ہم اداکار نہیں بازار ہیں - شاہ رخ خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-03-20

ہم اداکار نہیں بازار ہیں - شاہ رخ خاں

shahrukh-khan
شاہ رخ خاں (پیدائش: 2/نومبر 1965 ، نئی دہلی)
بالی ووڈ فلمی صنعت کے "بادشاہ خان" مانے جاتے ہیں۔ اپنی پہلی فلم "دیوانہ" (ریلیز: جون-1992) میں معاون اداکار کے ذریعے جب انہوں نے بالی ووڈ کے پردۂ سیمیں پر اپنا کیرئر شروع کیا تو اسی فلم سے بہترین نئے مرد اداکار کا فلم فئر ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ بازیگر اور ڈر جیسی فلموں میں منفی اداکاری کرکے شہرت حاصل کرنے والے کنگ خاں آج کی تاریخ (مارچ-2021) تک تقریباً سو (100) فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔
مشہور فلمی و نیم ادبی رسالہ "شمع" کے شمارہ نومبر-1999 میں ان کا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے فلمی دنیا سے اپنے تعلق اور اپنی فلمی زندگی کے نقطہ نظر سے واقف کرایا ہے۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پہلی بار اردو سائبر دنیا میں یہی انٹرویو پیش خدمت ہے۔
سوال:
آپ کی فلم "بادشاہ" کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ زیادہ تر ناظرین کا خیال ہے کہ آپ اس فلم کی طرح کی کامیڈی کے لیے موزوں نہیں ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
شاہ رخ خاں:
میرا خیال یہی ہے کہ میں ایک اداکار کی حیثیت سے ہر طرح کے رول کروں۔ مجھے اسٹریوٹائپ ہونے سے بچنا ہے تو ایسا کرنا ہی پڑے گا۔ فلم "بادشاہ" کرنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ میں شروع سے ہی اس معاملے میں سنجیدہ ہوں اور آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ الگ کرتا رہتا ہوں۔ اگر ایسا نہ کرتا تو "بازیگر" اور "ڈر" کے بعد نیگیٹیو ہیرو بن کر رہ گیا ہوتا۔
ہالی ووڈ میں کیا ہوتا ہے؟ وہاں کوئی بھی ہیرو 'ٹائپڈ' اسی لیے نہیں ہوتا۔ اگر میں پوری ایمانداری سے کہوں تو ہم فنکار نہیں بازار ہیں۔ فلمساز اور ہدایتکار ہمیں ہماری اداکاری کے بل بوتے پر نہیں لیتے بلکہ بازار میں مانگ کے مطابق لیتے ہیں، اداکاری سے ہی ہماری سیل ویلیو پر سوچا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اداکاروں کو بھی بازار کے رخ پر چلنا پڑتا ہے۔ امیتابھ بچن کو بھی یوں تو "اینگری ینگ مین" اور "ایکشن اسٹار" کہا گیا لیکن آپ غور سے دیکھیں تو انہوں نے ہر طرح کی فلمیں کی ہیں۔ ایکشن کے ساتھ کامیڈی بھی کی۔ ایموشنل رول بھی کیے اور ڈرامائی رول بھی۔ اس لیے امیتابھ ایک لمبے عرصے تک ٹکے رہے اور آج بھی کام کر رہے ہیں۔ میں بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہوں۔

سوال:
یعنی کیا تم امیتابھ بچن بننا چاہتے ہو؟
شاہ رخ خاں:
چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہر کوئی امیتابھ بچن نہیں بن سکتا۔ اس کے ساتھ بہت ساری چیزیں ہونی چاہیے، جو میرے پاس بھی نہیں ہیں۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ میرے کتنے ہی پرستار ہیں جو میری اداکاری کو بالکل پسند نہیں کرتے۔ لیکن امیتابھ بچن کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک بھی پرستار نہیں ملے گا جو یہ کہہ سکے کہ اسے امیتابھ کی ایکٹنگ پسند نہیں۔ امیتابھ بننا آسان نہیں۔ ایسا لیجنڈ [Legend] کبھی کبھار ہی کوئی بن پاتا ہے۔

سوال:
نئی نسل کا ہر اداکار یا تو امیتابھ کو اپنا پسندیدہ مانتا ہے یا آئیڈیل، ساتھ ہی ہر اداکار اس یکتا اداکار کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتا ہے۔ کیا آپ کے اندر بھی یہ چاہت ہے؟
شاہ رخ خاں:
میں بھی اسکول کے زمانے سے امیتابھ کا پرستار ہوں۔ میرے دوست و احباب اسکول و کالج میں مجھ سے امیتابھ کی ممیکری بھی کرایا کرتے تھے۔ امیتابھ کے فلموں کے ڈائیلاگ بلواتے اور ڈانس کراتے تھے۔ فلموں میں ایکٹر بننے اور کامیاب ہونے کے بعد میں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ میں امیتابھ کے ساتھ کام کروں، لیکن اب یش چوپڑہ کی "محبتیں" میں ان کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ یہ ایک باپ اور بیٹے کی کہانی ہے اور امیتابھ میرے باپ کا رول کر رہے ہیں۔ میرے لیے امیتابھ بچن کے ساتھ کام کرنا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ کل تک جس اداکار کی فلمیں دیکھ کر میں متاثر ہوتا تھا آج اسی کے ساتھ کام کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

سوال:
آپ کامیاب اداکار تو بن گئے ہیں لیکن غیرمعمولی فنکار نہیں بن سکے ہیں؟
شاہ رخ خاں:
غیرمعمولی بننا بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ میرے لیے پہلی چیز تھی کامیابی۔ جب مجھے یہ مل گئی تب میں نے کچھ الگ کرنے کی کوشش کی اور آج بھی کر رہا ہوں۔ "بازیگر" اور "ڈر" میں نیگیٹیو رول کرنا بھی ایک الگ کوشش ہی تھی۔
ان فلموں کی کامیابی کے بعد ساری انڈسٹری مجھے دوسرا "اینگری ینگ مین" بنانا چاہتی تھی۔ مجھے نیگیٹیو رولز بھی آفر ہو رہے تھے، لیکن میں نے ایک بھی نیگیٹیو رول اس وقت نہیں لیا۔ اس کے برعکس میں نے جو فلمیں اس وقت کیں ان میں "کبھی ہاں کبھی ناں"، "دل والے دلہنیا لے جائیں گے" جیسی فلمیں لیں جو 'ڈر' اور 'بازیگر' سے ایکدم الگ تھیں۔ میں غیرمعمولی نہیں تو کچھ الگ کرنے کی کوشش شروع سے ہی کرتا آ رہا ہوں۔ راکیش روشن کی "کوئلہ" میں بھی کلائمکس میں میں نے پہلی بار ایسی ہی کوشش کی تھی۔ مجھ سے پہلے کسی نے بھی ایسا کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ میں نے اپنے پورے جسم میں آگ لگا لی تھی اور آگ کی لپٹوں میں جلتے ہوئے ٹرین کے ساتھ ساتھ دوڑا تھا۔ میرے لیے یہ ایک بہت ہی جوکھم بھرا کام تھا لیکن سچ مچ ہی یہ کچھ نیا کچھ الگ کرنے کی کوشش تھی۔

سوال:
لیکن فلم 'کوئلہ' باکس آفس پر ناکام رہی تو پھر شاید آپ کا یہ نیا تجربہ بھی بےکار گیا؟
شاہ رخ خاں:
جب بھی آپ کچھ نیا کرتے ہیں تو آپ کو دونوں طرح کے نتائج کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ اچھا یا برا، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 'کوئلہ' میں بھی ایسا ہی تھا۔ فلم چاہے زیادہ کامیاب نہ رہی ہو لیکن میں مطمئن ضرور ہوا۔ ایک اداکار چاہے وہ کتنا ہی بکاؤ اور بازاری کیوں نہ بن جائے لیکن اس کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ایک فنکار کتنا ہی پیسہ کیوں نہ کمائے لیکن اگر وہ اپنے کام سے خوش اور مطمئن نہیں ہے تو یہ اسے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ کیرئر کے شروع میں پیسہ بہت ضروری ہوتا ہے لیکن آگے چل کر پیسے سے کہیں زیادہ صبر اور اطمینان ضروری ہو جاتا ہے۔

سوال:
نومبر 1997ء میں پہلی بار باپ بن کر تمہیں کیا تجربہ حاصل ہوا؟
شاہ رخ خاں:
جب مجھے خبر ملی کہ میں باپ بن گیا ہوں تو ایکدم مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن جب میں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تب مجھے احساس ہوا کہ باپ بننا کیا ہوتا ہے؟ اس سے بھی زیادہ احساس جب ہوا جب میں نے اسے گود میں لیا۔ یہ سچ مچ دنیا کا ایک الگ اور انوکھا احساس تھا، اسے بیان کرنا آسان نہیں ہے۔

سوال:
آپ ابھی اداکار کے ذہنی اطمینان کی بات کر رہے تھے لیکن آپ کے بارے میں تازہ خبروں کے مطابق، پتا چلا ہے کہ آپ کے لیے اب پیسہ ہی سب کچھ ہو گیا ہے۔ نئی فلم میں کام کرنے کا معاوضہ اب آپ ایک کروڑ مانگنے لگے ہیں۔
شاہ رخ خاں:
آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ فلم کاروبار میں مانگنے سے کسی اداکار کو کچھ نہیں ملتا۔ یہ تو اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ آپ کتنے بکاؤ ہیں؟ کتنے کامیاب ہیں؟ بازار میں آپ کی قیمت کتنی لگائی گئی ہے؟ جیسا کہ میں نے ابھی آپ سے کہا تھا کہ ہم فنکار نہیں بازار ہیں۔ اسی بازار سے فنکار کی قیمت طے کی جاتی ہے۔ یونہی کروڑ روپے مانگنے سے کوئی نہیں دے گا۔ یہ دوسرا سچ ہے کہ ہر فلمساز کروڑ روپے نہیں دیتا۔ ایک فنکار کو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کس میکر کے ساتھ کام کر رہا ہے؟ میکر اگر یش چوپڑہ ہے یا منی رتنم ہے تو فنکار کے لیے پرائس بعد کی چیز ہو جاتی ہے۔ پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ فنکار کا رول کیا ہے؟ پروجیکٹ کیا ہے اور فلم کس طرح کی ہو سکتی ہے؟
میں نے اپنے کیرئر کے شروع میں کوئی فلم کچھ ہزار روپے میں کی تو کوئی فلم کئی لاکھ میں۔ مثال کے طور پر "دیوانہ" میں نے پانچ لاکھ میں سائن کی تھی، اس میں بھی ایک لاکھ مجھے سو دن پورے ہونے پر ملنے والے تھے۔ دوسری طرف "راجو بن گیا جنٹلمین" صرف پچیس ہزار میں کی تھی۔ اس لیے یہ بات بالکل صاف ہے کہ فنکار کی پرائس ہر فلمساز کے ساتھ الگ الگ ہوتی ہے۔ جہاں تک میرا سوال ہے میرے لیے پیسہ سب کچھ نہیں رہا۔ میں کیا لے کر آیا تھا؟ میں نے تو اتنا سب ملنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا جتنا مجھے مل گیا ہے۔ اس لیے میں نے ابھی تک اپنے کسی بھی فلمساز سے ایک کروڑ روپیہ نہیں مانگا ہے اور نہ ہی کسی نے دیا ہے۔ میں نے پچھلے چار سال سے (1995ء سے) اپنی پرائس کچھ لاکھ روپیوں تک محدود رکھی ہے۔ میں اپنے فلمسازوں سے آج بھی یہی پرائس لیتا ہوں، اگر چاہوں تو زیادہ بھی لے سکتا ہوں، لیکن میں نہیں لیتا، یہ میرا اپنا کاروباری نظریہ ہے۔

سوال:
تمہارے آپے سے باہر ہونے کی اور لوگوں سے جھگڑا کرنے کی خبریں اکثر سننے میں آتی تھیں، لیکن اب کافی عرصے سے ایسی کوئی منفی خبر نہیں مل رہی ۔۔؟
شاہ رخ خاں:
اس کا سہرا میری بیوی کے سر ہے۔ اس نے ہی مجھے یہ احساس دلایا کہ کچھ لوگ میرے غصے کو اس لیے برداشت کر لیتے ہیں کیونکہ میں اسٹار ہوں۔ تب میں نے اپنے ضمیر کو ٹٹولا اور یہ جانا کہ میں سچ مچ اپنے اسٹار ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا تھا۔ بس میں نے اپنے آپ کو قابو کرنا سیکھ لیا۔ لیکن آج بھی میں غلط بات برداشت نہیں کر سکتا، غلط آدمی کے لیے میں آج بھی خطرناک ہوں۔

شاہ رخ خاں کے چند یادگار فلمی نغمے:
کوئی نہ کوئی چاہیے پیار کرنے والا (فلم: دیوانہ-1992)
تم پاس آئے ، یوں مسکرائے (فلم: کچھ کچھ ہوتا ہے-1998)
سینے میں دل ہے ، دل میں ہے دھڑکن (فلم: راجو بن گیا جنٹلمین-1992)
چل چھیاں چھیاں (فلم: دل سے ۔۔۔1998)
ایسا دیس ہے میرا (فلم: ویر زارا-2004)

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: نومبر 1999

Shah Rukh Khan, an interview from Nov.-1999 issue of Shama Magazine.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں