دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2025-06-06

دینی مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹی کے نظام میں اردو درس و تدریس

urdu-teaching-studying-university-level-madrasa-students

اس تحریر کا مقصد دینی مدارس کے نصاب میں کسی تبدیلی کا مشورہ دینا ہرگز نہیں ہے کہ یہ حق ان مدارس کے ذمے داران اور اکابرین امت کا ہے۔ اس مضمون کا موضوع دینی مدارس کے ان فارغین تک محدود ہے جو مدرسے سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملحقہ کالجوں میں بی اے کے پروگرام میں اردو ادب کو ایک اختیاری مضمون کے طور پر لے کر یا پھر کسی یونی ورسٹی سے براہ راست اردو ادب میں ایم اے کرنے کے لیے مدارس کی اسناد کی بنیاد پر داخلہ لینے کے مجاز ہوتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی اکثریت پھر اردو ادب میں ہی پی ایچ ڈی بھی کرتی ہے۔
ہندوستان کی دانش گاہوں کے اردو شعبوں میں اب چوں کہ طلبہ اور اساتذہ دونوں میں اکثریت دینی مدارس کے فارغین کی ہے، اس لیے، یہ موضوع اول تو اس لیے بحث طلب ہے کہ ابھی تک اس موضوع پر کوئی سنجیدہ گفتگو ہوئی ہی نہیں ہے۔ دوسرے ان فارغین کے مستقبل سے دل چسپی رکھنے والے ہی نہیں بلکہ اردو ادب کے خلقیے سے وابستہ نیک طینت حضرات بھی دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کی اس طرز پر اردو ادب سے وابستگی کے سوال کو لے کر جائز طور پر متعدد خدشات میں مبتلا ہیں۔ نیک طینت حضرات ان فارغین کے مستقبل سے وابستہ سوال کو اس لیے بھی اٹھاتے ہیں کیوں کہ وہ بجاطور پر ان کے لیے بہتر مستقبل کے خواہاں ہیں۔
یونی ورسٹی کے نظام میں دینی مدارس کے فارغین کی اکثریت کے لیے روزگار کے امکانات اردو ادب کے علاوہ دیگر مضامین میں تقریباً نہیں کے برابر ہیں، اس لیے، اردو ہی ان کی واحد پناہ گاہ ہوتی ہے۔ اردو کے علاوہ باقی تمام مضامین۔۔۔ عربی، فارسی اور دینیات جس میں دینی مدارس کے لیے طلبہ کو بی اے یا ایم اے میں داخلہ مل سکتا ہے، میں یونی ورسٹیوں میں اسامیاں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس لیے، آخرش ان طلبہ کا رخ اردو ہی کی طرف ہوتا ہے جہاں نوکری آسان اور مواقع کہیں زیادہ موجود ہیں۔ اس کے باوجود جتنی بڑی تعداد میں ہر سال دینی مدارس سے طلبہ فارغ ہوتے ہیں ان کی اکثریت کو یا تو کسی دینی مدرسے میں مدرس کی نوکری کرنی پڑتی ہے یا پھر کسی مسجد میں موذن یا امام بننے کے علاوہ ان کے سامنے روزگار کے مواقع نہیں کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ زاویہ بھی مگر یہاں زیر بحث نہیں ہے۔
دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد کی بغیر کسی تیاری کے اردو ادب میں اعلا سطح پر داخل ہونے کی تشویش کے مکمل طور پر درست ہونے کے باوجود بھی اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے فارغین کو یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں داخلہ نہ دیا جائے بلکہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے یہ فارغین یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں بہ حیثیت طلبہ اس تیاری کے ساتھ کیسے داخل ہوں کہ ان کے اندر نہ صرف اردو ادب پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے بلکہ وہ اس کے خُلقیے سے بھی واقف ہو جائیں، اور ان کے ذریعے کیا جانے والا علمی کام اردو ادب کا اعلا معیاری کام ہو۔ نیز اردو ادب کی تعلیم کی جلوہ گری ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دے۔
ادب اور سماجی علوم آدمی کو بہتر اور سوچنے والی روح میں تبدیل کر دیتے ہیں مگر دینی مدارس میں اردو اور سماجی علوم تو کیا عربی ادب بھی، جو دنیا کا عظیم ترین ادب ہے، براے نام ہی پڑھایا جاتا ہے۔


جدید طرز کے نظام تعلیم میں کسی بھی زبان کا نصاب پہلی کلاس سے ہی اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ متعلقہ زبان کا ادب اس نصاب کا جزو لاینفک ہوتا ہے۔ اردو میں اب بچوں کا ادب ہی ناپید ہو گیا ہے جب کہ وہ زبانیں جن کے نصاب کو معیاری تصور کیا جاتا ہے خصوصاً انگریزی میں۔۔۔ بچوں کا ادب چوں کہ نہایت ثروت مند اور وسیع الجہات ہے، اس لیے، انگریزی کا نصاب بھی بہت موثر ہے۔ ایسی صورت میں بی اے میں پہلی بار اردو ادب پڑھنے والا وہ طالب علم جس نے اس سے پہلے دینیات کے ایک حصے کو اردو تراجم کے ذریعے پڑھا ہے، وہ براہ راست بی اے کی سطح کا نصاب پڑھنے کا اہل ہو ہی نہیں ہو سکتا چہ جائیکہ اسے ایم اے اردو ادب میں داخلہ دے دیا جائے۔
ہر ادب کا مخصوص کلچر ہوتا ہے جس کا تعلق اس معاشرے سے تو لازمی طور پر ہوتا ہی ہے جس میں وہ ادب پروان چڑھتا ہے مگر اس میں بہ شمول دیگر عناصر کے ادب کے آفاقی عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ اردو ادب کا خُلقیہ اردو کی اس ادبی تہذیب میں مضمر ہے جس کی تشکیل مختلف مقامی تہذیبوں اور لسانی رویوں کے اشتراک سے صدیوں میں ہوئی ہے۔


مدارس کے طالب علموں کے یونی ورسٹی میں داخلے کے لیے کیے جانے والے ناگزیر اقدام

یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ دینی مدارس نے کبھی از خود اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ ان کے فارغین کو یونی ورسٹیوں میں داخلہ دیا جائے اور ان کی اسناد کو یونی ورسٹیوں کی اسناد کے مساوی تسلیم کرلیا جائے۔ یہ فیصلہ پہلی دفعہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے سید حامد (1920-2014) نے، جو 1980 سے 1985 تک وہاں وائس چانسلر رہے، کے زمانے میں سیاسی مقصد کے تحت کیا تھا۔ سید حامد نے اس مقصد سے ایک برج کورس کی ابتدا بھی کی تھی تاکہ دینی مدارس کے فارغین میں یہ علمی استعداد پیدا ہو جائے کہ وہ یونی ورسٹی کے دیگر طلبہ کے شانہ بہ شانہ تعلیم حاصل کر سکیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا ذریعۂ تعلیم چوں کہ انگریزی ہے، اس لیے، وہاں کے لیے یہ تجویز نہایت معصومانہ بلکہ محیر العقول اور سیاسی مفادات کے تابع تھی۔
اگر کوئی طالب علم بارہ برس تک تعلیمی نظام میں بغیر انگریزی پڑھے ایک پورے برس میں صرف انگریزی پڑھے تب بھی وہ انگریزی میڈیم سے بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کی استعداد اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا۔


سیاسی مقاصد سے تعلیم کے میدان میں کیے گئے فیصلے نہایت منفی اور دور رس تخریبی نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے فیصلے کرتے وقت تعلیمی متعلقات کو قطعی پیش نظر نہیں رکھا جاتا ہے، اس لیے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا برج کورس کا یہ فیصلہ تو کامیاب نہ ہوسکا مگر دینی مدارس کے فارغین کے لیے یونی ورسٹیوں کے دروازے کھل گئے۔ کچھ روز بعد ایک برس کا یہ برج کورس بھی بند ہو گیا۔
جنرل ضمیر الدین شاہ (پیدائش: 1948)، شیخ الجامعہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے اپنے دور اقتدار (17/مئی/2012 تا 17/مئی/2017) میں ایک اور مصلحت کے تحت دوسری بار برج کورس شروع کیا۔ اپنی اس بنیادی خامی کی وجہ سے کہ اسکول کی دس یا بارہ سال کی تعلیم (2+10) جس میں دسویں تک وہ تمام مضامین پڑھائے جاتے ہیں، جن کی بنیادی معلومات ہر طالب علم کے لیے ضروری ہے اور انٹرمیڈیٹ میں بھی ان مضامین کی تعداد کم سے کم پانچ ہوتی ہے، کا مقابلہ ایک برس کا برج کورس کیسے کر سکتا ہے؟ یہ برج کورس کامیاب ہو ہی نہیں سکتا تھا مگر یہ چل اب بھی رہا ہے مگر اس کا کوئی جزوی طور پر بھی مثبت نتیجہ نہیں نکلا، یہ طے ہے۔
اسی طرح اسلم پرویز صاحب (پیدائش: 1954) ، شیخ الجامعہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی (20/اکتوبر/2015 تا 28/فروری/2020) نے وہاں بھی برج کورس شروع کیا تھا مگر برج کورس کے تصور میں پنہاں تضادات کی وجہ سے اسلم پرویز صاحب کی تمام تر نیک نیتی کے باوجود یہ تجربہ وہاں بھی ناکام ہو گیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تو ایسی کوشش کی ہی نہیں گئی مگر اب اکثر ان یونی ورسٹیوں میں جہاں مسلم طلبہ کی کافی تعداد ہے مع جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کے ، اردو ادب، عربی اور اسلامیات میں داخلے کے لیے دینی مدارس کی ڈگریاں براہ راست یونی ورسٹیوں کی ڈگریوں کے مساوی تسلیم کی جاتی ہیں۔


دینی تعلیم کی ایک بالکل مختلف دنیا سے آنے والے ان طلبہ کی اولاً تو اردو ادب کے طالب علم کے طور پر مکمل بے بسی اور پھر اردو کے خلقیے سے عدم واقفیت انھیں پہلے اردو ادب کے طالب علم اور پھر اردو ادب ہی کے استاد کے طور پر جس ذہنی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ ذہنی کیفیت اس لیے کہ اردو کا ادب خصوصاً شاعری، دنیا کی سب سے زیادہ ان معنی میں مذہب مخالف شاعری ہے کہ وہ مذہب کے نام پر ہونے والے ڈھکوسلوں اور انسانی استحصال کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، نیز اٹھارھویں اور انیسویں صدی کی اردو شاعری میں ہندوستان میں سیاسی حالات کی وجہ سے جو جنسی بے راہ روی پھیلی ہوئی تھی، ان کے سماجی عوامل سے واقفیت کے بغیر اس کا مطالعہ دینی مدارس کا طالب علم کر ہی نہیں پائے گا، یہ پالیسی سازوں کی حماقت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہے۔


آج دینی مدارس کے فارغین کے لیے اسی طرز پر ایک نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد وہ نہ صرف اردو ادب بلکہ سماجی علوم کے دیگر مضامین انگریزی کے ذریعے پڑھنے کے اہل ہو سکیں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی، جو اب اردو یونی ورسٹی تو برائے نام ہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب جامعہ عثمانیہ کی طرح یہ بھی عام یونی ورسٹی میں حکومت کے ذریعے اس لیے تبدیل کر دی جائے گی کہ وہاں اردو کے شعبے کے علاوہ اردو ذریعۂ تعلیم کا حقیقت میں تو دور دور تک نام و نشان نہیں (کاغذ پر البتہ سب کچھ موجود ہے)، میں بھی دینی مدارس کی ڈگریاں قابل قبول ہیں۔


اس مسئلے کا قابل عمل حل یہ ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ، خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونی ورسٹی لکھنو ایک دو اور تین سال کا ایک ایسا کورس تیار کریں جس میں مختلف مضامین بالخصوص Humanities اور سوشل سائنس کے مضامین شامل ہوں، اور اس کورس میں داخلہ لینے والے طالب علم کو یہ آزادی دی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک دو یا تین سال کے جس کورس میں چاہے داخلہ لے مگر دوران تعلیم طلبہ کے لیے تعلیم اور قیام کے ساتھ دیگر اخراجات یونی ورسٹی کو اس لیے برداشت کرنا چاہیے کیوں کہ دینی مدارس کے اکثر فارغین کی مالی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ ان اخراجات کے متحمل ہو سکیں۔ ان یونی ورسٹیوں کے ساتھ جہاں دینی مدارس کی ڈگریاں قابل قبول ہیں، اردو کے اداروں کو بھی اس موضوع پر سنجیدہ بحث و تمحیص کا آغاز فوراً کرنے کی ضرورت ہے۔


(ڈاکٹر صدف فاطمہ نے جامعۃ المومنات الاسلامیہ، لکھنو سے تعلیم حاصل کی اور وہاں سے فراغت کے بعد انھوں نے لکھنو یونی ورسٹی سے اردو اور انگریزی ادب کے مضامین کے ساتھ بی اے اور پھر اردو ہی میں ایم اے کرنے کے بعد جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے اردو ادب میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ یہ مضمون سہ ماہی اردو ادب ، جلد : 69، شمارہ نمبر 76-275 ، بابت جولائی تا دسمبر 2025 میں شائع ہوا ہے جسے روزنامہ 'انقلاب' کے لیے خصوصی طور پر ایڈٹ کیا گیا ہے۔)

***
بشکریہ:
روزنامہ 'انقلاب'
Urdu teaching and studying at University level by Madrasa students - Analysis: Dr. Sadaf Fatima

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں