خواجہ احمد عباس کے 10 پسندیدہ فلمی فنکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-07-24

خواجہ احمد عباس کے 10 پسندیدہ فلمی فنکار

khwaja-ahmad-abbas-favourite-top-10-film-artists
خواجہ احمد عباس (پیدائش: 7/جون 1914 ، وفات: یکم/جون 1987)
مشہور صحافی، فلمی نقاد، ہدایت کار اور فلمساز تھے۔ فلموں میں ان کی ابتدا فلم نقاد کے طور پر ہوئی تھی۔ عباس صاحب نے کامیاب ترین فلمیں بنائیں، کامیاب ترین فلموں کی کہانیاں لکھیں مگر صحافت سے آخری لمحہ تک رشتہ برقرار رکھا۔
سنہ 1942ء میں اس وقت کے آسمانِ فلم پر چمکنے والے ستاروں میں سے انہوں نے اپنی پسند کے پانچ اداکاراؤں اور پانچ اداکاروں کا انتخاب کیا تھا۔ 46 سال بعد 1988ء میں ماہنامہ "شمع" نے خواجہ احمد عباس کے اس مضمون کے چند اقتباسات اپنے خصوصی نمبر میں شائع کیے تھے کہ قارئین پرانے فلمی فنکاروں کے متعلق جان سکیں۔
آٹھ دہائیوں کے بعد یہی مضمون پہلی بار سائبر دنیا میں تعمیرنیوز کی جانب سے تحریری شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

1: درگا کھوٹے (وفات: دسمبر 1991 بعمر 86 سال)
durga-khote
فلمی دنیا کی سب سے سینئر اداکارہ ہیں۔ ان کے اعلیٰ فن کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ دیوکی بوس کی فلم "سیتا" (ریلیز: 1934ء) میں جو کام کیا ہے، ایسی اداکاری میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ امرت منتھن، چرنوں کی داسی، بھرت ملاپ وغیرہ میں بھی وہ فن کی بلندیوں پر ہیں۔
2: دیویکا رانی (وفات: مارچ 1994 بعمر 85 سال)
Devika-Rani
فلم "کرما" (ریلیز: 1933) دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ دیویکا رانی فلم انڈسٹری کا عظیم ترین سرمایہ ہیں۔ جوانی کی ہوا، جیون نیا، اچھوت کنیا، جنم بھومی، عزت، نرملا، ساوتری مشہور فلمیں ہیں۔
3: جمنا (وفات: نومبر 2005 بعمر 86 سال)
Jamuna-Barua
اگر یہ کہا جائے کہ جمنا فلمی اسکرین کی سب سے خوبصورت اداکارہ ہیں تو نسیم بانو کے چاہنے والے یقیناً احتجاج کریں گے۔ مگر ان کا حسن رنگ روپ کا محتاج نہیں، وہ سراپا حسن کا نمونہ ہیں۔ میں "دیوداس" (ریلیز: 1935) کی 'پارو' کے رول میں انہیں بھلا نہیں سکتا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ دوسری اداکاراؤں کے مقابلہ میں خالص مشرقی لگتی ہیں۔
4: لیلا چٹنس (وفات: جولائی 2003 بعمر 93 سال)
Leela-Chitnis
جنٹلمین ڈاکو (1937)، کنگن (1939)، بندھن (1940) وغیرہ سے ہر فلم میں وہ آگے ہی بڑھتی جا رہی ہیں جس کا کریڈٹ انہیں ملنا چاہیے کہ وہ خراب لکھے ہوئے رولز کو بھی اپنی عمدہ اداکاری سے زندہ کر دیتی ہیں۔ خاص طور پر "اردھانگی" (1940) میں جو رول انہیں دیا گیا تھا اسے دیکھ کر افسوس ہوا کہ آج کل ہمارے مصنف کیسی بےتکی کہانیاں اور کیسے خراب رولز لکھ رہے ہیں۔
5: سنہہ پربھا پردھان (وفات: دسمبر 1993 بعمر 78 سال)
Snehprabha-Pradhan
کم سن ہیں اور انہیں بھی انہی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑ رہا ہے جن کا سامنا لیلا چٹنس نے کیا مگر دیویکا رانی اور جمنا ان سے محفوظ ہیں۔ ابتدا سے ہی ان کا اچھے ہدایت کاروں سے سابقہ نہیں پڑا۔ "پنر ملن" (1940) میں انہیں کچھ کرنے اور دکھانے کا موقع ملا۔ ان کی فلمیں باکس آفس پر کامیاب رہی ہیں۔ مگر یہ کامیابی کافی نہیں، انہیں ابھی بہت کچھ کر دکھانا ہے۔

1: نواب (وفات: 1954)
Nawab-Kashmiri
اگر ان کا اسٹیج کا زمانہ بھی شمار کیا جائے تو وہ سب سے سینئر اداکار ہیں۔ جب وہ فلموں میں آئے تب وہ اسٹیج کے نامور اداکار تھے۔ زبان پر پوری قدرت رکھتے تھے، بہترین تلفظ اور آواز کے اتار چڑھاؤ میں ملکہ رکھتے تھے۔ کام میں فنا ہو جاتے تھے۔ حقیقت پسندی کی انتہا یہ تھی کہ ڈائرکٹر کے کہے بغیر خود فلم "یہودی کی لڑکی" (1933) کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دئے۔ ایسی مثال آج تک کہیں نہیں ملتی۔ بہت پرہیزگار اداکار تھے۔ لڑکیوں سے بہت فاصلے سے رہتے تھے۔ ایک سین کے لیے رتن بائی کو گلے لگانا تھا جس کے لیے نواب نے انکار کر دیا۔ مگر فلم کی خاطر ایک راستہ نکالا۔ رتن بائی کو سب کے سامنے اپنی بہن بنایا اور پھر شوٹنگ کی۔ دھوپ چھاؤں، کروڑ پتی، مایا، مکتی ان کی مشہور فلمیں ہیں۔ مگر سپیرا اور لگن (1941) رہتی دنیا تک یاد کی جائیں گی۔
2: بابو رائے پنڈھارکر (وفات: 1967 بعمر 71 سال)
Baburao-Pendharkar
نواب کی طرح بابورائے پنڈھارکر کے فن کا معترف ہوں۔ وہ بھی اسٹیج اور خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک آئے۔ مگر افسوس وہ اردو صحیح طریقے سے بولنے میں ناکام رہے۔ یہی خامی ان کے لیے سدِراہ ثابت ہوئی۔ "ایودھیا کا راجہ" (1932)، دھرم ویر، چھایا، امرت ان کی ناقابل فراموش فلمیں ہیں۔
3: اشوک کمار (وفات: دسمبر 2001 بعمر 90 سال)
Ashok-Kumar
بمبئی ٹاکیز کے آنجہانی ہمانسو رائے عجیب موڈی اور من موجی انسان تھے۔ ایک دن اچانک انہوں نے سب کو حیران کر دیا جب لیباریٹری میں کام کرنے والے ایک اسسٹنٹ کو بلایا اور حکم دیا کہ تم میری فلم "جیون نیا" کے پیرو ہو۔ یہ شخص اشوک کمار تھا جن کا اپنا ذاتی نام تھا مکند لال گنگولی۔ وہ ایک شرمیلا نوجوان تھا جسے اداکاری کی الف ب ت بھی نہیں آتی تھی مگر ہمانسو رائے کی ضد تھی کہ وہ اسے ہیرو بنائیں گے۔ چار سال تک وہ فلم کے پردے پر ایک شرمیلا دبّو ہیرو بنا رہا، اداکاری سے کوسوں دور مگر دیکھنے میں بھلا، شائستہ اور مہذب تھا۔ ایک طرح اداکاری اشوک کمار پر تھوپی گئی تھی اس لیے ناقد اس کی اداکاری کے بارے میں کچھ لکھتے ہی نہیں تھے۔ مگر چار سال تک کام کرنے کے بعد وہ نکھرنے لگا۔ "کنگن" (1939) میں وہ 'برا' نہیں تھا۔ "بندھن" (1940) میں ٹھیک تھا۔ "نیا سنسار" (1941) میں اس نے اپنی اداکاری سے سب کو چونکا دیا کہ یہ لڑکا اداکاری بھی جانتا ہے۔ "انجان" (1941) اس کے بل پر چلی اور "جھولا" (1941) میں تو وہ قیامت تھا۔ اور پھر اشوک کمار کے فن میں ہر فلم کے ساتھ نکھار آ رہا ہے۔ میری دانست میں اس کی دوڑ بہت لمبی ہوگی۔ کچھوے اور خرگوش کی طرح وہ بہتوں کو پیچھے چھوڑے گا۔
4: چندر موہن (وفات: اپریل 1949 بعمر 42 سال)
Chandra-Mohan
قدرت نے چندر موہن کو خوبصورت ترین آنکھیں عطا کی ہیں جن کا بھرپور استعمال شانتارام نے "امرت منتھن" (1934) میں کیا اور راتوں رات ان آنکھوں نے چندرموہن کو اسٹار بنا دیا۔ چندر موہن کا قد بھی چھوٹا تھا مگر فوٹوگرافر نے کیمرہ کو اس طرح رکھا کہ چندرموہن قدآور نظر آیا جس کی وجہ سے اس کی شخصیت مزید دیدہ زیب ہو گئی۔ مگر چندر موہن کی یہی خوبیاں نہیں تھیں۔ وہ ایک عمدہ اداکار ہے، وہ ایسی شخصیت کا مالک ہے جو ہالی ووڈ میں بھی کسی کے پاس نہیں۔ "امر جیوتی" (1936) میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ وہ ایک شعلہ ہے، آگ ہے جسے شانتا رام جیسے ہدایتکاروں کی ضرورت ہے جو اس کا فائدہ اٹھائیں اور ضائع نہ کریں۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ بھروسہ (1940) اور پکار (1939) میں چندرموہن کا بھرپور استعمال نہیں کیا جا سکا۔ میں اسے ہدایتکار کی خامی کہوں گا۔ چندرموہن کو چاہیے کہ وہ لڑکا لڑکی کی رومانی فلموں سے خود کو دور رکھیں، وہ ایسے گھٹیا رولز کے لیے نہیں بنے۔
5: موتی لال (وفات: جون 1965 بعمر 54 سال)
Motilal
میں نے جب موتی لال کی پہلی فلم "شہر کا جادو" (Lure of the city - 1934) دیکھی تو یہ کہا تھا کہ موتی لال نے فلم میں اداکاری نہیں کی۔ یہ ایک بہت بڑا ستائشی اور قابلِ تعریف جملہ تھا کیونکہ موتی لال کا انداز اتنا قدرتی تھا کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ایکٹنگ کر رہا ہے۔ پھر میں نے موتی لال کو "شادی" میں دیکھا۔ تب بھی مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ مگر افسوس موتی لال کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہماری فلمی دنیا میں ہوتا چلا آیا ہے کہ اچھے اداکاروں کو غلط رولز دے کر برباد کر دیا جاتا ہے۔ انہیں گھٹیا اور سستی قسم کی کہانیوں میں لے کر ان کا کیرئیر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ موتی لال نے مادھوری، خورشید وغیرہ کے ساتھ کافی فلموں میں کام کیا مگر ہدایت کاروں نے مادھوری کے حسن اور خورشید کے گانوں پر توجہ دی اور موتی لال کے رول کو بھول گئے۔ پھر بھی "اچھوت" (1940) میں ایک بار پھر اس نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

***
ماخوذ: ماہنامہ "شمع" دہلی۔ (جنوری-1988) ، فلم اور ٹی۔وی نمبر۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
خواجہ احمد عباس اردو کا ہمہ جہت قلمکار - ندیم صدیقی
ماہنامہ آج کل - خواجہ احمد عباس نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
اداس دیواریں - کہانی از خواجہ احمد عباس

The top 10 favourite film Artists of Khwaja Ahmad Abbas.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں