ملتا، کبھی کسی اسکینڈل میں ان کا نام نہیں لیا گیا۔ ان کی بیوی ان کی محبوبہ بھی ہے اور بچے ان کی کامیاب زندگی کا لازم حصہ ہیں۔ وہ عجیب اداکار ہیں جو 50 کروڑ کے بنگلے میں رہ کر، ہندوستان کی فلم صنعت کے سب سے بڑے اداکار اور کنگ خان کا مرعوب کن لقب پا کر بھی کہتے ہیں کہ وہ بچوں سے اداکاری سیکھتے ہیں اور ان کے پالتو کتے ان کے سب سے بھروسے مند مدرس ہیں۔


دسمبر 1997 میں کولمبو میں گرینیڈ حملے میں بال بال بچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچوں کا مقدر انہیں زندہ رکھنے کا باعث بنا۔ اسی سال انھیں انڈر ورلڈ سے جب جان سے مارنے کی دھمکی ملی تو وہ چند دنوں گھر تک محدود ہے لیکن پھر خوف کو پس پشت ڈال دیا۔ اور مہیش بھٹ کی فلم "بلیک کیٹ" کی شوٹنگ میں مصروف ہو گئے جو کھلی سڑکوں پر ہوتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خطرے بے حد رومانٹک ہوتے ہیں اور ایڈونچر بھی۔


درمیانہ قد، اوسط شکل و صورت، معمولی آواز کے مالک شاہ رخ میں کوئی ایسی ان چھوئی خوبی نہیں تھی جو اسے دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور مضبوط فلم انڈسٹری کا بے تاج بادشاہ بنا دیتی مگر مقدر کی راہوں پر شاہ رخ نے اپنی فنکارانہ جہد سے کامیاب سفر طے کیا اور آج وہ اس مقام پر آ ٹھہرے ہیں جہاں دور دور تک کوئی ان کا مقابل نہیں ہے۔
یہ ویسا ہی دور ہے جو بیسویں صدی کی 50 اور 60 کی دہائی میں دلیپ کمار، راج کپور اور دیوآنند کا دور تھا۔ وہ تینوں کبھی بھی ایک دوسرے کے مقابل نہیں رہے اور اس دور میں شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان ایک دوسرے کے مقابل ہوتے ہوئے بھی اپنی اپنی راہوں کے کامیاب ہم سفر ہیں اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ ان میں ایک چوتھا خان بھی شامل ہے سیف علی خان، جو بہت توازن سے اپنا چوتھا مقام پائے بنا کامیابی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ 50 اور 60 کی دہائی میں بھی چوتھے کمار، اشوک کمار کو بھی چوتھا مقام نہیں ملا تھا۔ شاید اس لئے وہ سینئر تھے۔ فرق اتنا ہے کہ اس دور میں سیف علی خان جونیئر ہیں۔


امریکی میگزین فوربس کے مطابق شاہ رخ خاں آج دنیا کے سب سے مقبول ستاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی گنتی ہالی ووڈ کے سپراسٹار ٹام کروز کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اسی طرح لندن کے میگزین دی گارجین کے سروے کے مطابق انہیں ورلڈ سنیما کا ممتاز ترین اداکار مانا گیا ہے۔
کنگ خان یعنی بادشاہ خان بلاشبہ ایک منفرد اداکار ہیں۔ انہیں یہ اعزاد ملنا ہندوستانی سنیما کا اعزاز ہے۔ فنِ اداکاری کا اعزاز ہے۔ شاہ رخ خاں کو اب مڑ کر دیکھنے اور ٹھہر کر سوچنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اس مقام سے بہت آگے نکل چکے ہیں جہاں روشنی سورج کی نہیں، سورج روشنی کا طلبگار ہوتا ہے!

شاہ رخ خاں کے چند یادگار فلمی نغمے:
کوئی نہ کوئی چاہیے پیار کرنے والا (فلم: دیوانہ-1992)
تجھ میں رب دکھتا ہے (فلم: رب نے بنا دی جوڑی - 2008)
بازیگر او بازیگر، تو ہے بڑا جادوگر (فلم: بازیگر - 1993)
چل چھیاں چھیاں (فلم: دل سے ۔۔۔1998)
سینے میں دل ہے ، دل میں ہے دھڑکن (فلم: راجو بن گیا جنٹلمین-1992)

***
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی فلم کا آغاز و ارتقا (1913 تا 2013ء)
مولف: ڈاکٹر الف انصاری

Shah Rukh Khan, Bollywood's gentleman star.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں