شبنم - رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو : افسانہ از پرویز یداللہ مہدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-20

شبنم - رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو : افسانہ از پرویز یداللہ مہدی

shabnam-urdu-short-story-pervez-yadullah-mehdi

جینا عذاب کر رکھا ہے ظالم نے ! برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ جب دیکھو تب میرا مذاق ، میں پوچھتا ہوں کیا ایک میں ہی رہ گیا ہوں سارے جہان بھر میں تختۂ مشق بننے کے لئے ؟ کم بخت سے لاکھ چھپتا پھرتا ہوں ، لاکھ دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں ، لیکن کہیں نہ کہیں سے ظالم مجھے ڈھونڈ نکالتی ہے۔ بات شروع کرتی ہے اِدھر اُدھر کی اور ختم کرتی ہے مجھ پر۔ وقت بے وقت نازل ہوجاتی ہے قیامت ڈھانے۔۔


کبھی کہتی ہے " سنئے سنئے ، آج کی تازہ خبر۔ نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ قطب مینار دہلی سے چل کر حیدرآباد پہنچ چکا ہے۔ "
کبھی کہتی ہے " ذرا زمانے کی تیز رفتار ترقی تو ملاحظہ فرمایئے۔ آج کل میونسپلٹی کے کھمبے بھی چلنے لگے ہیں۔ "
کبھی یوں چوٹ کرتی ہے۔ " سنا ہے چارمینار کا کسی زمانے میں پانچواں مینار بھی ہوا کرتا تھا لیکن ایک دن اچانک وہ پانچواں مینار جانے کہاں غائب ہوگیا۔ بس تب ہی سے وہ چارمینار کہلانے لگا۔ کہیں وہ پانچواں گم شدہ مینار آپ ہی تو نہیں ؟ "


ہر بار میرا اونچا قد تختۂ مشق بنتا اور میں تلملا کر رہ جاتا۔ اس کم بخت کو اپنی بے باکی کا مظاہرہ کرنے کے لئے کیا زمانے بھر میں کوئی اور چغد ملتا ہی نہیں ، بچپن سے ایک ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ زبردستی کسی پر رعب جھاڑا جائے اور خواہ مخواہ ہی دھونس جمائی جائے۔ ایک ذرا اس کی اماّں کو خالہ بی ، کیا کہہ دیا ، بس اپنے آپ کو سچ مچ ہی خالہ زاد سمجھنے لگی ہے۔ مردم آزار کہیں کی۔
ابھی کچھ مدت پہلے کی بات ہے، میں اپنے کمرے میں بیٹھا کالج کے سالانہ مشاعرے کے لئے ایک غزل لکھنے میں مصروف تھا کہ وہ ہونٹوں پر شریر مسکان لئے پہنچ گئی۔
" ارے آپ یہاں چھپے بیٹھے ہیں نسیم بھائی ! آج تو ایک بہت بڑے مسئلے پر گفتگو کرنا ہے آپ سے۔ "


اپنی غزل کا تو ستیاناس ہوہی چکا تھا۔ میں نے قلم پھینک کر بے بس نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ چنچل بھلا کسی کی بے بسی کا کوئی نوٹس کیوں لیتی ؟ اپنی ہی دُھن میں کہتی رہی۔
"آج کالج میں بحث چھڑ گئی کہ خاندان کے بڑے بوڑھے بچوں کے نام رکھنے کے سلسلے میں بعض اوقات نہایت ہی چغد پن کا مظاہرہ کرجاتے ہیں۔ میں نے اس بات کی تائید میں وہ دھواں دھار تقریر کی کہ بس۔ اب مثال کے طور پر نام رکھ دیا چاند پاشا ، لیکن چاند پاشا کو دیکھئے تو یوں لگے گا جیسے کسی نے توا الٹ دیا ہو اور پھر دور کیوں جائیں ، آپ ہی کا نام لیجئے۔ کتنا حسین اور پُرکشش نام ہے۔۔۔ نسیم۔۔۔ بالکل لڑکیوں جیسا۔ لیکن آپ کا قد دیکھئے تو ماشاء اللہ وہ ڈیل ڈول ہے کہ وزن سے دھرتی بھی ڈول جائے اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ تخلص بھی نسیم۔۔۔ یعنی الف سے لے کر والسلام تک صرف نزاکت ہی نزاکت۔۔۔ "
" تو پھر حضور خود تجویز فرمائیں کہ خاکسار کا نام دراصل ہونا کیا چاہئے تھا۔ " میں نے جل کر پوچھا۔
" بھئی آپ کے اس قد اور ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے تو کوئی تگڑا سا نام ہونا چاہئے تھا جو سننے کے بعد کافی دیر میں ہضم ہو ، جیسے عبدالودود یا فضل الہدیٰ۔ "
" گستاخی معاف شبنم صاحبہ۔" میں نے جل کر مداخلت کی۔ " کبھی آپ نے اپنے نام پر بھی غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے ؟ آپ جانتی ہیں شبنم کہتے کسے ہیں ؟"
" کسے کہتے ہیں۔ " ظالم نے بڑی ادا سے پوچھا۔
" دراصل بقول شاعر : رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو شبنم۔۔۔ اور آپ سر سے لے کر پاؤں تک ایک تھرکتا ہوا شعلہ ہیں شعلہ۔ "
" ہائے ہائے جل گئے۔ جب اپنے سے بات نہیں بنتی تو کھسیانی بلیّ اسی طرح کھمبا نوچتی ہے۔ "
"ٹھہر تو سہی بلّی کہیں کی۔۔۔ " میں نے جھپٹ کر اس کی دراز چوٹی پکڑنی چاہی۔ لیکن وہ ہرن کی سی چوکڑیاں بھرتی ہوئی نکل گئی۔


اگلے دن میں اپنے کمرے میں آکر ٹکا ہی تھا کہ نازل ہوگئی بلا۔
" نسیم بھائی سنا ہے کل کا مشاعرہ آپ نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا۔۔۔ "
" جی ہاں ، آپ نے ٹھیک ہی سنا ہے۔۔۔ "
" اور سنا ہے حاضرینِ مشاعرہ کے لبوں پر تو بس ایک ہی نام کی رٹ تھی۔ جسے دیکھئے بس نسیمؔ حیدرآبادی کے نام کی مالا جپ رہا تھا۔ "
" جی ہاں۔۔۔ آخر آپ ہمیں سمجھتی کیا ہیں۔۔۔ "
" اور آپ کی غزل کا یہ مطلع :
جان کر بھی فریب کھایا ہے
یوں بھی احساسِ غم بڑھایا ہے
تو سنا ہے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ "
" جی ہاں، نہ صرف مطلع بلکہ ہر شعر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ " میری گردن فخر سے تن گئی۔
" اور اس شعر پر :
سونی منزل میں کون آیا ہے
یہ تو اپنے ہی غم کا سایا ہے
تو سنا ہے وہ داد دی گئی کہ ایک ہنگامہ بپا ہو گیا اور اس شعر کو نہ صرف حاصلِ غزل بلکہ حاصلِ مشاعرہ قرار دیا گیا۔۔۔ " اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
" جی ہاں۔۔۔ " میں فرش سے جو اُڑا تو عرش پر جا بیٹھا۔
" ایک بات پوچھوں؟ " بڑی سنجیدگی سے پوچھا ظالم نے۔
" پوچھو۔۔۔ " میری گردن بدستور تنی ہوئی تھی۔
" سچ سچ بتاؤ گے ؟ "
" بالکل سچ۔ "
" اچھا تو پھر ذرا چپکے سے بتانا تو یہ شعر کہاں سے اُڑائے آپ نے۔ "
" کیا ! " میں دھڑام سے جو گرا تو عرش سے فرش پر آرہا۔ میرے تن بدن میں ایک آگ سی لگ گئی۔ اور وہ ستم ایجاد موقع کی نزاکت کو بھانپ کر یہ جا وہ جا۔


یہاں تک تو خیر غنیمت ہی تھا ، لیکن جب سے علی گڑھ ہو آئی ہے کم بخت نے جینا اور بھی دوبھر کردیا ہے۔ تھوڑا بہت سکون جو تھا وہ بھی غارت ہوکر رہ گیا ہے۔ دن رات اپنے بچپن کے منگیتر انور اور میرا موازنہ۔ ہر گھڑی ہر پَل بس اسی کی تعریف ، اسی کے چرچے ، اسی کی شان میں قصیدے۔ اس کا رنگ ایسا ہے ، اس کی صورت یوں ہے ، اس کا چہرا ایسا ہے ، اس کے بال ایسے ہیں۔ یہ سب سن سن کر کم بخت کان پک گئے اور سر پھر گیا۔ بے تکلفی کے یہ معنی تو نہیں کہ آدمی کسی کے پیچھے بس ہاتھ دھوکر ہی پڑجائے۔ نہ موقع دیکھتی ہے نہ محل ، نہ موڈ۔ بس وہی ایک رٹ
" کیا آنکھیں ہیں انور کی۔ سوچوں میں گم ، کھوئی کھوئی سی اور ایک آپ کی آنکھیں ہیں بالکل بٹن جیسی۔ اس کا قدر کچھ اتنا موزوں ہے کہ ہائے ہائے اور ایک جناب کا قد۔ مانو کوئی کھمبا سر اٹھائے آسمان کی طرف حسرت سے تک رہا ہو۔ اس کے بات کرنے کا انداز کچھ اتنا رومانٹک کہ بس دل خودبخود کھنچ کر رہ جائے۔ اور ایک جناب ہیں کہ سیدھے منہ بات کرنا جانتے ہی نہیں۔ جب دیکھو تب منہ پھولا ہوا ، تیوریاں چڑھی ہوئیں۔ "
" افوہ ! بند کرو بکواس۔ تم جاؤ کسی بھاڑ میں اور انور کسی بھٹیارے کی بھٹّی میں۔ " میں کسی کٹکھنے کتے کی طرح غرایا۔
کوئی حد بھی ہے سن سن کر طبیعت بولا گئی۔ میں بھی آخر انسان ہوں کوئی پتھر نہیں۔ اور پھر اس کی طرف جھپٹا ہی تھا کہ وہ چلاتی ہوئی بھاگ کھڑی ہوئی:
" ہائے ہائے جل گئے اتنی سی بات پر۔۔۔ بس یہی تو ایک کم زوری ہے آپ میں۔۔۔"


میں سوچتا ہوں ، واقعی مجھے اس طرح جلنا اور کڑھنا نہیں چاہئے۔ لیکن یہ اس طرح مجھے احساس کیوں دلاتی ہے کہ میں بے ڈول ہوں ، بے ڈھب ہوں۔ اور یہ کم بخت آئینہ کیا جھوٹ کہتا ہے ؟ ابھی اس دن کی بات ہے حامد نے کتنی حسرت سے کہا تھا:
" یار نسیم میں بھی اگر تمہاری طرح شاعری میں چل نکلا ہوتا تو پھر قسم ہے کیوپڈ کی ، کم از کم درجن بھر معاشقے تو کرچکا ہوتا اب تک۔ "
ایک حامد ہی کیا بلکہ کالج کے دوسرے ساتھی ، یہاں تک کہ لڑکیاں بھی مجھ سے بات کرنے میں فخر اور خوشی محسوس کرتی ہیں۔۔۔ لیکن یہ کم بخت شبنم۔۔۔ اُف ! اس چھوکری نے تو اچھا خاصا احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے مجھے۔ یہ درست ہے کہ وہ بلا کی حسین ہے ، ایسی کہ جو دیکھے دل تھام کے رہ جائے۔ ممکن ہے انور بھی واقعی اتنی ہی پُرکشش شخصیت کا مالک ہو جیسا کہ وہ کہتی ہے لیکن میں کیا کروں ؟ میں خودکسی سے کیا کم ہوں۔ جو ذرّہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔


میں سوچ میں گم بیٹھا تھا مصیبت نازل ہوگئی۔ ایک چنچل آواز کا کوندا لپکا۔
" میں نے کہا نسیم بھائی ، زیادہ نہ سوچا کیجئے۔ آپ کے اس طرح سوچنے سے آپ کا یہ اونچا لمبا کھمبے جیسا قد کچھ کم ہونے سے تو رہا اور نہ آپ کا یہ چوڑا چکلا سالارجنگ میوزیم میں رکھنے لائق مکھڑا بھی کچھ کٹنے چھٹنے سے رہا۔ "
میں بس خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور وہ قیامت بدستور قیامت ڈھاتی رہی۔
" میں نے کہا نسیم بھائی آپ 'بانو بیوٹی ایکسپرٹ' کو خط لکھ کر پوچھتے کیوں نہیں۔۔۔ "
" کیا " ؟ میں نے بڑی بے بسی سے پوچھا۔
" یہی قد کم کرنے کی کوئی ترکیب۔۔۔"
" میں پوچھتا ہوں شبنم بانو صاحبہ۔ یہ سارے جہان کا درد فقط آپ ہی کے جگر میں کیوں سما کر رہ گیا ہے۔۔۔ "
" واہ یہ بھی خوب کہی آپ نے۔۔۔ " ظالم نے بدستور ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا:
" آپ کو اگر اپنے اس بے تحاشا لمبے قد کا غم نہیں تو اس کے معنی یہ تو نہیں کہ دوسروں کو بھی اس کی کوئی فکر نہ ہو۔ آخر انور بھی تو ہیں۔۔۔ "
" میں کہتا ہوں شبنم صاحبہ پہلے خود اپنی خبر لیجئے۔ میرا قد اگر کھمبے جیسا لمبا ہے تو آپ کون سی کم ہیں۔ سارس جیسی تو ٹانگیں ہیں آپ کی اور یہ نوک دار لمبی ناک اور یہ بڑی بڑی مری بھینس جیسی آنکھیں ، اور یہ لیٹر بکس جیسا منہ۔۔۔ اور۔۔۔ "
" ہائے جل گئے بس۔۔۔ " اس نے جانے کے لیے پر تولے۔ " اب تو یہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ہیروشیما پر تو صرف ایک ہی بم پھٹا تھا یہاں تو ایک ساتھ کئی بم پھٹنے والے ہیں۔۔۔ "


وہ ستم شعار مجھے انگاروں پر ٹوٹتا ہوا چھوڑ کر چلی گئی اور میں اسی سوچ میں ڈوب کر رہ گیا کہ یہ کم بخت منگیتر کسی اور کی ہے ، ستم کسی اور پر ڈھاتی ہے۔
آخر یہ بندر کی بّلا طویلے کے سر کیوں ؟ آخر میں کب تک اس چھوکری سے مات کھاتا رہوں گا ؟ کیا کبھی مجھے اس سے بھرپور بدلہ لینے کا موقع نصیب ہوگا ؟
کالج جانے کے لیے میں جیسے ہی باہر نکلا شبنم کا چھوٹا بھائی ممتاز مل گیا۔ اس کے ساتھ ایک اور نوجوان بھی تھا۔ سلام کے بعد ممتاز نے اس نوجوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ " نسیم بھائی یہ ہمارے انور بھائی ہیں۔ آج صبح ہی علی گڑھ سے آئے ہیں۔ "
" انور ! " میں نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا۔ تو یہی ہے انور جس پر اتنی اکڑ تھی شبنم کو۔۔۔ موزوں قد ، بڑی بڑی ، سوچوں میں گم آنکھیں ، پرکشش شخصیت ، اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔۔۔ اسی انور کی تعریفیں کیا کرتی تھی ، جس کا قد بمشکل پانچ فٹ دو انچ ہوگا ، دبلا پتلا منحنی سا جسم ، تنگ پیشانی ، چھوٹی چھوٹی آنکھیں ، سانولی رنگت۔ بس ایک عام سا آدمی جیسے اور بھی لاکھوں کروڑوں عام سے آدمی ہیں زمانے میں۔ اب آیا ہے بدلہ لینے کا وقت۔ ایک ہی وارمیں ساری اگلی پچھلی کسر نکل جائے گی۔۔
جیسے ہی ممتاز اور انور نے بازار کا رخ کیا میں سیدھا شبنم کے ہاں پہنچا اور اسے آوازیں دیتا ہوا اس کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ دروازے کی طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا:
" میں نے کہا شبنم صاحبہ ، آپ نے وہ مثل تو ضرور سنی ہوگی سو سنار کی ایک لوہار کی۔۔۔ اب ذرا اس مثل کی سچائی بھی دیکھ لو۔ وہ جو آپ کے انور صاحب ہیں نا جن کی تعریف میں آپ زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتی تھیں اور۔۔۔ "
اسی پل گردن گھما کر اس نے میری طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ تو کوئی اور لڑکی ہے۔۔۔ سوگوار سا حسن ، وہ چنچل شریر شبنم جس کے ہونٹوں پر ہمیشہ ایک شریر شبنم جس کے ہونٹوں پر ہمیشہ ایک شریر مسکان تھرکتی رہتی تھی ، نم آنکھیں لیے بیٹھی تھی۔ اس کی جھیل سی گہری آنکھوں سے ایک عجیب ہی محرومی چھلک رہی تھی۔ اُف ! اس کی وہ نظریں ! میری زبان جیسے گنگ ہوگئی۔ میں اس کی ان نظروں سے گھبرا کر پلٹا ہی تھا کہ اس نے کہا:
" کیوں نسیم بھائی ، مجھے مبارک باد نہیں دو گے ؟ کیا میری خوش قسمتی پر تمہیں رشک نہیں آرہا ہے۔۔۔ "


میں نہ جانے کس جذبے کے تحت اس کے بہت پاس چلا آیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ایسی مسکراہٹ پھیل گئی جس کی میں تاب نہ لاسکا۔ اس نے مزید کہا:
" ایک بار آپ نے شبنم کی تعریف میں کہا تھا ناکہ وہ رات کی آنکھ سے ٹپکا ہوا آنسو ہوتی ہے۔"
میں نے جھٹ اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اُدھر جیسے مدّت سے رُکے آنسوؤں کو راستہ مل گیا۔ وہ روتی رہی۔۔۔ اس کے آنسو بہتے رہے۔ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا رہا۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ان آنسوؤں میں میرا دل ڈوبتا چلا جا رہا ہو۔


یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ہیروئین کا کتا - مزاحیہ افسانہ از پرویز ید اللہ مہدی
پڑوسی پڑوسن اور وہ - انشائیہ از پرویز یداللہ مہدی
چھیڑ چھاڑ - پرویز یداللہ مہدی کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
ماخوذ:
"شگوفہ" (حیدرآباد، انڈیا)۔
مدیر و ناشر: مصطفیٰ کمال۔ سن اشاعت: مارچ 2009ء۔

Shabnam. Humorous short story by: Pervez Yadullah Mehdi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں