ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 08 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-10-21

ناول نیلی دنیا - سراج انور - قسط: 08

neeli-dunya-siraj-anwar-08

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
راکٹ میں دوران سفر زمین کے کنٹرول روم سے ٹیم کے مشکوک آدمی کی انگلیوں کے نشان وصول ہونے پر جان نے سب کی انگلیوں سے نشانات کی جانچ شروع کی۔ مگر تبھی ایک عجیب و غریب پستول کے سہارے اختر نے ٹیم کے تمام اراکین پر قابو پاتے ہوئے ان سب کو اپنا یرغمال بنا لیا۔ بعد میں سوامی نے بتایا کہ اختر کے ذہن کو شاکا نے اپنے قابو میں کر لیا ہے اور اب وہ شاکا کا غلام ہے اور شاکا ہی کے احکام پر عمل کر رہا ہے۔۔۔۔ اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔

ہمیں زمین سے پرواز کئے ہوئے تین دن ہو چکے تھے۔ ہمارے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ خلائی لباس ابھی تک ہمارے جسم پر تھا اور ہم اختر کو منانے اور اسے اپنا ہم خیال بنانے کا پورا جتن کر چکے تھے مگر ایسا لگتا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختر بھی زیادہ پتھر دل ہوتا جا رہا تھا۔ بہرحال ہمیں اس کی فکر نہیں تھی۔ کم از کم میں یہ چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی ہونا ہے جلد ہو جائے تاکہ میں اپنی پیاری بیٹی نجمہ اور بہادر داماد امجد کو کسی نہ کسی طریقے سے آزاد کرا سکوں۔
شاید میرے دل کی یہ خاموش دعا خداوند کریم نے سن لی۔ مصیبت میں وہی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور اسی کی ذات پاک گناہ گار انسانوں کو ایسی آفتوں سے عین وقت پر بچا لیتی ہے۔ اللہ کی یہ مدد بھی اچانک اس وقت آ گئی جب کہ میں اداس اور ملول بیٹھا ہوا اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہا تھا۔


راکٹ تیزی سے آگے جا رہا تھا کہ اچانک ہمیں ایک زبردست جھٹکا محسوس ہوا۔ یہ جھٹکا اتنا سخت تھا کہ کیبن کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا سوامی ادھر سے اڑ کر اس طرف آ گیا۔ ہم نے گھبرا کر کھڑکی کھولی اور خلا کا نظارہ کرنے کے لئے کھڑکی میں سے جھانکا۔
میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میں نے کیا دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ سبز رنگ کا ایک گولا، بہت بڑا گولا تیزی سے ہماری طرف آ رہا ہے۔ اس گولے میں سبزی کے ساتھ ہی مختلف قسم کے اور بھی رنگ جھلک رہے تھے۔ جان نے اسے دیکھ کر کہا:
"خدا ہماری مدد کرے، ضرور کسی نامعلوم سیارے کی کشش میں ہمارا راکٹ داخل ہو گیا ہے ، اور اب وہ سیارہ ہمیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔"


یہ سنتے ہی خوف کے مارے ہمارے چہرے زرد ہو گئے۔ یوں لگا جیسے کسی نے ہاتھ پیروں کا دم نکال لیا ہو۔ جوں جوں ہمارا راکٹ اس سیارے کے نزدیک ہوتا ہوتا جا رہا تھا ، سیارے کی بہت سی چیزیں ہمیں صاف صاف نظر آنے لگی تھیں۔ میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک کیبن کا دروازہ کھلا اور اختر گھبرایا ہوا اندر داخل ہوا۔
"چلو۔۔ جلدی چلو ، اور راکٹ کے کل پرزے چیک کرو، ایسا نہ ہو کہ ہم اس سیارے سے ٹکرا جائیں۔"
دل تو چاہتا تھا کہ اختر کو خوب صلواتیں سناؤں۔۔۔ مگر وہ موقع ایسا نہ تھا، ہم جلدی سے کنٹرول روم میں پہنچے اور جان اور والٹر کے ساتھ آلات چیک کرنے میں مصروف ہو گئے۔ اختر ایک طرف خاموش کھڑا ہوا ہمیں گھور رہا تھا ، ایسا لگتا تھا گویا وہ خود بھی پریشان ہے اور اس کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا ہے کہ اسے درحقیقت کیا کرنا چاہئے؟


سیارے کی کشش میں داخل ہونے کے بعد راکٹ کی رفتار بے حد بڑھ گئی تھی۔ مجھے اس کی ہر سمت میں آگ کے لمبے لمبے شعلے لپکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ کنٹرول روم کے آلات بتا رہے تھے کہ بس دس منٹ کے اندر اندر راکٹ سیارے سے ٹکرا کر تباہ ہو جانے والا ہے۔ کاہی مائل سبز رنگ سیارے سے منعکس ہو کر اب راکٹ کی کھڑکیوں میں سے اندر رینگنے لگا تھا۔ اچانک والٹر کو کچھ خیال آیا اور اس نے چلا کر کہا:
"گھبرائیے نہیں، میں بھول گیا تھا کہ راکٹ میں مخالف سمت میں داغنے والے چھوٹے راکٹ بھی لگے ہوئے ہیں، میں ان راکٹوں کو داغتا ہوں اور پھر جان صاحب، آپ اس کے دس سیکنڈ بعد پیراشوٹ کھولنے والا لیور دبا دیجئے گا۔"


جیسے ہی والٹر نے چھوٹے راکٹ داغے ہمارے راکٹ کی رفتار حیرت انگیز طور پر کم ہو گئی۔ کہاں تو وہ اسّی ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے سیارے کی طرف جا رہا تھا ، اور کہاں اب پیراشوٹ کھولنے کے بعد اس کی رفتار صرف دو میل فی گھنٹہ رہ گئی۔ اس معمولی رفتار سے ہم لوگ اب آہستہ آہستہ اس سبز سیارے کی طرف جا رہے تھے جہاں ہمارے لئے یا تو آسائشیں ، آسانیاں اور نرالی قسم کی نعمتیں اپنی آغوش کھولے ہمیں پانے کے لئے بے تاب تھیں ، یا پھر بھیانک آفتیں، حیرت انگیز واقعات اور ان دیکھی بلائیں خاموشی سے بیٹھی سبز سیارے پر ہمارے قدم رکھنے کی منتظر تھیں!
ہمارے دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو گئی تھی کہ مجھے یوں لگتا تھا گویا دل تڑپ کر اب باہر آ جائے گا۔ خوف اور ہیبت کے باعث جسم کی رگیں کھنچنے لگی تھیں۔ آنکھیں اس طرح ابل پڑی تھیں کہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ڈھیلے اب باہر نکل پڑیں گے۔ ہمارے چہرے ہلدی کی طرح زرد تھے۔ سبز رنگ ہمارے چہروں پر اس طرح حاوی ہو گیا تھا کہ ہمیں اپنے چہرے اپنے نہیں معلوم ہوتے تھے صرف چند منٹ کے اندر ہم بالکل بدل چکے تھے۔ ہمارے گال پچک گئے تھے اور چہرے پر نیلی رگیں نمایاں ہو گئی تھیں۔
میرے خدا یہ کیسا جہنم تھا اور یہ کیساعذاب تھا!


میں کھڑکی میں سے اس عجیب سیارے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف سبز رنگ کا ایک ہلکا سا غلاف چڑھا ہوا معلوم ہوتا تھا جس طرح خلا میں سے ہماری زمین کے سب طرف ہلکا نیلا غلاف نظر آتا ہے۔ یہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ پہلی بار تو میں یہی سمجھا کہ شاید اس سیارے میں ہوا کا بھی ایک رنگ ہے اور وہ رنگ سبز ہی ہے۔ سیارے کی زمین مجھے بڑی بھیانک نظر آتی تھی کہیں سیاہ دھبے تھے اور کہیں سفید اور ان دھبوں میں سے نارنجی رنگ کی چنگاریاں سی اڑتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ اس کے علاوہ سیارے کے افق پر مجھے گہرے سرخ رنگ کی چٹانیں دکھائی دے رہی تھیں۔ خدا جانے یہ سب کیا تھا؟ زیادہ واقفیت تو اسی وقت حاصل ہو سکتی تھی جب ہم خیریت کے ساتھ سیارے کی زمین پر اتریں۔۔ اور وہ وقت اب دور نہ تھا۔
جب ہمارا راکٹ سیارے کی زمین سے کوئی ایک میل اوپر رہ گیا تو والٹر نے چند گیئر اور لیور دبائے۔ اچانک راکٹ الٹا ہو گیا۔ دم سیارے کی طرف ہو گئی اور مونہہ خلا کی سمت۔ راکٹ کے نیچے کی سمت جو انجن لگے ہوئے تھے وہ بند کر دئے گئے اور اب اس میں سے شعلے نکلنے بند ہو گئے۔ فوراً والٹر نے ایک بٹن دبایا اور پھر راکٹ کے نچلے حصے میں سے اسپرنگ والی چار ٹانگیں بڑی آہستگی سے نکلنے لگیں اور ان ٹانگوں کے نیچے فولادی پیڈ لگے ہوئے تھے ، راکٹ اب دھیرے دھیرے نیچے جا رہا تھا۔ وہ ایک معمولی سے جھٹکے کے ساتھ سیارے کی زمین سے ٹک گیا۔ اس موقع پر ہمیں کچھ دیر تک ہچکولے محسوس ہوئے۔ لیکن پھر جلد ہی یہ کیفیت دور ہو گئی۔


ہم نے ڈرتے ڈرتے کھڑکیوں سے باہر جھانکا۔ سیاہ رنگ کی ناہموار زمین دور تک پھیلی ہوئی تھی صرف کہیں کہیں چند چھوٹی چٹانیں تھیں۔ ان چٹانوں کا رنگ حیرت انگیز طور پر سرخ تھا۔۔۔ ایسا سرخ جیسے لپکتے ہوئے شعلوں کا ہوتا ہے۔ سیاہ زمین پر سے ہمیں افق عجیب سے رنگ کا نظر آتا تھا۔ ہماری اپنی دنیا سے ہمیں آسمان فیروزی نظر آتا ہے، مگر اس سیارے کی سیاہ زمین سے آسمان بالکل سبز کاہی دکھائی دیتا تھا۔ اپنے راکٹ سے بہت دور ہمیں عجیب سے پرندے بھی اڑتے ہوئے نظر آئئے۔ چونکہ وہ بہت دور تھے۔ اس لئے ان کی ٹھیک ٹھیک شکل و صورت ہمیں دکھائی نہیں دیتی تھی۔۔۔ سیاہ رنگ کی یہ زمین آگے جاکر اچانک ختم ہوتی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور پھر وہاں سے سفید رنگ کے کچھ دھبے شروع ہوتے نظر آتے تھے۔


بہرحال یہ عجیب جگہ تھی، والٹر ابھی تک کنٹرول روم میں بیٹھا ہوا مختلف آلات کی دیکھ بھال کررہا تھا اور جان اس کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کچھ بٹنوں کو دباتا جا رہا تھا۔ اختر سب لوگوں سے لا تعلق ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہماری مصروفیت کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ والٹر اور جان کی چہروں پر اچانک اطمینان اور سکون کے آثار پیدا ہوگئے۔۔ والٹر نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے ہم سے مخاطب ہوکر کہا۔


"ہم دونوں یہ دیکھ رہے تھے کہ سیارے کی فضا ہمارے لئے سازگار ہے یا نہیں اور کیا ہم وہاں اتر کر سانس لے سکتے ہیں ؟ آپ کو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ ہم خلائی لباس کے بغیر باہر نکل سکتے ہیں اور اس سیارے پر گھوم پھر سکتے ہیں۔"
"اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں کی فضا ہماری زمین جیسی ہے۔" میں نے پوچھا۔
"کہہ نہیں سکتا۔۔۔۔" جان نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا: " ہو سکتا ہے کہ کچھ فرق بھی ہو۔ لیکن یہ فرق اسی وقت معلوم ہو سکتا ہے جب ہم میں سے کوئی شخص نیچے جائے۔"
"لیکن یہ خطرہ کون مول لے گا؟" زرینہ نے گھبرا کر کہا۔
"ہم اختر کو بھیجیں گے۔" والٹر نے دانت پر دانت جماتے ہوئے کہا۔
"کیا کہتے ہو!" میں چونک گیا: "اختر کچھ بھی ہو لیکن وہ میرا بیٹا ہے ، میں اسے جان بوجھ کر موت کے مونہہ میں نہیں دھکیل سکتا۔"
"معاف کیجئے گا۔" والٹر کینہ توز نظروں سے مجھے دیکھنے لگا: "پھر ہم میں سے کسی کی جان قیمتی نہیں۔"


میں نے گھور کر والٹر کو دیکھا ، اس نے مجھے غصے میں دیکھ کر فوراً اپنی نظریں جھکا لیں۔ باتیں حالانکہ اختر کے بارے میں ہی ہوئی تھیں لیکن وہ اب بھی اجنبیوں کی طرح باری باری ایک ایک کو دیکھتا رہا۔ سوامی نے صورت حال کو بھانپ لیا اور پھر آہستہ سے بولا۔" میں نیچے جاتا ہوں، میری جان ظاہر ہے کہ آپ حضرات کے مقابلے میں زیادہ قیمتی نہیں ہے۔"
اتنا کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔ میں نے اسے روکنا چاہا مگر فوراً جیک نے کہا: "رہنے دیجئے فیروز صاحب، ہم میں سے کسی نہ کسی کو نیچے جانا ہی ہے۔ سوامی نہیں جائے گا تو میں جاؤں گا اس لئے خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔"


سوامی تیار ہو گیا تو جان نے احتیاط کے طور پر اسے خلائی لباس پہن لینے کی تاکید کی کہ کوئی حادثہ پیش نہ آ جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سوامی سیارے کی زمین پر قدم رکھنے کے بعد خلائی سوٹ اتار دے گا۔ اپنے عام لباس میں اگر اسے کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تو پھر سب نیچے چلیں گے۔ بات معقول تھی اس لئے ایسا ہی ہوا سوامی نے جب راکٹ کا دروازہ کھولا تو ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ وہ سیڑھی سے اترا اور پھر اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا پہلا قدم سیارے کی زمین پر رکھا۔ ہم لوگ کھڑکیوں میں سے جھانک رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ اس کا پیر تقریباً ٹخنوں تک اس زمین میں دھنس گیا۔ دونوں پیر زمین میں رکھنے کے بعد وہ چند قدم آگے چلا اور ہمیں یوں لگا گویا وہ مخمل یا ربڑ پر چل رہا ہے ایک جگہ کھڑے ہوکر اس نے آہستہ آہستہ اپنا خلائی سوٹ اتارنا شروع کیا۔ یہ لمحات بڑے جان لیوا تھے۔ ہم سانس روکے ا ور پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔


سوامی لباس اتار چکا تھا اور اب ہمیں مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنا ہاتھ ہلاکر بتایا کہ سب خیریت ہے ، ہم لوگ نیچے آ سکتے ہیں۔ بے پناہ مسرت کے باعث ہماری ہلکی سی چیخیں نکل گئیں اور پھر ہم ضروری سامان کے بیگ اپنے کندھوں اور کمر سے باندھنے میں مصروف ہوگئے۔ اختر نے حالاں کہ راکٹ میں ہی رہنا پسند کیا تھا لیکن جان نے اس کی ایک نہ سنی اور پھر اس کے عجیب سے ریوالور کو بھی وہیں رکھوا دیا۔ اور اس سے کہا: "مسٹر جرمی، جہاں ہم لوگ جا رہے ہیں وہاں آپ ہمارے دشمن نہیں بکلہ دوست ہیں، نہ تو ہم آپ کو کوئی نقصان پہنچائیں گے اور نہ ہی آپ ایسا کریں گے ، اس لئے آپ کا ریوالور اسی جگہ رہے تو بہتر ہے۔"
اختر نے یہ سن کر بہت برا سا مونہہ بنایا اور پھر اپنا ریوالور وہیں واپس رکھ دیا ، کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ سوامی کے پاس کھڑے ہوئے اس عجیب و غریب سیارے کی زمین کو حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔


ہمارا خیال تھا کہ ہم اس سیارے پر کچھ دیر کے لئے قیام کریں گے ، کیوں کہ اس سیارے کی کشش نے ہمارے راکٹ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا ، اس لئے ہم یہاں اتر گئے تھے۔ ورنہ ہماری منزل یہ سیارہ تو نہیں تھا! لہذا ہمارا ارادہ صرف چند گھنٹے یہاں رکنے کا تھا اور اس کے بعد ہمیں اپنے راکٹ کو پھر سے داغنا تھا تاکہ وہ زہرہ کی سمت پرواز کرسکے۔ لیکن کیا ایسا ہوا؟ یہ تو آپ آگے پڑھیں گے۔


سیارے کی کالی زمین کے بارے میں پہلے میرا خیال تھا کہ شاید اس کی سطح بھربھری ہوگی، اسی لئے سوامی کے پیر اس میں دھنستے ہوئے دکھائی دئے تھے۔ لیکن اب مجھے اپنا یہ خیال بدلنا پڑا، یہ زمین اسفنج جیسی تھی۔ پاؤں اس میں کم از کم چھ انچ اندر ضرور دھنس جاتے تھے۔ میرا اپنا خیال تھا کہ اس زمین پر کوئی بھی جاندار تیزی سے نہیں دوڑ سکتا تھا۔کیوں کہ اگر وہ دوڑتا تو یقینا سطح سے دس بارہ فٹ ضرور اوپر اچھلتا! جان نے جب نیچے جھک کر زمین کو چھوا تو وہ بھی حیرت زدہ رہ گیا اس نے ہمیں بتایا کہ یہ زمین کسی پگھلے ہوئے ربڑ کے مادے کی ہے!


ہمارے جسم کا رنگ باہر آتے ہی ہلکے سبز رنگ کا ہو گیا تھا، اس کی وجہ وہی تھی جو میں پہلے بیان کر آیا ہوں، یعنی سیارے کی فضا سبز رنگ کی تھی اور اس کی بیشتر چٹانوں سے سرخ رنگ کے ساتھ ہی سبز رنگ کی لپٹیں بھی نکل رہی تھیں۔ ہم لوگ آنے کو تو باہر آ گئے تھے، لیکن اب ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہاں کریں گے کیا؟ جان نے شاید ہمارے دل میں چھپے ہوئے اس سوال کو جان لیا اور پھر ہم سے بولا:
"میرے خیال میں اتنے لمبے سفر سے ہم لوگ تھک گئے ہیں سیارے کی فضا سازگار ہے۔ اس لئے اگر یہاں ایک دن آرام کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ مجھے اس سیارے کے کاہی آسمان پر کچھ پرندے بھی اڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہاں پرندوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق بھی ہوگی۔ اگر ہم اس مخلوق کو ڈھونڈ نکالیں اور اس سے تبادلۂ خیال کریں تو یہ بات سائنس کے حق میں بڑی مفید ثابت ہوگی!"
یہ سن کر سب خاموش رہے، کوئی نہیں بولا، سوائے زرینہ کے۔ زرینہ خوش ہوکر کہنے لگی: "میں آپ کے خیال کی تائید کرتی ہوں۔۔۔ واقعی اب مجھے تھکن محسوس ہو رہی ہے، یہاں آرام کرنا بہتر ہوگا۔"


زرینہ کے بولنے کے بعد باقی سب نے بھی یہی کہا، البتہ میں اس قیام کا مخالف تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ خدانخواستہ یہاں کوئی حادثہ پیش نہ آجائے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، ہمارے لئے وہ ماحول اجنبی تھا۔ میں نے جان سے یہ بات کہی بھی۔ لیکن اس نے فوراً مجھے تسلی دے دی اور یہ کہہ کر ڈھارس بندھائی:
"ایسا کچھ نہ ہوگا اور پھر ہم آدمی بھی تو کافی ہیں، اختر اور زرینہ کے سوا ہم میں سے ہر ایک کے پاس ریوالور بھی موجود ہے کسی بھی خطرے کے وقت ہم اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"


کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ اس طرف جا رہے تھے۔ جہاں ہمیں راکٹ میں سے سفید دھبے نظر آ رہے تھے اور جس مقام کے اوپر ہمیں کچھ پرندے بھی اڑتے ہوئے دکھائی دئے تھے۔ راکٹ کی حفاظت کے لئے ہم نے جیک کو اکیلا وہاں چھوڑ دیا تھا۔ زرینہ سے بھی بہت کہا گیا کہ وہ وہیں راکٹ میں رہے مگر اس نے یہ بات نہیں مانی تھی۔ اور سب سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہے گی ، خواہ حالات کچھ بھی ہو جائیں!


آگ کے رنگ کی سرخ چٹانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم لوگ آگے بڑھنے لگے، یہ چٹانیں دہکتے ہوئے کوئلے کے رنگ کی تھیں۔ مگر حیرت یہ تھی کہ ان میں تپش بالکل نہ تھی ، حالانکہ ان میں سے ویسی ہی لپٹیں نکل رہی تھیں جیسی کوئلے میں سے نکلتی ہیں ، اس قسم کی چٹانیں اب ہمیں کافی تعداد میں ملنے لگی تھیں۔ ہم اپنے پیچھے تقریباً بیس ایسی چٹانیں چھوڑ آئے تھے۔ سفید رنگ کی زمین اب ہم سے تقریباً ایک فرلانگ دور رہ گئی تھی۔ اچانک زرینہ نے گھبرا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر اسے زور سے بھینچا، ساتھ ہی اس نے دہشت زدہ لہجے میں مجھ سے کہا: " فیروز خدا کے لئے ذرا پیچھے تو دیکھو۔"


میں نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا تو خوف کے باعث میرا سانس بھی گھٹ کر رہ گیا۔ میں نے دیکھا جن چٹانوں کو ہم اپنے سے ایک دو فرلانگ پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ اب بھی ہم سے پندرہ گز کے فاصلے پر موجود ہیں۔ میں نے گھبرا کر جلدی سے یہ بات جان کو بتائی ، اس نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا اور ہماری طرح وہ بھی حیران رہ گیا۔ بارہ چھوٹی بڑی چٹانیں ہمارے بالکل پیچھے تھیں۔ خدا معلوم وہ کیا بلائیں تھیں ہم انہیں زندہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے زندہ ہوتیں تو ہمیں ہلتی جلتی دکھائی دیتیں پھر پتہ نہیں یہ کیا آفت تھی۔ راکٹ ہمیں ابھی تک اپنے سے ڈیڑھ فرلانگ پیچھے نظر آ رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ راکٹ کے آس پاس جو سرخ چٹانیں تھیں وہ اب وہاں نظر نہ آتی تھیں۔ جہاں تک میں سمجھ پایا تھا وہ سب چٹانیں مل کر ہمارا تعاقب کر رہی تھیں!


اف میرے خدا!
یہ کتنا بھیانک اور خوفناک مقام تھا۔۔ دہشت کی ایک تھرتھری ہمارے جسموں میں اچانک پیدا ہو گئی۔ ہم نے جلدی جلدی قدم بڑھانے شروع کر دئے ، ربڑ کی لچکیلی مگر سیاہ زمین نے ہمیں گیند کی طرح اچھالنا شروع کر دیا۔ جس طرح سرکس کے مسخرے گدے دار چیزوں پر اچھلتے ہیں۔ ہماری بھی وہی حالت ہوگئی ، جس مقام پر ہمارے پاؤں پڑتے وہاں سے ہم گویا دس فٹ لمبی چھلانگ لگاکر آگے پہنچ جاتے۔ اس طرح ہم جلد ہی اس جگہ پہنچ گئے جو ہمیں سفید دھبوں کی طرح نظر آتی تھی۔ میں یہ دیکھ کر اچنبھے میں رہ گیا کہ یہ سفید دھبے دراصل ایک ہموار اور سنگ مرمر جیسی سطح تھی جس کے کچھ ہی آگے ہمیں بالکل سفید رنگ کی لمبی لمبی شاخیں نظر آرہی تھیں یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے ہمارے آگے سفید باڑھ لگا دی ہو۔
سنگ مرمر جیسی زمین پر قدم رکھتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے بہت ہی سخت اور وزنی سطح سے ہمارے پاؤں ٹکرائے ہوں۔ ہم نے فوراً پیچھے مڑ کر ان بلاؤں کو دیکھا جو سرخ آتشیں چٹانوں کے روپ میں ہمارا تعاقب کر رہی تھیں اور پھر یہ دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ وہ چٹانیں اب ہم سے کافی پیچھے رہ گئی ہیں۔
اس بات سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ چٹانیں خواہ کچھ بھی ہوں، سنگ مرمر جیسی اس صاف اور شفاف سطح پر نہیں آ سکتی تھیں۔۔ لیکن ایسا کیوں تھا؟ افسوس یہ مجھے اس وقت تک معلوم نہ ہوسکا تھا۔


سنگ مرمر کی یہ زمین اتنی عجیب تھی کہ میں بڑی دیر تک اسے حیرت اور تعجب سے دیکھتا رہا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ہماری دنیا کے کسی سنگ تراش نے اسے آرام سے اور فرصت میں بیٹھ کر بنایا ہو۔ سنگ مرمر جیسی ہی اس میں لکیریں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ اور ان لکیروں میں دھنک کے سے رنگ جھلک رہے تھے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہم کسی راجہ کے عالی شان محل کے فرش پر چل رہے ہوں۔ اب ہم اس مقام کے قریب آچکے تھے جہاں ہمیں دور سے سفید رنگ کی باڑھ دکھائی دیتی تھی۔ میں اسے حیرت اور تعجب سے دیکھتا رہ گیا ، کیوں کہ وہ سفید جنگلات نہیں بلکہ نرالے قسم کے سفید درخت تھے۔۔ ایسے درخت جن کی شاخیں تو لاتعداد تھیں لیکن جن میں پتہ ایک بھی نہ تھا!
درختوں کی شاخیں ہاتھی کی سونڈ جتنی موٹی تھیں اور اسی لحاظ سے آگے سے جاکر پتلی ہو جاتی تھیں۔ ایک درخت پندرہ بیس شاخوں سے مل کر بنا تھا اور یہ شاخیں گولائی میں مڑی ہوئی تھیں۔


"یہ کس قسم کے درخت ہیں؟" مجھے اپنے کان میں زرینہ کی سہمی ہوئی آواز سنائی دی۔
"خدا ہی بہتر جانتا ہے۔" ظاہر ہے میں اس کے علاوہ اور کیا جواب دے سکتا تھا۔
"فیروز۔۔۔" جان نے آگے بڑھتے بڑھتے اچانک رک کر کہا۔" مجھے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آتے۔ نہ جانے یہ کیسے درخت ہیں؟ بہرحال ہمیں اس جگہ پہنچنا ضرور ہے۔"
"کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم یہیں سے لوٹ چلیں۔۔۔ "والٹر نے ہر سمت نظریں دوڑاتے ہوئے رائے دی۔
"ضرور چلتے اگر وہ آتشیں رنگ کی چٹانین ہمارے درمیان حائل نہ ہوتیں۔" جان نے جواب دیا۔
"لیکن وہ تو ہر صورت سے حائل رہیں گی، خواہ ہم ابھی واپس چلیں یا کچھ عرصے بعد۔"
"مجھے سوچنے دو مسٹر والٹر۔"


جان اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ صورت حال واقعی خطرناک ہے مگر جان اس کا اعتراف کر کے دوسروں کے دلوں میں خوف پیدا نہیں چاہتا تھا۔ وہ بڑے شش و پنج میں تھا۔ آتشیں چٹانوں کے بارے میں ہمیں صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا تھا کہ وہ ہمارا تعاقب کرتی ہیں۔ ویسے کیا واقعی وہ خطرناک چیز ہیں۔ یہ بات ہمیں ابھی تک معلوم نہ ہو سکی تھی۔ اور یہی معاملہ ان سفید درختوں کے ساتھ بھی تھا، ہم ان سے بے حد قریب تھے۔ مگر ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ کیسے درخت ہیں۔ بہت دیر کے سوچ بچار کے بعد جان نے کہا:
"چلنے کو تو ہم ابھی واپس چل سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کا کیا بھروسہ ہے کہ ہم اس سیارے کی کشش سے باہر نکل جائیں گے۔۔ ہو سکتا ہے کہ ہم پرواز کریں اور یہ ہمیں پھر اپنی طرف کھینچ لے۔ ہمیں چند دن بیٹھ کر سوچنا پڑے گا کہ راکٹوں کے انجنوں میں کیا تبدیلی کی جائے جو وہ طاقت ور ہوجائیں ، کیوں والٹر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟"
"ہاں یہ طریقہ بہتر ہے۔" والٹر نے جواب دیا۔
"لہٰذا ہمیں یہ وقت ہر طرف گھوم پھر کر بتانا چاہئے۔ ہم جب واپس راکٹ میں پہنچیں گے تو انجن کی طرف متوجہ ہوں گے فی الحال تو تحقیق اور تلاش ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح ہمیں کوئی خاص چیز مل جائے۔"
جان کی بات درست تھی یا غلط۔۔۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا!


سنگ مرمر جیسی شفاف زمین پر سفید درخت بڑے عجیب لگ رہے تھے ان کی لمبی اور جلیبی کے انداز میں مڑی ہوئی شاخیں سبز کاہی آسمان تک پہنچ رہی تھیں، زمین پر کوئی گھاس یا جھاڑی نہیں تھی۔ درختوں کے بائیں طرف جو میدان تھا اس میں اودے رنگ کی اونچی اونچی چٹانیں اور درے تھے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ عجیب اور حیرت انگیز جگہ تھی، یوں لگتا تھا جیسے ہماری زمین کے کسی معمار نے ناپ تول کر ہرچیز بنائی ہے۔ پہلے کالی زمین تھی جس میں سرخ چٹانیں تھیں ، یہ زمین اچانک ختم ہو گئی تھی اور سنگ مرمر جیسی زمین شروع ہوئی تھی جس پر سفید رنگ درخت تھے۔ یہ زمین بھی اچانک بائیں طرف ختم ہو جاتی تھی اور میدان شروع ہو جاتا تھا۔ یوں سمجھئے کہ ہمارے آگے میلوں دور تک سفید زمین تھی، ہمارے پیچھے کالی زمین اور ہمارے بائیں طرف میدان میں اودی چٹانیں تھیں۔ جو پرندے ہم نے دور سے کاہی آسمان میں اؑڑتے ہوئے دیکھے تھے وہ اب کہیں نظر نہ آتے تھے۔


یہ سوچ کر میدان میں ہم نسبتاً ہر خطرے سے محفوظ رہیں گے۔ ہم بائیں سمت مڑ گئے ، اس طرح دور تک ہمیں صاف اور چٹیل زمین نظر آتی تھی۔ اونچی اونچی اودے رنگ کی چٹانیں کافی تعداد میں تھیں۔ البتہ درخت یا پتے جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔۔ چٹانوں کے قریب سے گزرتیے وقت ہم نے احتیاطاً انہیں غورسے دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئے۔ وہ چٹانیں اپنے مقام پر موجودد تھیں ، یعنی ہمارا تعاقب نہیں کر رہی تھیں۔ یہ دیکھ کر ہمیں اطمینان ہوا اور ہم ایک درے کی طرف بڑھنے لگے جس کے دائیں اور بائیں طرف دو اونچی چٹانیں تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید ان چٹانوں کے باہر کچھ اور نظر آئے ، کیوں کہ یہ چٹانیں ایک پردے کی طرح ہماری راہ میں حائل تھیں۔


جیسے ہی ہم درے کے درمیان پہنچے ایک عجیب بات ہوئی ، شاید میں اپنے الفاظ سے وہ آواز بیان کرنے سے قاصر رہوں گا ، یوں سمجھئے کہ صور اسرافیل جیسی خوفناک اور دہشت انگیز وہ آواز تھی جو اچانک ہمیں سنائی دینے لگی۔ یہ آواز اتنی تیز اور اونچی تھی کہ ہم اپنے جسم سے اسے ٹکراتا ہوا محسوس کر رہے تھے۔۔۔ بھیانک اور دل کو ہلا دینے والی یہ آواز نہ جانے کہاں سے آرہیی تھی، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ جیسے ہی میں نے زرینہ اور اختر کو ساتھ لے کر آگے بھاگنے کی کوشش کی، مجھے یوں لگا گویا وہ سائرن جیسی لرزتی ہوئی آواز مجھے آگے بڑھنے سے روک رہی ہے۔


ہم گردنیں اٹھائے خوف زدہ نظروں سے اوپر دیکھ رہے تھے ، کیونکہ وہ چیخ یا سیٹی جیسی آواز چٹانوں کے اوپر سے ہی آئی تھی۔ ہمارے اوپر دیکھتے ہی کوئی چیز میرے اوپر دھب سے گری، میرے ہوش اڑ گئے جب میں نے یہ محسوس کیا کہ دراصل وہ کوئی رقیق مادہ تھا۔ اپنے پورے جسم پر مجھے گیلا گیلا سا گوند بہتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پہلے تو میں سمجھا تھا کہ شاید یہ مصیبت صرف میرے اوپر ہی نازل ہوئی ہے لیکن جب میں نے ہر ایک کو اس چیز کو اپنے جسم سے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ہم سب اچانک کسی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ گوند جیسی چیز سخت بدبودار تھی۔ اس کی دم گھونٹ دینے والی بو ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی لیکن جتنا ہم اس گوند کو ہٹانے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی چپکتا جاتا۔
سائرن جیسی آواز ابھی تک برابر آ رہی تھی۔ اچانک چٹانوں کے اوپر سے کوئی چیز دھب سے کودی۔۔۔ اف خدا ، میں کس طرح الفاظ میں اس وقت کی حالت بیان کروں میرا قلم لرز رہا ہے۔۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ قلم تو ابھی کئی مقامات پر تھرتھرائے گا اس لئے دل کو قابو میں رکھ کے بیان کرہی دیتا ہوں کہ وہ کیا چیز تھی !


وہ دراصل ایک بہت بڑی مکڑی تھی ، تقریباً دس فٹ لمبی مکڑی۔ اس کی آٹھ ٹانگیں کسی پہلوان کی رانوں جیسی موٹی تھیں۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس مکڑی کا سر بالکل انسانوں جیسا تھا سب کچھ وہی! بس فرق اتنا تھا کہ مونہہ کی جگہ اس کے سر میں طوطے جیسی چونچ تھی۔ چونچ کے اوپر دو آنکھیں تھیں جو ہمیں گھور رہی تھیں۔ (اس لحاظ سے میں اس عجیب اور خوفناک چیز کو "مکڑ آدمی" ہی لکھوں گا)۔ اس کے جسم پر رواں تھا اور یہ رواں گھوڑے کے بالوں جتنا موٹا تھا، مکڑ آدمی کی چونچ بار بار کھل اور بند ہو رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی وہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا۔ تعداد میں وہ کل چھ تھے ان کے چونچ نما مونہہ سے ہی وہ بدبودار لعاب نکل رہا تھا۔ جو ہمارے جسموں تک ایک لکیر کی صورت میں پہنچ رہا تھا۔


میں تب سمجھا کہ دراصل وہ ان کا جالا تھا۔ اور انہوں نے اوپر سے اپنا یہ جالا ہمارے اوپر ہمیں جکڑنے کے لئے پھینکا تھا۔ اس خیال کی تصدیق پھر فوراً ہی ہو گئی کیوں کہ مکڑ آدمیوں نے جلدی جلدی ہمارے چاروں طرف گھوم کر چونک سے نکلتے ہوئے لعاب کے اس جالے کو ہمارے اوپر تاننا شروع کر دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک ننھی سی مکری اپنے کسی شکار کو جالے میں جکڑ کر جلدی سے اس کے گرد جالا تاننے لگتی ہے۔ یہ جالا بھی عجیب تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہمیں ربڑ کے رسے سے باندھ دیا گیا ہو۔ زرینہ بے چاری خوف کے باعث بے ہوش ہو گئی تھی۔ اور ہم میں سے کسی کو بھی اتنا موقع ہی نہ مل سکا تھا کہ اپنے ریوالور نکال کر ان سے کچھ کام لے سکتے۔


مکڑ آدمیوں نے باری باری ہمیں اپنی کمر پر لادا اور پھر قافلے کی صورت میں میدان میں آگے کی طرف روانہ ہوگئے۔ شاید انہوں نے ہمیں اپنے جسم سے بھی اچھی طرح جکڑ لیا تھا یہی وجہ تھی کہ ہم ان کی کمر پر چت لیٹے ہوئے تھے اور ذرا بھی نہ ہلتے تھے۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے ہمارے بولنے کی قوت سلب ہوگئی تھی۔ اب جو ذرا ہوش آیا تو جان نے کہا: "قسمت پر شاکر رہو فیروز۔۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جب بھی موقع ملے گا ہم اپنے ہتھیاروں سے کام لیں گے۔"


"اگر تم لوگوں کو اس کا موقع ملا۔" ایک خاموش آواز ہم سب کو سنائی دی۔ حالانکہ مکڑ آدمیوں میں سے کوئی نہیں بولا تھا۔ لیکن ہمارے ذہن کو یہی جواب سنائی دیا تھا۔ شاید یہ کوئی خاص قوت یا ٹیلی پیتھی تھی جس کے باعث ہم نے مکڑ آدمیوں کے خیالات پڑھ لئے تھے۔
ہم چوکنے ہو گئے اور ہم نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ کم از کم جب تک ہم مکڑ آدمیوں کی کمر پر لدے ہوئے یہ سفر کر رہے ہیں ہرگز کچھ نہ بولیں گے۔
"تیار ہو جاؤ۔۔۔" ہمیں اپنے ذہن میں وہ آواز پھر سنائی دی ، مکڑ آدمی کہہ رہا تھا: "تم لوگ ہمارے آقا کے سامنے پہنچنے والے ہو۔ خبردار لڑنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ انجام بہت برا ہوگا۔"


بڑا بھیانک ماحول تھا، مکڑ آدمیوں کی کمر پر لدے ہوئے ہم بڑی تیزی سے کسی خاص سمت میں جا رہے تھے۔ ہم اپنا جسم تو ہلا ہی نہیں سکتے تھے۔ ہمارے اوپر سبز کاہی آسمان تھا اور دائیں بائیں اودی چٹانیں۔ مکڑ آدمیوں کا سخت رواں میری پیٹھ میں سوئیوں کی طرح چبھ رہا تھا۔ لیکن میں اس بری طرح جکڑا ہوا تھا کہ پہلو بھی نہیں بدل سکتا تھا۔ زرینہ ابھی تک بے ہوش تھی اور اختر ہمیشہ کی طرح حالات سے بے پروا، آسمان میں لگاتار گھورے جا رہا تھا۔
اچانک تین بڑے بڑے چاند ہماریے پیروں کی سمت سے آسمان میں نمودار ہوئے اور ہمارے اوپر سے گزرتے ہوئے سر کی طرف چلے گئے۔ یہ تین چاند مٹکے سے بھی زیادہ بڑے تھے ااور ان کی روشنی نارنجی تھی ، میں ان کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک میرے دماغ کو جھٹکا سا لگا اور وہی آواز مجھے ذہن سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی۔
"یہ ہماری دنیا کے چاند ہیں ، تین تین کی ٹکڑی میں بٹے ہوئے یہ کل بارہ چاند ہیں۔ اور یہ ہماری دنیا کے لگاتار چکر لگاتے رہتے ہیں۔"


ہم چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ میں سمجھ گیا کہ جو سوال میرے دل میں پیدا ہوا تھا تقریباً وہی سوال دوسروں نے بھی سوچا تھا اور مکڑ آدمیوں نے ہمیں اس سوال کا جواب دے دیا تھا۔ والٹر اسمتھ اور جان اپنی گردنیں بار بار اٹھا کر اوپر دیکھ رہے تھے۔ کہ شاید وہ چاند پھر نظر آئیں مگر ایسا نہ ہوا۔ کیوں کہ مکڑ آدمیوں کے کہنے کے مطابق صرف ایک ہی ٹکڑی ہمارے سروں پر سے گزری تھی۔ تین چاندوں والی دوسری ٹکڑی خدا جانے کب آتی۔۔۔؟ بہرحال ہم اس سلسلے میں اپنے دماغوں کو پریشان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے ہم خاموش ہی رہے۔ کوئی کسی سے کچھ نہیں بولا۔


"ہوشیار!" مکڑ آدمی کی آواز ہمارے ذہنوں سے پھر ٹکرائی: "تم عظیم کراما کے سامنے پہنچنے ہی والے ہو، اس کا مقدس اور پاک گھر ایک بہت بڑی چٹان کے غار میں ہے۔ ہم تمہیں پھر آگاہ کرتے ہیں کہ کسی بھی چالاکی اور شرارت کی کوشش نہ کرنا۔۔۔ ورنہ تم اپنے انجام پر بری طرح پچھتاؤ گے۔"
میں بے بسی کے عالم میں دانتوں سے اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا ، جس مکڑ آدمی کی کمر پر سوامی بندھا ہوا تھا وہ مجھ سے کافی قریب تھا۔ اس لئے میں سوامی سے باتیں کر سکتا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ مکڑ آدمیوں کی یہ قوم دل کی بات بھی سمجھ لیتی تھی اور خیالات کے پڑھنے میں بھی ماہر تھی۔ اس لئے سوامی سے کوئی بات کرنی یا پھر اپنے بچاؤ کی ذرا سی بھی کوشش کرنا بے کار تھا۔


جلد ہی ہم ایک غار میں داخل ہونے لگے۔ اس غار کی چھت پر لاتعداد روشنیاں چمک رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا گویا ہزاروں پھلجڑیاں چھوٹ رہی ہیں یا پھر کروڑوں کی تعداد میں جگنو چمک رہے ہوں۔ ان غاروں کی بناوٹ بھی عجیب تھی ، چوکور پتھروں سے دیواروں کی چنائی کی ہوئی معلوم ہوتی تھی اور ان پتھروں سے وہی لیس دار اور رقیق مادہ لپٹا ہوا تھا۔ اندر بہت اندھیرا تھا ، جگنوؤں کی سی چمک محض چمک ہی تھی روشنی نہیں۔ اس لئے اندھیرا بدستور تھا۔ مکڑ آدمی ہمیں لئے ہوئے کچھ اونچے نیچے پتھروں اور ڈھلانوں کو عبور کرتے ہوئے جلد ہی ایک ہموار اور صاف شفاف مقام پر پہنچ گئے۔ اور پھر یہاں پہنچ کر شاید انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کی کمروں سے اتر جائیں۔ ہمیں یہ محسوس کرکے بڑی حیرت ہوئی کہ ربڑ کے رسے جیسے جن جالوں نے ہمیں جکڑ رکھا تھا وہ یک بیک ڈھیلے ہو گئے اور ہم نہایت آسانی سے غار کی زمین پرکود گئے اور پھر کودتے ہی میں نے جلدی سے ہر سمت دیکھنا شروع کر دیا۔


میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میں نے کیا دیکھا؟ میں نے دیکھا کہ یہ ایک بہت اونچا اور بہت بڑا ہال ہے اور اس ہال کے بیچوں بیچ ایک بہت اونچا اور لمبا درخت ہے۔ اس درخت کے پتے تقریباً چالیس فٹ لمبے تھے اور پورے درخت میں مشکل سے صرف پچاس ساٹھ پتے تھے۔ یہ درخت ہماری دنیا کے حساب سے اندازاً ایک فرلانگ کے رقبے میں ضرور تھا اور اس کے سب سے اوپر والے پتے کے درمیان میں سفید رنگ کا ایک مکڑ آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے مخروطی سر کے بال ایک مربع نما تاج سے ڈھکے ہوئے تھے اس تاج کے بیچ میں ایک سنہری گولا لگاتار چکر لگا رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس گولے میں سے ایک بہت ہی مدھم مگر سنہری شعاع بھی نکل رہی تھی۔ یہ مکڑ آدمی پتے پر بڑے آرام سے اپنی آٹھ ٹانگوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ ہمارے ذہنوں کو ایک خاموش حکم ملا کہ ہم سب ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں۔ ہم نے اس حکم کی فوراً تعمیل کی، سفید مکڑ آدمی کی بھیانک آنکھیں ہمیں غور سے دیکھ رہی تھیں۔ بڑی آہستگی سیے وہ پتے کے کنارے پر آیا اور پھر اپنی چونچ سے نکلتے ہوئے لعاب دار تار کی مدد سے نیچے اترنے لگا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی مکڑی اپنے جالے کے ایک تار سے لٹک کر اوپر سے نیچے آتی ہے۔
درخت کے سب سے نچلے پتے پر آ کر وہ ٹک گیا اور پھر ہمیں گھور کر دیکھنے لگا۔ میں نے زرینہ کو سہارا دے رکھا تھا کیوں کہ وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ اگر میں اسے نیچے پڑا رہنے دیتا تو یقینا یہ ہبت ناک قوم اسے مردہ سمجھ لیتی اور پھر خدا جانے اس کا کیا حشر کرتی ، جس وقت میں انی بھیانک سواری پر سے اتر رہا تھا اسی وقت میں نے بے ہوش زرینہ کا ہاتھ تھام لیا، یہی وجہ تھی کہ زرینہ اس وقت آنکھیں بند کئے اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ مکڑ آدمی میرے خیالات سن لیں گے، جان سے دریافت کیا۔
"یہ خوفناک قوم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟"
"ہم بری طرح پھنس گئے ہیں فیروز" جان نے بے بسی سے کندھے جھٹکے۔ "ہمیں ان کا کہنا مانتے رہنا چاہئے ، ممکن ہے کہ بعد میں کوئی طریقہ ان سے چھٹکارا پانے کا مل جائے۔"
"مگر زرینہ کا کیا کروں؟ یہ تو بالکل بے ہوش ہے۔"
"تمہاری اوپر کی جیب میں جو فوری امداد والا پیکٹ ہے اسے جلدی سے کھول کر گلابی رنگ کی گولی نکالو اور زرینہ کے مونہہ میں زبردستی ڈال دو۔ وہ بے ہوشی دور کرنے والی دوا ہے۔"


میں نے جب فوراً جان کے کہنے پر عمل کیا تو زرینہ کو ہوش آگیا۔ اس نے یہ بھیانک اور ڈراؤنا ماحول دیکھ کر چیخنا چاہا مگر میں نے اسے تنبیہ کی کہ وہ خاموش رہے اور اپنے حواس کو قابو میں رکھے۔ زرینہ میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ بعض حالات میں خود پر فوراً قابو پا لیتی تھی۔ اس نے اپنی چیخ کو روک لیا اور پھٹی پھٹی نظروں سے پتے پر پھرتے ہوئے مکڑ آدمی کو دیکھنے لگی ، میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے اس وقت کے خیالات اور باتیں ان جانور نما انسانوں نے کیوں نہیں سنیں؟ ہم نے جو باتیں کی تھیں انہیں سن کر مکڑ آدمی کو ہمیں فوراً روک دینا چاہئے تھا۔ اس وقت تو یہ بات میری سمجھ میں آئی نہیں ہاں البتہ بعد میں اس حقیقت کا انکشاف ضرور ہوگیا کہ وہ قوم صرف دس پندرہ فٹ کی دوری ہی سے ہمارے خیالات پڑھ سکتی تھی اس سے زیادہ فاصلے سے نہیں۔


"جھک جاؤ۔۔۔ عظیم کراما کے آگے جھک جاؤ۔۔۔ "ہمیں آواز سنائی دی مگر ہم نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی۔
"سنا نہیں تم نے۔۔ عظیم کراما کے سامنے جھک جاؤ۔۔۔"
"افسوس ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکیں گے۔۔۔" میں نے بلند آواز میں جواب دیا۔ " ہم سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکا کرتے۔"
"خدا کون ہے؟" قہر آلود لہجہ میں کسی نے پوچھا۔
"ہمارا تمہارا اور پوری کائنات کا مالک۔۔۔ وہی ہمارا آقا ہے اور ہم اسی کے آگے جھکے ہیں۔"
"تمہیں اس حکم عدولی کی جرات کیسے ہوئی؟" ایک لرزتی ہوئی آواز جو سیٹی سے مشابہ تھی، سنائی دی۔ یقینا یہ آواز کراما کی تھی۔ اس کی خوفناک آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔" تم نہیں جانتے کہ ہم تمہارا کیا حشر کر سکتے ہیں۔ خیر پتہ لگ جائے گا جب تمہاری پیشانی پر کتاک باندھا جائے گا اور تمہیں شیفاؤں کی خوراک بننے کے لئے میدان میں چھوڑ دیا جائے گا۔ تب تمہیں اس وقت کی حکم عدولی یاد آئے گی۔"


ہم چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ، خدا جانے یہ کتاک اور شیفا کیا بلائیں تھیں؟ بہرحال کچھ بھی ہو ہم سمجھ چکے تھے کہ ہم نے کراما کے آگے نہ جھک کر ایک بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میرے دل میں ایک خیال گھر کرتا جا رہا تھا کہ یہ حکم عدولی ہم نے صرف اس لئے کی ہے کہ ہم لوگ خدا پرست تھے ہم نے خدا کی خوشی کی خاطر یہ خطرہ منظور کیا تھا ، اب کیا خدا ہمیں ان بلاؤں سے نجات نہ دلائے گا ؟ اور جیسا کہ آپ آگے پڑھیں گے اس سوال کا جواب ہمیں جلد ہی مل گیا۔


کراما پتے پر ہی بیٹھا رہا اور اس کے ساتھی یا مصاحب جو کچھ آپ سمجھیں ، نیچے کھڑے رہے۔ یہ ایک بھیانک عذاب تھا جو ان بلاؤں کی صورت میں ہم پر مسلط تھا جس غار میں ہم کھڑے ہوئے تھے وہ اتنا بڑا تھا کہ اس کا دوسرا حصہ ہمیں بالکل نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے ہمیں وہ مکڑ آدمی نظر نہ آسکے جو آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے کسی نامعلوم سمت سے غار میں جمع ہو رہے تھے۔ جلد ہی وہ کئی سو کی تعداد میں نظر آنے لگے۔ ان کی کمان دراصل ایک پیلے رنگ کا مکڑ آدمی کر رہا تھا۔ اب میں سمجھا کہ دراصل وہ ان کی فوج تھی۔ اس فوج کے سب سے آگے جو مکڑ آدمی تھے ان کی چونچوں میں چند سفید سی پٹیاں لٹک رہی تھیں۔ بڑے ادب کے ساتھ وہ کراما کے سامنے آکر جھک گئے اور پھر ان میں سے ایک چند فٹ آگے بڑھ کر بولا۔
"عظیم کراما ہمیشہ حکومت کرتا رہے۔۔۔ میں قیدیوں کو گرفتار کرنے حاضر ہو گیا ہوں۔"


کراما یہ سن کر مسکرایا ، شاید وہ اس کی مسکراہٹ ہی تھی جو اس کی چونچ کچھ دیر تک کھل کر پھر بند ہوگئی تھی۔ ادھر میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ جانور نما انسان بالکل صاف کیوں بول رہا ہے ؟ پہلے ان کی آوازیں ہمارے ذہنوں سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں لیکن اب ہم صاف سن سکتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جو کچھ وہ بول رہے تھے اردو میں بول رہے تھے اور یہی بات مجھے حیرت زدہ کر دینے کے لئے کافی تھی مجھے حیران دیکھ کر شاید وہ میرے دل کی بات سمجھ گیا۔


"میں سمجھ گیا کیا سوچ رہے ہو۔" کراما نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔
"یہ دراصل ہماری سائنس ہے کہ ہم بول تو اپنی زبان میں رہے ہیں لیکن تم اسے اپنی زبان میں سن رہے ہو۔ یہ ہماری بڑائی کا ایک معمولی ثبوت ہے کہ ہم کرامائی زبان بولتے ہیں اور تم تک پہنچتے ہی کرامائی زبان اردو میں تبدیل ہو جاتی ہے۔۔ کہو اب میری طاقت کا لوہا مانتے ہو اور میرے آگے جھکتے ہو؟"
میں خاموش رہا اور کنکھیوں سے جان کر دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹ سختی سے بھنچے ہوئے تھے ، مجھے اپنی طرف دیکھتے پاکر اس نے مجھ سے آہستہ سے کہا۔
"ناامید نہ ہو۔۔۔ ہمیں وقت کی ضرورت ہے، ہو سکتا ہے کہ کچھ وقت ملنے پر رہائی کا کوئی طریقہ ہمیں سوجھ جائے۔"
"آپ کا مطلب ہے کہ ہم آسانی سے ان کے قیدی بن جائیں؟" والٹر اسمتھ نے پوچھا۔
"یقیناً"


میرا خیال درست ہی تھا کیوں کہ دور ہونے کے باعث ہماری یہ گفتگو اور ہمارے خیالات مکڑ آدمیوں پر ظاہر نہ ہو سکے اور وہ اسی طرح اپنی بلی جیسی آنکھوں سے ہمیں گھورتے رہے۔ ہمیں خاموش دیکھ کر کراما نے وہی سیٹی جیسی آواز نکالی اور اپنی فوج کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ وہ ہمیں گرفتار کر لے۔ پیلے رنگ والا مکڑ آدمی ہماری طرف جیسے ہی بڑھا، میں نے فوراً جان سے کہا۔
"کیا ہمیں اپنے ریوالوروں سے کام لینا چاہئے؟"
"کوشش کر کے دیکھ لینے میں کیا حرج ہے؟" والٹر اسمتھ نے جلدی سے جواب دیا۔
"ہاں ایک بار ہوائی فائرنگ کرکے دیکھ لو۔۔۔" جان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔


ہم نے یہ سنتے ہی اپنے اپنے ریوالور نکال لئے اور پھر مکڑ آدمیوں کی طرف تان لئے۔ ہمیں ایسا کرتے دیکھ کر کراما بڑے زور سے ہنسا ، اس کی چونچ کھل گئی اور تیز سیٹی جیسی ہنسی ہمیں سنائی دینے لگی۔
"تمہارے یہ کھلونے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔" اس نے غصیلی آواز میں کہا: " اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے چند ضرور مر جائیں گے مگر ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ تم بچ کر ہرگز نہیں جا سکتے۔"
"اس کے علاوہ۔۔۔ "پیلے رنگ والے مکڑ نے اتنا کہہ کر اپنی دونوں اگلی ٹانگیں تالی بجانے کے انداز میں پیٹیں۔ "تم لوگ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے ، کیوں کہ تمہارا ایک ساتھی ہمارے قبضے میں ہے۔"


تالی کی آواز سنتے ہی چند مکڑ آدمی کسی کونے میں سے ایک آدمی کو دھکے دیتے ہوئے ہمارے سامنے لائے۔ ہلکی سی ملگجی روشنی میں جب اسے ہم نے دیکھا تو بھونچکے رہ گئے اور پھر ناامیدی کے باعث ہمارے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ریوالور خود بخود نیچے جھک گئے کیوں کہ یہ آنے والا شخص جیک تھا۔



Novel "Neeli Dunya" by: Siraj Anwar - episode:8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں