خواجہ احمد عباس اردو کا ہمہ جہت قلمکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-12-28

خواجہ احمد عباس اردو کا ہمہ جہت قلمکار

khwaja-ahmad-abbas
خواجہ احمد عباس، بظاہر یہ تین لفظ ہیں مگر ان تین لفظوں میں ایک ایسا شخص چھپاہوا ہے۔ جو 73 سالہ اپنی عمر میں تین کرداروں کو بخوبی ادا کرتا رہا۔ ایک کرداراُس کی فکشن نگاری تھا تو دوسرا اِسٹیج و فلم اور تیسرا کردار صحافتی رنگ کا حامل تھا۔ ہو سکتا ہے ہماری ترتیب کچھ صحیح نہ ہو مگر یہ سچ ہے کہ ان کردار وںمیں کوئی بھی کردار ایسا نہیں ہے جسے فراموش کر کے خواجہ صاحب کا تشخص بن سکے۔
ہمیں خواجہ صاحب کے اخباری کردار پر کچھ عرض کرناہے۔ یہاں یہ بتانا غیر ضروری نہیں ہے کہ اخبار یا صحافت سے ہمارا جو تعلق ہے یا اس شعبے سے ہماری جو وابستگی ہے اس کے محرک خواجہ صاحب جیسے لوگ ہی ہیں ۔
خواجہ صاحب صحافی کیسے بنے؟
یہ سوال ہمارے ذہن میں بھی اُٹھّا۔ جس کا جواب یہ ہے کہ مضمونچہ لکھنے کےلئے ہم نے جو کچھ آموختہ کیا اُس میںحیات اللہ انصاری کامضمون" عباس صاحب" بھی شامل ہے۔ جس میں خواجہ صاحب کے صحافتی آغاز کا احوال ملتا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے زمانہ ¿ طالب علمی اور اپنے دوستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حیات اللہ انصاری مرحوم لکھتے ہیں:
" اچانک مقرر عباس، صحافی بن گئے،ان کو جانے کیوں خبر ملی کہ فلاں ٹرین سے فلاں فلاں کانگریسی لیڈر کسی شہر کے جیل سے کسی دوسرے شہر کے جیل میں منتقل کئے جارہے ہیں۔ عباس اپنے چند دوستوں کو لے کر راستے کے ایک ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے اور جیسے ہی ٹرین وہاں سے چلنے لگی، یہ لوگ دوڑ کر اس ڈبّے میں گھُس گئے ، جس میں لیڈر تھے، پہرے پر جو پولس والے تھے وہ نہ تو ان طلبا کو دھکّے دے کر چلتی ٹرین سے نکال سکے اور نہ مذکورہ لیڈروں کو اُن سے گفتگو کرنے سے روک سکے۔
عباس صاحب نے لیڈروں سے طرح طرح کے سوال کرکے ایک انٹروِیو تیار کر لیا۔ عباس کا یہ کارنامہ ایسا تھا جس کا ہَر ہَر جُز طلبا کےلئے حیرت انگیز تھا۔ اُس زمانے میں سیاسی قیدیوں کی نقل و حرکت راز میں رہتی تھی۔
عباس کو اس کا علم ہوجانا اور پھر ریل کے ڈبّے میں پہنچ کر لیڈروں سے معقول سوال و جواب کر لینا
یہ بڑی بات تھی۔ اس زمانے میں طلبا کی سیاسی معلومات ایسی نہ ہوتی تھیں کہ اگر اُن کا گروہ اتفاق سے ٹرین کے اس ڈبّے میں پہنچ بھی جاتا تو سَو میں سے شاید دو ایک ایسے نکلتے جو چند معقول سوال کر سکتے ہوں۔
عباس کے اس کارنامے کا یونیورسٹی بھر میں بڑا چرچا ہوا اور جب اُن کا انٹروِیو ایک اخبار میں چھپ بھی گیا تو عباس صرف طلبا ہی کی نظروں میں نہیں، ٹیچروں کی نگاہ میں بھی بلند ہوگئے۔"
یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ خواجہ صاحب اپنی پہلی ہی صحافتی تحریر سے ایک بلند مقام پر پہنچ گئے تھے۔ خواجہ صاحب کے مداحوں کےلئے یہ امر یقینا قابلِ فخرہے۔
خواجہ صاحب کے بعض بزرگوں کی خواہش تھی کہ وہ اِنڈین سِوِل سروس کے امتحان میں بیٹھیں اور اُن کے والد کی تمنا تھی کہ وہ ایک وکیل بنیں۔
طالب علمی ہی کے زمانے میں ایک بار کسی نے خواجہ صاحب سے سوال کر لیا کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ جواباً پہلے تو انھوں نے یہ کہا کہ " جو تقدیر بنا دے ۔"
مگر اس کے فوراً بعد ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا:
" جرنلسٹ بننے کو جی چاہتا ہے۔"
یہ بھی سوال کیا گیا کہ
" پھر قانون کیوں پڑھ رہے ہو؟"
خواجہ صاحب نے اس آخری سوال کا جوجواب دِیا وہ اُن کے دل کی آواز تھا کہ وہ جاگتی آنکھوں سے سے جرنلزم کا خواب دیکھ رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے نہایت معقول جواب دِیا تھا کہ
" یہ علم(قانون) جرنلسٹ کےلئے بہت ضروری ہے۔"
اس جواب سے خواجہ صاحب کی ذہانت مترشح ہوتی ہے کہ وہ اس وقت محض طالب علم ہی تھے ۔ واضح رہے کہ اُس زمانے میں 'صحافت' باقاعدہ نصاب میں شامل نہیں ہوئی تھی۔ البتہ اُس وقت کے بعض اخبارات کے دفاتر تربیت گاہ اور بعض صحافی مدرس کا فریضہ اداکر رہے تھے ۔
دہلی کا ایک اخبار' نیشنل کال" خواجہ صاحب کی صحافت کی اوّلین درس گاہ اور تربیت کا ذریعہ بنا ،وہ اس اخبار کےلئے دہلی کے مختلف پولس تھانوں سے کرائم نیوز حاصل کرکے رِپورٹ بنا دیتے تھے۔ ابھی خواجہ صاحب کے جس انٹروِیو کا ذِکر کیا گیا ہے وہ اسی تربیت کا اوّلین نتیجہ تھا کہ جس پر یونیورسٹی کے اساتذہ بھی آنکھیں پھیلا چکے تھے۔
خواجہ صاحب کے اکثر کالمز ہم نے پڑھے ہیں مگر ان میں سے بعض کالمز کے جو نقوش ہمارے ذہن میں ہیں اُن میں نیشنل اِزم اور سوشلزم کا رنگ واضح اور گہرا محسوس ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت یہ تھی کہ وہ ابتدا ہی سے قوم پرستی اور سماجیات کا شعور رکھتے تھے، جس کا بنیادی سبب اُن کی فطری درد مندی اور اُن کا ہمہ جہت مطالعہ تھا۔ حیات اللہ انصاری ہی نے اپنے مذکورہ مضمون میں طلبا کے ایک واقعے کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
" اس واقعے پر عباس کی معلومات جس طرح ہم لوگوں کے سامنے آئیں اس کا بڑا رُعب پڑا ۔ عباس بتاتے رہے کہ گاندھی جی نے فلاں موقع پر کیا کہا ؟
اور یہ کہ انقلابِ روس میں فلاں وقت کیا ہوا تھا اور لینن نے اس موقع پر کیا کہا تھا۔ ان باتوں سے ہم لوگ سمجھے کہ عباس پیدائشی جرنلسٹ ہے۔"
جرنلسٹ کی تعریف کے حوالے سے ایک بات یاد آتی ہے ،جس کے راوی اُستاذی ¿ محترم ڈاکٹر ظ انصاری تھے۔
انہوں نے بتایا کہ میں کام کی تلاش میں تھا، کسی طور دِیوان سنگھ مفتوں کے اخبار' رِیاست' کے دفتر پہنچ گیا اور مفتوں صاحب سے اخبار میں کام مانگا۔ تومفتوں صاحب نے فرمایا: کچھ لکھ کر لائیے تو دیکھیں۔
ظ صاحب نے کہا:سرکار! میں یہیں کچھ لکھ دوں!!
مفتوں صاحب نے کچھ فاصلے پر میز اور کرسی کی طرف اشا رہ کیا اور کہا کہ وہیں کاغذ قلم بھی موجود ہے، جائیے لکھئے۔
کچھ دیر میں ظ صاحب نے دو ڈھائی صفحات لکھ کر، جنابِ مفتوں کے سامنے پیش کردِیے ۔ مفتوں صاحب نے وہ صفحات پڑھے اور جواب دِیا:
" میاں صاحب زادے! آپ اچھے شاعر بن سکتے ہیں، بہت اچھے ادیب بن سکتے ہیں مگر صحافی نہیں بن سکتے۔"
ظ صاحب نے مفتوں صاحب سے عرض کیا:
" حضور! میں چلا جاو ¿ں گا مگر جاتے جاتے یہ کرم فرمائیں کہ صحافی بننے کےلئے، کِن اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔؟"
مفتوں صاحب نے ترنت جواب دِیا:
" میاں! آپ جس راستے سے یہاں آئے ہیں اُسی راستے سے کچھ چڑیاں بھی اُڑتی ہوئی گئی ہیں
صحافی کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ وہ چڑیاں کہاں سے آرہی تھیں اور کہاں جا رہی ہیں۔"
دِیوان سنگھ مفتوں کے بتائے ہوئے اس صحافتی گُر کی روشنی میں جب ہم خواجہ صاحب کے اوّلین انٹروِیو پر سوچتے ہیں تو اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے ہاں تو پہلے ہی سے یہ شعور ایک تجسس کے طور پر موجود تھا جو اُن کی صحافتی زندگی میں ایک مینارہ ¿نور بنا رہا ۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خواجہ صاحب اپنی صحافت کے ابتدائی دنوں ہی میں ایک اچھے صحافی کے طور پر معروف ہوگئے تھے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک واقعہ ہے کہ جامعہِ مذکور ہی کے اِبنائے قدیم کی ایک انجمن نے طلبا سے خطاب کےلئے پنڈت جواہرلعل نہرو کو مدعو کیا اس خطاب کا نہ تو عام اعلان کیا گیااور نہ ہی کسی اخباری نمائندے کو شرکت کی اجازت دِی گئی۔ اُس زمانے کے وائس چانسلر آف مسلم یونی ورسٹی سر راس مسعود کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ان کے طلبا میں خواجہ احمد عباس کی شکل میں ایک صحافی موجود ہے۔ اب ہوا یوں کہ خواجہ صاحب ،نہرو کے خطاب کے سامع تھے اور انہوں نے اُس خطاب کی رپورٹ تیار کرکے دہلی کے ایک اخبار اور عبد اللہ بریلوی کے 'بامبے کرانیکل' میں بھیج دِی جو مذکوہ اخباروں میں شائع بھی ہوئی چونکہ اُس جلسے کی کوئی دوسری رپورٹ تھی ہی نہیں، لہٰذا پوری یونی ورسٹی میں خواجہ صاحب ایک بار پھر نمایاں ہی نہیں ہوئے بلکہ مستند صحافی تسلیم کر لئے گئے۔
خواجہ صاحب کی باقاعدہ یا پیشہ ورانہ صحافتی زندگی کا آغاز 1936 ءمیں 'بامبے کرانیکل' ہی سے ہوا اور آزادی کے بعد وہ آر کے کرنجیا کے مشہورِ زمانہ ہفت روزہ بلٹز میں 'آزاد قلم' کے ساتھ نمودار ہوئے اور ان کے قلم کا یہ جلوہ تا حیات جاری رہا۔
جیساکہ سب جانتے ہیں کہ خواجہ صاحب قوم پرست اور سماجی احساسات کے حامل شخص تھے اور ان میں سے آخری الذکر صفت انھیں وراثت میں ملی تھی۔خواجہ صاحب اپنی خود نوشت میں بیان کرتے ہیں:
" ماں باپ اپنی اولاد کےلئے نقد ی، مکان، جائداد اور زمین ورثے میں چھوڑجاتے ہیں۔ ہمارے ابّا نے ان میں سے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ اِنتقال سے چند روز قبل انہوں نے مجھے ایک فہرست دی، اُن رشتے داروں، دوستوں اور جاننے والوں کی جنہیں اُنہوں نے مختلف اوقات میں رقمیں بطور قرض دی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا: کوئی ہنڈی، کوئی پرچہ یا کوئی رسید وغیرہ بھی ہے ۔؟
جواب میں ابّا نے سَر ہلا کر ' نہیں' کہہ دیا، پھر مجھے ہدایت بھی کی کہ ان میں سے کسی سے بھی اس قرض کی ادائیگی کاتقاضا نہ کرنا۔"
خواجہ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ
" مدت ہوئی میں نے وہ فہرست پھاڑ دِی،دراصل ابّا ہمارے
لئے جو جائددا چھوڑ گئے تھے وہ دوسری ہی قسم کی تھی۔"
والد کی وراثت کو جس طرح انہوں نے محسوس کیا اور اپنی روح میں اُتارا وہ ان کی انسان دوستی اور سماجی نا برابری کو ہموار کرنے کے جذبے اور سعی میں تبدیل ہوگئی۔
خواجہ صاحب نے اپنے قلم سے چاہے افسانہ لکھا ہو یا فلمی کہانی یا پھر کوئی اخباری کالم ان سب میں انسان دوستی اور سماجی خلیج کو واضح کرنے اور اس کو پاٹنے کی ایک سعیِ پیہم صاف طور پر محسوس ہوتی ہے۔
بلٹز کے مشہور زمانہ کالم' آزاد قلم' میں اُس وقت کے عوام کی غربت و عسرت اور پریشاںحالی پر انہوں نے لکھا ہے کہ
" جس ملک میں آدھی آبادی اس قدر غریب ہو کہ دِیوالی کی رات اپنے اندھیرے جھونپڑوں میں چار چراغ بھی نہ جلا سکے، وہاں دیوالی نہیں دِیوالہ منانا چاہئے۔"
خواجہ صاحب ابتدا ہی میں نہ صرف ملک کے حالات سے باخبر تھے بلکہ اُنہوں نے امریکہ کا ایک سفر بھی کر لیا تھا۔ وہ اگر اپنے کالم میں بازار سے شکر کے غائب ہونے اور اُس کی کالابازاری کی اطلاع دیتے ہیں تو وہیں دوسری طرف بہار میں لاکھوں ٹن شکر گوداموں میں سڑ رہی ہے۔ اس خبر کوبھی عوام میں عام کر دیتے ہیں۔
1979ءمیں حرم مکّی میں بعض جنونیوں نے بندوق کے زور پر ایک عشرے تک کعبے میں زائرین کو یرغمال بنائے رکھا تو کمیونسٹوں کے کہے جانے والے اخبار ' بلٹز' میں خواجہ صاحب نے اُن جنونیوں کی نہ صرف قلعی کھولی بلکہ اُن کی مذمت بھی کی۔ اسی طرح اُنہوں نے 1980ءمیں افغانستان میں امریکی مداخلت کو بھی اپنے قلم کی روشنائی سے چچا سام کا سیاہ قدم قرار دِیا تھا۔
خواجہ صاحب اگر اُتر پردیش اور بہار وغیرہ میں ہریجنوں کی بد حالی پر اپنا 'آزاد قلم' اُٹھاتے ہیں تو وہیں امریکہ میں سیاہ فام انسانوں کے خلاف متعصبانہ رویوں کو بھی وہ اظہر من الشمس کرتے ہیں۔
بمبئی میں ایک قاتل دارو والا کو جب عدالت نے سزائے موت دی تو اُس قاتل نے اپنے جرم کے کفارے کےلئے بعد از موت اپنے جسمانی اعضا ڈونیٹ کرنے کی وصیت کی تو اس ہفتے کے 'آزاد قلم' کالم میں خواجہ صاحب نے اُس قاتل کی اُس خواہش کو اپنا موضوع بنا تے ہوئے لکھا تھا:
"(قاتل ) داروو الا نے اپنے اعضا کو عطیہ کر کے اپنے اندر کے انسان
کو زندہ کر لیا ہے اور اس شیطان کو مار ڈالا جس کا وہ پَیرو تھا۔"
خواجہ صاحب اس کالم میں اپنے پڑھنے والوں کو کچھ اور سوچنے پر بھی مجبور کرتے نظر آتے ہیں:
" ہمارے سماج کا، سوسائٹی کے اُن تمام انسانوں کا کیا فرض
ہے، جن کی شخصیت میں انسان اور شیطان دونوں موجود ہیں۔؟"
٭٭٭
خواجہ صاحب کی صحافت یا ان کی کالم نگاری عامیانہ نہیں تھی اور اِشتعال انگیزی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں رکھتی تھی۔ ان کے بعض نظریات و تصورات سے کسی کو اختلاف ہو سکتاہے مگر اُنکی قوم پرستی اور انسان دوستی پر شک کرنا کفر سے کم نہیں ۔
ہمارے ہاں بہت لکھنا اور جلد لکھنا مستحسن نہیںہے مگر جس طرح بعض معاملات میں استثنیٰ ہوتا ہے بالکل اسی طرح خواجہ صاحب کا قلم بھی اس سے مستثنیٰ تھا۔ خواجہ صاحب یقینا بہت لکھتے تھے مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بہت لکھنے والا بہت سوچتا بھی ہوگا اورہمہ وقت اور ہمہ جہت فکر رکھنے والا جسکے پاس کوئیVision بھی ہو اُس پر ز ¾ود نویسی اور بِسیار نویسی کی پھبتی نہیں کسی جاسکتی۔
کم از کم اُردو صحافت میں تو یہ اعزاز اور وہ بھی ایک خاص دَور میں کسی دوسرے جرنلسٹ کو حاصل نہیں ہوا کہ قاری نے Blitz خریدا اور صفحہ اوّل پر ایک نظر ڈالی اور فوراً اخبار پلٹ کر وہ یہ دیکھنے کی کوشش کرتا تھا کہ آج خواجہ صاحب کے ' آزاد قلم' نے کیا لکھا ہے۔؟
خواجہ صاحب کو اپنے دور کے صحافیوں میں ایک امتیاز یہ بھی حاصل تھا کہ اُن کا کالم ایڈیٹر کی کسی کتربیونت کے بغیر چھپتا تھاخود خواجہ صاحب نے اس امر کی طرف اِشارہ کیا تھا کہ
" Blitz کے مدیر سے میرا یہ معاہدہ ہے کہ وہ کسی
بھی ایڈیٹنگ کے بغیر میرا کالم شائع کریں گے۔"
خواجہ صاحب کے تعلق سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ وہ فکشن نگار بھی، صحافی بھی اور فلم ساز بھی ہیں۔ وہ مختلف خانوں میں بنٹے ہوئے ہیں اسی لئے کسی شعبے میں وہ نمایاں نہیں ہو پاتے۔یہ بات کتنی صحیح ہے یا صریحاً غلط،اس سے قطع نظرہم انہی کی ایک تحریر کا ایک اقتباس یہاں پیش کرنا چاہیں گے جس میں مذکورہ سوال کا جواب بھی واضح ہے۔
" میری نسل نے جس ادبی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی تھی، وہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا، میں نے خود کو علاحدہ علاحدہ شعبوں میں تقسیم کر لیا ہے۔
کیونکہ جب انقلاب آتاہے تو وہ زندگی، سیاست، ادب، صحافت، کلچر، زبان، ثقافت اور معاشرت کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔"
ہم نے اوپر خواجہ صاحب کی درد مندی اور انسان دوستی کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان کے اس وصف کی دلیل میں اُنہی کا ایک مشاہدہ یہاں تذکرہ چاہتا ہے۔ اُنہوں نے ایک دےہی سفر یا گاو ¿ں کے ایک در د بھرے منظر کو اپنے لفظوں سے تصویر کر دِیا ہے:
" اُس گاو ¿ں کی غربت کا منظر آج تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے۔ ٹوٹے پھوٹے کچے مکان، لوگوں کے پھٹے پرانے، میلے کچیلے کپڑے جھونپڑوں کے بیچ سے بہتا ہوا گندا نالہ جس پر کروڑوں مچھّر بھنبھنا رہے تھے، دُبلے پتلے سُوکھے جسم کے ننگے بچّے جو ہمارے سامنے ہاتھ پھیلا رہے تھے اور ہر چہرے پر نہ صرف افلاس بلکہ اس سے زیادہ بھیانک اور عمیق مایوسی کی چھاپ جیسے انھیں یقین ہو کہ ان کی حالت کبھی بہتر نہیں ہو سکتی۔"
خواجہ صاحب کو رُخصت ہوئے تین دہے پورے ہونے والے ہیں مگر ہندوستانی گاو ¿وں کی بد حالی ہی نہیں بڑے شہروں کے سلم میںرہنے والوں کی غربت اور اس کے نتیجے میں جس طرح کے جرائم پیدا ہوئے ہیں ، اس سے ایک اور شدید مایوسی کے متحرک مناظر ہمارے سامنے ہیں۔ بسا اوقات ایک احساس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ جیسے پھر کسی 'خواجہ' کے قلم کی توجہ کے طالب ہیں مگر ہائے افسوس اب خواجہ صاحب تو نہیں البتہ ہماری صحافت ہی میں کیا چہار طرف اکثر قرّم مزاج لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔ ایسے ماحول میں خواجہ صاحب اور ان کی صحافت، ان کا ' آزاد قلم' بہت یاد آتا ہے۔ پروفیسر صادق کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس دَور کو تو کئی خواجہ احمد عباس کی ضرورت ہے۔
ہمیں تو خواجہ صاحب اُس وقت بھی یادآئے تھے جب گودھرا میں ٹرین کی بوگی جلائی گئی تھی اور پھر اُسے جس طرح گجرات بھر میں آتش فشاں کی شکل دیدی گئی اگر خواجہ صاحب زندہ ہوتے تو یقیناً ان کے کالم کی سرخی کچھ یوں ہوتی:
" گودھرا کے شعلے اور گجرات میں تانڈو"
یقیناً وہ احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں زندہ نذرِ آتش کر دِیے جانے والے احسان جعفری کا حق بھی ادا کرتے۔
خواجہ صاحب نے اس خاک دانِ عالم میں کوئی 73 برس گزارے ،فلمی دُنیا میں بھی اُن کی عمر کا بڑا حصہ گزرا ، جہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سے کوئی صاف ستھری حالت میں نکل گیا تو اسے وَلی سمجھئے شراب و شباب دونوں کی وہاں فراوانی ہے مگر اسی فلمی گند سے ایسے کئی لوگ نکلے ہیں جن کے کردار پر بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نہیں پڑا ، ان میں پرتھوی راج ، محمدرفیع اور خواجہ صاحب کے نام نمایاں ہیں۔
اُنہوں نے مشہور فلم میکر راج کپور کےلئے جتنی کہانیاں لکھیں ان میں سے اکثر ہِٹ ہوئیں اور جب جب خود فلم بنائی وہ پِٹ گئی۔ دراصل خواجہ صاحب اپنے مزاج اور اپنے اصولوں کے پابند تھے ایسے لوگ اپنے بنائے ہوئے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ خواجہ صاحب کو اپنے والد سے(( مال و متاع سے عاری ) ) جو وِراثت ملی تھی اُنہوں نے اسے ہی اپنی پونجی سمجھا اور آخر آخر تک اسے بہت سنبھال کر خرچ کیا، سچ یہ بھی ہے کہ ایسی پونجی خرچ ہوتی ہی نہیں ۔ بلکہ یہ آپ کی زندگی کے کام آتی ہے اور آپ کو ایسے زندہ کر دیتی ہے کہ موت آپ سے دور ہوجاتی ہے۔
واضح رہے کہ خواجہ صاحب نے اپنے ترکے میں کچھ نہیں چھوڑا وہ جو،جوہو کا فلیٹ تھا اسے بھی ایک ٹرسٹ کو دے گئے ۔ ایسے لوگوں کے وارث ساری دُنیا میں ہوتے ہیں اور وہ ورثہ اِن لوگوں کے عمل میں ڈھل کر تمام انسانیت کے کام آتا ہے۔ خواجہ صاحب آج بھی اپنے ورثے میں زندہ ہیں۔ سچ ہے کہ تاریخ کے اوراق میں بہت سوں کی قبریں ہیں اور تاریخ ہی کے سینے میںکچھ لوگ دھڑکن بن جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب انہی لوگوں میں شمار کئے جائیں گے۔٭

(دہلی اُردو اکادیمی کے سمینار میں پڑھا گیا مضمون)
***
Nadeem Siddiqui
ای-میل : nadeemd57[@]gmail.com
ندیم صدیقی

Khwaja Ahmad Abbas, a diverse writer of Urdu. Article: Nadeem Siddiqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں